ایک منفرد غزل گو : مدحتؔ الاختر
محمد دانش غنی
میر اور غالب اردو غزل کے دو نہایت مضبوط ستون ہیں ۔ ان عظیم المرتبت فنکاروں نے غزل کی حصار میں بڑی کشادگی پیدا کی اور زندگی کو کئی زاویوں سے دیکھا اور دکھایا ہے ۔ ان کے یہاں داخلیت کے توانا عناصر موجود ہیں ۔ وہ بندھے ٹکے مضامین اور مشترکہ اور کثیر الاستعمال استعارات کے با وصف اردو غزل کو تخلیقی حرارت سے تابندہ کر رہے تھے ۔ غزل کے متعین آداب ، مخصوص زبان اور مخصوص استعاروں کے ہجوم میں رہ کر بھی انہوں نے اپنی انفرادیت کے نقوش واضح کئے ۔ میر کے بعد غالب اردو غزل کی ایک تاریخ ساز اور انقلاب آفریں آواز تھی جس کی گونج بعد کے اہم ترین شعراء مثلاً اقبال اور فیض تک کی شاعری میں سنائی دیتی ہے ۔ ان شعراء نے غزل کے دائرہ کو توڑا تو نہیں لیکن اس میں ایک منفرد کشادگی اور عمق ضرور پیدا کیا جو ان کے مخصوص و ممتاز اسلوب کی مضبوط دلیل ہے ۔غالب کا مخصوص استعاراتی اسلوب رفتہ رفتہ اردو غزل کا معیار و شناخت نامہ قرار پایا جسے اقبال نے ایک نئی شان اور قوت عطا کی ۔ ترقی پسند شاعروں میں فیض کی مقبولیت نے بھی غزل کی استعاراتی اسلوب کو ذریعۂ اظہار بنایا ۔
ترقی پسند شاعری نے اپنے دور کی کلاسیکل اور نووارد آوازوں کو بھی متاثر کیا تھا چنانچہ غزل کے اس رنگ و آہنگ نے شاعروں کی ایک کثیر تعداد کو متوجہ کیا اور وہ وارداتِ دل کے ساتھ ساتھ وارداتِ جہاں کو بھی نئے استعاراتی اسلوب میں بیان کرنے لگے ۔ لیکن جہاں کہیں استعاراتی پیرایۂ اظہار میں یکسانیت نظر آئی ہے وہاں شاعری روایتی اور بے جان معلوم ہوتی ہے چنانچہ جدیدیت کے نزول کے بعد قدیم استعاراتی اسلوب میں نمایاں تبدیلیاں در آئیں ۔
استعاراتی پیرایۂ اظہار اب بھی سلامت تھا لیکن کسی قدر نئے مفاہیم کے ساتھ ۔ نئی غزل نے نئی زندگی کے مسائل کو نئے استعاروں میں جھلکانے کا ہنر آزمایا اور ان کی اس سعیِ ٔ مشکور نے عصری شاعروں کی ایک کثیر تعداد کو اپنے قرینۂ سخن میں تبدیلی کے لئے مجبور کر دیا نتیجہ یہ ہوا کہ سبھی نے اسی راستے کو منتخب کیا اور اپنے طور پر ننے استعاروں میں اپنی اور اپنے آس پاس کی زندگی کو شعری لباس دینے لگے ۔
۱۹۶۰ء کے پہلے وہ دور جب ایک طرف نظم کی صنف کے حوالے سے خیال کی غیر معتدل حالت اور موضوع کے پھیلاؤ میں تاثر کے غارت ہو جانے کی بات زورو شور سے سامنے آ رہی تھی اور دوسری طرف نئی غزل کے ذریعے شعری منظر نامے میں وسعت اور زندگی کی گہرائی اور گیرائی کی تلاش سے تازگی ، توانائی اور تاثیر پیدا کی جا رہی تھی ۔ غزل گو شعراء زبان کو تخلیقی عمل کی بھٹی سے گزار کر اس میں زندگی کی وسعتوں کا احاطہ کرنے کا ہنر پیدا کر رہے تھے ۔ کائنات کے نئے گوشوں اور زندگی کی نئی پیچیدگیوں سے نئے غزلیہ اظہار کے لئے استعارے ، علامتیں اور پیکر اخذ کئے جار ہے تھے ، اس وقت مدحتؔ الاختر کلاسیکی شعری روایات اور نئے تخلیقی امکانات کے گہرے شعور کے ساتھ ایک منفرد غزل گو کی حیثیت سے نمودار ہوئے ۔
مدحتؔ الاختر جدید لب و لہجہ کے شعراء میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں ۔ اپنے ہم عصروں میں انہوں اپنی ایک الگ پہچان اور الگ راہ بنائی ہے ۔ ان کے مجموعہ کلام ’’منافقوں میں روز و شب ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر ظ انصاری نے لکھا ہے ’’ ناگپور کے پاس اگلے وقتوں کا ایک فوجی کیمپ قصبہ ہے ’کامٹی ‘ ۔ مدحتؔ الاختر وہیں سے پندرہ سال پہلے اٹھے ۔ ’’ منافقوں میں روز و شب ‘‘ ان کا پہلا مجموعہ ہے ۔ اس میں غزلیں ہی غزلیں ہیں ۔ وہ بھی مختصر سی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر بھرتی کہیں نہیں ۔ ہر غزل ایک کانٹا لئے ہوئے ہے جس میں توجہ کا دامن الجھتا ہے ۔ ‘‘
مدحتؔ الاختر اس قبیلے کے شاعروں میں سے ہیں جن کا سلسلہ ناصرؔ کاظمی کے واسطے سے میرؔ تک پہنچتا ہے ۔ ان کی شاعری میں جدیدیت فیشن اور فارمولے کی انگلی پکڑ کر اپنے کرتب نہیں دکھاتی بلکہ نشاطِ زیست کی دردمندی اور خود آگہی کے کرب میں ڈوب کر فکری اور معنوی تہہ داریوں کے ساتھ بر ملا ہوتی ہے ۔
ابوالکلام قاسمی مدحتؔ کی شاعری کے تعلق سے لکھتے ہیں ’’ مدحتؔ الاختر کا کلام ان کی ادبی تربیت اور ذہنی نشو ونما کے مدارج کا پتہ دیتا ہے ۔ ان کے کلام میں فنی پختگی ، زبان کے استعمال میں خوش سلیقگی اور ترکیب اور محاورات کے استعمال میں اپنی روایت کی خوبیوں سے استفادے کی شان نمایاں ہے ۔ ‘‘
پروفیسر مظفر حنفی کہتے ہیں ’’ مدحتؔ الاختر بہت کم کہتے ہیں لیکن بہت سوچ سمجھ کر اور رچا کر کہتے ہیں ۔ ان کے لہجے کا شرمیلا پن اور معصومیت ، فکر کی گہرائی ، خیالات کی ندرت اور بیان کی بے ساختگی انہیں نئی غزل کے اہم شاعروں میں شامل کراتی ہے۔ شعری تخلیق میں خیال کی گہرائی اور گیرائی کے بعد لفظی ترکیب ہی اٹھان کا باعث بن کر اسے ایک جہت سے ہم کنار کرتی ہے اور مدحتؔ الاختر ان میدان میں نہایت کامیاب ہیں ۔ ‘‘مدحتؔ الاختر ودربھ میں غزل کے سب سے بڑے شاعر ہیں ۔ ان کی آواز منفرد ہے جو بھیڑ میں بھی صاف سنائی دیتی ہے ۔میں اپنی بات کے ثبوت میں درج ذیل اشعار پیش کر رہا ہے جو ان کے مجموعہ کلام ’’ منافقوں میں روز و شب ‘‘ اور ’’ میری گفتگو تجھ سے ‘‘ سے بلا تکلف لئے گئے ہیں ؎
کب اپنے کیے کا مجھے اقرار نہیں ہے
وہ سنگ اٹھائے جو گنہ گار نہیں ہے
روتے ہیں مگر آنکھ سے آنسو نہیں بہتے
ہم سا کوئی دنیا میں ریا کار نہیں ہے
میں ایک قطرۂ شبنم ہوں دامنِ گل پر
اٹھائے سیکڑوں نیزوں سے آفتاب مجھے
جو شاخ کٹ چکی ہے اپنے درخت سے
اب کیا اسے بہار کے دھوکے میں ڈالیے
کاغذ پہ اک درخت کی تصویر اور یہ بحث
کس جا کھلیں گے پھول کہاں پھل اگائیں گے
ہنر دیا بھی نہیں لے لیا انگوٹھا بھی
بڑے کمال کی فنکار ہے یہ دنیا بھی
ہم سے نہ چھپاؤں کہ بجھا شعلۂ دل کیوں
ہم بھی تو زمانے کی ہوا کھائے ہوئے ہیں
خبر نہ تھی کہ وفا بھی خریدنی ہوگی
ہمیں بھی جیب میں تھوڑا سا مال رکھنا تھا
قدم قدم پہ بدلنا تمہیں نہیں آتا
تم اس نگر میں ابھی تک پرائے لگتے ہو
ملے ، بچھڑ گئے ، سمجھا کوئی کسی کو نہیں
یہی ہماری ملاقات کا خلاصہ ہے
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ شعر کا اچھا ہونا جس قدر ضروری ہے اس کا عظیم ہونا اتنا لازمی نہیں ہے ۔ اچھا شعر محاسن شعری سے مزین ہوتا ہے اور اس میں ہمیشہ کے لئے شعریت برقرار رہتی ہے ۔ اس کے بر خلاف بسااوقات کوئی شعر جس میں معنوی تہہ داری ہوتی ہے مگر وہ محاسن سے معریٰ ہو کر سپاٹ رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے قاری اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ مدحتؔ الاختر کی شاعری کے تعلق سے عظمت کا دعویٰ تو نہیں کیا جا سکتا لیکن ان کے یہاں اچھے شعروں کی کثرت ان کی تخلیقی تجزیہ کاری اور ان کی فنی پختگی کی واضح دلیل ہے ۔ مثلاً درج ذیل شعر ملاحظہ ہوں ؎
کھلی جو آنکھ تو خوابوں کی بوند بھی نہ ملی
پیا تھا رات کو پانی اسی صراحی سے
ڈھلنا مرے نصیب میں شاید لکھا نہیں
میں تیرے انتظار کا سایہ تو بن گیا
روشنی میں رہا کرو خاموش
روشنی خود زبان ہوتی ہے
اب اگر نیند نہ آئے تو خطا کس کی ہے
میرے کمرے تو بستر بھی ہے تنہائی بھی
عجیب لوگ ہیں معلوم کرتے پھرتے ہیں
کہ میرے لب کا تبسم کہاں سے آیا ہے
کھلا یہ اب کہ تمہارے بغیر کچھ بھی نہ تھا
ہم اپنے آپ کو کیا کیا خیال کرتے رہے
میں اپنی روح کی انگلی پکڑ کے چل دوں گا
بدن اگرچہ مرا سرد اور شل ہوگا
یہی خیال ہمارے لئے مصیبت ہے
ہمارے بچے ہمیں دیکھ کر بڑے ہوں گے
ہمارے واسطے محرومیوں کی حد نہ سہی
پڑوسیوں کی دعا ہی ملے مدد نہ سہی
دنیا بہت بری ہے مگر بے ہنر نہیں
ظالم نے جو فریب دیا خوش نما دیا
مذکورہ بالا اشعار کے مطالعہ سے اس بات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ مدحتؔ الاختر اپنی منزلِ انفرادیت کی طرف رواں دواں ہیں اور ان کی شاعری اردو کے شعری سرمایہ میں اضافہ ہی نہیں بلکہ مستقبل کے افق کو مزید روش کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ بشیرؔ بدر ، ندؔا فاضلی اور ابراہیم اشکؔ کے شہرتوں کے اس دور میں ان کی شعری افکار کا خورشید ہر طرف اپنی شعاعیں بکھیر دے گا ۔
٭٭٭