غزلیں ۔۔۔ فانیؔ بدایونی

                   فانیؔ بدایونی

 

اس کشمکشِ ہستی میں کوئی راحت نہ ملی جو غم نہ ہوئی

تدبیر کا حاصل کیا کہیئے تقدیر کی گردش کم نہ ہوئی

 

اللہ رے سکونِ قلب اس کا، دل جس نے لاکھوں توڑ دئیے

جس زلف نے دنیا برہم کی وہ آپ کبھی برہم نہ ہوئی

 

غم راز ہے اُن کی تجلی کا جو عالم بن کر عام ہُوا

دل نام ہے اُن کی تجلی کا جو راز رہی عالم نہ ہوئی

 

یہ دل کی ویرانی ہی عجب ہے، وہ بھی آخر کیا کرتے

جب دل میں ان کے رہتے بستے یہ ویرانی کم نہ ہوئی

 

انسان کی ساری ہستی کا مقصود ہے فانی ایک نظر

یعنی وہ نظر جو دل میں اُتر کر زخم بنی، مرہم نہ ہوئی

٭٭٭

 

 

عشق نے دِل میں جگہ کی تو قضا بھی آئی

درد دنیا میں جب آیا تو دوا بھی آئی ! !

 

دل کی ہستی سے کیا عشق نے آگاہ مجھے

دل جب آیا تو دھڑکنے کی صدا بھی آئی !

 

صدقے اُتاریں گے ، اسیرانِ قفس چھوٹے ہیں

بجلیاں لے کے نشیمن پہ گھٹا بھی آئی ! !

 

آپ سوچا ہی کئے ، اُس سے ملوں یا نہ ملوں

موت مشتاق کو مٹّی میں مِلا بھی آئی ! !

 

لو ! مسیحا نے بھی ، اللّہ نے بھی یاد کِیا

آج بیمار کو ہچکی بھی ، قضا بھی آئی !

 

دیکھ یہ جادہَ ہستی ہے ، سنبھل کر  فانی

پیچھے پیچھے وہ دبے پاؤں قضا بھی آئی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے