وارث علوی :رستہ دکھانے والا ستارہ نہیں رہا ۔۔۔ غلام شبیر رانا

وارث علوی :رستہ دکھانے والا ستارہ نہیں رہا                  غلام شبیر رانا         پروفیسر وارث علوی نے 9۔ جنوری 2014کی شام عدم کے کُوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ اُردو ادب کا وہ آفتاب جو 1928میں احمد آباد (بھارت )سے طلوع ہوا وہ عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو گیا۔ Read more about وارث علوی :رستہ دکھانے والا ستارہ نہیں رہا ۔۔۔ غلام شبیر رانا[…]

انتخابِ شادؔ عارفی ۔۔۔ غزلیں

غزلیں     میں تو غزلیں کہہ کہہ کر دل بہلا لیتا ہوں لیکن وہ شہرِ سخن میں بدنامی سے بے پروا ہوں ، لیکن وہ جاڑے کی وہ بھیگی راتیں ، گرمی کے یہ جلتے دن یادوں کے دانتوں سے ناخن کاٹ رہا ہوں لیکن وہ بھولی سی ہم مکتب کوئی ، کوئی سہیلی Read more about انتخابِ شادؔ عارفی ۔۔۔ غزلیں[…]

انتخابِ شادؔ عارفی ۔۔۔ رباعیات، قطعات

  رباعیات مسجد کے کلَس پہ ایک پیپل اس عزم کے ساتھ جم رہا ہے  جیسے جانا ہو کہکشاں تک منزل کی غرض سے تھم رہا ہے ٭٭ کنکری جُوتے میں پڑ جائے اگر راہرو دو گام چل سکتا نہیں روح زندہ ہو تو حق تلفی کا بوجھ آدمی کے جی سے ٹل سکتا نہیں Read more about انتخابِ شادؔ عارفی ۔۔۔ رباعیات، قطعات[…]

انتخابِ شادؔ عارفی، نظمیں

نظمیں                شاد عارفی شوفر  ’’ کھٹ کھٹ۔ کون؟ صبیحہ! کیسے؟ یونہی کوئی کام نہیں پچھلی رات، بھیانک گیرج، کیا کچھ انجام، نہیں میرا ذمّہ، میں آئی ہوں ، تم پر کچھ الزام نہیں ہم ہیں اس تہذیب کے پَیرو ہم ہیں اس اخلاق کے لوگ جس میں عصمت اک مفروضہ، عفّت جس میں ذہنی Read more about انتخابِ شادؔ عارفی، نظمیں[…]

شاؔد عارفی کی غزلگوئی ۔۔۔ ڈاکٹر مظفر حنفی

شاؔد عارفی کی غزلگوئی                ڈاکٹر مظفر حنفی     شادؔ عارفی  نے پہلا شعر آٹھ سال کی عمر میں کہا تھا، لیکن شاعری کی طرف سنجیدگی کے ساتھ وہ سولہ سترہ سال کی عمر میں متوجہ ہوئے۔ ایک جگہ اپنی شاعری کی ابتدا کے متعلق لکھتے ہیں : ’’ اس کے بعد یہ لَے Read more about شاؔد عارفی کی غزلگوئی ۔۔۔ ڈاکٹر مظفر حنفی[…]

اردو ادب میں شاد عارفی کا مقام ۔۔ ڈاکٹر منظر حنفی

اُردو ادب کی مختلف اصنافِ سخن میں شاد عارفی نے جو کارنامے انجام دیے ہیں اور اضافے کیے ہیں اُن کی نوعیت ، انفرادیت ، افادیت اور مقدار کو ذہن میں رکھیے تو شادؔ کے ہاں میدانی دریاکاسا پھیلاؤ اور پہاڑی ندی کا زور شور نظر آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میدانی دریا پھیل کر بہتا ہے اس لیے اُس میں اُتھلا پن اور پایابی آ جاتی ہے اور پہاڑی ندی زور شور سے بہتے ہوئے اپنا ذخیرۂ آب خارج کر کے بہت جلد خشک ہو جاتی ہے لیکن شادؔ عارفی کے فن میں پھیلاؤ کے باوجود گہرائی ہے۔ یہ گہرائی کانچ جیسے شفاف پانی کی سی گہرائی ہے جوسطحِ آب سے دیکھنے والوں کو پایا بی کے وہم میں مبتلا کر دیتی ہے لیکن اس میں اُترا جائے تو تھاہ نہیں ملتی اور اس کا طوفانی بہاؤ قدموں کو ٹکنے کی مہلت نہیں دیتا۔ فن کا یہ گہرا پاٹ دار اور تند و تیز دریا مسلسل پینتالیس سال تک پوری آن بان، تمکنت، بانکپن اور زور شور کے ساتھ بہتا رہا لیکن اس کے تخلیقی سوتے اتنے ذخّار تھے کہ ہمیشہ خطرے کے نشان کو چھوتا رہا۔

شاگردانَ شاد عارفی

 شاگردانِ شادؔ عارفی ۱۔ آزاد، مسرّت حسین ۲۔ اختر اشرفی ۳۔ اشرف، عبد الرحمن ۴۔ اظہر، افضل حسین ۵۔ انجم عارفی ۶۔ بلیغ رام پوری، بلیغ الرحیم ۷۔ تاج، کرتار سنگھ ۸۔ تنہا، سمیع اللہ خاں ۹۔ جاوید کمال، واجد علی خاں ۱۰۔ جذبی، محمود حسن ۱۱۔ جگر عارفی ۱۲۔ حبیب سارودی ۱۳۔ خلیل رام پوری، Read more about شاگردانَ شاد عارفی[…]

شخصیت — شاد عارفی ۔۔۔ ڈاکٹر مظفر حنفی

’’ میں انتہا پسند واقع ہوا ہوں ‘‘۔
اپنی نظموں کے مجموعہ ’’ اندھیر نگری‘‘ میں شاد عارفی کا مندرجہ بالا اعتراف اُن کی شخصیت کے تجزیے میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ کلام کے آئینہ خانے میں تو شادؔ کے ہاں ذات کو کائنات میں پھیلا دینے والی روش اختیار کی گئی ہے اور شاعری میں وہ آپ بیتی کوایسے انداز میں کہہ گزرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں کہ وہ جگ بیتی نظر آنے لگے۔

شاد عارفی — سوانح حیات — ڈاکٹر مظفر حنفی

شادؔ عارفی۔۔ سوانح حیات  ڈاکٹر مظفر حنفی انیسویں صدی میں رام پور کامدرسۃالعالیہ ایک مستند مدرسہ تھا جس میں مولوی فضل حق جیسے اساتذہ موجود تھے۔ افغانستان کے علاقہ یاغستان کے قبیلہ ڈوڈال اور زّڑ سے تعلق رکھنے والے خان سیّد ولی خاں اور بعد ازاں انھیں کے توسط سے اُن کے عزیز خان محمد Read more about شاد عارفی — سوانح حیات — ڈاکٹر مظفر حنفی[…]