موگرے ، بیلے اور چنبیلی کے پھولوں کا باغ — یوسف ناظم

موگرے ، بیلے اور چنبیلی کے پھولوں کا باغ

یوسف ناظم

فقید المثال تصنیف "تنقید اور اسلوبیاتی تنقید” جس کے مصنف پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ ہیں ، کے تعلق سے ابتدا ہی میں یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ یہ تنقید کے فن سے تقریباً نابلد شخص کا اس پر اظہارِ خیال ہے۔ ایک بھاری بھرکم اور لرزہ بر اندام کر دینے والے موضوع پر اس ضخیم کتاب کے مطالعے پر خاکسار راغب اس لیے ہوا کہ کتاب کے مصنف کا رعب جو کوئی 18، 20 سال پہلے بالمشافہ مجھ پر طاری ہوا تھا وہ نہ صرف اب تک قائم و برقرار ہے ، بلکہ اس میں وقفے وقفے سے اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ مرزا صاحب اپنے پیشے کے وقار اور مرتبے کو استحکام پہنچانے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ اور حیرت اس بات پر بھی ہے کہ اتنی مشقت اور دلسوزی کے باوجود ان کی صحت متاثر نہیں ہوتی۔ پروفیسرمسعود حسین خاں نے ، جن کے نام یہ کتاب بجا طور پر معنون ہے ، فاضل مصنف کے بارے میں یہ لکھ کر کہ "بلا شک و شبہ کہاجاسکتا ہے کہ وہ (مرزا صاحب) ہند و پاک کی لسانیاتی دنیا کی واحد علمی شخصیت ہیں جنھوں نے لسانیات کے درسی مدارج باقاعدہ طور پر طے کیے ہیں ، اور اسی کے راستے سے وہ اس علم کے اعلیٰ مناصب تک پہنچے ہیں "، حق بہ حق دار رسید کی شاباشی دی ہے۔ ویسے مرزا خلیل بیگ کے مداحوں میں تو مشفق خواجہ جیسے بلند مرتبہ محقق بھی (ہنسی خوشی) شامل ہیں۔انھوں نے کام ہی ایسے کیے ہیں کہ گوپی چند نارنگ، حامدی کاشمیری، مغنی تبسم، خلیق انجم، نذیر احمد ملک، اشرف رفیع جیسے اہلِ قلم کو صدق دلی کے ساتھ ان کے کارناموں کی داد دینی ہی پڑی۔ خاکسار صرف یہی عرض کر سکتا ہے کہ مرزا خلیل احمد بیگ نے اپنی تصانیف سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ¿ لسانیات کو وقار بخشنے اور اوجِ کمال پر یا یوں کہیے کہ اس کے قرب و جوار میں پہنچانے میں جس دلجمعی اور مجنونانہ عشق سے کام لیا ہے وہ انہی کا دل جانتا ہے اور خاکسار یہ کہنے پر مجبور ہے کہ مرزا خلیل احمد بیگ نے تحقیق اور تنقید جیسی کھردری صنف کو صنفِ نازک بنا دیا ہے۔ خاکسار کی اس موضوع سے رغبت کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

زیرِ نظر کتاب ٥١ عنوانات پر مشتمل ہے اور ہر عنوان اس ادبی مملکت کی ایک ریاست ہے۔ پہلے ٣ عنوانات خالص تکنیکی ہیں جیسے "اسلوبیاتی تنقید”، "اسلوبیاتی تنقید: چند بنیادی باتیں ” اور "تنقید کا نیا منظر نامہ”۔ ان تینوں عنوانات کے تحت فاضل مصنف کے عالمانہ مضامین کا میں نے اپنی عافیت کے پیشِ نظر صرف سرسری مطالعہ کیا۔ میں اپنی طالب علمانہ استعداد کے مطابق اس نتیجے پر پہنچا کہ ادب صرف نبض پر ہاتھ رکھ کر اور کانوں پر اسٹیتھسکو پ لگا کر تشخیص اور تشخص کے لیے کافی نہیں ہے ، اس کے لیے سرجری بھی ضروری ہے۔ ڈاکٹر مرزا خلیل بیگ اس لحاظ سے صحیح معنوں میں ڈاکٹر ہیں ، علمی بھی اور طبی بھی۔

دوسرے ٣ عنوانات "مغرب کے چند اسلوبیاتی نظریہ ساز”، "مسعود حسین خاں اور اسلوبیات” اور "گوپی چند نارنگ کا اسلوبیاتی نظریۂ تنقید” خاکسار کو اس کی بساط سے بہت زیادہ یعنی پر تکلف اور مرغن معلوم ہوئے ، لیکن بہر حال اجنبیت کا احساس نہیں ہوا۔ مملکتِ ادب کی سیاحی میں اسی طرح، علم میں نہ سہی، معلومات میں ضرور اضافہ ہوتا ہے۔ چنانچہ خاکسار کو پتا چلا کہ اسلوبیاتی تنقید معروضی، توضیحی اور تجزیاتی تنقید ہے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کا لسانیات سے گہرا رشتہ ہے جو زبان یا زبانوں کے سائنسی مطالعے کا علم ہے۔ مرزا صاحب لسانیات کے استاد ہیں اور اسلوبیات کے ماہر اور اسلوبیاتی دبستانِ تنقید کے بہترین نمائندہ۔

اسلوبیاتی تجزیے کا باب، خاکسار کے مطلب کا باب ثابت ہوا۔ (اس میں سات مضامین ہیں ، یوں سمجھیے میرے سات طبق روشن ہو گئے ):(١) "ابوالکلام کی نثر” جسے پڑھ کر نظمِ حسرت کا مزا جاتا رہے۔ (٢) "نیاز فتح پوری: لسانی مزاج اور تشکیلِ اسلوب”۔ اس کا ایک جملہ ہی قاری کی جان نکال لیتا ہے۔ لکھا ہے : "اُدھر سورج ڈوب رہا تھا اور اِدھر ایک بدرِ کامل طلوع ہو رہا تھا”۔ فاضل مصنف نے اسے "تقابل” اور "اسلوبیاتی تضاد” (Antithesis) کا نام دیا ہے۔ ان کی مرضی میں ہمارا دخل کیا ہے ! (٣) "رشید احمد صدیقی کا طنزیہ و مزاحیہ اسلوب”۔ مرزا خلیل بیگ نے اس عنوان پر کھل کر لکھا ہے اور طنز و مزاح کا فرق بیان کرنے میں رشید صاحب ہی کے حوالے سے اپنا مضمون سجایا ہے۔ خاکسارکی رائے ہے کہ رشید صاحب کو جتنا پڑھیے گا اتنے ہی نئے نئے شگوفے آپ کے ہاتھ آئیں گے۔ مرزا صاحب نے بجا طور پر کہا ہے کہ”طنزو مزاح کی تخلیق میں زبان بہت بڑا رول ادا کرتی ہے۔” ان کے اس خیال سے بھی خاکسار کو اتفاق ہے کہ "رشید احمد صدیقی نے طنزو مزاح کی تخلیق میں زبان کے تمام تر تخلیقی امکانات کا سہارا لیا ہے ، زبان کو ہر نئے انداز سے برتنے کی کوشش کی ہے اور زبان کی صوتی، صرفی، لغوی، نحوی اور معنیاتی سطحوں پر اس کے تخلیقی امکانات کو ڈھونڈ نکالنے کی پوری کوشش کی ہے "۔ (٤) "بیدی کی زبان” جس میں بیدی کی زبان کا تجزیہ فاضل مصنف نے بڑی محنت اور گہرائی سے کیا ہے۔ بیدی کی زبان پر ہمارے اکثر نقادوں کے اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ "بیدی کی زبان کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے وقت یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ نہ صرف یہ کہ خود بیدی پنجاب کے رہنے والے تھے بلکہ ان کے افسانوں کے بیشتر کر داروں کا تعلق بھی سرزمینِ پنجاب سے ہے۔۔۔ ظاہر ہے کہ ان کر داروں کی زبان اعلیٰ معیاری اردو یا جسے ہم نستعلیق اردو کہتے ہیں ، نہیں ہو سکتی تھی۔” بیدی کی زبان کے بارے میں مرزا صاحب آگے چل کر لکھتے ہیں کہ "یہ بات نہایت اہم اور لائقِ ستائش ہے کہ بیدی نے اپنی کہانیوں میں زبان کے استعمال میں تصنع یا رکھ رکھاؤ سے کام نہیں لیا ہے۔ جس طرح وہ اپنے کر داروں کو ان کے اصلی اور حقیقی رنگ میں پیش کرتے ہیں اور ان کے جذبات و نفسیات کے بیان میں فطری انداز اختیار کرتے ہیں ، اسی طرح انھوں نے زبان کے استعمال میں بھی حقیقت پسندی سے کام لیا ہے اور کر داروں کی گفتگو، بول چال، طعنہ و تشنع، نیز پیارو محبت اور نفرت و حسد کے جذبات کے اظہار میں انھیں کی زبان سے کام لیا ہے۔” مرزا صاحب کی یہ بات ہمارے نقادوں کے غور کرنے کی ہے۔ (٥) "ذاکر حسین : زبان اور اسلوب”۔ (٦) "اکبر الہٰ آبادی اور لغاتِ مغربی” نہایت دلچسپ اور معلومات بخش مقالہ ہے اور خاکسار کی رائے ہے کہ اکبر الہٰ آبادی اینگلو اردو شاعری کے معمار ہیں۔ اور اس کے بعد اس باب کا آخری مضمون ہے "دکنی اسلوبیات۔” مرزا خلیل احمد بیگ نے جتنا لکھا ہے ، یقیناً اس سے بہت زیادہ پڑھا ہے۔ اپنے وسیع مطالعے کا تجزیہ اور وہ بھی ماہرانہ تجزیہ پیش کرنا، پاپڑ بیلنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ پاپڑ بیلنے میں صرف جسمانی مشقت ہے۔ ذہانت کا اس میں کیا دخل ہے۔ مرزا خلیل احمد بیگ نے پاپڑ نہیں بیلے ہیں ___ موگرے ، بیلے اور چنبیلی کے پھولوں کا باغ سجایا ہے۔

نئے تنقیدی زاویے کے باب میں دو مضامین شامل ہیں ، "ادب اور نشانیات” اور دوسرا "تجزیۂ کلامیہ: مسائل و مباحث۔” اس باب میں فاضل مصنف نے لغوی مسائل پر بحث کی ہے اور ڈسکورس کے لیے کلامیہ کے لفظ کو متبادل کے طور پر پیش کیا ہے جو کم سے کم میرے دل کو لگا۔ نیا لفظ قبول کرنے میں ہم لوگ تکلف اور تامل کا سہارا لیتے ہیں۔ختنے ولیمے کی دعوت میں تھوڑے سے تکلف میں کوئی حرج نہیں لیکن ادب و زبان کے دسترخوان پر ہاتھ روکنا مناسب نہیں ہے۔ الفاظ کی ذخیرہ اندوزی ہر لحاظ سے مستحسن ہے۔

یہ کتاب صرف طالب علموں کے لیے نہیں ہے ، اہلِ علم بلکہ عالموں کے لیے بھی ہے اور فاضل مصنف قابلِ مبارک باد ہیں کہ__ اب کیا کہوں !

میں تو ڈراسہما بیٹھا تھا کہ اس کڑے موضوع پر ایسی کھری کتاب پر کیا لکھوں ، لیکن جی کڑا کر کے کچھ لکھ سکا۔ ابتدا میں کتاب کے مضامین کی فہرست اور پروفیسر مسعود حسین خاں کیصحت افزا تحریر پڑھی تو اندازہ ہوا کہ یہ کتاب میرے لیے بھاری پتھر ثابت ہو گی۔ لیکن پتا چلا کہ کتاب واقعی پُر اثر، وقیع اور عالمانہ ہے اور ادبی تنقید کا ایک نیا اور روشن باب وا کرتی ہے !

 

2 thoughts on “موگرے ، بیلے اور چنبیلی کے پھولوں کا باغ — یوسف ناظم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے