محبت کا خدا۔ ۔ ۔ عمر احمد بنگش

بھٹائی کے مزار پر عرس شروع ہونے میں ابھی کچھ دن باقی ہیں۔ گاؤں میں برف پڑتے بھی اب کئی روز بیت چکے ہوں گے مگر بھٹ شاہ ابھی تک گرمی میں جھلس رہا ہے۔ میں یہاں سویر ہی آ گیا تھا۔ دن گرمی سے نبٹتے، خود سے بھڑتے بیت گیا۔ ابھی شام پھیل رہی ہے تو کچھ سکون ہوا ہے۔ مزار کے احاطے سے باہر ہر طرف گہماگہمی ہے مگر ایسے میں مزار کے اندر احتراماً سکون قائم ہے۔ جہاں بیٹھا ہوں وہاں سے مزار کا داخلی راستہ صاف نظر آتا ہے۔ دروازے کے ساتھ ملحق ڈیڑھ دو فٹ بلند ایک لمبوترے چبوترے پر چند شاہجولے ایک ترتیب سے سیاہ کپڑے زیب تن کیے، سر پر سندھی ٹوپیاں ٹکائے نہایت ادب سے زانو سے ستار لگا کر بیٹھے ہیں۔ یہ نہایت تحمل سے خاصہ مشکل راگ الاپ رہے ہیں۔ ان کی ہست میں ایک سکون ہے، ٹھہراؤ کی سی کیفیت ہے۔ یہ جب باری باری الاپ اٹھاتے ہیں تو آواز میں دبا غم ہوا بھر بھر کر ماحول میں بکھر جاتا ہے۔ ایسا غم جو اکثر جاڑا آنے سے قبل بلبل کی کوک میں ہوا کرتا ہے۔ ساتھ ستار کے سر بھی گونج رہے ہیں جو ہاں تو الاپ کی ہاں میں ملاتے ہیں مگر اس کے برعکس طمانیت اور خوشی کا سامان ہیں۔ سُر ابھر کر دل پر یوں آگے پیچھے گرتے ہیں جیسے اوس ہرے پتے پر گرتے ہی ٹک کر سو رہتی ہے اور پھر جب یکدم ہی تمازت سے پگھلے تو پتا دھل کر نکھر جاتا ہے۔

میں آلتی پالتی مارے ننگے فرش پر وہیں براجمان الاپ اور سروں کے بیچ مچی کشمکش سے الجھ رہا ہوں۔ ایسے میں ادھڑی داڑھی والا ادھیڑ عمر فقیر، رحموں دوبارہ لوٹ آیا ہے۔ نیلگوں نقشوں سفید دیوار سے ٹیک لگا کر میرے اتنے قریب بیٹھ گیا کہ ہم تقریباً سرگوشیاں کر سکتے تھے۔ اس سے میری ملاقات کچھ دیر پہلے مزار کے احاطے میں ہوئی تھی۔ وہ احاطے میں داخل ہوتے ہوئے جھک کر فرش چوم رہا تھا۔ مجھے غالباً پردیسی جان کر پاس آیا اور ہم دیر تک باتیں کرتے رہے۔

رحموں نے خود کے بارے بتایا کہ، دن بھر بھٹ شاہ کی حدود میں دیگیں اور بوریاں ڈھونے کی مزدوری کرتا ہے۔ شام پڑتے ہی وہ مزار کے احاطے میں آ کر سو رہتا ہے۔ دربار کا مجاور تھا، گھر بار سے آزاد۔ یہاں تک پہنچ کر وہ پھر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ مزار پر حاضری دے کر دوبارہ واپس آ گیا۔

میں رحموں کی اس حرکت پر چڑنے لگا ہوں۔ بات کو بیچ میں چھوڑ، دوڑ کر جاتا ہے اور بھٹائی کے مزار سے لپٹتا مار دیتا ہے۔ ابھی پھر واپس آیا ہے، اور پھر سے گفتگو کر رہا تھا۔ ٹانگیں پھیلا، سر کے پیچھے صافے کی پوٹلی بنا کر سر کو ٹیک لگاتے مجھ سے پوچھنے لگا،

"سائیں بھٹ شاہ کے مزار پر پہاڑیے کوئی کوئی آتے ہیں۔ مہر محبتوں والے، غم کے مارے آتے ہیں۔ سائیں شاہ کی نرالی شان ہے، تو کاہے کو آیا ہے ؟”

تب، دن بھر میں پہلی بار میں نے خود کی یہاں موجودگی بارے سوچنا شروع کیا۔ حیدرآباد آئے مجھے چند ماہ ہو گئے تھے۔ ایک فیکٹری میں ملازمت مل گئی تو شب و روز وہاں پاؤں جماتے گزر گئے۔ آج سویر جاگا تو دل ایسا بوجھل ہو رہا تھا گویا کسی نے اس پر من من بھاری پتھر کی کئی سلیٹیں دھر دی ہوں۔ سینے پر پڑے اس بوجھ تلے کجا فیکٹری جاتا۔ ویگن پر سوار ہوا اور بھٹ شاہ چلا آیا۔

گرمیوں کے ایک دن کا واقعہ ہے۔ پیٹھ پر لادی پسے ہوئے اناج کی وزنی بوری کے بوجھ تلے میرا سارا جسم دب رہا تھا۔ کمر اب اکڑ کر اللہ واللہ پکار رہی تھی مگر ہمیشہ کی طرح میں نے بھی بس نہ کی۔ خود سے لگائی کوئی شرط جیتنے کی دھن میں ہمیشہ کی طرح پہاڑی کے قدم میں آ کر دم لیا۔ سویرے گھُپ اندھیرے گھر سے روانہ ہوا، بازار جو چار میل دور پیدل ڈھلوانوں کے ساتھ ساتھ نکلتی کچی پگڈنڈیوں پر تھا، ٹھہر کر، نظارے کرتا، لطف اٹھاتا پہنچا۔ بازار کے باہر پن چکی سے پیٹھ پر پسا اناج لاد کر لوٹا تو راستے میں دم کے لیے کئی بار ٹھہرنا پڑا مگر پچھلا ایک کوس بغیر کوئی دم آسرا کیے طے کیا تھا۔ جس دبے دب، بغیر دم لیے آ رہا تھا اب ٹانگیں بھی جواب دے گئیں۔ خود کو اپنی اس بے ہودہ عادت پر کوسا اور پہاڑی کے قدموں میں پہنچ کر ایک بھاری بھرکم پتھر سے بوری ٹکا دی۔

اس سے آگے چڑھائی کا سفر ہے۔ یہاں ایک دو راہا ہے جو پھیل کر باقاعدہ میدان سے لگتا ہے۔ اس پر اخروٹ اور سیب کے درختوں نے گھنا سایہ تان رکھا ہے۔ اس مقام سے دو راستے نکلتے ہیں جو مختلف سمتوں میں پھیل جاتے ہیں۔ پہلا راستہ کھائی میں سیدھا اوپر اٹھتا ہے اور چوٹی پر واقع چراگاہ میں نکل جاتا ہے۔ دوسرا راستہ پہاڑی کے قدرتی خم میں بیچوں بیچ سانپ کی ڈالی لکیر کی طرح اوپر ہی اوپر گھومتا ہوا ڈیڑھ کوس بلندی پر واقع پہاڑی کے سینے پر آباد میرے گاؤں جوسچاں سے نکل کر ویسے ہی گول گول گھومتا اوپر چرا گاہ میں جا نکلتا ہے۔ دوراہے پر دائیں جانب، راستوں سے ہٹ کر پتھریلی زمیں میں سے ٹھنڈے پانی کا قدرتی چشمہ ابلتا ہے۔ چھوٹے بڑے کئی پتھروں سے اس کے گرد گھیرا مار کر چھوٹا سا تالاب بنا رکھا ہے۔ یہ چشمہ سال کے بارہ مہینے چلتا ہے۔ چونکہ یہ پہاڑی کے قدموں میں ہے تو جب کڑاکے کی سردی میں باقی چشمے جم جاتے ہیں، یہ پھر بھی یوں ہی جاری رہتا ہے۔

میں نے کمر سیدھی کر، کندھے پر جمائے صافے کو کھینچ کر اتارا اور ماتھے پر چمکتے ہوئے پسینے کو پونچھتے چشمے کی راہ لی۔ چشمے کے منہ پر استادہ سلیٹ جیسے ہموار گیلے پتھر پر تسلی سے جم کر بیٹھ گیا۔ ہاتھ دھو، ہتھیلیوں کا پیالہ سا بنا شڑپ شڑپ اس بے چینی سے ٹھنڈا پانی ایک گھونٹ میں پینا شروع کیا کہ میرے سینے کو اسے سموتے مشکل ہونے لگی۔ ابھی جی پوری طرح بھرا نہیں تھا کہ چشمے کے منہ پر جھکائے میرے سر پر مٹی کی ایک ڈل ٹکرائی جیسے کسی نے زور سے کھینچ ماری ہو۔ سر اٹھا کر دیکھا تو چشمے کے بالکل اوپر چیڑ کے پیچھے سفی پہاڑی بکری کی طرح جنگل کی جانب دوڑتی نظر آئی۔ اسے دیکھتے ہی میری پیاس ہوا ہو گئی۔ جھٹک کر ہتھیلیوں میں دھرا پانی گرایا اور ایک ہی جست میں چشمے کا تالاب پھلانگ کر اس کے پیچھے دوڑ لگا دی۔ تھوڑی بلندی پر جہاں جنگل نسبتاً گھنا ہو جاتا ہے اسے آن پکڑا اور مضبوطی سے دبوچ لیا۔

"ارے، چھوڑو مجھے۔ ۔ ۔ کیا ہے۔ ایسے وحشیوں کی طرح بھی کوئی دبوچتا ہے بھلا؟ توبہ آشو، میری جان نکال دی تم نے۔ ۔ ۔ تم جانور ہو!”

سفی میرے بازوؤں میں بھری، ہانپتے ہوئے خود کو میرے حصار سے چھڑانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ میں نے اپنی سانسیں سنبھالتے اسے مزید کس کر بھینچ لیا۔ وہ سکڑ کر بالکل میرے سینے سے یوں چمٹ گئی کہ میں اس کی تیز دھڑکن صاف سن سکتا تھا۔ چہرہ اس قدر قریب ہو گیا کہ میں اس کی بے ترتیب ہوتی گرم سانسوں کا شمار کرنے لگا۔ وہ بدستور کوشش کر رہی تھی۔ اسے یوں مچلتے دیکھ کر اندر کہیں حدت سی دوڑ گئی۔ آہستگی سے اس کی زلفیں سمیٹ کر پیچھے کو گرائیں، گیلے ہاتھ اس کے چہرے پر پھیر کرسختی سے سلے ہوئے پتلے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ دھر دئے۔ سفی کے ہونٹ تھرکے اور ایک شرارہ سا پھوٹ پڑا۔ جیسے ہمارے خون میں چنگاری سی لپکی ہو اور ہم دونوں خون میں چنگاری سے شعلہ بنتی حدت سے پگھلتے چلے گئے ہوں۔ بوسے نے گویا جمی موم پگھلا دی۔ سفی کا پھرت بدن نرم پڑتا گیا۔ اس کی سمٹی ہوئی پتلی بانہیں آہستگی سے پھیلیں اور میرے گرد حمائل ہو گئیں۔ آہستہ آہستہ گداز جسم مثال نرم چنبیلی سے بھری گٹھڑی ہو، بے ساختہ میرے بازوؤں میں جھول گیا۔

بوری جوں کی توں نیچے چشمے کے پاس پتھر پر ٹکا پڑی رہی۔ میں جو اس بوری کو اتنی دور سے پیٹھ پر لادے دم بھرتے، خود سے بے وجہ کی شرطیں جیتتے ڈھو کر لایا تھا، سفی سے ملتے ہی اس سے بے پرواہ ہو گیا۔ سفی کے ساتھ سب کچھ بھول بھلا کر جنگل میں گھنٹوں بیٹھا رہا۔

چیڑ کے جنگل دن میں بھی ایسے ہی بلا کے خاموش رہتے ہیں جیسے کہ آبادیاں صرف راتوں میں چپ کر جاتی ہیں۔ ہر وقت ہوا چلتی رہتی ہے۔ ٹھنڈی، تازہ اور فرحت افزا ہوا جو سب کچھ خود میں سموئے جس طرف چاہے، بہتی جاتی ہے۔ ایسے میں محسوس ہوتا کہ سارا جنگل چپ چاپ مجھے اور سفی کو سرگوشیاں کرتے سنتا ہو۔ ہماری ٹوہ میں لگا، ہوا میں ہمارے راز بھرتا ہوا۔ جنگل یہ راز ہوا کے سپرد کر دیتا اور بہتی ہوئی ہوا یہ راز خاموشی سے دور پہاڑوں کو سناتی ہو۔ بسا اوقات ایسا معلوم ہوتا کہ جنگل جیسے ہماری بابت کچھ انوکھا جان لے تو ایسے مسکرائے کہ پتوں کا شور گویا جنگل کی سرگوشیاں ہوں۔ تب جنگل کی خوشی گرم دن میں چیڑوں کے سائے میں، چھن چھن کر آتی سورج کی سنہری روشنی اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کی نرمی، ہمارے چہروں پر تھپکیوں کی صورت عیاں ہوتی۔ سفی پر نظر ٹکائے بیٹھا ہوں کہ اس کی جلد میں ایسی سپیدی دمک رہی ہے جیسی خوبانی کے پھولوں میں ہوتی ہے۔ رنگین جوڑے میں ملبوس سفی مجھ سے جڑی گویا کوہساروں کی دیوی ہو۔ گداز بدن، چمکتی ہوئی نیلی آنکھوں والی انیس سال کی پہاڑی نار۔ شریر ہونٹ، مسکراتی ہوئی چھوٹی سی ناک والی میری سفی۔ ہنستی تو یہ ناک اچک کر اوپر کو اٹھ جاتی اور اس کے نرخرے سے بے اختیار جلترنگ بکھیرتی باریک آواز فوارے کی طرح ابل پڑتی۔ وہ کھنک کر ہنستی، تو ہر بار میں بے اختیار اس کو خود سے لپٹائے بوسے ثبت کرتا جاتا۔ ایسے میں وہ جھینپ کر بھاگنے کی کوشش کرتی اور میں اپنے ہی جذبے کی شدت سے ڈر کر پیچھے ہٹ جاتا۔

یہ روز کا معمول تھا اور ہماری یہ آنکھ مچولی دوپہر کی سہ پہر میں ڈھلنے تک جاری رہتی۔ جب چھنکتی ہوئی سورج کی روشنی اپنی تمازت کھونے لگتی اور ہوا خنک ہو رہی ہوتی، تب جنگل بولنا شروع کر دیتا۔ ہمیں ایک دوسرے سے رخصت لینی پڑتی۔ عارضی ہی سہی مگر جدا ہونے کا غم غڑاپ سے نگل لیتا۔ معمول کا بوجھ لادے، اگلی دوپہر تک اسی غم میں تر جیتا رہتا۔

یہ غم کبھی پیچھا نہیں چھوڑتے۔ زہریلے سنپولوں کی طرح، یہاں تک کہ محبت میں سے بھی سر اٹھائے، ہلکی ہلکی پھنکار مارتے نکل آتے ہیں۔ ہر بوسہ، ہلکا سا لمس اور مہین محبت تک ہمیں غمگین کر دیتی ہے۔ یہاں تک کہ گزرتے ہوئے لمحے کے بیت جانے کا غم بھی ادھیڑ کر رکھ دیتا ہے۔ میں جو سفی کی عارضی جدائی پر تڑپ جایا کرتا تھا، اس کے ہمیشہ کے لیے چلے جانے کے بعد دنوں تک چشمے کے اوپر جنگل میں تنہا بیٹھا رہا۔

سفی میرے جذبے کی شدت کے ڈر، اس تڑپ کو بھانپ گئی تھی۔ جس روز وہ چھوڑ کر گئی، میں نے اپنے اسی ڈر سے اس کو آگاہ کیا تھا، اپنے غم میں شریک کرنے کی جرأت کر بیٹھا تھا۔ پہلی بار اس کو وہ ڈر محسوس ہوا جو مجھے ہر بوسے کے بعد محسوس ہوا کرتا تھا۔ وہ اتنی خوفزدہ ہو گئی کہ خود کو مجھ پر مکمل طور پر مقفل کر دیا، اپنے آپ کو قطعی پابند کر لیا۔

سفی کے رخصت ہونے کے بعد چند دنوں میں ہی جیسے کئی موسم بیت گئے۔ یہ سارے موسم سیلے جاڑے کے تھے۔ بہار گویا چھو کر نہیں گزر پاتی۔ ہر چیز پرائی، اجنبی ہو کر رہ گئی۔ چیڑ کے درخت جوں کے توں الف کھڑے ہیں، صرف درخت ہیں۔ ان میں سے چھن چھن کر گرتی ہوئی دھوپ میں اب وہ میٹھی تمازت بھی نہیں ہے۔ ہوا بس گزرتی ہے، بہتی نہیں۔ ڈھلوان پر جو گھاس ہے وہ بس گھاس ہے، اس میں کوئی زندگی نہیں دوڑتی۔ دور پہاڑوں کی چوٹیاں چپ چاپ سپاٹ کھڑی رہتی ہیں۔ اب انھیں سرگوشیاں کرنے کو کوئی راز نہیں پہنچ پاتا بلکہ ساری آوازیں تو یہیں جنگل میں بوجھل ہو کر گونجتی رہتی ہیں اور بعض اوقات یہ گونج اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ میں بے اختیار دوڑتا ہوا جنگل سے باہر بازار پہنچ جاتا ہوں اور دم بھی نہیں لیتا۔ ایسے اندھے پہاڑوں میں بھلا کوئی کیسے جیتا، اس لیے میں سردیاں شروع ہونے سے قبل ہی سب کچھ چھوڑ کر میدانوں میں چلا آیا، حیدرآباد آن کر بس گیا۔

میدانوں میں بھی ٹھہراؤ نہیں ہے۔ زندگی آسان ہو چلی مگر اندر کی مشکل ویسی ہی دھری ہے۔ ۔ ۔ وہاں چیڑ کے درخت ساکت تھے، یہاں کی عمارتیں کچھ بات نہیں کرتیں۔ ارد گرد لوگ شور مچاتے پھرتے ہیں اور گاڑیاں چنگھاڑتی پھرتی ہیں مگر اس سے اندر بنے خلا پر کچھ اثر نہیں ہوتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ۔ ۔ ۔

میں سینہ تھامے اوپر کو دیکھتا ہوں تو میرا دھیان سامنے کھڑی بھیک مانگتی عورت نے بٹا دیا۔ پکی عمر کی عورت کے بال الجھے ہوئے اور دھول سے اٹ رہے ہیں۔ وہ غالباً کچھ دیر سے بیچارگی سے بھرپور چہرہ لیے ہاتھ پھیلائے یوں ساکت کھڑی ہے جیسے بت ہو۔ میلے کچیلے، جا بجا پھٹے کپڑوں میں سے کہیں کہیں اس کا میلا بدن جھانک رہا ہے۔ اس کے وجود کی ساری بیچارگی جمع ہو کر چہرے پر یوں واضع ہو گئی ہے جیسے مسلسل برف گرتی رہے تو سفیدی کی ہموار سی موٹی پرت بنتی جاتی ہے جس کے نیچے اصل سطح کا کچھ پتہ نہیں ملتا۔ میں اس کو گھور کر کچھ سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ بدستور ساکت کھڑی رہی اور بغیر کچھ کہے دیر سے مجھے تکے جا رہی ہے۔ ٹلنے کا نام نہیں لیتی۔ کچھ سمجھ آئی تو جیب سے چند روپے نکال کر اس کی پھیلی ہوئی ہتھیلی پر دھر دیے۔ وہ جیسے چپ چاپ آئی تھی، ویسی ہی چہرے پر بیچارگی لیے ہٹ کر چل پڑی۔

رحموں نے اپنا صافہ مجھے پیش کیا تو میں نے اس سے اپنا آنسوؤں سے تر ہوتا چہرہ پونچھ لیا۔ وہ میری پیٹھ سہلا کر، مسکراتے ہوئے مجھ سے یوں گویا ہوا،

"اپنے ہاتھوں بغیر گن کر بانٹنا تمھیں سکون نہیں دے گا۔ ہاں وقتی چھٹکارا حاصل ہو جاتا ہے۔ تم ایک سکہ بانٹتے ہو تو خدا تمھیں دس اور دے دیتا ہے کیونکہ بانٹنے کے لیے اس کے ہاں بھی کچھ کمی نہیں ہے ” میں نے اس کی تبلیغ پر کان دھرے بغیر، کچھ سمجھے بنا بے دلی سے سر ہلا دیا۔ وہ بھانپ گیا۔ اپنے ہتھ تھیلے سے ٹھوٹھ نکالی اور دوڑ کر اس میں پانی بھر لایا۔ نپی سانسوں میں دھیرے دھیرے پانی حلق سے اتارتے ہی اندر کچھ دم ہوا۔ رحموں نے خالی ٹھوٹھ مجھ سے واپس لے کر اپنے تھیلے میں ڈال دی۔ پھر اپنے لہجے میں بھٹائی کی دیواروں میں گہرے ہوتے نیلگوں رنگ کے جیسی سنجیدگی سموئے تھیلا سنبھالتے پوچھنے لگا،

"خدا سے کچھ مانگ رہا ہے ؟”

"خود سے لڑتے لڑتے تھک گیا ہوں، کاش مجھے آرام مل جاتا۔ سکون آ جاتا” میں نے ہلکے سے جواب دیا۔

اس کی میلی گدیلی آنکھیں جیسے میرا ایکسرے لیتی ہوں، آواز مزید گہری ہو گئی۔

” تو خدا سے کیوں مانگ رہا ہے ؟” میں اس کی بچگانہ منطق پر چونک پڑا۔ وہ ٹھہر ٹھہر کر پھر گویا ہوا، "وہ تمھیں عطا کر سکتا ہے۔ جب تم بانٹتے ہو تو وہ اور عطا کرتا ہے۔ محبت کی بھی اسے کوئی کمی نہیں۔ تمھیں بخش دینے کو اس کے پاس بیش بہا محبت ہے، جیسے کبھی بابے آدم کو عطا ہوئی تھی۔ ذکر کرتے رہو تو سکون بھی مل جاتا ہے مگر ایسے تو تم ہمیشہ یوں ہی ادھورے رہو گے۔ ” میں نے بے چین ہو کراسے ٹوک دیا،

"تو کیا میں ہمیشہ یوں ہی تھکن سے دوچار رہوں گا، کبھی سکون نہیں پاؤں گا؟” اس پر وہ قہقہہ مار کر ہنس پڑا اور اپنے زانو سمیٹ کر بولا۔

” بہت عرصہ ہوا، میرے ہاتھوں اک قتل ہوا تھا۔ عمر قید کاٹ لی۔ ساری عمر کی جمع پونجی خون بہا میں دے ڈالی۔ پھر ناک سے لکیریں کھینچ کھینچ کر معافی مانگ چکا تو عرشوں کے خدا سے لے کر وارثین اور سرکار کے قانون سب نے معاف کر دیا مگر میں خود کو معاف نہیں کر پایا۔ خود سے لڑتے بھڑتے اندر ہی اندر مر گیا۔ سب معاف ہو جاتا ہے، اللہ لوکا سب بخش سکتے ہیں مگر جب اپنی منشاء کے لیے تو نے پہلی ضرب خود پر لگائی تھی، اب معافی بھی تو خود کو دے۔ سائیں بھٹ شاہ کے پیارے، سائیں بھٹ شاہ کی مان، عرشوں والا تو بس محبت کا خدا ہے۔ وہ تجھے عطا کر سکتا ہے۔ خود کو معافی تو میاں تجھے خود سے ہی دستیاب ہو گی کہ اپنے خود کا تو آپ خدا ہے۔ ”

رحموں فقیر، محبت کے خدا کا خلیفہ دیوار تھام کر کھڑا ہو گیا۔ وہ شاید پھر سے مزار کو لپٹا مارنے جا رہا تھا۔ کافی دیر بعد بھی وہ لوٹ کر نہیں آیا۔ دھمال شروع ہو گئی ہے تو شاید اس کے حال میں شامل ہو گیا جبکہ میں وہیں جم کر بیٹھا اپنے اندر، خود کے خدا کو منانے پر جان جوکھ رہا ہوں۔

بھٹائی کے مزار کی سفید دیواروں پر نیلی آرائش اندھیرے میں مزید گہرا گئی ہے پر جیسے جیسے سیاہی بڑھتی ہے، سفیدی بھی اجل کر نکھرتی جا رہی ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے