ہندی غزل کو غزل سے مختلف صنف مانیں ۔۔۔ ویریندر جین

 

’ہندی غزل‘ کو غزل سے مختلف صنف مانیں

 

                   ویریندر جین

 

عام طور پر روایتی اردو ادب کے لوگ ہندی غزل کو حقارت کی نظر سے دیکھ ناک بھوں سکوڑتے ہیں۔ ان کے پاس غزل کو ناپنے کا جو پیمانہ ہے اس کے مطابق وہ ٹھیک ہی کرتے ہیں۔ لیکن ان کے اس ناک بھوں سکوڑنے کے بعد بھی آج ہندی غزل دودھوں نہا کر پوتوں پھل رہی ہے، ہاں رہی بات اچھی بری کی، سو بڑے سے بڑے شاعر کی بھی سبھی تخلیقات ایک جیسا معیار نہیں رکھتیں۔ اورہر زبان کے ادیبوں کے معیار میں ایسا امتیاز پایا جاتا ہے۔  آپ کسی زبان کے خراب ادب کو نمونے کے طور پر رکھ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر اس زبان میں لکھوگے تو ایسا ہی ادب برامد ہوگا۔

 

ویسے تو غزل بھارتیندو ہریش چند، میتھلی شرن گپت اور نرالا نے بھی لکھی ہیں لیکن پنڈت رگھو پتی سہائے فراق تو نرالا کو چھوڑ کر باقی کے ہندی  ادیبوں کو ماں بہن کی گالیوں کے ساتھ یاد کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اردو کی جوتیوں کے چرمرانے سے جو آواز آتی ہے وہ ہندی ہے۔ ہو سکتا ہے کسی وقت ان کی بات صحیح رہی ہو اور کھڑی بولی کسی کی مادری زبان نہ ہونے کے باعث ایسی بناوٹی زبان لگتی رہی ہو جس میں دل کی بات کرنا غیر فطری لگنے کے سبب اس کی شاعری پلاسٹک کے پھولوں جیسی لگتی ہو، لیکن کھڑی بولی والی ہندی آج لاکھوں لوگوں کی مادری زبان بن چکی ہے اور وہ اسی میں پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اسی زبان میں ہنسنے رونے لگے ہیں۔ کسی بھی زبان کے ارتقاء میں کچھ وقت تو لگتا ہی ہے۔ کھڑی بولی کو کھڑے ہوئے ابھی زمانہ ہی کتنا ہوا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ ہندی غزل ہندی کوتا کی مرکزی صنف تب ہی بن سکی جب کھڑی بولی نے لاکھوں لوگوں کے روز مرہ کی زندگی میں اپنا مقام محفوظ کر لیا۔

 

بلبیر سنگھ رنگ، رام اوتار تیاگی وغیرہ نے دشینت کمار سے بھی پہلے دیوناگری میں ہندستانی زبان کی غزلیں لکھنا شروع کر دیا تھا پر اس صنف کی ہندی غزل کے روپ میں پہچان دشینت کی  مقبولیت کے بعد اسی طرح کی غزلوں کی باڑھ آنے کے بعد ہی ہوئی۔ ایسا اسلئے بھی ہوا کیونکہ پہلی بار اس صنف کو پرانے پیمانے پر ناپ کر اسے خارج کرنے کی کوششیں ھی ہوئیں۔ ان کوششوں میں اس کی مقبولیت کو نظرانداز کیا گیا۔ کسی بھی مقبول عام صنف کو نقاد کی چھریاں مار نہیں سکتیں  لیکن کئی بار تو اس کی مقبولیت کے آگے وہ چھریاں ہی کند ہو جاتی ہیں۔ ہندی غزل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ادب کی سبھی اصنافِ سخن ترتیب وار رتقا مذہر ہوئی ہوں گی۔اور اپنے استحکام کے لئے سبھی کو پہلے پہلے ایسے ہی  رد کر دئے جانے کے تیر جھیلنے پڑے ہوں گے۔

 

یہ نئی غزل روایتی غزل کے بحر وزن ردیف قافیے مطلعے مقطع کے قانونوں کا لگ بھگ ویسے ہی توڑ رہی تھی جیسا سلوک  کہ آزاد نظم والوں نے کبھی اوزان  کا کیا تھا۔ پر ان لوگوں کی یہ تخلیقات لوگوں کو پسند آئیں و جس بحر و اوزان سے آزاد نئی کوتا نے عام ہندوستانی کو شاعری سے دور کر دیا تھا اس کی دلچسپی پھر سے کوتا کی طرف لوٹی۔ اردو کی روایتی غزل کے اصولوں کو توڑنے والوں نے بھی ناقدین کے اعتراضات کو انکساری کے ساتھ قبول کرتے ہوئے اپنی ان غزل جیسی تخلیقات  کو نیا نام دیا۔ ہندی کے مشہور گیت کار نیرج نے اسے گیتیکا کہا تو کسی مزاحیہ کوی نے اسے ہزل کا نام دیا۔ طنز نگاروں نے اسے وینغزل کہا تو کسی نے سجل۔ لیکن رسائل نے اسے دیو ناگری میں غزل مانتے ہوئے محض ہندی غزل یا غزل کا نام دے کر ہی چھاپا۔ آزاد نظم /نئی کوتا کی طرح اس کا کوئی فارم طے نہیں ہوا اور یہ ہر طرح کی شکل و صورت میں ڈھل کر سامنے آئی۔ دو ایک دوسرے سے مختلف سطروں/ مصرعوں کے پانچ سات شعر نما جوڑوں کو ہندی غزل مانا گیا۔ یہ دیوناگری میں ہندی بھاشا کے شبدوں کی بہتات والی ’غزل‘ نہیں تھی جیسیی کہ کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہے۔ یہ غزل نما وہ شعری تخلیقات ہیں جو صرف بیانیہ کی  بنیاد پر ہی اپنی کامیابی کے فارمولے کھوجنے بے سہارا کھلے میں نکل آئیں اور زندگی کا ثبوت دے رہی ہیں۔ ایسی غیر محفوظ حالت میں اس کا زندہ بنے رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس میں جن جذبات و احساسات  کے سا تھا جڑے ہونے کی طاقت ہے اور سرکاری حوصلہ افزائیاں، کتابی اشاعت  اور انعامات کے لالچی ٹکڑوں کے بنا بھی یہ اپنا وجودبچائے ہوئے ہے۔

 

دشینت کمار نے پورے وشواس کے ساتھ اس میدان  میں اپنے قدم رکھے ہوں گے۔ یہ بات نہ صرف ’سائے میں دھوپ‘ کے ان کے پیش لفظ سے ہی ظاہرہوتی ہے بلکہ ان کے لا تعداد اشعار ھی تنقیدوں کے جوابات دیتے سے لگتے ہیں۔ پیش لفظ کے اقتباسات دیکھیے

 

“کچھ اردو داں دوستوں نے کچھ اردو الفاظ کے استعمال پر اعتراض کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شبد ’شہر‘ (शहर)نہیں ہوتا ہے ’شہر‘ (शह्र) ہوتا ہے، وزن (वज़न)نہیں ہوتا ہے وزن(वज़्न) ہوتا ہے۔….کہ میں اردو نہیں جانتا لیکن ان الفاظ کا استعمال یہاں لا علمی میں نہیں، جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا کہ ’شہر‘ کی جگہ ’نگر‘ لکھ کر اس خامی سے نجات پا لوں، لیکن میں نے اردو شبدوں کو اس روپ میں استعمال کیا ہے جس روپ میں وہ ہندی میں گھل مل گئے ہیں۔۔۔۔۔ یہ غزلیں اس بھاشا میں کہی گئی ہیں، جسے میں بولتا ہوں۔۔۔۔کہ غزل کی صنف ایک بہت پرانی، لیکن قوی صنف شاعری ہے، جس میں بڑے بڑے اردو مہارتھیوں نےشاعری تخلیق کی ہے۔ ہندی میں بھی مہاکوی نرالا سے لے کر آج کے گیتکاروں اور نئے کویوں تک بے شمار کویوں نے اس صنف کو آزمایا ہے۔ لیکن اپنی صلاحیتوں اور حدود کو جاننے کے بابجود اس صنف میں اترتے ہوئے مجھے آج بھی جھجک تو ہے، پر اتنی نہیں جتنی ہونی چاہئیے تھی۔ شائد اس کا کارن یہ ہے کہ رسائل  اور مشاعروں میں  اس مجموعے کی کچھ غزلیں پڑھ کر اور سن کر مختلف ازموں(Isms)، دلچسپیوں اور گروہوں کے اہم ناموں نے اپنے خطوط، رایوں اور خیالات سے مجھے ایک خوش گوار احساسِ خود اعتمادی دیا ہے۔‘‘

 

اگر ہم دشینت کو آج کی ہندی غزل کا سفیر مانتے ہیں تو درج بالا سطروں کو اس صنف کے مآخذمان سکتے ہیں جن کے مطابق بول چال اور برتاؤ کی بھاشا کا استعمال اور اپنے بیانیہ کی  بنیاد پر اور مقبولیت ہی اس کے زندگی کے عناصر ہیں۔ ان کے ہی کچھ شعر دیکھیں

 

میں جسے اوڑھتا بچھاتا ہوں

وہ غزل آپ کو سناتا ہوں

 

دشینت کی غزلیں ایک عوامی انقلاب  کے لئے ساتھ جنتا کے ساتھ متحد ہوتی ان کے گلے سے لپٹتی غزلیں ہیں

 

مجھ میں رہتے ہیں کروڑوں لوگ چپ کیسے رہوں

ہر غزل اب سلطنت کے نام ایک بیان ہے

 

اور اس انقلاب  کے لئے غزل کے کردار کا جواز بتاتے ہوئے وہ کہہ رہے ہیں

 

صرف شاعر دیکھتا ہے قہقہوں کی اصلیت

ہر کسی کے پاس تو ایسی نظر ہوتی نہیں

 

وہ محض انفرادی درد تک محدود غزل کے شاعر نہیں ہیں بلکہ  ان کی اوڑھنے بچھانے والی غزلیں ہواؤں میں گھل کر بھی سانسوں کے ذریعہ زندگی کے ساتھ ملتی ہیں

 

جن ہواؤں نے تجھ کو دلرایا

ان میں میری غزل رہی ہوگی

 

ان کی غزلیں اونگھے ہوئے لوگوں کو جگانے کے لئے بھی کام کرتی ہیں

 

اب تڑپتی سی غزل کوئی سنائیں

ہم سفر اونگھے ہوئے ہیں ان منے ہیں

 

ان کی غزلیں فارم کی جکڑ بندی کو توڑ کر آزاد روپ سے برتاؤ کرنا چاہتی ہے کیونکہ صرف ہنگامہ کھڑا کرنا ان کا مقصد نہیں ہے بلکہ وہ صورت  حال بدلنا چاہتے ہیں اس لئے کہتے ہیں کہ

 

جس طرح چاہو بجاؤ اس سبھا میں

ہم نہیں ہیں آدمی، ہم جھنجھنے ہیں

 

وہ پرانے غزل کاروں پر طنز کرتے ہوئے نئے لوگوں کو ہوشیار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ

 

اس دل کی بات کر تو سبھی درد مت انڈیل

اب لوگ ٹوکتے ہیں غزل ہے کہ مرثیہ

 

ہندی غزل کے بابا آدم کے یہ سیدھے مکالمہ کرتے اشعار ہندی غزل کی ابتدا ہیں جو اسے پرانی غزل سے الگ کرتے ہوئے ایک نئی صنف کا روپ دیتے ہیں بھلے ہی وہ کسی بھی رسم الخط میں لکھی گئی ہو۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے