کڑوا تیل ۔۔۔ غضنفر

 

’’اس گھانی کے بعد آپ کی باری آئے گی۔ تب تک انتظار کرنا پڑے گا۔ ‘‘شاہ جی نے میرے ہاتھ سے تلہن کا تھیلا لے کر کولھو کے پاس رکھ دیا۔

’’ٹھیک ہے۔ ‘‘ میں دروازے کے پاس پڑے ایک اسٹول پر بیٹھ گیا۔

کولھو کسی پائدار لکڑی کا بنا تھا۔ اور کمرے کے بیچوں بیچ کچے فرش میں بڑی کاری گری اور مضبوطی کے ساتھ گڑا تھا۔ کولھو کی پکی ہوئی پائدار لکڑی تیل پی کر اور بھی پک گئی تھی اور کسی سیاہی آمیز سرخ پتھر کی طرح دمک رہی تھی۔

اس کا منہ اوکھلی کی طرح کھلا ہوا تھا۔ منہ کے اندرسے اوپر کی جانب موسل کی مانند ایک گول مٹول ڈنڈا نکلا ہوا تھا جس کے اوپری سرے سے جوئے کا ایک سِراجُڑا تھا۔ جوئے کا دوسرا سِرا بیل کے کندھے سے بندھا تھا جسے بیل کھینچتا ہوا ایک دائرے میں گھوم رہا تھا۔

بیل جس دائرے میں گھوم رہا تھا اس دائرے کا فرش دبا ہوا تھا۔ کمرے کے باقی فرش کے مقابلے میں اس حصے کی زمین کی سطح نیچی ہو گئی تھی۔ ایسالگتا تھاجیسے وہاں کوئی بڑا ساپہیہ رکھ کر زورسے دبا دیا گیا ہو۔

کولھو کے منہ میں اوپر تک سرسوں کے دانے بھرے تھے۔ دانوں کے بیچ موسل نما ڈنڈا مسلسل گھوم رہا تھا اوراس عمل میں اس کا دباؤ چاروں طرف کے دانوں پر پڑ رہا  تھا۔

دانے ڈنڈے کے دباؤ سے دب کر چپٹے ہوتے جا رہے تھے۔

دبے اور کچلے ہوئے دانوں کا تیل اندر ہی اندر نیچے جا  کر کولھو کے نچلے سِرے میں بنے ایک باریک سوراخ کے ذریعے بوند بوند ٹپک کر ایک مٹ میلے سے برتن میں جمع ہو رہا تھا۔

برتن میں جمع تازہ تیل ایسالگتا تھا جیسے بیل کی پگھلی ہوئی چربی ہویا جیسے سونا پگھلا کر ڈال دیا گیا ہو۔

تیل کی چمک دیکھ کر میری آنکھوں میں چمکتے ہوئے چہرے، مالش شدہ اعضا، گٹھے ہوئے جسم، کسے ہوئے پٹھے، چکنی جلدیں، دمکتی ہوئی لاٹھیاں اور زنگ سے محفوظ مشینوں کے پرزے چمچمانے لگے۔ مضبوط اورچمکدارجسموں کے ساتھ صحت مند دماغ اور ان دماغوں کے تاب دار کارنامے بھی اس تیل میں تیرنے لگے۔

تیل کے برتن سے نگاہیں نکلیں تو کولھو میں جتے بیل کی جانب مبذول ہو گئیں۔

بیل اوپرسے نیچے اور آگے سے پیچھے تک پٹخا ہوا تھا، پُٹھا پچک گیا تھا۔ پیٹ دونوں طرف سے دھنس گیا تھا۔ پیٹھ بیٹھ گئی تھی۔ گوشت سوکھ گیا تھا۔ ہڈیاں باہر نکل آئی تھیں۔ قد بھنچا ہوا تھا۔ گردن سے لے کر پُٹھے تک پوراجسم چابک کے نشان سے اٹا پڑا تھا۔ جگہ جگہ سے کھال ادھڑ گئی تھی۔ بال نچے ہوئے تھے۔ گردن کی جلد رگڑ کھا کر چھل گئی تھی۔ دونوں سینگوں کی نوکیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ کانوں کے اندر اور باہر جِلد خور کیڑے جِلد سے چمٹے پڑے تھے۔ پچھلا حصہ پیروں تک گوبر میں سناہوا تھا۔ دُم بھی میل میں لپٹی پڑی تھی۔ دُم کے بال بیل کے چھیرے میں لت پت ہو کر لٹ بن گئے تھے۔ پچھلے ایک پاؤں سے خون بھی رس رہا تھا۔

بیل کی آنکھوں پرپٹیاں بندھی تھیں۔ ناک میں نکیل پڑی تھی۔ منہ پر جاب چڑھا ہوا تھا۔ بیل ایک مخصوص رفتارسے دائرے میں گھوم رہا تھا۔ پاؤں رکھنے میں وہ کافی احتیاط برت رہا تھا۔ گھیرے کی دبی ہوئی زمین پراس کے پیراس طرح پڑ رہے تھے جیسے ایک ایک قدم کی جگہ مقر ر ہو۔ نہایت ناپ تول اور سنبھل سنبھل کرپاؤں رکھنے کے باوجود کبھی کبھار وہ لڑکھڑا پڑتا اور اس کی رفتار میں کمی آ جاتی تو شاہ جی کے ہاتھ کا سونٹا لہرا کراس کی پیٹھ پر جا پڑتا اور وہ اپنی تلملاہٹ اور لڑکھڑاہٹ دونوں پر تیزی سے قابو پا کر اپنی راہ پکڑ لیتا۔

سونٹا اس زور سے پڑتا کہ سڑاک کی آواز دیر تک کمرے میں گونجتی رہتی۔ کبھی کبھی تو میری پیٹھ بھی سہم جاتی۔

بیل کو ایک مرکز پر لگاتار گھومتے ہوئے دیکھ کر میرے دل میں ایک عجیب سا خیال آیا اور میری نگاہ رسٹ واچ پر مرکوز ہو گئی۔

ایک چکر میں تیس سیکنڈ—

میں نے گھڑی کی سوئیوں کے حساب سے چکروں کو گننا شروع کر دیا۔ ایک—دو— تین —چار— پانچ— چھ— سات— آٹھ— نو —دس—

دس چکر پانچ منٹ چارسکنڈمیں —

گویا اوسطاً فی چکر—تیس سکنڈ

’’شاہ جی یہ بیل کتنے گھنٹے کولھو کھینچتا ہو گا؟‘‘

’’یہی کوئی بارہ تیرہ گھنٹے ؟ ’’کیوں ؟‘‘

’’یوں ہی پوچھ لیا۔ ’’مختصر سا جواب دے کر میں بارہ گھنٹوں میں پورے کیے گئے چکروں کا حساب لگانے لگا۔

پانچ منٹ میں دس چکر تو ایک گھنٹے میں ؟

ایک گھنٹے میں ایک سوبیس چکر

اور بارہ گھنٹے میں ؟

ایک سوبیس ضرب بارہ برابر چودہ سوچالیس چکر—

اچانک میری نگاہیں اس گھیرے کو گھورنے لگیں جس میں بیل گھوم رہا تھا۔

دس، دس، بیس، دس، تیس، دس چالیس—میرے آگے دائرے کی لمبائی کھنچ گئی۔

بیل ایک چکر میں تقریباً چالیس فٹ کی دُوری طے کرتا ہے۔

چالیس ضرب چودہ سوچالیں برابر ستاون ہزار چھے سوفٹ —

ستاون ہزار چھ سوفٹ مطلب سواسترہ کلومیٹر

گویا ایک دن میں سواسترہ کلو میٹر کی دُوری

اگر بیل کمرے سے باہر نکلے تو روزانہ—

کمرہ پھیل کر میدان میں تبدیل ہو گیا۔ دُور دُور تک پھیلے ہوئے میدان میں کھلی فضائیں جلوہ دکھانے لگیں۔ سورج کی شعاعیں چمچانے لگیں۔ تمام سمتیں نظر آنے لگیں۔ ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں ——چاروں طرف سبزہ زار اگ آئے۔ کھیت ہرے ہو گئے۔ سبزے لہلہانے لگے۔ پودے لہرانے لگے۔ شاخیں ہلنے لگیں۔ سبزہ زاروں کے بیچ پانی کے سوتے ندی، نالے، تالاب اور چشمے جھلملانے لگے۔

یکایک بیل کے کندھے سے جُوا اتر گیا۔ اس کی آنکھوں سے پٹیاں کھل گئیں۔ منہ سے جاب ہٹ گیا۔ بیل کھلی اور روشن فضا میں ہری بھری دھرتی کے اوپر بے فکری اور آزادی کے ساتھ گھومنے پھرنے لگا۔ سبزوں کو دیکھ کراس کی آنکھوں میں ہریالی بھر گئی۔ اس کا چہرہ چمک اُٹھا۔ وہ مختلف سمتوں میں بے روک ٹوک گھومتا، من پسند سبز، تازہ، نرم ملائم پودوں، پتوں اور مخملی گھاس کو چرتا، چباتا، جگالی کرتا، ندی، نالوں اور چشموں سے پانی پیتا، تمام سمتوں کی جانب دیکھتا، میدان کی وسعتوں کو آنکھوں میں بھرتا جھومتا ہوا کافی دُور نکل گیا۔

سڑاک

سونٹے کی چوٹ پر ذہن جھنجھنا اُٹھا۔ پھیلی ہوئی سرسبزدھرتی میری آنکھوں سے نکل گئی۔

بیل کولھو کھینچنے لگا۔ اس کی آنکھوں کی پٹیاں لہرانے لگیں۔

لہراتی ہوئی پٹیاں میری آنکھوں پربندھ گئیں۔

بیل کے کندھے پر بندھا جوا، اس کی ناک میں پڑی نکیل، گھومتا ہوا کولھو، کچلتے ہوئے سرسوں کے دانے، دانوں سے بنا کھل، برتن میں جمع تیل، تیل کے پاس کھڑا شاہ جی سب کچھ میری آنکھوں سے چھپ گیا۔ سب کچھ اندھیرے میں ڈوب گیا۔

اندھیرا میرے اندر تک گھلتا چلا گیا۔

مجھے ہول اُٹھنے لگا۔ میرا دم گھٹنے لگا۔ بے چین ہو کر میں نے اپنی آنکھوں سے پٹیاں جھٹک دیں۔

’’شاہ جی!ایک بات پوچھوں ؟‘‘

’’پوچھیے۔ ‘‘

’’بیل کی آنکھوں پرپٹی کیوں بندھی ہوئی ہے ؟‘‘

’’اس لیے کہ کھلی آنکھوں سے ایک جگہ پر لگاتار گھومتے رہنے سے اُسے چکّر آ سکتا ہے اور———‘‘

یک لخت میں اپنے بچپن میں پہنچ گیا۔ جہاں ہم کبھی کھلی اور کبھی بند آنکھوں سے کھلیان کے وسط میں گڑے کھمبے کے چاروں طرف چکر لگانے کا کھیل کھیلا کرتے تھے۔ اور کھلی آنکھوں سے گھومتے وقت اکثر چکر کھا کر گر پڑتے تھے۔

شاہ جی ویسانہیں ہے جیسا کہ میرے ذہن نے اس کی تصویر بنا لی ہے۔ شاہ جی کو کم سے کم بیل کی تکلیف کا احساس ضرور ہے۔ تصویر قدرے صاف ہو گئی۔

’’اوراسے چکر آنے کا مطلب ہے میرا گھن چکر‘‘

’’مطلب؟‘‘ دوسرا جملہ سن کر میں چونک پڑا۔

’’مطلب یہ کہ میں گھن چکّر میں پڑ جاؤں گا۔ یہ بار بار چکّر کھا کر گرے گا تو کام کم ہو گا اور کم کام ہو گا تو ہمارا نقصان ہو گا۔ ‘‘

شاہ جی کی تصویرسے جوسیاہ پرت اتری تھی، ، دوبارہ چڑھ گئی۔

مجھے ان کے گھن چکر میں کچھ اور بھی چکر محسوس ہونے لگا۔ کئی اور باتیں میرے دماغ میں چکر کاٹنے لگیں۔

کولھو کے منہ میں پڑے سرسوں کے دانے میرے قریب آ گئے۔

آنکھوں پرپٹی باندھنے کی وجہ یہ بھی تو ہو سکتی ہے کہ کہیں بیل ان دانوں میں منہ نہ مار لے اور شاہ جی کو اپنے پاس سے ہرجانے بھرنا پڑ جائے۔

کولھو کا دائرہ بھی میرے نزدیک سرک آیا۔

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کہیں بیل کو یہ احساس نہ ہو جائے کہ وہ برسوں سے ایک ہی جگہ پر صبح سے شام تک گھومتا رہتا ہے اوراس احساس کے ساتھ ہی وہ بغاوت پر اُتر آئے، جوا توڑ کر بھاگ نکلے۔

اور یہ بھی کہ اسے کھل اور تیل نہ دکھ جائے۔

سرسوں کے زیادہ تر دانے کچل کر کھل میں تبدیل ہو چکے تھے۔ برتن میں کافی ساراتیل جمع ہو گیا تھا۔

بے ساختہ میرے منہ سے نکلا۔

’’شاہ جی!یہ کھل تواسے ہی کھلاتے ہوں گے ؟‘‘

’’نہیں اسے کیوں کھلائیں گے یہ کوئی گاڑی تھوڑے کھینچتا ہے۔ کھل تواسے دیتے ہیں جو گاڑی کھینچتا ہے۔ یا ہل جوتتا ہے۔ ‘‘

میری نظر ایک بار پھر بیل کے اوپر مرکوز ہو گئی۔

دھنسی ہوئی کوکھ۔ پچکا ہوا پٹھا، دبی ہوئی پیٹھ اور اُبھری ہوئی ہڈیاں میری آنکھوں میں چبھنے لگیں۔

’’شاہ جی!یہ بیل تو کافی کمزور اور بوڑھا دکھتا ہے۔ اسے رٹائرڈ کیوں نہیں کر دیتے۔ ‘‘

’’نہیں بابو صاحب! اس کی بُوڑھی ہڈیوں میں بہت جان ہے۔ ابھی تو یہ برسوں کھینچ سکتا ہے۔ پھر یہ سدھاہوا ہے۔ اپنے کام سے اچھّی طرح واقف ہے۔ اس کی جگہ جوان بیل جوتنے میں کافی دقّت ہو گی۔ جوان بیل کھینچے گا کم بدکے گا زیادہ۔ اس لیے فی الحال یہی ٹھیک ہے۔ ‘‘

میری نگاہیں بیل کی رفتار کی طرف مبذول ہو گئیں۔

بوڑھا بیل واقعی سدھا ہوا تھا۔ ایک متوازن رفتارسے کولھو کھینچ رہا تھا۔ اس کے پاؤں نپے تلے پڑ رہے تھے۔ قدم گھیرے سے باہر شاید ہی کبھی نکلتا تھا۔ لگتا تھا اس کی بند آنکھیں شاہ جی کے سونٹے کو دیکھ رہی تھیں۔

’’ویسے ایک بچھڑے کو تیار کر رہا ہوں۔ کبھی کبھی اسے جوتتا ہوں۔ مگر پَٹھا ابھی، پُٹھے پر ہاتھ رکھنے نہیں دیتا۔ کندھے پر جوا رکھتے وقت بڑا اُدھم مچاتا ہے۔ آنکھ پر آسانی سے پٹی بھی باندھنے نہیں دیتا۔ سرجھٹکتا ہے مگر دھیرے دھیرے قابو میں آ ہی جائے گا۔ ‘‘

میری آنکھوں میں بچھڑا آ کر کھڑا ہو گیا۔

لمبا چوڑا ڈیل ڈول، بھرا  بھرا چھریرا بدن، اُٹھا ہوا پُٹھا، اونچا قد، تنی ہوئی چکنی کھال، چمکتے ہوئے صاف ستھرے بال، پھرتیلے پاؤں۔

بچھڑے کاکساہواپرکشش جسم مجھے اپنی طرف کھینچنے لگا۔ میری نگاہیں اس کے ایک ایک انگ پر ٹھہرنے لگیں۔ اچانک بچھڑے کا ڈیل ڈول بگڑ گیا۔ قد دب گیا۔ پیٹ دھنس گیا۔ پُٹھا پچک گیا۔ پیٹھ بیٹھ گئی۔ ہڈیاں نکل آئیں۔ کھال داغ دار ہو گئی۔ پیروں کی چمڑی چھل گئی۔ بالوں کی چمک کھو گئی۔ بدن گوبر میں سن گیا۔

میرے جی میں آیا کہ میں کمرے سے باہر جاؤں اور بچھڑے کی رسی کھول دوں۔ یہ بھی جی میں آیا کہ اور نہیں تو آگے بڑھ کر بیل کی آنکھوں کی پٹی ہی نوچ دوں مگر میں اپنی گھانی کا تیل نکلنے کے انتظار میں اپنی جگہ پر چپ چاپ بیٹھا کبھی بیل، کبھی کولھو کے سوراخ سے نکلتے ہوئے تیل کو دیکھتا رہا۔

اور بیچ بیچ میں سڑاک سڑاک کی گونج سنتارہا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے