کلامِ فارسی غالب ۔۔ ترجمہ: مضطر مجاز

 مرزا غالبؔ

فارسی سے ترجمہ: مضطر مجاز

جب ہم نے بابِ ہستی اشیا رقم کیا

آفاق کو مرادف عنقا رقم کیا

ایماں جو غیب پر ہو تو مٹتے ہیں تفرقے

اسماکو چھوڑ چھاڑ مسمیٰ رقم کیا

اندوہ غم کے نامے کا عنوان سادہ تھا

خطِ شکستِ رنگ بہ سیما رقم کیا

قلزم فشانی ِ مژہ پہلوئے دل سے ہے

اس ابر کی برأت کو دریا رقم کیا

لفظِ امید کے کہیں معنی نہ مل سکے

گو دفتر لغاتِ تمنا رقم کیا

ماضی ہے حسرت اور ہے مستقبل آرزو

اک لفظ ’’کاشکے‘‘ کو بہ صد جا رقم کیا

چہرے کا میرے رنگ ستم سے ترے اڑا

پنہاں تھا غم تو اس کو ہویدا رقم کیا

ہر نوکِ خار دل کے لہو میں ڈبو کے پھر

قانونِ باغ بانیِ صحرا رقم کیا

غالبؔ الف خود آپ ہے وحدت کا اک علم

  ’لا‘     کیا  سے  کیا ہوا ہے جب    ’الا‘   رقم کیا

٭٭٭

کیوں میں یہ کہنگی کی بساط اب الٹ نہ دوں

اس بزم رنگ و بو میں کوئی طرح نو رکھوں

کس بات پر ہیں وجد میں یہ اہل ِ صومعہ

ناہید ٹوٹ جائے جو نغمہ میں چھیڑ دوں

بھر دوں میں شورِ حشر میں دوزخ کا التہاب

افکار میں جنوں کا فسوں پڑھ کے پھونک دوں

طوطی ہیں جس پہ نغمہ زناں وہ شجر ہوں میں

گوہرِ زمین پر جو لٹائے وہ ابر ہوں

ان غازیانِ دیں کو بہ فیضِ جہادِ نفس

رعشے سے تن کے جوہرِ شمشیر بخش دوں

بیداد اہلِ دیں سے جو شاکی ہیں اہلِ دیر

کافر کے دل کو مہر و محبت سے جیت لوں

کعبے میں قربِ خاص ملا مجھ کو ضعف سے

سجادہ تو سنبھال لے، بستر میں ڈال لوں !

ہو تاکہ بادہ تلخ تر اور سینہ ریش تر

پگھلا کے آبگینے کو ساغر میں ڈال دوں

ڈھونڈا ہے کنجِ دیر سے جنت کا راستہ

خم سے پیالہ بھر کے میں کوثر میں ڈال دوں

منصورِ فرقۂ علی اللہیاں ہوں میں

دم، دم بہ دم ’انا اسداللہ‘ کا بھروں

ہے مجھ سا کون گوہ ِ ورزندہ دہر میں

لازم ہے خود کو خاکِ درِ حیدریؓ کوں

غالبؔ بہ طرح ِ منقبت ِ عاشقانہ آج

کیوں میں یہ کہنگی کی بساط اب الٹ نہ دوں

٭٭٭

تشکر: ’منصف‘ حیدر آباد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے