کتابوں کی باتیں — وہاب اعجاز

 

کتابوں کی باتیں

قدرت اﷲ شہاب ‘شہا ب نامہ’

 

وہاب اعجاز

شہاب نامہ قدرت اللہ شہاب کی خودنوشت کہانی ہے۔ شہاب نامہ مسلمانان برصغیر کی تحریک آزادی کے پس منظر ، مطالبہ پاکستان، قیام پاکستان اور تاریخ پاکستان کی چشم دید داستان ہے۔ جو حقیقی کر داروں کی زبان سے بیان ہوئی ہے۔ شہاب نامہ دیکھنے میں ضخیم اور پڑھنے میں مختصر کتاب ہے۔ شہاب نامہ امکانی حد تک سچی کتاب ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے کتاب کے ابتدائیہ میں لکھا ہے کہ،

’’میں نے حقائق کو انتہائی احتیاط سے ممکنہ حد تک اسی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس رنگ میں وہ مجھے نظر آئے۔‘‘

جو لوگ قدرت اللہ شہاب کو جانتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ یہ ایک سادہ اور سچے انسان کے الفاظ ہیں۔ قدرت اللہ شہاب نے اس کتاب میں وہی واقعات لکھے ہیں جو براہ راست ان کے علم اور مشاہدے میں آئے اس لئے واقعاتی طور پر ان کی تاریخی صداقت مسلم ہے۔ اور بغیر تاریخی شواہد یا دستاویزی ثبوت کے ان کی صداقت میں شک کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ البتہ حقائق کی تشریح و تفسیر یا ان کے بارے میں زاویہ نظر سے اختلاف ہو سکتا ہے۔عمومی طور پر شہاب نامہ کے چار حصے ہیں ،

1)قدرت اللہ کا بچپن اور تعلیم 2) آئی سی ایس میں داخلہ اور دور ملازمت

3) پاکستان کے بارے میں تاثرات 4) دینی و روحانی تجربات و مشاہدات

ان چاروں حصوں کی اہمیت جداگانہ ہے لیکن ان میں ایک عنصر مشترک ہے اور وہ ہے مصنف کی مسیحائی۔ وہ جس واقعہ کا ذکر کرتے ہیں وہ لفظوں کے سیاہ خانوں سے نکل کر قاری کے سامنے وقوع پذیر ہونا شروع کر دیتا ہے۔ وہ جس کر دار کا نقشہ کھینچتے ہیں وہ ماضی کے سرد خانے سے نکل کر قاری کے ساتھ ہنسنے بولنے لگتا ہے۔

اس کتاب میں ادب نگاری کی شعوری کوشش نظر نہیں آتی۔ بے ہنری کی یہ سادگی خلوص کی مظہر ہے اور فنکاری کی معراج ، یہ تحریر ایمائیت کا اختصار اور رمزیت کی جامعیت لئے ہوئے ہے۔ کتاب کا کے نوس اتنا وسیع ہے کہ اس کی لامحدود تفصیلات اور ان گنت کر داروں کی طرف اجمالی اشارے ہی کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ اشارے بھر پور ہیں۔

قدرت اللہ شہاب کا بچپن اور تعلیم:۔

بچپن اور تعلیم کا دور شہاب کی شخصیت کا تشکیلی دور ہے اس لئے مصنف کی شخصیت سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے علاوہ ان کے ملاقاتیوں کے لئے جداگانہ اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن اس ذاتی زاویے کے علاوہ اس کی ایک تاریخی اہمیت بھی ہے۔ اس حصے میں ڈوگرہ دور کی ریاست جموں کشمیر کا معاشرتی اور سیاسی نقشہ زندہ ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔ اس باب میں شہاب نے بہت سے زند ہ کر دار تخلیق کئے ہیں جو یقینا اردو ادب کے زندہ کر داروں میں شامل ہیں۔ ان کر داروں میں مولوی صاحب کی بیوی ، چوہدری مہتاب دین ، ملازم کریم بخش شامل ہیں لیکن ان میں سب سے اہم اور بہترین کر دار چندرواتی کاہے۔جوانی کے عشق کی اولے ن ہمسفر چندراوتی کا سراپا یوں لکھتے ہیں۔

’’ چندراوتی واقعی سورن کنیا تھی۔ وہ سپر ڈیشز سمیشر قسم کی لڑکیوں کی طرح حسین تو نہ تھی لیکن اس کے وجود پہ ہر وقت سپیدی سحری کا ہالہ رہتا تھا۔ رنگت میں وہ سونے کی ڈلی تھی۔ اور جلد اس کی باریک مومی کاغذ تھی۔ جس کے آر پار نگاہ جاتی بھی اور نہیں بھی جاتی۔۔۔۔جب وہ پانی پیتی ہے تو وہ اس کے گلے سے گزرتا ہوا ایک ایک گھونٹ دور سے گنا جاسکتا ہے۔‘‘

کتاب کا یہ حصہ مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے زندہ کر داروں سے بھرا پڑا ہے اور ہر باب اپنی جگہ ناول یا ناولٹ ہے۔ اس حصے میں اس دور کی معاشرت زندہ ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔

آئی سی ایس اور دور ملازمت:۔

کتاب کا دوسرا حصہ ملازمت سے متعلق ہے۔ اس دور میں وہ بھاگلپور میں اسسٹنٹ کمشنر ، اورنگ آباد اور تملوک میں ایس ڈی او، اور صوبائی سیکرٹریٹ اڑیسہ میں انڈر سیکر ٹری رہے۔ اس دور کی تصویر کشی ، تاثراتی اور تجریدی انداز میں اس چابکدستی سے کی گئی ہے کہ تحریک پاکستان اور مطالبہ پاکستان پس منظر اور جواز ذہنوں پر کم اور دلوں پر زیادہ نقش ہو جاتا ہے۔ شہاب نے اس بارے میں لیکچر بازی نہیں کی بلکہ حالات واقعات کو  زبان دے دی ہے او ر وہ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ برصغیر میں مسلمانوں کی بقا کا پاکستان کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ سرگزشت کا یہ حصہ قیام پاکستان کے ناگزیر ہونے کی دلیل اور دستاویزہے۔ کلکتہ اور بہار میں وسیع پیمانے پر مسلمانوں کی نسل کشی ، کانگرس ہائی کمان کا خفیہ منصوبہ جو شہاب صاحب نے جوش جنوں میں قائد اعظم تک پہنچایا ، یہ سب تحریک پاکستان کا المناک دیباچہ ہے۔

1947ء میں شہاب پاکستان آئے جہاں وہ سیکرٹریٹ میں بھی رہے آزاد کشمیر کی نوزائیدہ حکومت کے سیکرٹری جنرل بھی ، جھنگ کے ڈپٹی کمشنر بھی ، تین سربراہانِ مملکت کے پرسنل سیکرٹری بھی اور ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر بھی۔ یہ حصہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے اس میں قاری پاکستان کے ایک اہم تشکیلی دور میں صاحبان اختیار کل کو حاکموں کی حیثیت سے بھی دیکھتے ہیں اور انسانوں کی حیثیت سے بھی۔ گورنر جنرل غلام محمد، صدر سکندر مرزا اور صدر ایوب کی زندگی کی جھلکیاں شہاب نامہ میں ملتی ہیں و ہ کسی مورخ کی تاریخ میں نہیں ملیں گی۔ ان میں پس پردہ جھانکنے کا لطف آتا ہے۔ اس حصے میں اہم رازوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ کس طرح افسر شاہی کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اقدار میں شامل کیا گیا اور پھر فوج کو اقدار میں آنے کے لئے راہ ہموار کی گئی۔ یہاں صدر ایو ب ،سکندر مرزا ، غلام محمد سب کی محلاتی سازشوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔

اختیار اعلیٰ کی راہداریوں کی قربت کے برعکس ڈپٹی کمشنر کی ڈائری ، انتظامیہ کے ضلعی نظام کے ناسوروں کی پردہ در اور عوام الناس کی بے بسی اور پریشانیوں کی آئینہ دار ہے۔ افسوس کی بات ہے یہ ہے کہ جب سے اب تک خرابیوں کی اصلاح کے بجائے ان میں اضافہ ہی ہوا ہے۔کاش ڈائری کے یہ اوراق ہمارے آئندہ ضلعی حاکموں کے دل میں خوف خدا اور انسانی ہمدردی کا جذبہ پیدا کر سکیں۔

پاکستان کے بارے میں تاثرات:۔

پہلے دو ابواب کے برعکس پاکستان کا مستقبل خارجی واقعات کی داستان نہیں ،بلکہ ایک داخلی رد عمل ہے۔ اس میں شہاب صاحب نے اپنی آرزوؤں کے نقش دکھائے ہیں اور چند سیاسی حقائق کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ یہاں وہ اُن اصولوں کی نشاندہی کرتے ہیں جن پر چل کر پاکستان ایک بہترین اسلامی فلاحی ریاست بن سکتا ہے۔ اور مسلم دنیا کی مکمل رہنمائی اور قیادت کر سکتا ہے۔ وہ اس مختصر باب کے خاتمے پر لکھتے ہیں ،

’’ ہمیں حب الوطنی کا جذبہ نہیں بلکہ جنون درکار ہے۔ جذبہ تو محض ایک حنوط شدہ لاش کی مانند دل کے تابوت میں منجمد رہ سکتا ہے۔ جنون ، جوش جہاد اور شوق شہادت سے خون کو گرماتا ہے اسی میں پاکستان کی سلامتی اور مستقبل کا راز پوشیدہ ہے۔‘‘

دینی و روحانی تجربات و مشاہدات (چھوٹا منہ بڑی بات)

کتا ب کا یہ حصہ کافی متنازعہ رہا ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شہاب صاحب کے دوستوں نے لکھ کر اس کتاب میں شامل کیا ہے۔ یہ اُن کی روحانی زندگی کی داستان ہے۔ ممتاز مفتی ساری عمر اُن کی چوتھی سمت کے متعلق چلاتے رہے۔ اور شہاب صاحب اُس سے مسلسل انکار کرتے رہے لیکن اُنھوں نے اپنے اس آخری باب میں ذکر کیا ہے کہ کس طرح ایک نائنٹی نام کا کر دار ان کو مستقبل کے راز بتاتا تھا اور اُس کو ہدایات دی جاتی تھیں۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو ایک مادی سوچ رکھنے والا شخص ان باتوں کو من گھڑت سمجھتا ہے۔ لیکن اس بار ے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’ماننے کے لئے جاننا ضروری نہیں ‘‘ اور ہم تو اس باب کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ

ع یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو سوکر

شہاب نامہ اسلوب اور بیان کے لحاظ سے ایک شاہکار ہے اس لئے آئیے شہاب نامے کے فنی خصوصیات کاجائزہ لیتے ہیں ،

اسلوب:۔

نثر اسلوب کا اپنا ایک آہنگ ہوتا ہے جس کے شیڈ ز ہر لکھنے والے کے ہاں مختلف ہوتے ہیں۔ یہی آہنگ عبارت میں سلاست پیدا کرتا ہے۔ بعض لکھنے والوں کے ہاں جملوں کی مصنوعی اور پر تکلف ساخت کی وجہ سے عبارت میں جھٹکے پیدا ہو جاتے ہیں جن پر بعض اوقات جدیدیت کا پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور جس طرح جھوٹ بولنے والے کو زیادہ دیر گفتگو کرنا پڑجائے تو کہیں کہیں اس کے منہ سے سچی اور متضاد باتیں بھی نکل جاتی ہیں ، اسی طرح مصنوعی اسلوب زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ جہاں لکھنے والے کو ذرا سی اونگھ آئی اس کا اصلی پن ظاہر ہو گیا اور بلند آہنگ جملوں کے پھسپھسے اور کمزور جملوں کا ٹانکا لگ گیا اور عبارت میں ناہمواری پیدا ہو گئی۔ لیکن قدرت اللہ شہاب کی نثر ایسے فنی نقائض سے بالکل پاک ہے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے نہایت سہولت کے ساتھ اپنا مدعا بیان کیا ہے اور جملوں کی ساخت کو پیچیدہ نہیں ہونے دیا۔مثلاً

’’جمہوریت کا سکہ اسی وقت چلتا ہے جب تک وہ خالص ہو۔ جوں ہی اس میں کھوٹ مل جائے اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہتی۔‘‘

منفر د طرز تحریر:۔

شہاب نامہ میں نجی، جذباتی ، رومانی ، قلبی ، روحانی ، خاندانی ، معاشرتی ، سیاسی ، تاریخی ، دفتری ، قومی ، ملکی ، بین الاقوامی ، ذہنی ، علمی ادبی اور نظریاتی غرضیکہ ہر قسم کے واقعات بیان ہوئے ہیں۔ پھر معمولی بیروں ، ملازموں اور موچیوں سے لے کر مشاہیر عالم اور مملکتوں کے سربراہان تک کا ذکر ہے ، تاہم یہ قدرت اللہ شہاب کے منفرد طرز تحریر اور دلنشیں انداز بیان کا اعجاز ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے واقعات اور معمولی سطح کے افراد بھی قاری کے دل و دماغ میں سما جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر شہاب صاحب کا کمال اور احسان یہ ہے کہ انہوں نے صورتیں صفحہ قرطاس پر یوں منعکس کر دیں ہیں کہ آنے والے زمانے اس سے بہت کچھ اخذ کر سکیں گے۔

’’ صاحب اقتدار اگر اپنی ذات کے گرد خود حفاظتی کا حصار کھینچ کر بیٹھ جائے تو اس کی اختراعی ، اجتہادی اور تجدیدی قوت سلب ہو کر اسے لکیر کا فقیر بنا دیتی ہے۔

خود ستائی سے اجتناب:۔

خود نوشت ایک مشکل صنف ادب ہے کیونکہ اس میں خودستائی کے مواقع جا بجا موجود ہوتے ہیں۔ کسی بھی ایسے واقعے کا بیان جس میں لکھنے والا خود کو ہیرو ثابت کر رہا ہو خواہ کتنا ہی حقیقت پر مبنی کیوں نہ ہو پڑھنے والا شک میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا چنانچہ ایسے موقعوں پر ایک اچھے ادیب کو خاصی پر لطف احتیاط سے کام لے نا پڑتا ہے۔ مثلاً شہاب صاحب آئی سی ایس کی ٹریننگ کے دوران وہ اپنی گھوڑ سواری کے متعلق نہیں کہتے کہ انہیں اس میں مہارت حاصل تھی بلکہ وہ کہتے ہیں ، یہ سارا گھوڑے کا اپنا کمال تھا۔

گیلپ کی آواز پر میر ا گھوڑا خود بخود سر پٹ بھاگنے لگا۔ راستے میں ایستادہ رکاوٹوں کو بھی خود ہی اپنی ہنر مندی سے پھلانگتا چلا گیا۔ آخر میں جب کرنل صاحب نے فگر آف ایٹ (8) بنانے کا آرڈر دیا تو میرے گھوڑے نے ایسے خوبصورت دائرے کاٹ کر انگریزی آٹھ کا ہندسہ بنایا کہ ممتحن نے مجھے شاباش دے کر اچھے نمبروں سے پاس کر دیا۔‘‘

سادہ زبان:۔

شہاب نامہ کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ جہاں جہاں جذبات نگاری ، واقعہ نگاری اور کر دار نگاری کے مواقع آئے ہیں۔ شہاب صاحب نے ادق ، ثقیل ، غیر فصیح اور اجنبی الفاظ کا سہار نہیں لیا۔ بلکہ مشکل ترین معاملات ، نازک ترین خیالات او ر پیچیدہ ترین مفاہیم کو بھی نہایت سہولت اور آسانی کے ساتھ پورے تاثر میں بھگو کر قلمبند کرتے چلے جاتے ہیں مثلاً

’’ایک روز وہ چھابڑی والے کے پاس تاز ہ گنڈیریاں کٹوانے کھڑی ہوئی تو میرے دل میں آیا۔۔۔ ایک موٹے گنے سے چندرا وتی کو مار مار کر ادھ موا کر دوں اور گنڈیریوں والے کی درانتی سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنے دانتوں سے کچر کچر چبا ڈالوں۔‘‘

شوخی و ظرافت:۔

شہاب نامہ کے نثر کی ایک اور خوبی شگفتگی ، شوخی اور ظرافت کا برمحل استعمال ہے جس سے تحریر میں لطف دلچسپی اور خوبصورتی پیدا ہو گئی ہے۔ اور اس ہی کی بدولت اتنی ضخیم کتاب ہونے کے باوجود قاری کسی بھی صورت میں اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا اور اُس کی دلچسپی آخر تک برقرار رہتی ہے۔

’’حکیم گوراندتہ دل کا ایک خاص وصف تھا کہ وہ دکان کی کوئی چیز ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔ ایک با ر روغن بادام کے کھلے منہ والی بوتل میں مردہ چھپکلی نظر آئی۔ حکیم صاحب نے چمٹے سے پکڑ کر اسے نکالا اور کچھ دیر تک اسے بو تل کے منہ سے الٹا ٹکائے رکھا تاکہ چھپکلی سے ٹپکتے ہوئے بادام روغن کے زیادہ سے زیادہ قطرے بوتل میں واپس گر جائیں۔‘‘

’’ جا ن نے مجھے شستہ انگریزی میں دو تین گالیاں دیں۔ میں نے اس کی کلائی مروڑ کر پیٹھ پر ایک لات جمائی اور اسے مرغا بننے کا حکم دیا۔ یہ اصطلاح اس کے لئے نئی تھی۔ میں نے خود مرغا بن کر اس کی رہنمائی کی۔‘‘

کر دار نگاری:۔

قدرت اللہ شہاب عام طورپر زندگی میں موجود کر داروں کو پیش کرتے ہیں اور ان کی پیش کش اتنی عمدہ اور مکمل ہوتی ہے کہ ہم ان کر داروں سے مل کر جد ا نہیں ہوتے۔ شہاب نامہ میں اہم شخصیتوں کی اس طرح تصویر کشی کی گئی ہے کہ چھوٹے سے واقعہ یا وقوعہ سے قاری کر دار کے باطن تک جھانک لیتا ہے۔ مثلاً قائد اعظم سے دو مختصر ملاقاتوں کا ذکر ہے۔ ایک بار جب وہ ایک خفیہ دستاویز حاصل کرنے کر کے ان تک پہنچاتے ہیں اور باوجود اس کے کہ وہ دستاویز نہایت مفید خیال کی جاتی ہے لیکن قائد اعظم کی اصول پرستی اور عظیم شخصیت کی جھلک چند جملوں میں سامنے آ جاتی ہے۔

میں نے فر فر ساری بات کہہ سنائی۔

ویل ویل۔۔۔۔تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔This is breach of trust

غلام محمد ، خواجہ ناظم الدین ، صدر ایوب ، مہاراجہ ہر ی سنگھ اور بہت سی اہم شخصیتوں کا انہوں نے نہایت خوبصورت خاکہ پیش کیا ہے۔

چندراوتی شہاب نامہ کا ایک بے مثال کر دار ہے۔ جس کے اندر محبت کا الاؤ دہک رہا تھا لیکن وہ زبان پر نہ لا سکی اور مر گئی۔ اور اس طرح شہاب صاحب کے اولین افسانے کا عنوان بنی اور جس کا پہلا جملہ یہ تھا۔

’’ جب مجھے چندراوتی سے محبت شروع ہوئی اسے مرے ہوئے تیسرا روز تھا۔‘‘

اس کے علاوہ چند دوسرے کر دار۔ مثلاً ڈپٹی کمشنر کی ڈائری کی بڑھیا جس سے مصنف نے ساری ملازمت کے دوران سولہ آنے کی واحد رشوت قبول کر لی تھی۔ بشیراں طوائف جس نے پیسہ پیسہ جوڑ کر رقم جمع کی تھی اور حج پر جانے کے لئے تڑپ رہی تھی۔ نیپلز کے ہوٹل میں ملنے والی دمشق شام کی دلفریبہ ، اور درجنوں ایسے یادگار کر دار ہیں جنہیں مصنف نے اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ پڑھنے والے کے ذہن میں نقش ہو جاتے ہیں۔

اختصار:۔

اعلیٰ ادبی نثر کی ایک خوبی اس کا ایجاز و اختصار ہے جس کی مثالیں شہاب نامہ میں بکثرت نظر آتی ہیں۔ قدرت اللہ شہاب نے جس طرح کی مصروف ، متنوع بھر پور اور ہنگامہ آرائی کی زندگی بسر کی اور جتنے عرصے پر شہاب نامہ کے واقعات محیط ہیں ، ان کو دیکھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ شہاب صاحب نے تقریباً پچا س برسوں پر پھیلی زندگی کو ہزار گیارہ سو صفحات کی ایک جلد میں کیسے سمو دیا ہے جبکہ وہ اول درجے کے افسانہ نگار تھے اور چاہتے تو محض بملا کماری اور چندراوتی پر ایک ایک ناول لکھ سکتے تھے۔دراصل قدرت اللہ شہاب صاحب نے فیکٹس اور فکشن کو ایک کر دیا ہے۔ یعنی ان کی فکشن کی بنیاد حقائق پر ہے اور وہ حقائق کو فکشن کے فنی اسلوب میں پیش کرتے ہیں۔

مجموعی جائزہ:۔

شہاب نامہ اردو ادب کی ایک ہمیشہ کے لئے زندہ رہنے والی کتاب ہے۔ جس میں فن اور فکر کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ اتنی ضخامت کے باوجود یہ واحد کتاب ہے جو کہ طبیعت پر بوجھ نہیں بنتی بلکہ اس کے ہر صفحے میں ہمیں کسی نئی حقیقت کا انکشاف نظر آتا ہے۔ اس کتاب میں ملکی تاریخی سے لے کر روحانیت تک سب کچھ موجود ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے کوئی مورخ نظرانداز نہیں کر سکتا نہ ادب کا طالب علم۔ پاکستان کو جاننے اور سمجھنے کے لئے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ اب تک اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور پاکستا ن میں یہ سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہے۔ جس کی وجہ شہاب صاحب کا اسلوب اور حقیقت نگاری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے