نظمیں ۔۔۔ ارشد خالد

لا= انسان

( نثری نظم)

ارشد خالد

وہ اپنے آقا کو ملنا چاہ رہا ہے

آقا ہے کہ اسے کہیں نظر نہیں آتا

وہ تھک ہار کر لا مکان کی دیوار کے ساتھ

 ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا ہے

اسے ایسے لگا

 جیسے کوئی لا مکان کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا ہو

وہ اس کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتا ہے

’’آقا ‘‘  ’’ آقا ‘‘ کی آوازیں لگاتا ہوا  لا مکاں کے چاروں جانب چکر کاٹتا ہے

مگر آقا  اسے کہیں نظر نہیں آتا  اور لا مکاں کے

چاروں جانب تیز ہوا کا اتنا  شور ہے کہ

اس کی اپنی آواز تیز ہوا کے شور میں دب جاتی ہے

اور اسے یوں لگتا ہے جیسے اس کی اپنی آواز پلٹ کر اس کے سماعت سے ٹکرا رہی ہو۔ ۔

اور  پھر وہ

آہستہ آہستہ اپنی پلٹی ہوئی آواز کی لہروں میں

تحلیل ہو جا تا ہے

٭٭٭

قلم اور آنکھیں

ارشد خالد

قلم سے لکھنا

پیار کے قصے

ہم نے کب کا چھوڑ دیا

اب تو ساری پیار کی باتیں

پیار کے قصے

آنکھوں سے ہم لکھتے ہیں

 آنکھوں سے ہم سنتے ہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے