کبھی یہ بھی خواہش پریشان کرتی ہے مجھ کو
کہ میں اپنے بھیتر کے ’’میں ‘‘ کو نکالوں
مگر میرے میں کی تو صورت بہت ہی بری ہے
خباثت کا انبار جس میں نہاں ہے
سراپے سے جس کی کراہت عیاں ہے
جبیں پر خطر ناک سوچوں کے جنگل اُگے ہیں
بھیانک ارادوں کے وحشی چھپے ہیں
نگاہوں میں جس کی ہوسناکیوں کے مناظر بھرے ہیں
مناظر بھی ایسے کہ جن میں
زنا ایسے لوگوں کے ہمراہ کرنے کو سوچا گیا ہے
بدن جن کے جنسی بلوغت کو پہنچے نہیں ہیں
یا وہ جو بلوغت کی ساری کشش کھو چکے ہیں
یا وہ جن سے کوئی مقدس سا رشتہ جڑا ہے
مرے ’’میں ‘‘کی صورت بری ہے
کہ دنداں، درندوں کی صورت
کسی سہمے سمٹے کنوارے بدن میں گڑے ہیں
کہ ماتم کدے میں بھی آنکھیں کسی جسم کی برجیوں پر ٹکی ہیں
کہ بیوی بغل میں مگر ذہن میں اور ہی کوئی تن من کھلا ہے
کہ پگلی بھکارن کے تن اور اندھے بھکاری کے کشکول پربھی نظر ہے
بری ہے بہت ہی بری ہے
کہ دل میں اعزّا کی اموات کی خواہشیں بھی دبی ہیں
کئی بے گنہ گرد نیں انگلیوں میں پھنسی ہیں
کہ لفظ عیادت میں بیمار کی موت کی بھی دعا ہے
بری ہے بری ہے
کہ احباب کی جیت پر دل دکھی ہے
کہ اولاد کی بر تری سے چبھن ہے
کہ بھائی کے روشن جہاں سے جبیں پر شکن ہے
بری ہے بری ہے
کہ جو پالتا ہے اسی کی نفی ہے
کہ جو پوجتا ہے اسی سے دغا ہے
عجب اوبڑ کھابڑ سی میں کی زمیں ہے
کہ اس میں کہیں بھی توازن نہیں ہے
کسی بھی طرح کا تناسب نہیں ہے
جہاں چاہیے حوصلہ، بزدلی ہے
جہاں راستی کی ضرورت، کجی ہے
جہاں چاہیے امن، غارت گری ہے
جہاں چاہیے قرب، واں فاصلہ ہے
جہاں صلح کل چاہیے، گر میاں ہیں
جہاں چاہیے گرمیاں، سردیاں ہیں
اگر میرے میں کی یہ صورت مرے خول کی باہر سطح پر آ گئی
تو زمانہ مجھے کیا کہے گا
یہی سوچ کر اپنی اس آرزو کے بدن میں
تبر بھونک دیتا ہوں اکثر
مگر یہ تمنّا
کہ میں اپنے بھیتر کے ’’میں ‘‘ کو نکالوں
مرے دل میں رہ رہ کے کیوں جاگتی ہے ؟
سبب اس کا یہ تو نہیں ہے
کہ میں اپنے اندر کی شفّاف مکر وہ صورت دکھا کر
زمانے کی آنکھوں میں خود کو پڑا دیکھنا چاہتا ہوں
یا یہ کہ مسلسل شرافت کے ناٹک سے، تنگ آ چکا ہوں
یا پھر یہ کہ اب
باہری شکل و صورت میں میری
کشش کوئی
باقی
نہیں
ہے۔
٭٭٭