کوآپریٹیوسوسائٹی۔۔۔ پیغام آفاقی

وہ کھرا آدمی بالکل مایوس کھڑا تھا۔ چوکیدار ہاتھ میں تالا لیے ادب سے اس کے ہال سے نکلنے کا انتظار کر رہا تھا۔ بظاہر یہ بات انتہائی غیر منطقی تھی۔ اس کے ذہن میں معاملے کا یہ انتہائی رخ اس سے پہلے کبھی نہیں ابھرا تھا۔ وہ اس سوسائٹی کا جس کی میٹنگ ابھی ابھی ختم ہوئی تھی، ایک بنیادی ممبر تھا اور اس کے فروغ کے لیے ہمیشہ ہی اس نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ یہ سوسائٹی اس کا لونی کے مکینوں کے فلاح و بہبود کے لیے بنی تھی اور اس کا قیام اس مقصد سے ہوا تھا کہ کسی سامان پر جو خرچ آئے اتنے ہی پیسوں میں وہ اس کا لونی کے لوگوں کو مل جائے۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد دیکھا گیا کہ اس کا لونی کے ارد گرد رہنے والے کچھ اور لوگ بھی یہیں سے سامان خرید نے کے لیے لپکنے لگے تھے۔ ان کو روکنا عملاً ممکن نہیں تھا کیونکہ عملہ کا کوئی رکن کالونی کی تمام عورتوں اور بچوں کو نہیں پہچانتا تھا۔ لیکن اس بڑھتی ہوئی بھیڑ سے جو بے چینی پیدا ہوئی اس کا اظہار لوگوں نے اگلی میٹنگ میں کیا۔ اس پر بحث ہوئی اور تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد یہ طے پایا کہ سوسائٹی چیزوں کی قیمت پر کچھ منافع بھی لے اور اس منافع میں سے تھوڑی رقم سوسائٹی کے اراکین میں تقسیم کر دی جائے اور تھوڑی رقم سوسائٹی کے مشترکہ مقاصد کے لیے خرچ ہو جس میں ایک عمدہ عمارت کی تعمیر اور دیگر سہولیات کا ذکر ہوا۔ اس میٹنگ کے دوران کچھ لوگوں نے یہ بات دلچسپی سے سنی تھی کہ اگر منافع کمایا جائے تو اس سے سستا سا مان دینے کے علاوہ کچھ اور بھی کام لیا جا سکتا ہے۔ جیسے اس آمدنی میں سے کچھ خرچ کر کے اچھا خاصا سماجی، معاشی اور سیاسی اثر خریدا جا سکتا تھا جو سوسائٹی کے اراکین کے کام آ سکتا تھا۔ گفتگو اور بحث کے دوران ذہین تر مقرروں کے یہ اشارے بھی سننے کو ملے کہ کسی بھی سوسائٹی کے کسی عام رکن کی دلچسپی کا مرکز تو صرف وہی پیسہ ہوتا ہے جو وہ اپنی جیب سے دیتا ہے صرف اسی کے اوپر وہ کڑی نگاہ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی منافع پیدا ہوتا ہے تو اس کے انتظام کی ذمہ داری کو لوگ انتظامیہ کے سر گرم اراکین کے اوپر چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ یہ پہلو کسی عام رکن کے تخیل کے دائرے سے باہر تک پھیلا ہوتا ہے۔ میٹنگ میں ہو رہی ایسی گفتگو کو سن کر اس کھرے آدمی کو اپنے لاشعور کی گہرائی میں کوئی بنیادی بات ادھر سے ادھر کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی تھی لیکن وہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ وہ کیسا محسوس کر رہا تھا اور اس کو وہ لفظوں میں کیسے پکڑے۔ میٹنگ تیز رفتاری سے منطق کی گہری لیک پر چل رہی تھی۔ وہ خاموش رہا۔ پھر بھی جب گفتگو اختتام کو آئی تو اسے محسوس ہوا کہ کم از کم اسے ٹوک تو دینا ہی چاہیے۔ اس نے ایک انتہائی صاف گو اور کھرے انسان کی طرح کھڑے ہو کر کہا۔ ’’آپ لوگ جو کچھ سوچ رہے ہیں اور کرنے جا رہے ہیں اس میں مجھے کوئی برائی نہیں دکھائی دیتی۔ پھر بھی میں ایک بات کو دہرانا چاہتا ہوں کہ جس مقصد کے لیے یہ سوسائٹی قائم ہوئی تھی وہ مقصد ہمیشہ مدّ نظر رکھا جانا چاہیے اور وہ مقصد یہ ہے کہ جو سامان جتنے میں حاصل کیا جائے۔ ..۔ اس کے بعد آپ کچھ بھی کرتے ہوں اس میں اگر اچھے امکانات پیدا ہو رہے ہیں تو یہ اچھی ہی بات ہے۔ ‘‘ اس نے یہ کیوں کہا تھا اس کا تو اس کو اندازہ نہیں ہوا لیکن اس مداخلت کے بعد اس نے خود اپنے کو مطمئن پایا۔ چیرمین نے پوچھا بھی تھا کہ وہ کہنا کیا چاہتا تھا کہ اس کی بات کو میٹنگ کی روداد میں لکھ لے لیکن اس نے الجھن میں اکڑے ہوئے اپنے ہی سر کو جھٹکتے ہوئے کہا تھا۔ ’نہیں، میں کہہ کچھ نہیں رہا ہوں۔ ‘ اس کی سادہ بات اپنے اندر اس قدر بنیادی بات تھی کہ اس کو دہرانا ایک لغوسی بات لگ رہی تھی اور لوگوں نے مذاق اڑاتی ہنسی کے ساتھ اس کی طرف دیکھا تھا۔ اس کے بعد میٹنگ کی کاروائی اور آگے بڑھی۔ چونکہ اب سوسائٹی کی کارکردگی کے امکانات اور وسیع ہو رہے تھے اس لیے اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ اس سلسلے میں ایک واضح آئین مرتب ہو جس میں لوگوں کے فرائض اور حقوق کے بارے میں حتی الا مکان وضاحت موجود ہو۔ بلکہ ایسی ٹھوس وضاحت موجود ہو کہ اس کو کوئی بھی کبھی توڑ مروڑ نہ سکے۔ اس نقطۂ نظر کی سب نے پُر زور حمایت کی کیونکہ دنیا سب نے دیکھی تھی اور سب جانتے تھے کہ اگر کہیں وضاحت اور معنوں میں ذرا بھی گنجائش رہ جاتی ہے تو مکار لوگ آگے چل کر اس کا کس قدر فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ سوسائٹی کے اوپر اختیار کے سلسلے میں بھی کئی وفعات بنائے گئے اور اس میں یہ بات بھی بالکل واضح کر دی گئی کہ سوسائٹی کی پچاس فیصد سے زیادہ کی اکثریت کسی بھی وقت میٹنگ بلا کر انتظامیہ کمیٹی کو بدل سکتی ہے۔ یہ بھی طے پایا کہ سوسائٹی کے سارے کاروبار اور لین دین کا حساب کتاب رکھنے کے لیے مستند رجسٹر ہوں گے جن پر تمام ممبران کے دستخط ہوں گے تاکہ یہ رجسٹر کبھی دھوکے سے تبدیل نہیں کیے جا سکیں اور گو کہ وہ بات جو اس کھرے شخص نے کہی تھی وہ بے نکتہ تھی لیکن وہ بات بھی اس میں شامل کی گئی کیونکہ دل ہی دل میں اس کی اہمیت کو سب سمجھ رہے تھے اور وہ ہنسے صرف اس لیے تھے کہ وہ بات کسی ذہین شخص نے نہیں کہی تھی۔ سوسائٹی تیزی سے آگے بڑھی اور ایک پھلتے پھولتے کاروبار کی طرح اس میں دن دونی رات چوگنی ترقی ہوئی۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے علاوہ اب بڑے بڑے سامان بھی منگانے کی بات ہونے لگی۔ کہاں آلو پیاز اور اب کہاں ٹیلی ویژن اور ماروتی کاروں کی بکنگ۔ سوسائٹی کی میٹنگوں میں انتظامیہ کمیٹی کے اراکین سنجیدگی اور دوراندیشی سے فیصلے کرتے ہوئے دور دور تک کے فائدے کے امکانات پر گرفت رکھنے لگے۔ پھر تو سوسائٹی کا یہ عالم ہوا کہ ایک دن یہ فیصلہ کیا گیا کہ لوگوں کو سامان اس سے بھی کم قیمت پر دیا جائے جتنی اس کی لاگت آتی ہے اور اس کے باوجود منافع میں بھی ان کو سالانہ حصہ دیا جائے۔ لوگوں کو منافع کی ایسی رقم ملنے بھی لگی۔ سوسائٹی کے دفتروں کے لیے اب ایک الگ پُر شکوہ عمارت بنائی گئی اور اس کے کاغذات اور پیسوں کی حفاظت کے لیے گارڈ بھی لگائے گئے جو سوسائٹی کے ممبروں کو بھی بغیر ضروری پوچھ تاچھ کے اندر نہیں جانے دیتے تھے۔ سوسائٹی کے دفتروں میں ایک پر سکون فضا قائم رکھنے کے لیے اور غیر ضروری بحث مباحثوں کے شور کو الگ رکھنے کے لیے ایک دن یہ سختی بھی کرنی پڑی کہ کوئی ممبر بھی کسی ضروری کام یا اجازت یا آئین کے مطابق ملے ہوئے اپنے اختیارات یا کسی ذمہ دار کارکن کی دعوت کے بغیر اندر نہیں جا سکتا تھا۔ اور یہ طے پایا کہ اگر کوئی ایسی بنیادی ضروری بات نہ ہو کہ اندر گئے بغیر کام ہی نہ چلے تو پھر محض گفتگو اور تبادلہ خیال وغیرہ کے لیے اراکین سوسائٹی کی طرف سے بنائی گئی اس کینٹین میں جایا کریں جہاں سستی قیمت پر چائے ملتی تھی۔ اور یہ مشورہ دیواروں پر لکھ کر لگا دیا گیا کہ گپ شپ اور تبصرہ کے لیے وہیں کی فضا زیادہ موزوں تھی۔ یہ کینٹین واقعی شاندار تھی۔ پوری کالونی کو اس سوسائٹی کی طرف سے مکمل اطمینان تھا۔ اراکین کے گھر پر سوسائٹی خود ہی سامان بھجوا دیتی تھی تاکہ اراکین کو سوسائٹی کی دوکانوں یا دفتروں میں جانے کی زحمت نہیں کرنی پڑے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی سامان خراب نکلتا تو سوسائٹی کی گاڑی خود اسے واپس لے جاتی تاکہ اراکین کو اس سلسلے میں سوچنے کی زحمت بھی نہ کرنی پڑے۔ اس سے واقعی کالونی والوں کو جو ذہنی فراغت نصیب ہوئی تو انھوں نے اپنی اپنی جگہوں پر یکسوئی سے کام کرنا شروع کر دیا۔ دفتروں میں انھیں زیادہ عزت ملنے لگی اور کاروبار میں برکت دکھائی دینے لگی۔ سوسائٹی کی اس کامیابی کو سبھی ننگی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ ایک دن کہیں سے یہ بات بگولے کی طرح اٹھی کہ سوسائٹی کے معصوم اراکین سر مستی میں اس بات سے بے خبر ہیں کہ در اصل اب سوسائٹی اس قدر چل نکلی ہے کہ اس کی آمدنی میں ہر ممبر کا جو حصہ ہوتا ہے وہ در اصل اس ممبر کی ذاتی آمدنی کے ایک بڑے حصہ کے برابر ہے، لیکن ان کو اتنا مل نہیں رہا تھا۔ یہ چرچا زوروں سے ہوا کہ سوسائٹی کے امکانات بے حد روشن ہیں اور ملک کی دوسری سوسائٹیوں نے تو اتنی ترقی کی ہے کہ سوسو اراکین کی سوسائٹیاں اب منافع اور سرکاری مراعات کی وجہ سے کروڑوں روپے کی مالک ہو گئی ہیں اور کئی سوسائٹیاں تو اب پونجی پتیوں سے مل کر یہ بھی کرنے لگی ہیں کہ ان کے سامان کو اپنے کھاتے کے ذریعے بیچتی ہیں تاکہ اس سے ٹیکس کی بچت ہو۔ اس کے بعد ہر ممبر کے دماغ میں ایک سوال تو ضرور اٹھنے لگا۔ ’کیا ہماری سوسائٹی میں بھی ایسا ہو رہا ہے ؟‘ لوگوں میں ایک گفتگو سی چل پڑی۔ ’ہمیں چھان بین کرنی چاہیے۔ ‘ کچھ لوگوں نے تو اس گفتگو کو یہ کہہ کر روکنا چاہا کہ اس بات کو بے جا ہوا دی جا رہی ہے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ سوسائٹی کے منتظمین کو ڈسٹرب کرنے سے کیا فائدہ؟ لوگوں کو فائدے سے مطلب ہے اور فائدہ انھیں مل رہا تھا۔ انھیں میں سے ایک نے اس کھرے آدمی سے کہا۔ ’’کون سی سہولت ہے جو شہر کی کسی دوسری سوسائٹی میں اس قدر ملتی ہے جو ہم لوگوں کو مل رہی ہے۔ ایک دن تمہیں نے کہا تھا کہ تمہیں اور کسی چیز سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ تمہیں صرف ایک بات سے زیادہ تعلق ہے اور وہ یہ کہ سوسائٹی جس مقصد کے لیے قائم ہوئی تھی اس میں اس کے اراکین کو دھوکا نہ ہو۔ اور تم اسی پر زور دینا چاہتے تھے جو لوگ سوسائٹی کے کارکن ہیں وہ سوسائٹی کو کیسے چلا رہے ہیں یہ وہ بہتر جانتے ہیں۔ یہ کیا کم ہے کہ ہمیں بیشمار دیگر سہولیات بھی میسّر ہیں۔ کیا یہ محض ہماری ذہنی الجھن کا نتیجہ نہیں کہ اب ہم ان کارکنوں کی کارکردگی میں ضرورت سے زیادہ ہی دلچسپی لینے لگے ہیں۔ اور آخر یہ سارا کچھ فائدہ انھیں کی محنت کا تو نتیجہ ہے۔ ‘‘ ’میں کہاں اُس آئین کے خلاف کچھ کہہ رہا ہوں جو پہلے دن طے ہوا تھا لیکن ہمیں یہ تو دیکھنا ہی ہے کہ اگلے انتخاب میں ہمیں کمیٹی کے ان ممبروں کو بدلنا ہے یا انھیں کو رکھنا ہے۔ ‘ کھرے آدمی نے کہا۔ پچھلے بارہ سالوں میں سوسائٹی کے سو ممبروں میں سے ہر سال پانچ نئے لوگ ہی کارکن مقرر ہوئے ہیں۔ اور اب تک تو تقریباً آدھے سے زیادہ ممبر خود کارکن رہ چکے ہیں۔ پھر ہم شُبہ کس کے بارے میں کر رہے ہیں ؟آپ خود کارکن بن کے دیکھ لیں۔ آپ تو خود اس کی الجھنوں سے دور بھاگتے ہیں۔ ہر بار تقریباً اسی قسم کے اعتراضات کی وجہ سے یا حفظ ماتقدم کی بنا پر نئے لوگوں کو کمیٹی میں لایا گیا۔ میں دیکھتا ہوں کہ ہر سال یہی اعتراض ہوتا ہے کہ سوسائٹی کا کام ٹھیک سے نہیں چل رہا ہے جس کے پس پردہ در اصل یہ اشارہ ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ گھوٹالہ ہے لیکن اس کے باوجود کوئی کچھ بولتا نہیں۔ وہ تو جانتے ہیں جو خود کمیٹی کے ممبر رہ چکے ہیں، جن کو تجربہ نہیں ہے صرف وہی لوگ اعتراض کرتے ہیں۔ اور پھر یہ کہ اس تمام شور شرابا کے باوجود کبھی کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آئی۔ اگلی میٹنگ میں کھرے آدمی نے سختی کے ساتھ اپنے نقطہ نظر کو پیش کرتے ہوئے کہا ’میں یہ مانگ کرتا ہوں کہ سوسائٹی کے اکاؤنٹس کی آڈٹ کرائی جائے۔ چیر مین نے فوراً اس کی بات کی طرف توجہ کی اور کہا: ’’میں سوسائٹی کے اراکین کے اعتماد کو بحال رکھنے کے لیے اپنے معزز دوست کی اس عمدہ رائے کی تائید کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ حضرات خود اپنے درمیان سے ایک ممبر ایسا دیں جسے اس آڈٹ پارٹی کا سربراہ مقرر کیا جائے۔ ‘‘ فوراً کسی شخص نے اٹھ کر کسی آدمی کا نام تجویز کیا۔ دوسرے لوگوں نے اٹھ کر چستی سے اس کی تائید کی۔ ’لیکن میں چاہتا ہوں کہ آڈٹ پارٹی کا ممبر کوئی ایسا شخص ہو جو ابھی تک انتظامیہ میں نہیں رہا ہو‘۔ اس کھرے آدمی نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔ آپ کے جذبات کا لحاظ رکھا جائے گا۔ کوئی شخص ہے جو پہلے انتظامیہ کا ممبر نہیں رہا ہو۔ ‘‘ میٹنگ میں سوسائٹی کے ایک سو اراکین میں تیس پینتیس اراکین غیر حاضر تھے۔ باقی لوگوں میں ساٹھ اراکین ایسے تھے جو پہلے کمیٹی کے ممبر رہ چکے تھے۔ صرف پانچ اراکین ایسے تھے جو کمیٹی کے کبھی ممبر نہیں رہے تھے۔ ’کیا ایسے لوگ ہاتھ اٹھائیں گے جو انتظامیہ کے کبھی ممبر نہیں رہے۔ ‘

صرف وہی پانچ ہاتھ اُٹھے۔ بھاری اکثریت خاموش رہی۔ ’یہ انتہائی افسوس کی بات ہے ‘ چیر مین نے بھاری لہجے میں کہنا شروع کیا ’ہمارے اراکین سوسائٹی کے کاموں میں دلچسپی نہیں لیتے اور سچ تو یہ ہے کہ جو لوگ انتظامیہ کے ممبر ہوتے آئے ہیں وہ اپنی دل جمعی کی وجہ سے منتخب ہوئے۔ وہ لوگ انتہائی سرگرم اراکین تھے۔ اور آج بھی ان میں اس قدر مستعدی ہے کہ وہ پورے کے پورے موجود ہیں۔ اعتراض صرف سست لوگ کرتے ہیں۔ ‘ ہال میں تالیاں گونج اٹھیں ’بہرحال۔ آپ حضرات ان میں کسی کے نام کی تائید کریں۔ ‘ کھرے آدمی نے اٹھ کر اس میں سے ایک شخص کا نام تجویز کیا اور آڈٹ پارٹی کے سر براہ کی حیثیت سے اس آدمی کا انتخاب ہو گیا۔ میٹنگ کی کارروائی آگے بڑھی۔ ’’اب آپ کو اپنی نئی انتظامیہ کمیٹی کا بھی انتخاب کرنا ہے۔ اب تک کی تاریخ یہ رہی ہے کہ جو بھی کمیٹی اس انتظامیہ میں آئی اس کی مخالفت اس بنا پر کی گئی کہ وہ کمیٹی ایماندار نہیں تھی۔ حالانکہ کبھی بھی بے ایمانی ثابت نہیں ہو سکی۔ جن لوگوں نے نکتہ چینی کی وہی لوگ منتخب کر لیے گئے اور اب وہ سب آپس میں خاموش اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی تنقید بے جا تھی۔ ’بہرحال‘ اس وقت اس کمیٹی کا سر براہ میں ہوں۔ اس موجودہ کمیٹی کی بھی ایک سال کی میعاد پوری ہو چکی ہے اور اب آپ کو نئی کمیٹی کا انتخاب کرنا ہے۔ ‘‘ لوگ خاموش رہے۔ چیر مین نے آگے کہا۔ ’’گو کہ اب تک یہ روایت قائم ہو چکی ہے کہ ہر بار وہی لوگ کمیٹی کے ممبر ہوتے ہیں جو اس سے پہلے کمیٹی کے ممبر نہیں تھے لیکن یہ بات اب بہت ہی ہتک آمیز لگنے لگی ہے۔ اور یہ بے حد لغوسی بات ہے۔ اور مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ مجھے اکثریت پر شک کرتے ہوئے جو پشیمانی ہو رہی ہے اس کا اظہار کیے بغیر میں رہ نہیں سکتا۔ اس لیے میں اس روایت کو توڑنے کی پر زور سفارش کرتا ہوں۔ ایسا میں اس لیے کر رہا ہوں کہ سوسائٹی کی عظیم کامیابیوں کے باوجود ہماری میٹنگوں میں یہ نا گوار رویہ قائم رہا ہے کہ ہر بار اس کے کارکنوں کو تعریفی نظر سے سراہنے کے بجائے ان کی توہین کی گئی ہے۔ ہمیں در اصل اس پرانے گھٹیا نقطہ نظر کو بدلنا چاہیے اور دیکھنا یہ چاہیے کہ کسی کمیٹی نے سوسائٹی کے اثاثے کو کہاں تک آگے پہنچایا ہے ہمیں منفی انداز میں سوچنے کے بجائے مثبت انداز میں سوچنا چاہیے۔ ‘‘ چیر مین نے اس تقریر کے بعد سا معین سے پوچھا۔ ’’کیا آپ چاہتے ہیں کہ کمیٹی کا کام ان لوگوں کے ہاتھوں میں سونپا جائے جن کو اس سلسلے میں تجربہ نہیں ہے یا آپ یہ چاہیں گے کہ اب یہ ذمہ داری ان لوگوں کو دی جائے جنھوں نے ماضی میں اپنی خدمات کے زمانے میں سوسائٹی کو بلند سے بلند تر کیا۔ میں انتخاب کے کسی اصول کی مخالفت نہیں کر رہا ہوں اور یہ بھی نہیں کہہ رہا ہوں کہ انتخاب کا میابی کی صلاحیتوں کی بنیاد پر ہو۔ میں ان بنیادی جمہوری اصولوں کی نفی قطعی نہیں کر رہا ہوں جو انسان کی مرضی اور سروکار کی عکاسی کرتے ہیں۔ لیکن بے جا تعصب اور بے جا خوف اپنے ذہن میں بسا کر اپنی رائے کو اس کا قیدی بنا دینا بھی مناسب نہیں ہے۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ اپنے ذہن کو خوف کا قیدی بنائے رکھنے کے بجائے اپنی آزادی فکر کا استعمال کرتے ہوئے غور کریں کہ سوسائٹی کی ترقی کس بات میں مضمر ہے۔ ‘‘ ’’ٹھیک ہے مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ‘‘ وہ کھرا آدمی اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’لیکن یہ فیصلہ بھی اسی میٹنگ میں ہو جائے تو بہتر ہے کہ جس شخص کے خلاف آڈٹ رپورٹ میں کوئی بھی بے ایمانی کی بات پائی جائے گی اس کے خلاف۔ ..۔ .‘‘ تھوڑی دیر تک میٹنگ پر ایک بھاری خاموشی طاری رہی۔ پھر چیر مین نے کہا۔ ’’آپ بجا فرما رہے ہیں لیکن آپ کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئیے کہ ہم آڈٹ کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ ہمارے بارے میں ان تفصیلات میں جائے جہاں ہم نے سوسائٹی کے مفاد کے لیے نیک نیتی سے کچھ کیا ہے۔ اور میں چاہوں گا کہ آپ کی باتوں کا اطلاق ان لوگوں پر نہ ہو جنھوں نے کوئی نمایاں کامیابی دکھائی ہے کہ میں ایمانداری اور بے ایمانی کے اصولوں سے زیادہ اہم اراکین کے مفاد کو سمجھتا ہوں۔ اور یہ اس لیے کہ ہماری سوسائٹی ایمانداری کے معنوں پر تحقیق کرنے کے لیے نہیں بلکہ اراکین کے لیے سستے داموں پر سامان مہیا کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ ‘‘ وہ کھرا آدمی اسٹیل کی چھڑی کی طرح تن کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے دوبارہ اپنے نکتے پر زور دینے کی کوشش کی۔ ’’میں آپ کی باتوں کی اہمیت اور معنویت کا اعتراف کرتا ہوں لیکن میں کہتا ہوں کہ آڈٹ کے اصولوں اور ایمانداری کو بہرحال قائم رکھا جائے کہ یہی مستقبل میں بھی سوسائٹی کی کامیابی کے ضامن ہوں گے۔ ‘‘

’’یعنی ہماری اب تک کی کامیابی ہماری ایمان داری کا ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔ اور اس بنیاد پر جو آپ کی ہی گفتگو کی بنیاد ہے ، میں کہہ سکتا ہوں کہ مستقبل میں ہم اسی طریقہ کار پر بھروسہ کر سکتے ہیں جس پر چل کر ہم یہاں تک پہنچے ہیں۔ ‘‘ ’’نہیں۔ میں ایمانداری کو پھر بھی‘‘۔ اس کی زبان لڑکھڑا گئی۔ لیکن وہ سنبھل کر پھر بولا۔ ’’آپ غالباً یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر آپ کا کوئی کارکن مستقبل میں بھی سب کو دھوکے دیتا ہوا خود پیسے بنا تا رہے اور غبن کے پیسے سے اپنا کاروبار کہیں اور چمکاتا رہے تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ ‘‘ کھرے آدمی کو لگا کہ جیسے اس نے مخالفین کے اوپر ایک بہت بڑا پتھر پھینک دیا ہو۔ لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔ بلکہ مزید وہ غصہّ میں آ گئے۔ چیر مین نے سخت لہجے اور قدرے اونچی آواز میں اس کھرے آدمی کو گھور کر دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’جی ہاں۔ اس میں کوئی برائی نہیں۔ یہ میری رائے ہے۔ اور میری رائے یہ بھی ہے کہ آپ خواہ مخواہ سوسائٹی کے ان اراکین کا جو سبھی معزز ہیں اور اس میٹنگ میں اپنا اپنا کاروبار چھوڑ کر شامل ہوئے ہیں۔ ان کا بے حد قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں۔ ممکن ہے یہ بات آپ کو بری لگے لیکن میں ایمانداری سے اپنی اس رائے کا اظہار کر رہا ہوں۔ ‘‘ وہ ہیرو کی طرح گر جا۔ ’’ہاں، اگر ان کی بات پر غور کرنا ضروری ہی ہو تو ہم اگلے مہینے انھیں کے اٹھائے ہوئے نکتے پر سوسائٹی کی جانب سے دانشوروں کا ایک سمینار کر لیں گے اور اس سمینار میں طے کریں گے کہ برائی اور اچھائی کے سلسلے میں اخلاقیات ارتقا کی کس منزل تک پہنچی ہے۔ ‘‘ چیر مین نے اور لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔ ہال میں زور دار تالیاں بج اٹھیں۔ چیر مین نے آگے کہا ’ہم کچھ بھی چھپا نا نہیں چاہتے۔ ہم ساری باتیں کھل کر کہنا چاہتے ہیں۔ ‘وہ کھڑا کا کھڑا رہا۔ چیر مین نے لوگوں کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا اور ان آنکھوں میں کچھ پر کھا اور آگے کہا۔ ’’بلکہ میں یہ کہوں گا کہ ہم اس آڈٹ پارٹی کا قیام کر کے خواہ مخواہ اپنی ترقی کی راہ پر گامزن سوسائٹی کو لگام نہ دیں بلکہ اسے آزادانہ آگے بڑھنے دیں کیونکہ یہ سوسائٹی جو دوسری سوسائیٹوں سے کامیابی کی دوڑ میں برسرِ پیکا رہے ایک مقابلے سے بھرے نازک دور سے گزر رہی ہے۔ ‘‘ میں اس کی تائید کرتا ہوں۔ ایک نے اٹھ کر کہا۔ ’’اور میں تجویز رکھتا ہوں کہ ابھی ابھی جو تجویز آڈٹ پارٹی قائم کرنے کے بارے میں پاس ہوئی ہے وہ ردّ کی جائے۔ ‘‘ ہال میں تالیاں بجیں ٹھیک ہے، چیرمین نے پہلے والی تجویز سرخ قلم گھما کر ردّ کر دی۔ ’’بلکہ میری ایک اور تجویز ہے۔ وہ سارے اکاؤنٹس نذر آتش کر دئیے جائیں جو ہمارے مردہ ماضی کی زندہ یادگاریں ہیں۔ ‘‘ ہال میں زبردست تالیاں بجیں۔ کھرا آدمی کھڑا کا کھڑا رہا۔ ’’میں اس تجویز کی تائید کرتا ہوں ‘‘ ایک آواز آئی۔ پھر کئی آوازیں ایک لڑی میں نتھی ہوئی آئیں۔ ’’ہم سب تائید کرتے ہیں۔ ‘‘ تائیدی آوازوں کا ایک سلسلہ دیر تک گونجتا رہا۔ یہ تجویز نوٹ کر لی گئی۔ چیرمین نے لوگوں کے چہرے کی بشاشت دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’وہ لوگ ہاتھ اٹھائیں جو اس تجویز کی تائید کرتے ہیں۔ ‘‘ پورے پچپن لوگوں نے ہاتھ اٹھائے۔ ’’اور آپ سب؟‘‘ اس نے انتظامیہ کمیٹی کے ساتھیوں سے بھی پوچھا۔ ’’ہم بھی تائید کرتے ہیں۔ ‘‘ ’’اب کل سے سارے اکاؤنٹس نئے لکھے جائیں گے اور پرانے تمام اکاؤنٹس کو ان میں سے موجودہ لین دین کے اقتباسات لے لینے کے بعد جلا دیا جائے گا۔ یہ کام ایک ماہ کے اندر ہو جانا چاہیے۔ اس عمل سے سوسائٹی ترقی کے ایک نئے مرحلے میں آ جائے گی۔ ‘‘ ’’کیوں نہ یہ کام دس دن کے اندر کریں۔ ‘‘ ’’میں تو کہتا ہوں کہ دو دن کے اندر کیوں نہیں ہو سکتا۔ کبھی تو ہم اپنی غیر معمولی چُستی کا مظاہرہ کریں۔ اس سے اراکین کے اندر خود اعتمادی اور حوصلے کا جذبہ اور بڑھے گا۔ ‘‘ گھنٹی بجی۔ باہر سے چیف اکاؤنٹنٹ کو بلایا گیا اور اس سے سکریٹری نے پوچھا کہ وہ کم سے کم کتنے عرصہ میں اس کام کو کرے گا۔ ’ایک دن‘ ’کیا اور جلدی نہیں کر سکتے ؟ چیر مین نے بظاہر ممبروں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے کہا ’کوشش کروں گا۔ ‘‘

کوشش کی جا رہی ہے کہ جلد سے جلد یہ پرانے کاغذات جلا دئیے جائیں۔ چیرمین نے اعلان کر دیا۔ وہ کھرا آدمی کھڑا کا کھڑا رہا۔ ’’اب میٹنگ بر خواست کی جاتی ہے ‘‘۔ سب اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر لوگ نکلنے والے راستے سے ہو کر باہر جانے لگے۔ کچھ لوگ جو پیچھے تھے اور آہستہ آہستہ چل رہے تھے، بھیڑ کم ہوتے دیکھ کر وہ بھی جلدی جلدی دروازے کی طرف بڑھنے لگے۔ صرف وہ تنہا ہال میں رہ گیا تھا۔ اس کی نظر دروازے پر کھڑے ایک آدمی پر پڑی۔ وہ چوکیدار تھا جو دروازے کا تالا ہاتھ میں لیے ادب سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے