شجاع خاور کی شاعری یا قلندر کا نعرۂ مستانہ ۔۔۔ اسیم کاویانی

 

 

شجاع خاور کی شاعری یا قلندر کا نعرۂ مستانہ

 

 

                   اسیم کاویانی

 

 

قرۃ العین حیدر نے کبھی کہا تھا کہ شجاع خاور کی شاعری میں قلندروں کی سی گونج سنائی دیتی ہے۔ سچ پوچھیے تو شجاع خاور کی شاعری کے بارے میں اس سے بہتر رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ قلندر کے کردار کی بوالعجبی مشروط ہے ان اوصاف سے کہ وہ خود کا ہو نہ کسی اور کا۔ وہ زمانے ہی سے لاپروا نہ ہو، اپنی ذات سے بھی بے نیاز ہو۔ جو دنیا ہی سے ہنسی ٹھٹّا کرنا نہ جانتا ہو بلکہ اپنے وجود کو بھی ہنسی میں اڑا دینے کا ظرف رکھتا ہو۔ جو دوسروں ہی کے دلوں پر طنزو تمسخر اور طعن و تشنیع کے تیر و تبر چلانا نہ جانتا ہو بلکہ ان ہی حربوں سے اپنا سینہ فگار کرنے کا بھی جگر رکھتا ہو۔ وقت اپنی دانست میں چاہے اُسے چھوڑ کر آگے بڑھ جائے، لیکن وہ کج کلاہ زمانے کو سیدھا کرنے کے خیال سے باز نہ آئے۔ گرچہ وہ خود دریدہ داماں ہو، لیکن دوسروں کے جیب و گریباں کو رفو کرنے کا سودا رکھے۔ جو بھری بزم میں تنہا ہو اور تنہائی میں محفل سجالے۔ جو پانے سے زیادہ کھونے میں اور جیتنے سے زیادہ ہارنے میں خوشی محسوس کرے، غرض کہ قلندر کے کردار کے ساتھ کچھ ایسی ہی انوکھی اور نرالی باتوں ، روایتوں کا تصور ذہن میں ابھر آتا ہے۔

شجاع خاور کی شاعری میں بھی ایسے ہی نرالے اور انوکھے رنگ گھلے ملے ہیں کہ وہ ایک قلندر کے نعرۂ مستانہ میں بدل گئی ہے۔ مشہور ہے کہ قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید، لیکن چونکہ یہ ایک قلندر کی نظر ہے اس لیے آپ کو حیرتوں سے دوچار کر دیتی ہے۔ مثلاً جب زمانے بھر میں شیشے ٹوٹنے پر اوروں کی نظریں اُن شیشوں پر لگی ہوتی ہیں تو ہمارے شاعر کے لیے ’تنہا ذات پتھر کی‘ مرکزِ نگاہ بن جاتی ہے۔ (ع زمانے بھر کے شیشے اور تنہا ذات پتھر کی) دوسروں کو ہمیشہ دریا کے پار اترنے کے لیے پل کی چاہ رہی ہو گی، اسے فکر ہے کہ ع بیچ دریا ڈوبنا بھی ہو تو اِک پل چاہیے۔ وہ زندگی کو محض اس لیے جی لینا گوارا کرتا ہے اور موت سے روگرداں ہے کہ چارہ گر کا اعتبار بنا رہے۔ (ع موت برحق ہے مگر اس چارہ گر کی سوچنا) جو کراماً کاتبین کو نیک و بد کا فیصلہ کرنے میں متذبذب دیکھ کر خود ہی اپنا نامۂ اعمال بھر لینا چاہے۔ (ع چل شجاع اب خود ہی اپنا نامۂ اعمال بھر) جسے مقتلوں کی کثرت پر حیرت نہ ہو، البتہ یہ حسرت ہو کہ ع جسم بے چارے کو بخشا ہی نہیں سر دوسرا! جو اپنی ہجر و تنہائی کی داستان بیان کرنے کا کام چارپائی کے شکستہ بان سے لے (ع آؤ میری چارپائی کا شکستہ بان دیکھو) اور جس کی آوارگی کی تان دشت و صحرا کی بجائے گھر پہنچ کر ٹوٹتی ہو ( ؎اپنے ہی گھر پہ آ نکلتے ہیں /  ہم کو آوارگی نہیں آئی) اور جو صحرا میں ہو تو دیوار اٹھانے کی سوچے۔ ایسا ہی البیلا شاعر ہے شجاع خاور۔

مجموعی طور پر ہمارے ادب میں شاعری کی بہتات رہی ہے اور اس کا بیش از بیش حصّہ یکسانیت کا شکار رہا ہے۔ چوں کہ نوواردانِ بساطِ سخن میں عام طور پر اپنے پیشروؤں کی پیروی کا چلن رہا ہے، اس لیے اس یکسانیت کی تکرار نے مزید خرابی پیدا کر دی، اس بنا پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ہماری شاعری کا زیادہ تر ’سرمایہ‘ بہت کم وقت میں گمنامی کے کوڑے دان کی نذر ہو جاتا ہے۔ انسانی فطرت تازگی اور نئے پن کی جویا رہی ہے اس نے روایت سے ہٹ کر نئے تجربات و خیالات کو بالعموم خوش آمدید کہا ہے اور بشرط پائیداری وہ تجربات و خیالات ہمارے ادب کا حصّہ بنتے گئے ہیں ۔ جن ادبی روایات نے وقت کے مزاج کے ساتھ اپنے عناصر میں ترک و تبدیلی کو راہ دی اور خود کو مستحکم کیا، وہ برقرار رہیں ، باقی مٹ گئیں ۔

شجاع خاور اردو کے اُن باکمال شاعروں میں سے ہیں ، جنھیں قدیم کا علم ہے اور جدید کی جستجو اور ایجاد و ابداع سے اُن کی فطرت کو ایک خاص مناسبت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے نہ صرف نئے نئے مضامین باندھے بلکہ ریختے کی نئی دیوار بھی اٹھائی یعنی اپنا ایک نیا لب و لہجہ وضع کیا۔ کوئی روایتی بات کہی بھی تو بہ اندازِ دگر، ایک انوکھے پن کے ساتھ۔ ویسے مجموعی طور پر ان کی شاعری انحراف کی شاعری ہے۔ کہیں کہیں تو شِدّت انحراف میں ان کی صہبائے سخن کی تندی سے زبان کا آبگینہ تک پگھلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

اُن کے کلام میں جا بجا طنزو تمسخر جاگزیں اور ایک قلندرانہ بے پروائی چھائی ہوئی ملتی ہے اور یہ رنگ مزید تابناک اس بنا پر بھی ہو گیا ہے کہ انھوں نے رنج و راحت کے عناصر اپنی شاعری میں سموئے تو ہیں لیکن ع شاد باید زیستن، ناشاد باید زیستن کے مصداق خود کو ان کا ہدف کم ہی بنایا ہے۔ زیادہ تر ان کا کردار ایک مشاہد یا مدبّر Statesman کا سا نظر آتا ہے اور اس وجہ سے ان کے لب و لہجے میں ایک معروضیت آ گئی ہے۔ معروضی ہونے کی بنا پر اکثر یہ لہجہ بے لاگ ہو گیا ہے اور بے لاگ ہونے کی وجہ سے کہیں کہیں سفّاک بھی۔

اردو شاعری کا روایتی عاشق جو بیچارہ شاعر ہی ہوتا ہے، عام طور پر ہمیں خود رحمی کا مارا ملتا ہے۔ دل گرفتہ و اشک بار، رہینِ ستم ہائے روزگار، محبوب کی ایک نگاہِ لطف کا اُمیدوار، عشق میں ہمیشہ جان دینے کے لیے تیار مگر کوچۂ حسن میں ہوتا رہتا ہے ذلیل و خوار۔ مومن جیسا شاعر بھی کسی کے نقشِ پا کے سجدے میں کوچۂ رقیب تک میں سر کے بل جانے کی ذلالت گوارا کر لیتا ہے۔ دوسری طرف دیکھیے تو جو معشوق ہے، ہر وقت اُس کے تیور بگڑے ہوئے اور تیوریاں چڑھی ہوئی ملتی ہیں ۔ وہ چلتا ہے تو قیامت ساتھ چلتی ہے، اُٹھتا ہے تو حشر اُٹھا دیتا ہے۔ شاعر بے چارہ اُس کی بارگاہِ ناز میں ، اُس کی مدح و توصیف میں زمین آسمان کے قلّابے ملائے جاتا ہے، لیکن اس کا مزاج ہی نہیں ملتا۔ یہ ہماری روایتی شاعری کے عاشق و معشوق کا ایک مثالی تصور ہے، جس کی سخن طرازی میں ہمارے شعرا نے دیوان کے دیوان سیاہ کر دیے ہیں اور طرفہ تماشا یہ کہ اکثر اُن کے معشوق کی جنس تک کا پتا نہیں چلتا۔ اُدھر جرأت نے پھکڑ پن کے ساتھ تو اِدھر داغ نے شوخ بیانی کے ساتھ گوشت پوست کے معشوق کی تانیث کا صاف صاف تعین کر دیا تو خدا خدا کر کے یہ حجاب ٹوٹا اور کاکلِِ پیچاں کو سبزہ خط سے جدا کر کے دیکھنے کا یارا ہوا، لیکن اِس سے ہماری گلستانِ شاعری کے ’بابِ پنجم‘ کے مضامین پوری طرح تو نہیں بدل گئے! ہاں ذرا رنگِ سخن اور اسلوب بدلتا گیا۔ ہماری عشقیہ شاعری کے مضامین و مواد میں نمایاں تبدیلیاں ترقی پسند تحریک کے آغاز سے دیکھی جا سکتی ہیں ۔ تفصیل کا یہاں محل نہیں ، مجھے بس اتنا کہنا ہے کہ ان تبدیلیوں کا نقطۂ انتہا شجاع خاور کے یہاں نظر آتا ہے، بلکہ یہ تک کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے ہماری شاعری کے Typicalعاشق و معشوق کے تصور کو بالکل الٹ کر رکھ دیا ہے، اس حد تک کہ عاشق کی جگہ معشوق نے لے لی ہے اور معشوق کے مقام پر عاشق پہنچ گیا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اردو شاعری کے عاشق کی صدیوں پرانی بے چارگی و نامرادی کا بدلہ لے رہے ہوں ۔ اس دھن میں کہیں کہیں ان کا یہ جذبہ تصغیرِ حسن سے گزر کر تحقیرِ حسن تک پہنچ گیا ہے:

 

ہم ہی خائف تھے کسی بات پہ دنیا بھر سے

ورنہ ایسا تو فسوں تیری اداؤں میں نہ تھا

 

اُن سے یوں تشبیہ دیتا ہوں کہ وہ بھی دور ہیں

ورنہ کیا ملتا ہے تجھ میں اور مہرو ماہ میں

 

پہلے تو کبھی ڈھنگ سے ملتا بھی نہیں تھا

اور اب وہ مرے عشق میں بیمار تلک ہے

 

ہمارا روایتی عاشق عشق کی ناکامی یا مہجوری میں دنیا کے لیے کسی کام کا نہیں رہتا تھا، لیکن شجاع کی بات کا ڈھنگ ہی کچھ اور ہے:

 

اپنے ذمّے کارِ دنیا ہم نہ لیتے

یہ تو تجھ سے چھوٹ جانے پر لیا ہے

 

آپ نے اُس غریب مصور کا لطیفہ تو سنا ہو گا، جس سے ایک امیر حسینہ نے اپنے آغازِ شباب میں اپنی تصویر بنوائی تھی۔ کوئی بیس سال بعد اُس حسینہ کا اُس مصّور سے دوبارہ سامنا ہوا تو اُس نے پھر اپنی ایک تصویر بنوائی، لیکن تصویر دیکھ کر یہ اعتراض جڑ دیا  کہ ’یہ تصویر اتنی خوبصورت نہیں بنی، جتنی خوبصورت تم نے پہلے بنائی تھی۔ ‘ مصّور نے انکسار کے ساتھ جواب دیا، ’لیکن مادام! یہ بھی تو دیکھیے کہ میں اس وقت بیس سال زیادہ جوان تھا۔ ‘ لیکن شجاع خاور ایسی کسی ڈپلومیسی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے:

جمال پہلے کی مانند گو نہیں اُس کا

میرا بیان مرے ہی بیان جیسا ہے

غالب نے اپنے محبوب کی بے نیازی کی عادت کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کا چلن گوارا کر لیا تھا، لیکن بدلے ہوئے زمانے میں خاور نے بڑا عجیب اور خاردار لہجہ اختیار کر لیا ہے:

 

خیر اس کی بے نیازی تو تسلیم ہے مگر

اس کے بغیر میں بھی کوئی مر نہیں گیا

 

ساماں اُداسیوں کا بہت گھر میں تھا شجاع

ایک اُس کی آرزو پہ گزارا نہیں کیا

 

ہزار رنگ میں ممکن ہے درد کا اظہار

ترے فراق میں مرنا ہی کیا ضروری ہے

 

تم آ گئے اس واسطے مجبور ہوں ورنہ

تجدیدِ تمنّا مِرے پندار کا خوں ہے

 

اردو شاعری کے شیدائیوں میں شجاع خاور کی پہچان اسی تیکھے طرزِ سخن کی بِنا پر قائم ہے، اگرچہ حسن و عشق کی دنیا میں ان کے لہجے کا یہ زہر خند، ان کے پندار کا یہ تفوق کبھی کبھی یہاں تک گُل کھلاتا ہے کہ یہ تک کہہ بیٹھتے ہیں :

ہوتا نہیں کچھ اپنی دعاؤں میں اثر دیکھ

جا آرزوئے وصل، کوئی دوسرا گھر دیکھ

اور یہی وہ مقام ہے جہاں ہماری تہذیبِ عاشقی کی مسلّمہ قدریں لرزتی کانپتی نظر آتی ہیں ، لیکن جہاں وہ ان قدروں کی حدود سے تجاوز نہیں کرتے تو کلاسیکی رنگ میں رچے بسے دل آویز اشعار کا کوئی در ان پر بند نظر نہیں آتا، غم عشق کی بات ہو یا غم روزگار کی۔

 

اس کے بیان سے ہوئے ہر دل عزیز ہم

غم کو سمجھ رہے تھے چھپانے کی چیز ہم

 

سب کا ہی نام لیتے ہیں اِک تجھ کو چھوڑ کر

خاصا شعور ہے ہمیں وحشت کے باوجود

 

خانہ بدوشیوں کا ستایا ہوا تھا وہ

دو گز زمیں ملی تو وہیں پر پڑا رہا

 

جو طنز کیا کرتا تھا ساقی کے چلن پر

وہ رند بھی محتاج بس اِک جام کا نکلا

 

اب تو خیر اپنی طبیعت کا بھی معلوم نہیں

پہلے ہم سارے زمانے کی خبر رکھتے تھے

 

یہ کائنات تو کِسے ملتی ہے چھوڑیے

اپنی ہی ذات سے نہ ہوئے مستفیض ہم

 

اِس درجہ احتیاط بھی اچھی نہیں شجاع

جب کچھ نہ بن پڑے تو میاں رو لیا کرو

 

اور یہ گراں بہا شعر جو اُنھوں نے اس وقت کہا تھا جب ان کی شاعری کی عمر تین سال کی بھی نہیں تھی:

 

میں تو منتظر تھا اپنا، تِری رہ گزر پہ لیکن

کوئی کیا کہے انھیں جو، تیرا انتظار سمجھے

 

اپنے الٰہیاتی آسمانِ فکر میں وہ غالب و یگانہ کے آس پاس پرواز کرتے نظر آتے ہیں ۔ اس کی وجہ وہی اُن کا بے محابا پیرایۂ اظہار اور بے لاگ اندازِ فکر ہے۔ یوں بھی عام طور سے خدا اور خدائی سے، زہد و پارسائی سے ہمارے شاعروں کی ذرا کم ہی یاری دوستی رہی ہے اِلّا کسی نے حمد و نعت گوئی کا پیشہ اختیار نہ کر لیا ہو! شجاع خاور کو نہ عقیدوں میں پناہ ڈھونڈنا پسند ہے اور نہ عاقبت کے اندیشوں میں گرفتار ہونا، بلکہ وہ تو اسی ارضی خاک کو اپنا ملجا سمجھتے ہیں اور ماوا بھی۔ انھیں کسی مسیحا کی مسیحائی کی بجائے دوائی پر مدار کرنا زیادہ مناسب نظر آتا ہے:

 

مِرے عقیدے ہوئے ختم اور ترا اعجاز

مَیں نہ مر جاؤں مسیحا کوئی دوائی دے

 

فکر عاقبت میں ہم حال کو گنوا بیٹھے

روح کو بچانے میں جل گیا بدن سارا

 

الحاد سے مہنگا مجھے ایمان پڑے گا

چھت ٹوٹی تو کمرے میں فلک آن پڑے گا

 

خالق و مخلوق کے تعلق کا راز ازل سے آج تک سر بستہ پڑا ہے اور کسی دانا کی دلیل، کسی مصلح کے کلام اور کسی فلسفی کی فکر سے اس پر سے پردہ نہ اٹھایا جا سکا۔ شجاع خاور جانتے ہیں کہ سب ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں ۔ شجاع کا مزاجِ شعری تصوف و طریقت کے عالمِ بالا میں اڑانیں بھرنے یا غمِ جہاں سے چھپ کر سکون سلبی کے پہلو میں منہ چھپانے پر قطعاً آمادہ نہیں ہوتا، اسی لیے وہ اپنے شکوک و شبہات کا بے تکلفانہ اظہار کیے جاتے ہیں :

 

کسی کا راز، کسی کی زباں ، کسی کے گوش

ہمیں جچا نہیں عرفانِ ذات کا قصّہ

 

ہم صوفیوں کا دونوں طرف سے زیاں ہوا

عرفانِ ذات بھی نہ ہوا، رات بھی گئی

 

’رات بھی گئی‘ میں زبان ہی کا نہیں ، (سربستہ) بیان کا بھی ایک مزہ ہے۔ کوئی اسے شاعر کی الحادی فکر کا ثمرہ کہے یا جو چاہے سمجھے، میں تو اسے اُس کی حقیقت پسندی کہوں گا کہ اسے آسمان کے عوض بھی زمین کا سودا منظور نہیں اور فرشتوں سے زیادہ انسان پیارے لگتے ہیں :

 

ذرا سا وقت گزارا تھا آسمان کے ساتھ

لگی اِک عمر زمیں کوحساب دینے میں

 

اپنے ہی جیسے زمیں پر لوگ ہیں

آسماں سے ہے یہاں بہتر گزر

 

جب اسے خدائی کا معّمہ سُلجھتا نہیں دِکھتا تو بغیر کسی پس و پیش کے کہہ اُٹھتا ہے ع آؤ سجدہ ریزی کو کہہ لیں اب خدا سازی۔ اسی لیے یہ دیکھ کر کوئی حیرت نہیں ہوتی کہ شجاع کے یہاں جہاں جہاں خدا کا ذکر آیا ہے، وہ اس کے اقرار پر کم اور انکا ر پر زیادہ اصرار کرتا ہے۔ اس کا کلّا تو ان کی طویل نظم ’’دوسرا شجر‘‘ کی تخلیق کے دوران ہی میں پھوٹ چکا تھا، جس کے برگ و بار بعد میں ان کی غزلوں میں نمو پذیر ہوئے اور بتدریج سرسبز ہوتے گئے:

 

اِس عہد میں کیا رکھا تھا، جس پہ بسر ہوتی

کیا ہوتا جو ورثے میں ملتا نہ خدا مجھ کو

 

انھوں نے اپنے رجحان فکر کو کہیں یوں واضح کیا ہے کہ  سرکشی سے مجھے لگاؤ سا ہے  ؍  خود سری سے مجھے محبت ہے  اور اس خود سری و سرکشی کی کتنی ہی مثالیں ان کے کلام میں مل جائیں گی۔ ’واوین‘ کی ابتدائی دعائیہ نظم کا ایک شعر ہے:

 

یا الٰہی تو اگر ہے تو ہویدا ہو جا

اور نہیں ہے تو ابھی وقت ہے پیدا ہو جا

 

ایک اور نظم کا شعر ہے:

 

یا توجہ میری دنیا کی طرف پوری دے

یا پھر ایک اور خدا کی مجھے منظوری دے

 

صوفی حضرات کہتے رہ گئے کہ ع آں را کہ خبر شد، خبرش بازنیآید، شجاع کا فیصلہ تو یہ ہے:

 

اس کو پا جاؤ تو جانو گے شجاع

وہ کہیں بھی نہیں پایا جاتا

 

دھیان رہے کہ الٰہیات سے انحراف و انکار کے دو چار شعر تو اکثر شاعروں کے یہاں مل جائیں گے، میں اس ضمن میں ان کے غالب فکری رویّے کی طرف اشارہ کر رہا ہوں ، جس کی تائید میں مذکورہ مثالوں سے کہیں زیادہ مثالیں اور پیش کی جا سکتی ہیں ۔

کر کے گارڈ نے اپنے بارے میں کہیں کہا تھا کہ میں دو مُکھی جی نی یس ہوں ۔ میں ایک چہرے سے ہنستا ہوں اور ودسرے چہرے سے روتا ہوں ۔ یوں اس کا کام تو آسان ہو گیا، لیکن شجاع کی شاعری میں چونکہ فرحت و غم کے عناصر یوں مدغم ہیں کہ کم ہی جدا ہوتے ہیں ، اس لیے ان کی فکر و نظر میں ایک ماورائیت آ گئی ہے۔ اسی ماورائیت کو اپنے لب و لہجے کی بے ساختگی اور بے تکلفی سے آمیز کر کے انھوں نے کہیں سنجیدہ ماجرے کو بشاشت کے ساتھ اور کہیں شوخ واردات کو پوری سنجیدگی کے ساتھ اِس طرح پیش کیا ہے کہ مانوس منظروں میں بھی طرفگی و تازگی ، شگفتگی و دل کشی کے نئے رنگ بھر دیے ہیں اور ان کا یہ انداز دودھ میں بالائی کی طرح صرف سطح پر تیرتا ہوا نہیں بلکہ شکر کی طرح گھلا ملا بیشتر کلام میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے اس رنگ سخن کی دل آویزی کو دیکھ کر ایک خیال آتا ہے کہ اگر شجاع شوخ نگاری اور ظرافت کو کلیتاً اختیار کر کے نظم گوئی کے میدان میں اُترتے تو اس باب میں ہمارا پچھڑا ہوا ادب کتنا مالامال ہو جاتا! خیر، غزل کے فارم اور آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے بھی انھوں نے اپنے دھوپ چھان و جیسے احساسات کو شعروں میں سمو کر غضب کے تیرو نشتر چلائے ہیں :

 

کائناتی غم بھی ذاتی مسئلوں کی بات ہے

ٹھیک تھا سب کچھ ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے

 

ممکن ہے کل کھلے کہ یہ سب کچھ فضول تھا

پس آج کے بھی کام کو کل پر اٹھا کے رکھ

 

وہ شہر تو آباد تھا لوگوں سے ہمیشہ

ہاں لوگ ہی ایسے تھے کہ آباد نہیں تھے

 

پار اترنے کے لیے تو خیر بالکل چاہیے

بیچ دریا ڈوبنا بھی ہو تو اک پل چاہیے

 

خرابی خانۂ دل کی شجاع کیسے نہ ہو

میاں مکان کسی کا ہے اور مکین کوئی

 

تفسیر کائنات سے یارب مفر ملے

کرنے کو کوئی کام ہو، رہنے کو گھر ملے

 

کہیں کہیں انھوں نے اپنی ہنسی کو غم کے پھندے سے چھڑا لیا ہے تو ظرافت کے جوہر بھی دکھائے ہیں :

 

لوگوں نے ہمیں شہر کا قاضی بنا دیا

اس حادثے نے ہم کو نمازی بنا دیا

 

ذرا محتاط ہو کر گفتگو کرنا

ہمارے سلسلہ اللہ میاں تک ہے

 

شجاع تیری گنہ گاری کے پیچھے

ہمیں حج کا ارادہ لگ رہا ہے

 

عید کے جاتے ہی واپس آ گئے رمضان دیکھو

روزے دارو منہ نہ کھولو، بس خدا کی شان دیکھو

 

’رمضان دیکھو‘ سے مراد ایسے حالات ہیں ، جب کھانے کی تنگی ہو۔ اس تناظر میں ’منہ نہ کھولو‘ کا ٹکرا جو لطف رکھتا ہے، اس کی داد دیے ہی بنتی ہے۔

شجاع خاور کی غزلوں میں غالب کی شوخ نگاری کا رنگ ایک افراط کے ساتھ (جسے ہر جگہ مستحسن نہیں کہا جا سکتا)اور میر کی دیوانگی اور شوریدگی ایک جدید آہنگ کے ساتھ نظر آتی ہے اور داغ کی سلاست زبان کچھ اور وسعت بیان کی چاہ میں کہیں کہیں پر کرخنداری اردو تک کو گلے لگاتی مل جاتی ہے، (ع اِک آتش بدن نے ایسی نوازش کری، ع حاکم کے ہر اِک حکم پہ کہتے ہیں اپن نا‘) اگرچہ خود انھوں نے انیس کی فصاحتِ زبان کے قتیل ہونے کا ذکر (’رشکِ فارسی‘ کے دیباچے میں ) کیا ہے۔

اِن نابغان عصر کے اعترافِ فن میں شجاع نے چند ایسے شعر بھی کہے ہیں کہ جن میں ان کے کلام کا نمایاں فطری عنصر جھلک رہا ہے۔

 

ساری دنیا کر رہی ہے اس کی صحرا میں تلاش

اور دیوانہ چھپا ہے میر کے دیوان میں

 

وصل کس کو نصیب ہوتا ہے

داغ کے شعر پر گزارا کر

 

قلم کا لطف اگر اِک انیس پر ہو جائے

تو پھر ہزار دبیروں سے کچھ نہیں ہوتا

 

بندشِ اشعار میں صفت ائے یا مصدر یا افعال و متعلقاتِ افعال، اکثر اُن کی صورت گری اِس طرح کی ہے کہ کہیں کہیں تو متحرک تک ہو اُٹھے ہیں :

 

ہم اپنے آپ میں مست رہتے وہ تو یوں کہو

وجود کا سِرا ترے خیال میں اٹک گیا

 

میری آرزوؤں کی بلندیوں سے زمین کو دیکھو گے تو ڈر لگے گا

بڑی احتیاط سے اڑ رہا ہوں کہ آسماں سے نہ سر لگے

 

امیدیں دستک دیں گی تو

اندیشے باہر جائیں گے

 

برا سا لگتا ہے جب بھی دیکھو، یہ اپنی ضد پر اڑا رہا ہے

حقیقتوں نے ادھیڑ ڈالا، خیال اوندھا پڑا ہوا ہے

 

جواب تیار کر کے نکلو

سوال باہر کھڑا ہوا ہے

 

لیکن کسی کسی جگہ ان کے اس آرٹ نے بڑی مضحکہ خیز صورت اختیار کر لی ہے۔ مثلاً:

 

اگر یہ سچ میں ہو گا تو ہم تم کھُل نہ پائیں گے

اِدھر ہو یا ادھر ہو، پر تعلق درمیاں کیوں ہو

 

شجاع خاور کی نظمیں ان کی شاعری کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہیں ۔ جب وہ لیلا ے غزل کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر ہو گئے تو پھر ان کی توجہ نظم کی طرف نہ رہی۔ اس کے باوجود ان کی ایک طویل نظم ’دوسرا شجر‘ ہی ان کا نام ایک نظم گو کی حیثیت سے تاریخ ادب میں محفوظ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ آئیے ان کی کچھ نظموں پر ایک نگاہ ڈالتے چلیں ۔

’اے تاج!‘ میں انھوں نے تاج کے سلسلے میں ساحر اور شکیل کے متصادم نظریوں (ع ہم غریبوں کی محبت کا اُڑایا ہے مذاق، ع ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے۔ بالترتیب) کے درمیان، دونوں انتہاؤں سے بچ کر راہ نکالنے کی کوشش کی ہے اور ان کی یہ نظم توازنِ فکر کے ساتھ کی گئی ایک کامیاب کوشش ہے۔ ان کی ایک اور نظم ’پچھل پائی‘ بے جا طوالت کا شکار ہو گئی ہے، جب کہ ’بچوں کی ایک نظم بڑوں کے نام‘ میں حیرتِ معصوم کا دانش زدہ بالغ سے خطاب، متاثر کُن ہے۔ شجاع کی روایتی نظموں کو نظر انداز کرتے ہوئے ندرتِ فکر کی بنا پر میں یہاں مختصراً اُن کی نظم ’لاشعر‘ اور ’عوام الناس‘ کا اور قدرے تفصیل سے ’دوسرا شجر‘ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔

1970  میں لکھی گئی نظم ’لاشعر‘ کا موضوع شاعر کی کوئی ایک ایسی نازک سی نا زائیدہ فکر ہے، جو پیکرِ شعری میں آنے کے لیے بے قرار ہے۔ کبھی کسی لفظ یا تشبیہ یا استعارے کے پردے میں آ آ کر وہ پیہم شاعر کے ذہن میں دستک دیتی رہی، لیکن شاعر غمِ جہاں میں ایسا گرفتار رہا کہ اس اَن کہی نظم کے درد کو محسوس نہ کرسکا۔ آخر اُس فکرِ نازک کے برگ و بار یا ان لطیف احساسات کو شاعر کی مصروفیتوں (غمِ زمانہ) کے سفاک لمحوں نے کُچل دیا۔ اس اَن کہی نظم کے کرب اور برباد احساسات کے درد نے شاعر کے لفظوں سے اُن کے معنوں کا ربط چھین لیا۔ اُس کی تشبیہوں کو بانجھ بنا دیا اور استعاروں کو اپاہج۔ اُسے کیا خبر تھی کہ اُس اَن کہی نظم کا آسیب اس کی شاعری کو ہذیان میں بدل دے گا! شاعر نے اس لطیف سے خیال کو بڑی خوبی سے اپنی نظم میں پرو دیا ہے اور اپنے تجربے کی ترسیل میں کہیں رکاوٹ سے دو چار نہیں ہوا، لیکن نظم ’عوام الناس‘ کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جا سکتی۔ اگرچہ اس نظم میں یہ اچھوتا خیال پیش کیا گیا ہے کہ ’عوام کی قسمت میں صدیوں سے اسی طرح مسلسل طرح طرح کی بیماریوں ، ضعیفی سے بدتر لاچاریوں ، اور اپنے پیاروں کی ہلاکتوں کے رنج و غم کو جھیلنا لکھا ہے۔ ان کی اپنی اذیتوں کی فریاد یا ان کے اپنے غموں کے اظہار کی کوئی قیمت نہیں ، وہ کوئی کپل وستو کے شہزادے تو ہیں نہیں کہ جس نے صرف ایک بار کسی ضعیف کو، ایک بار کسی بیمار کو اور ایک بار کسی دور سے جا رہے جنازے کو دیکھ لیا تھا تو اس کی طبع نازک کو جو صدمہ پہنچا تھا، وہ بات تاریخ میں رقم ہو گئی تھی۔

اس نظم کے طنزیہ انداز سے بین السطور میں یہ پیغام ظاہر ہوتا ہے کہ صدیوں میں کبھی کوئی ایک گوتم جنم لیتا ہے اور نروان حاصل کر پاتا ہے، لیکن عوام کے دکھوں کے سلسلے کا کہیں انت نہیں ہوتا! کیا صدیوں سے انسان کو کرب و بلا میں مبتلا رکھنے کا یہ تماشا کبھی کبھار کے آ نکلنے والے کسی شہزادہ گوتم کی روح کو بیدار کرنے کا ایک حیلہ یا وسیلہ بن کر نہیں رہ گیا ہے؟ اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس دنیا کے کروڑوں لوگوں کے لمحہ بہ لمحہ دکھ جھیلتے ہوئے جینے کی داستان کتنی بے بضاعت ہے، کتنی بے حیثیت ہے!

لیکن ’عوام الناس‘ اِس ارتقائے خیال کو نہیں پہنچتی۔ اگر شاعر صرف اتنا ہی کہنا چاہتا ہے کہ ایک شہزادے کے احساس غم کے مقابل عام لوگوں کے اظہارِ غم کی کوئی اہمیت نہیں ، تو یہ ایک معمولی سا خیال ہے جو کوئی دیر پا اثر نہیں چھوڑتا۔ نظم کا بیانیہ بھی چست و منضبط نہیں ہے۔ مجموعی طور پر اس نظم میں فکر و بیان ہر دو اعتبار سے ایک عمدہ تخلیق میں منتقل ہونے کے امکانات موجود تھے، جو پورے نہ ہوسکے۔

’دوسرا شجر‘ اور ’شکوہ و جوابِ شکوہ‘ میں اتنی ہی مماثلت ہے کہ یہ طویل نظمیں ہیں ، جن میں خدا اور بشر کے کردار گویا ہیں ، بس۔ فرق یہ ہے کہ ’شکوہ و جوابِ شکوہ‘ میں مکالمے کا انداز ہے اور ’دوسرا شجر‘ میں خود کلامی کا۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ ’شکوہ و جوابِ شکوہ‘ کا پس منظر اسلامی ہے اور شاعر نے مسلمانوں کے سامنے ان کی تاریخ و تمدن کے عروج و زوال کے مرقعوں کو سجا کر یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی کم ہمتی اور بے دلی کو چھوڑیں اور اسلام کی شان دار روایات پر عمل کرتے ہوئے اپنی عظمتِ گم گشتہ کے حصول کے لیے کمر بستہ ہو جائیں ۔ یہ دونوں نظمیں (’شکوہ‘ اور ’جوابِ شکوہ‘) اردو کی مقبول ترین نظموں میں سے ہیں اور تبلیغی نقطۂ نظر سے بھی قابل قدر اہمیت کی حامل رہی ہیں ۔ جب کہ ’دوسرا شجر‘ کا تعلق کسی بھی مذہب سے نہیں ہے، سواے اس کے کہ بائبل کے ’شجرِ معرفت‘ کا پھل کھانے کے بعد انسان کے جنت بدر ہونے کی تلمیح نے اس نظم کا پس منظر فراہم کیا ہے۔ اقبال نے بندہ و بشر کی حیثیت سے خدا سے شکایت کی ہمت کی ہے، جب کہ شجاع نے ’مردِ خود آگاہ‘ بن کر خدا سے موازنے کی جسارت دکھائی ہے۔

اقبال نے ’شکوہ‘ غالباً ہند میں تحصیلِ علم کر لینے، اپنی عمر عزیز کی تین دہائیاں پوری کرنے اور ’مخزن‘ کے ذریعے ایک مقبول عام شاعر کی اپنی شناخت قائم ہو جانے کے بعد اپنی شاعری کید ورِ اوّل کے خاتمے پر لکھا تھا اور ’جوابِ شکوہ‘ کے وقت تو وہ یورپ سے بھی علم حاصل کر آئے تھے۔ اس لیے ان کی یہ نظمیں فنّی پختگی کے ساتھ ساتھ شعری محاسن اور اپنے contentکے ربط و تنظیم کا اعلا نمونہ ہیں ۔ اس دور میں خدا سے شکوہ کرنے کی جرأت بہت بڑی بات رہی ہو گی، اگرچہ ’جوابِ شکوہ‘ نے اس جرأت کو سرد کر دیا تھا۔ ’دوسرا شجر‘ کے وقت تک پُل کے نیچے سے کافی پانی بہ چکا تھا اور جیسا کہ شجاع نے خود لکھا ہے کہ وہ خدا، کائنات، وقت اور انسان کے تعلق سے بے چین کر دینے والے خیالات کے ساتھ اپنی (اٹھارہ بیس سال کی عمر میں ) زندگی کی تشکیلی دور سے گزر رہے تھے۔ ان ہی بے چین کر دینے والے خیالات سے اُن کے ذہن میں ’دوسرا شجر‘ کا کلّا پھوٹا اور اُن کے نتائج فکر نے 600 سے بھی زائد مصرعوں کی ایک طویل نظم کی صورت اختیار کر لی۔ اردو میں طویل نظمیں یوں بھی بہت ہی کم لکھی گئی ہیں اور ہمارے شعرا خُردہ خیالی کے اسیر رہے ہیں ، اسے دیکھتے ہوئے شجاع کی جرأتِ تحریر (اور جرأتِ فکر بھی ) متحیر کُن ہے۔

اگر شاعر نے اس نظم کے کچھ مقامات پر در آئے حشو و زوائد سے بچنے کی کوشش کی ہوتی تو اس کے مواد و مضمون کے ربط و ضبط میں زیادہ قرینہ آ جاتا اور غیر ضروری طوالت بھی کم ہو جاتی۔ موجودہ صورت میں بار بار بحروں کی تبدیلی اور کہیں کہیں تسلسلِ فکر کی کڑیوں کے ٹوٹنے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ نظم شاعر کی ایک آزاد رو فکر کا نتیجہ ہے اور چند مختلف مرحلوں میں مکمل ہوئی ہے۔ اِن باتوں کے باوجود یہ ایک غیر معمولی نظم ہے۔ جنت بدر انسان کا آشنائے معرفت ہونے کے بعد اپنے زوال کو زوالِ آدم نہ ماننا اور جنت ارضی کے مقتدر اعلا (خدا) کی حیثیت سے آسمانی جنت کے خدا سے اپنے موازنے یا تقابل کی ٹھان لینا اپنے آپ میں ایک نادرہ خیالی ہے۔ اس نادرہ خیالی کے ساتھ اس نظم کے بڑے حصے میں نوعمر شاعر نے ادائے مطلب کے لیے ایسی عمدہ زبان اور حسن بیان کا مظاہرہ کیا ہے کہ یہ اردو کی طویل نظموں کی تاریخ میں خاص طور پر یاد رکھی جائے گی۔ اس نظم کے بہت سے مقامات شاعر کے ندرت تخیل اور حسنِ بیان کے ثبوت میں پیش کیے جا سکتے ہیں ۔ وہ چاہے خدا کی مطلق العنانی سے اپنی سزا پر احتساب کی بندے کی خواہش ہو یا اُس کا بحر و بر( یہ دشت و جبل، ارض و نباتات و جمادات) کی اپنی تسخیر پر نازاں ہونے کا بیان ہو یا پھر خدا کی زبان سے اپنے راندۂ فردوس بندے کی جنتِ ارضی پر رقیبانہ (یا حریفانہ) غم و غصّے کا اظہار ہو، شجاع نے فنکارانہ دل کشی کے ساتھ ان تمام مرحلوں کو طے کیا ہے۔ یہ کسی نقاد کی عالم غنودگی میں اپجی ذاتی رائے ہے کہ ’اس نظم میں سارا کچھ ظاہری طمطراق ہے اور کوئی اصل با ت نہیں ۔ ‘ اردو کے زیادہ تر نقادوں نے ’دوسرا شجر‘ کو سراہا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں ، اس نظم کے بعض مقامات سے حشو و زوائد دور کر کے، اس کے تسلسل میں بہتری پیدا کی جا سکتی تھی، اس کے علاوہ نظم کے خاتمے کو اور زیادہ موثر بنانے کی کوشش کی گئی ہوتی تو یہ اردو کی ایک مایۂ ناز طویل نظم ہوتی، لیکن شجاع خاور شاید اسی کی تاویل میں کہیں عرض کر چکے ہیں کہ :

 

زورِ بیان کیوں مرے ٹوٹے پروں پر ہے

ایمان کی تو یہ ہے کہ پرواز دیکھیے!

 

اور اسی پروازِ فکر کی بنا پر ’دوسرا شجر‘ اردو کی طویل نظموں میں امتیازی مقام کی حامل رہے گی۔

شجاع کے قلندرانہ مزاج سے تو خیر اس کی امید بھی کم تھی کہ اپنا آلھا آپ گاتے، لیکن کتنی حیرت و افسوس کی بات ہے کہ اردو کے ادیبوں نے بھی اردو کے اتنے اہم اور البیلے شاعر کے فکر و فن پر کچھ زیادہ نہیں لکھا۔ پروفیسر محمد حسن اور ظ انصاری نے ضرور کچھ حق ادا کیا۔ ’مصرع ثانی‘ کے پیش لفظ میں شجاع نے اپنی شاعری کے جواز ، پس منظر اور محرکات کی گفتگو چھیڑی تو تھی، لیکن ان کے لا ابالی مزاج نے ان باتوں کو باتوں میں اڑا دیا اور وہ ’پیش لفظ‘ ہم عصر مذاقِ شاعری پر ایک دل چسپ اور تیکھا تبصرہ بن کر رہ گیا، البتہ ’رشکِ فارسی‘ کے دیباچے میں اُنھوں نے اپنی شعری ترجیحات اور بعض ترددات کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ وہ صوتی قافیے کے حامی ہیں اور قافیے کی مکتوبی صورت پر اصرار کرنے والوں سے نالاں نظر آتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ان کی دلیل ہے کہ ’جب قافیے کا سارا نظم ہی صوت پر مبنی ہوتا ہے اور قافیے کا ذائقہ بھی ہمارے وجود میں آنکھوں سے نہیں کانوں سے داخل ہوتا ہے تو یہ مان لیا جانا چاہیے کہ قافیہ اصلاً صوتی ہوتا ہے اور ضمناً مکتوبی۔ ‘ ان کا اس پر ایمان ہے کہ غزل کے شاعر کا پورا قد تب نکلتا ہے، جب وہ اپنی زمین خود نکالتا ہے اور خاص طور پر قافیے کے فطری مقام اور ردیف کے انتخاب میں فطری آہنگ کا شعور رکھتا ہو۔ اس سلسلے میں انھوں نے میر، غالب، ذوق اور داغ کے شعروں کی مثالوں سے جس طرح اپنی بات واضح کی ہے، وہ تفصیل پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ انھوں نے بحرِ خفیف کی طرف شاعروں کے ضرورت سے زیادہ لگاؤ کو اُن کا فکری تساہل قرار دیا ہے اور یوں وضاحت پیش کی ہے کہ اس اسم بامسمّا بحر کا ایک حصّہ تو ردیف و قافیہ ہی گھیر لیتے ہیں اور باقی حصّے پر اس ردیف و قافیے کے اثرات مرتسم ہوتے ہیں ، اس طرح کچھ نہ کچھ مفہوم برآمد کر لینا کوئی فنکاری نہیں ہے۔ شجاع نے اوزان و بحور کے مسائل اور محاسن و عیوبِ شاعری پر بھی اپنے خیالات پیش کیے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہمارے نقادوں کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ کسی شاعر کی قد آوری کو اس کے فن سے ناپیے، ماہ وسال سے نہیں ۔ (بزرگی بعقل است نہ بسال)مختصر یہ کہ ’رشکِ فارسی‘ کا دیباچہ جہاں قارئین کو فن شاعری کے تعلق سے شاعر کے نظریات سے واقف کراتا ہے، وہیں اہلِ نظر کے سامنے کئی ایسے سوالات بھی پیش کرتا ہے، جو آج بھی توجہ کے مستحق ہیں ۔

اگرچہ شجاع کی زندگی میں ان کے فن کا صحیح مقام متعین نہیں ہوسکا، لیکن وہ دن دور نہیں جب ہمارے نقاد ان کے مقام و مرتبے کی شناخت کریں گے اور یہ احساس بھی کریں گے کہ بظاہر غیر سنجیدہ پیرایۂ اظہار اختیار کرنے والے شجاع نے کتنی سنجیدہ حقیقتوں کو اپنے شعروں میں سمو رکھا ہے اور بظاہر دل لگی کی باتیں کرنے والے نے کتنی دل کو چھو لینے والی باتیں ان میں بھر دی ہیں ۔ اسی طرح خود اپنی شاعری کے بارے میں مذاق ہی مذاق میں اِن دو شعروں میں کیا انھوں نے حقیقت نہیں بیاں کر دی ہے!

 

ناقد کی شاعری تو نہیں میری شاعری

اصلی نکاح ہے یہ حلالہ تو ہے نہیں

 

نالہ تو دِل سے نکلے گا پیہم فراق میں

اردو زبان کا یہ رسالہ تو ہے نہیں

 

نوٹ : آخری مصرعہ ’ادب ساز‘ کے مدیر کو کھٹکے، تو راقم معذرت خواہ ہے۔ (اسیم)

 

طرۂ طرار

 

ترقی پسند تحریک نے اردو ادب کو نئے دور کی فکر و آہنگ سے روشناس کیا تھا اور وہ بہت کچھ دیا تھا، جس پر کسی بھی زبان کا ادب ناز کرسکتا ہے۔ چوں کہ اردو طبقہ ہر زمانے میں اپنے زمانے سے پیچھے رہا ہے، (وجہِ اسلاف پرستی، ماضی پرستی، روایت پرستی) اس لیے ترقی پسند تحریک کو بھی اپنے وجود کی بقا و ارتقا کے لیے بڑے معرکے جھیلنے پڑے۔ آخر نصف صدی کے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب ہر تحریک کی طرح اس کے فراز نے بھی نشیب کا رخ کیا اور یہ تھکان اور ٹھہراؤ کا شکار ہو گئی۔ اس کے دور انحطاط میں تبدیلی اور انحراف کے مدّعیوں نے جدیدیت کا دامن تھاما، جو اپنی اساس میں فکر و ہیئت ہر دو اعتبار سے مغرب سے مستعار تھی اور اردو والوں کے مزاج سے متغائر۔ جدیدیت کے پاس ترقی پسند تحریک کی سی تنظیم تھی نہ اس کا سا لائحۂ عمل تھا۔ نہ ہی اسے ترقی پسند مصنفوں کے قدو قامت کیسے سورما میسّر تھے۔ اس لیے بہت جلد یہ تحریک انتشار و بے سمتی کا شکار ہو گئی اور اردو والوں نے دیکھا کہ جن قلم کاروں کی بڑی تعداد بے قدری کا شکار تھی، وہی اقدار کا نعرہ لگا رہے تھے۔ فرد، خاندان، ملک اور دنیا کے آلام کی فکر سے فرار حاصل کرنے والوں کو یہی ایک سہل نسخہ ہاتھ لگا تھا کہ اپنی ذات کے کرب کو دور کرنے کی اُدھیڑ بُن میں لگ جائیں ۔ ترقی پسندوں کے مضامین و مواد میں سیاسی وابستگی کا اظہار جھلکتا تھا تو جدیدیوں نے مروجہ ہیئت و اسالیب تک سے ناوابستگی کا رجحان اختیار کر لیا۔ اشاریت و ابہام کا ایسا دور دورہ ہوا اور ہیئت کے ادھ کچرے تجربات کا وہ غلغلہ مچا کہ الاماں و الحفیظ! ترسیل کنوئیں جھانکنے لگی اور ابلاغ بھٹک بھٹک گیا۔ لایعنیت و مہملیت کے کاغذ آباد تعمیر ہونے لگے۔ افادی و تعمیری ادب کی قلمرو پر شب خون مارا گیا، لیکن پائیدار فکر اور دیرپا اثر کے لحاظ سے انسانی ذہن و قلب کو بالیدگی و طمانیت بخشنے والا اور اُن کی اُمیدوں پر پورا اُتر نے والا ادب اب بھی لوگوں کی پہنچ سے کوسوں دور تھا۔

کہنے کو تو جدیدیت بھی مابعد جدیدیت کو بارِ امانت سونپ کر رخصت ہو گئی، لیکن ترقی پسندی کے ردِ عمل کی یہ ساری ورزش رجعت پسندی یا ترقیِ معکوس کے انجام سے دوچار کرے گی یہ شاید ہی کسی نے سوچا تھا۔ اس زمانے میں ادب کے نام پر ذات، کرب، تنہائی، اقدار، بحران، حیات و کائنات جیسے کتنے ہی لفظوں کی بڑی دُرگت جدیدیوں کے ہاتھوں سے ہو رہی تھی۔ بقول شجاع خاور ’’… کائنات کو تو یار لوگوں نے اپنے گھر کا پچھواڑا سمجھ لیا ہے۔ دو دو ٹکے کے شعروں میں … شعروں میں کیا کلام موزوں میں یار لوگوں کو کائناتی ادب اور کائناتی وسعت دِکھ جاتی ہے۔ اللہ رحم کرے۔ ان پر نہیں تو اپنی کائنات پر!‘‘

اِن جدیدیوں کے یہاں خاص طور پر ذات و کائنات اور ذات کے کرب کی گردان بڑی پُر شور تھی۔ یوں تو ہمارے شعرا کے یہاں ذات کا موضوع بڑا عام سا رہا ہے، لیکن شجاع خاور کے یہاں اکثر شعروں میں جو شدید طنز، ذات کے تعلق سے پایا جاتا ہے اور جو اکثر پھبتی تک میں بدل گیا ہے، صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہ جدیدیوں کی ذاتِ گرامی کا کرب ہے، جسے شجاع نے اپنے شعروں کا جامہ پہنایا ہے:

 

کائنات اور ذات میں رشتہ نہیں قائم رہے

اس کے بارے میں اگر دن رات میں سوچوں نہیں

 

ذات اور کائنات کے ثالث بنے رہے

مصروفیت رہی ہمیں فرصت کے باوجود

 

ہم سے بھی حل ہو نہ سکے اپنے ذاتی مسئلے

ہم بھی حل کرنے لگے ہیں کائناتی مسئلے

 

اِس سلسلے میں ان کی ایک نظم ’تکلف برطرف‘ بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ جدیدیت کی لایعنیت و مہملیت سے پُر شاعری کے رجحان سے شجاع کی طبیعت کا گریز و نفور اس بات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ایک زمانے میں اُنھوں نے شمس الرحمان فاروقی کے جدیدیت کے آرگن ’’شب خون‘‘ (الٰہ آباد) کے رد میں پیروڈی کے طرز میں ایک رسالہ ’’طُرّہ‘‘ نکالا تھا، جس کے غالباً دو ہی شمارے شائع ہوئے تھے۔ اب اس کی اشاعت کے پیچھے اُن کا کوئی ذاتی کرب رہا ہو تو اس کا مجھے پتا نہیں ، لیکن اس کا دوسرا شمارہ ’’ذات نمبر‘‘ جو میری نظر سے گزرا ہے۔ اُس میں ’’شب خون‘‘ کے مدیر اور اس جریدے کے مشمولات کا نہایت پُر لطف خاکہ اُڑایا گیا ہے، ممکن ہے شجاع کے ذہن میں شفیق الرحمان کی پیروڈی (تزک نادری وغیرہ) کا سا تخیّل موجود رہا ہو، لیکن یہاں اُنھیں ایک جریدے کی صورت کے مختلف النوع مشمولات (انٹرویو، قارئین کے سوال، تبصرہ، چیستاں اور مضامین نظم و نثر وغیرہ) کے حربوں سے اپنے جدیدیت کی تضحیک کے ہدف تک پہنچنا تھا اور اس میں وہ اپنے تکلف برطرف انداز میں پوری طرح کامیاب رہے ہیں ۔ ’تفہیم غالب‘ کی پیروڈی ہو یا فاروقی کی نظیر شناسی پر گرفت، ہر جگہ شجاع کی جدّتِ طبع نے خوب گُل کھلائے ہیں ۔ زبان کے معاملے میں تو وہ دِلی کے روڑے رہے ہی ہیں ، اس لیے اُن کی جدید غزل ع ’یُوں ہی ترساتے رہیں گے یہ گلابی کلّے‘ نے اپنے ہنگامہ زا قافیوں (دلّے، جھل لے، پلّے اور مَل لے) کے ساتھ ’طرہ‘ کی شگفتگی میں خوب اضافہ کیا ہے۔ اس جریدے کو محض شخصی چپقلش کا نتیجۂ فکر سمجھ کر نظر انداز کرنا میرے خیال میں مناسب نہ ہو گا۔ لٹل میگزین ’’طُرّہ‘‘ میں شجاع خاور کے wit and wisdom کے بڑے تابناک رنگ موجود ہیں اور اس کی ورق گردانی کرتے ہوئے بے اختیار ماضی کے لٹل میگزین ’’فتنہ‘‘ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، جسے کبھی ریاض خیرآبادی نے جاری کیا تھا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے