پل سراط۔ ۔ ۔ عابدہ رحمانی

جمعے کی نماز میں شاہدہ سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگی "باجی! کل سے تجوید اور تفسیر کی کلاس 10 بجے صبح شروع کر رہے ہیں۔ آپ بھی آئیے گا”

اگلے دن میں حسب وعدہ پہنچ گئی، مدیحہ تجوید پڑھانے لگی پھر شاہدہ نے تفسیر اور ترجمہ کیا۔ سورہ الفاتحہ سے آغاز تھا، یہ کلاس خاص طور پر انگلش میں تھی تاکہ ٹورنٹو میں پلنے بڑھنے والی لڑکیاں اس سے فائدہ اٹھائیں۔ ظاہر ہے یہاں نارتھ امریکہ میں پلنے بڑھنے والی نئی پود کی زبان انگریزی ہی ہے اور اسی میں ان کو پیغام دینا چاہیے۔ کوئی پندرہ کے قریب لڑکیاں اور خواتین تھیں۔ کلاس کے اختتام پر دعا ہوئی اور اس کے بعد آپس میں تعارف ہوا۔ مجھے ثنیہ (کیلی Kelly) سے مل کر بے حد خوشی ہوئی نومسلمہ ثنیہ نے سیاہ عبایا اور حجاب پہنا ہوا اس کا سرخ و سفید رنگ اور گہری نیلی آنکھیں خوب چمک رہی تھیں۔ باقی لڑکیاں تو زیادہ تر مسلمان ہی تھیں۔ نو مسلم مجھے خاص طور سے بہت متاثر کرتے ہیں۔ ان کی اسلام کے لیے کشش، دلچسپی اور پھر اس کو اپنے اور غالب کرنا بہت ہی متاثر کن ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ لوگ اسلام کا بہت بڑا Asset یعنی سرمایہ ہیں اور خاص کر ان حالات میں جبکہ ہر طرف میڈیا پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اتنا منفی پروپیگنڈہ ہو رہا ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد یہ کتنی قربانیاں دیتے ہیں قرون اولیٰ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

میں زیادہ تر بات چیت ثنیہ سے کر رہی تھی اس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک ملازمت کے سلسلے میں مصر گئی تھی۔ وہاں وہ اسلام سے متاثر ہوئی اور اسلام قبول کیا اور یہ کہ ابھی تک تنہا ہے یعنی شادی نہیں                         ہوئی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے فون نمبر اور ای میل ایڈریسز دیے اس وعدے کے ساتھ کہ ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔ آتے ساتھ ہی میں نے ثنیہ کو ای میل کیا اور اس کا ایڈریس اپنے Contacts میں محفوظ کیا۔ جواباً اس کا بھی پیار بھرا جواب فوراً آ گیا۔ اس کے آگے پیچھے اس نے پھول اور Smiley Face بنایا ہوا تھا مجھے اس کی گرمجوشی بہت پیاری لگی۔ ای میل کا تبادلہ تو ہمارا خوب ہوتا رہا وہ مجھے اتنی مفصل ای میل بھیجتی کہ مجھے اس سے کہنا پڑا”ثنیہ! تم ایک بہت بڑی رائٹر ہو تمہیں لکھنا خوب آتا ہے تمہاری ای میل اتنی دلچسپ اور طویل ہوتی ہیں مجھے بے حد مزہ آتا ہے اور میں کئی بار پڑھتی ہوں”

کبھی کبھی فون پر بات ہو جاتی ہوتی ورنہ مسجد میں ملاقات ہوتی۔ سنیچر کی کلاس میں تو وہ باقاعدگی سے جاتی ہے زیادہ تر ہماری ملاقات جمعہ کو ہوتی تھی اور اتنی خواتین ملنے والی ہوتی تھیں کہ مختصر بات چیت ہی رہتی تھی۔

الحمدللہ ٹورنٹو کے گرد و نواح کی مسجدوں میں اتنی زبردست حاضری ہوتی ہے کہ سعودی عرب کا لطف آ جاتا ہے۔ پاکستان میں تو ہم کبھی مساجد میں نہیں جاتے تھے۔ اسلام آباد میں شاہ فیصل مسجد میں خواتین جمعہ پڑھنے جاتی تھیں ایک مرتبہ جانا ہوا تھا۔ لاہور کے باغ جناح میں ڈاکٹر اسرار احمد کی امامت میں نمازیں ادا کیں۔ ماشاء اللہ جمعہ پر خوب رونق ہوتی تھی لیکن شامیانے لگتے تھے۔

الحمدللہ ان مساجد میں جانے کی وجہ سے خواتین بھی دین سے قریب ہو گئی ہیں اور علم و فہم میں اضافہ ہوا ہے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے۔ ’’اللہ کی بندیوں کو مسجدوں میں آنے سے مت روکو‘‘ لیکن ہمارے پاکستانی علماء اس کی شدومد سے مخالفت کرتے ہیں حالانکہ وہی عورت بازاروں میں سر جھاڑ منہ پھاڑ ماری ماری پھرتی ہے لیکن ان کو سارا فتنہ مسجد آنے میں دکھائی دیتا ہے حالانکہ وہاں بے باک خواتین بھی چادر، بڑا دوپٹہ، اسکارف اور عبایا لے لیتی ہیں۔

ثنیہ نے مجھے اپنی ماں کی مخالفت کے بارے میں بتایا۔ وہ لوگ برٹش نسل کے انگریز تھے۔ وہ بتاتی تھی کہ ’’جب میں عبایا اور حجاب پہنتی ہوں تو میری ماں غصے سے پاگل ہو جاتی ہے۔ چلا چلا کر مجھے اور مسلمانوں کو خوب گالیاں اور کوسنے دیتی ہیں‘‘”She just can`t understands me”

میں نے اسے سمجھایا ’’تم اپنی ماں کے ساتھ پہلے سے بھی اچھا سلوک کرو، اس کا اور زیادہ خیال رکھو تاکہ اسے اندازہ ہو کہ مسلمان ہونے سے تمہارا اخلاق مزید بہتر ہو گیا ہے۔ عبایا اور حجاب ماں کے سامنے پہننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اپنی کار میں چھوڑ دیا کرو‘‘ اس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ ایسے ہی کرے گی۔ دراصل نو مسلم حجاب وغیرہ کو اسلام کی اولین شرط سمجھنے لگتے ہیں اور چونکہ ان ممالک میں یہی ایک مسلمان عورت کی نشانی ہے پھر ایک طرف اتنی بے حیائی کہ عورت کا جسم محض ایک نمائشی چیز ہے اور دوسری طرف اتنے غلاف کہ کچھ نظر نہ آنے پائے۔ وہ خود تو اس تمام ڈھکائی سے بے حد خوش تھی بلکہ بعد میں نقاب بھی لینے لگی اس نے مجھے اپنی ماضی کے بارے میں کبھی زیادہ نہیں بتایا اور نہ ہی میں نے کبھی اسے کریدنے کی کوشش کی، کچھ عرصے کے بعد اس نے مجھے خوشخبری سنائی کہ اس کی بڑی بہن بھی اسلام سے متاثر ہو رہی ہے۔ 7 جولائی کو لندن میں سب وے پر دہشت گردوں نے حملہ کیا اور وہ سب مسلمان نام تھے ساری دنیا میں پھر مسلمانوں کے خلاف ایک طوفان اٹھا۔ اس میں 50 لوگ مارے گئے۔

ہر جگہ مسلمانوں پر لعن طعن ہونے لگی۔ جہاد اور اسلام پھیلانے کا یہ طریقہ میری سمجھ سے ہمیشہ بالاتر ہے جو یہ کرتے ہیں ان سے بڑا اسلام دشمن کوئی نہیں ہے۔ جن ملکوں نے ان کو پناہ دی انہیں ٹھکانا دیا انہی کے خلاف دہشتگرد کارروائیاں کرتے ہیں۔

فون کی گھنٹی بجی میں نے اٹھایا یہ ثنیہ کا فون تھا ’’سسٹر عابدہ میں بہت پریشان ہوں، میری ماں نے میرا جینا دوبھر کر دیا ہے وہ کہتی ہے کہ یا تو تم یہ دہشتگردوں کا دین چھوڑ دو یا میرے گھر سے چلی جاؤ۔ ‘‘ تم ایسا کرو کہ اپنی امی کو سمجھاؤ کہ اچھے برے لوگ تو ہر دین میں ہیں اگر وہ واقعی تمہیں نہیں رکھنا چاہتیں تو میرے پاس آ جاؤ، میں ایک کمرہ تمہیں دے دوں گی۔ میں دو بیڈ روم کے کنڈو (Condo) میں تھی اور اکیلی تھی۔

اس نے میرا بہت شکریہ ادا کیا اور مجھے مطلع کرنے کا وعدہ کیا، اگلے روز میں نے خود ہی اس کے سیل فون پر کال کی تو پہلے تو اس نے میری تعریفوں کے پل باندھ دیے اور پھر بہت شکریہ ادا کیا۔ ’’جزاک اللہ خیر سسٹر آپ کتنی اچھی مسلمان ہیں وغیرہ وغیرہ”

میں نے کہا”’یہ بتاؤ تمہاری ماں کے ساتھ معاملہ حل ہوا؟”

کہنے لگی”ہاں الحمدللہ وہ اب خاموش ہے، دراصل جب ہو بہت پی لیتی ہے تو آپے سے باہر ہو جاتی ہے میں اور میری بہن دونوں کوشش کر رہے ہیں کہ اس کی الکحل کی مقدار کم ہو۔ "خیر میں نے بھی شکر ادا کیا کہ اس کا مسئلہ حل ہو گیا۔

کچھ دنوں کے بعد اس نے مجھے کہا کہ وہ انگلش ٹیچر کا کورس کرنے والی ہے مسی ساگا کے ایک انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لے لیا ہے۔ انگلش ٹیچرز کی تمام دنیا میں مانگ ہے۔ مڈل ایسٹ، سعودی عرب، جاپان، کوریا اور دوسرے ممالک میں کافی مانگ ہے۔ کورس کرنے کے بعد وہ کسی اسلامی ملک میں جانے کی کوشش کرے گی۔ میں نے اسے اپنی بہترین خواہشات اور دعائیں دیں اس وعدے کے ساتھ کہ ’’Stay in Touch‘‘

اس سے E-mail پر تبادلہ ہوتا تھا۔ پڑھائی میں کافی مصروف ہو گئی تھی اور اسے کافی مزہ بھی آ رہا تھا۔ بتاتی تھی کہ پڑھائی بہت hectic ہے ہر وقت ٹیسٹ ہو رہے ہیں، اسائمنٹ ہو رہے ہیں یہ کورس مکمل ہو جائے تو پھر میں سعودی عرب یا مڈل ایسٹ میں جاب کے لیے درخواست دوں گی۔ میری دعائیں اور نیک خواہشات اس کے ساتھ ہوتیں۔ مسجد میں ملاقات ہوئی تو اس کے ساتھ ایک اور گوری عورت کھڑی تھی کہنے لگی ’’سسٹر عابدہ یہ الزبتھ ہے میری بڑی بہن اس لیے بھی اسلام قبول کر لیا ہے اب کا اسلامی نام شاکرہ ہے۔ ”

میں نے دونوں کو گلے لگا کر پیار کیا اور مبارکباد دی۔ دوسری خواتین بھی متوجہ ہوئیں اس کی بہن سے بات چیت میں مصروف ہوئی۔

ثنیہ مجھے لے کر ایک طرف آئی "آپ کو تو معلوم ہے الزبتھ کی برسٹ کینسر ( Breast cancer) کی سرجری ہوئی تھی پھر جب وہ ریڈیشن تھراپی Radiation Therapy کر کے آتی تھی تو انتہائی نڈھال ہوتی تھی میں نے اس کے کمرے میں قرآن کی سی ڈیز رکھ دی تھیں وہ خود لگاتی یا میں لگا دیتی۔ سسٹر آپ یقین کریں وہ کہتی تھی مجھے قرآن سے اتنا سکون ملتا ہے کہ میں بہت اچھا محسوس کرتی ہوں اور پھر اس نے شہادہ لینے کا فیصلہ کر لیا ’’الحمد للہ، الحمد للہ بارک اللہ فی ماشاء اللہ ”

میں اس کی خوشیوں میں ایک پکی مومنہ کی حیثیت سے شریک ہو رہی تھی لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ میں تو ہلکی پھلکی موسیقی بھی سن لیتی ہوں کوئی اچھی غزل اور آواز بھی مجھے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یا اللہ مجھے بھی ان لوگوں کی طرح کر دے اور میری چھوٹی بڑی خطائیں معاف کر دے۔

کچھ دنوں کے بعد اس کی ایک تفصیلی ای میل آئی جس میں اس نے اپنی گریجویشن کا تفصیلی ذکر کیا تھا ساتھ میں ایک خوشخبری یہ تھی کہ شاکرہ کا بیٹا بھی اسلام سے کافی متاثر ہے اور انشاء اللہ جلد ہی مسلمان ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو پھیلانے کا طریقہ سب سے بڑھ کر جانتا ہے۔

میں نے کہا "تمہاری ماں اب کیا کہتی ہے ؟”

اس نے بتایا کہ "ماں نے اب سمجھوتہ سا کر لیا ہے ‘‘

میں کچھ عرصے کے لیے پاکستان چلی گئی۔ اگرچہ میں ای میل وغیرہ وہاں کسی نہ کسی طرح روزانہ دیکھ لیتی لیکن وہاں کی اپنی رونقیں اور مصروفیات ہیں۔

چار ماہ گزارنے کے بعد میں واپس آئی تو مجھے خیال آیا کہ اس دوران ثنیہ کا ایک ای میل آیا تھا۔

الفلاح مسجد میں شاہدہ سے میں نے اس کے متعلق پوچھا ’’اس کی تو شادی ہو گئی ہے اور وہ ہملٹن چلی گئی ہے ‘‘ شاہدہ نے مجھے خبر دی۔

"، اچھا !کب؟ کہاں ؟”

اس نے بتایا”’ایک ایرانی سے شادی ہوئی ہے۔ سنا ہے شیعہ ہے۔ ”

"اللہ خیر کرے ” مجھے اس کا افسوس ہو رہا تھا کہ اس نے اپنی اتنی بڑی خبر مجھ سے کیوں چھپائی ؟ لیکن پھر میں نے اپنے اس جذبے کو قابو میں کیا کہ میں کچھ زیادہ توقعات وابستہ کر رہی ہوں۔

بہرحال میں نے اسے بہت ساری مبارکبادوں کے ساتھ خوبصورت سی ای میل اسے بھیجی۔ ای میلوں E-mails کی میری طرف سے بھرمار ہوئی کوئی بھی اچھی ای میل معلوماتی، مزاحیہ، اسلامی میں اس سے ضرور شیئر کرتی اور وہ ہمیشہ شکریہ ادا کرتی۔

لیکن اس نے میری ای میل کا کوئی جواب نہ دیا تو مجھے خیال آیا کہ وہ اپنی نئی ازدواجی زندگی میں مگن ہو گئی، چلو اچھا ہوا اس کا گھر بس گیا۔

چند ہی مہینے گزرے تھے۔ الفلاح مسجد میں نماز جمعہ سے فارغ ہو کر میں کھانے کے اسٹال پر آئی۔ سوچا کہ کچھ خرید کر لے جاؤں گی یہاں بہت عمدہ بریانی، سیخ کباب، رول، پاپائے چکن اور پیزا مل رہے تھے، مسجد کو بھی اس سے آمدنی ہوتی تھی یہاں کے مساجد تو ایک کمیونٹی سنٹر ہوتے ہیں۔ ملنا ملانا، گپ شپ، سبزی اور پھلوں کا ٹرک باہر آ کر کھڑا ہوتا ہے، خوب بھیڑ لگ جاتی ہے اپنی دیسی سبزیاں لوکی، کریلے، بھنڈی توری سب کچھ تو مل رہا ہوتا ہے۔ آموں کے موسم میں خوب میکسیکن آم کے ڈبے آ جاتے ہیں۔

اتنے میں ایک نقاب والی خاتون نے آ کر سلام کیا او رلے لگ گئی۔ ’’ارے ثنیہ یہ تم ہو، کیسی ہو؟تم نے نقاب لینا شروع کر دیا ؟”

میں نے ایک ساتھ اتنے سارے سوال کیے اور ساتھ ہی پوچھا ’’How is life‘‘ (زندگی کیسے گزر رہی ہے۔ )

"بہت ہی بری سسٹر، بہت ہی بری، طلاق (Divorce)‘‘ لے رہی ہوں”

اب اس نے چہرہ کھول دیا تھا ہو بہت ہی پژمردہ، کمزور اور بیمار لگ رہی تھی۔ ٹائیگر بام (Tiger Balm) کا ایک تیز سا بھپکا اس کے عبایا سے آ رہا تھا۔

"کیوں؟” میں نے Why کو لمبا کرتے ہوئے پوچھا

"سسٹر یہ لمبی کہانی ہے کیا میں آپ کے گھر آ سکتی ہوں، تو آپ کو تفصیل بتاؤں گی۔ ”

” ہاں، ہاں بہت خوشی سے، مجھے بہت خوشی ہو گی، ابھی آؤ گی؟”

” نہیں میں کل بارہ بجے آؤں گی۔ ”

"تو لنچ میرے ساتھ کرنا” میں نے اسے اپنے Gate کا کوڈ وغیرہ لکھوا دیا۔ اگلے روز وہ وعدے کے مطابق ٹھیک بارہ بجے پہنچ گئی۔ یہ لوگ وقت اور وعدے کے کس قدر پابند ہوتے ہیں سبحان اللہ !

یہ لوگ مسلمان ہو جائیں تو یہ اسلام کا دور زریں ہو گا۔ میں نے اسپاگیٹی اور کوفتے اور چکن بیک کیا تھا۔ میٹھے میں سوچا کہ پھل اور آئس کریم ہیں۔

کھانا تیار ہی تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کھانا لگا دوں۔ کہنے گی ’’ہاں سسٹر عابدہ میں نے ناشتہ کافی صبح کیا تھا”

وہ بھی میرا ہاتھ بٹانے لگی مجھے ان لوگوں میں یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ ہماری طرح بے جا تکلفات نہیں کرتے۔ وہ میرے لیے بہت خوبصورت پھولوں کا گلدستہ لائی تھی، پھول ہمیشہ سے میری کمزوری ہیں میں نے گلدان میں پانی بھر کر اس کو آراستہ کیا۔

ہم لوگ کھانا کھانے بیٹھے تو اس نے خود ہی بات شروع کی”آپ کو معلوم ہے کہ ہر ایک مجھ سے کہتا تھا کہ تم شادی کر لو، مجھے کوئی مناسب رشتہ نہیں مل رہا تھا تو میں نے آن لائن سروسز سے مدد لی اور رشتہ ڈھونڈنے لگی، ایسے میں مجھے یہ آدمی ملا یہ عمر میں مجھ سے کافی بڑا ہے اور اس کی پہلی بیوی سے طلاق ہو چکی تھی اس سے اس کے دو بچے ہیں، بچے کافی بڑے ہیں، بیٹا یونیورسٹی میں ہے اور بیٹی کالج میں ہے۔ اس نے جب مجھے سب باتیں بتائیں تو پہلے تو میرا دل نہیں مانا پھر اس نے کہا کہ ملاقات کر لیتے ہیں پہلے تو میں ٹالتی رہی لیکن پھر میرے پاس کوئی اور متبادل نہیں تھا تو میں اس سے ملنے پر راضی ہوئی۔ اس سے ملی تو مجھے اچھا لگا اور پھر میں نے اپنے گھر والوں سے ملایا ان کو بھی پسند آیا پھر میں اسے الفلاح کے امام ندوی صاحب جن کو وہ برادر ندوی کہتی رہی ان کے پاس لے آئی، انہوں نے اس سے بہت تفصیلی بات کی، اس سے کہا کہ ’’تم ایرانی ہو، یہ سفید فام کینیڈی ہے تمہیں اس کے حقوق کا اچھی طرح خیال رکھنا ہو                         گا ‘‘ وہ ہر بات پر راضی تھا پھر بہت تفصیلی میرج کنٹریکٹ پر دستخط ہوئے اور برادر ندوی نے نکاح کر دیا، اتنا کہ کر وہ خاموشی سے کھانا کھانے لگی

"سسٹر! آپ نے بہت اچھا بنایا ہے، بالکل میرے ٹیسٹ کا ہے "”ہاں میں نے مرچ بہت ہی ذرا سی ڈالی ہے، کوفتوں میں بس پاسٹا ساس Pasta Sauce ڈالا ہے ”

’’تو وہ مجھے لے کر ہملٹن چلا گیا وہیں اس کا گھر تھا اس کے بچے تو پہلے ہی روز سے میرے دشمن تھے اور میری مخالفت پر کمر بستہ تھے۔ باپ اور بچوں میں بالکل نہ بنتی تھی جب بھی تینوں ساتھ ہوتے تھے ایک چیخ و پکار مچی ہوتی تھی۔ بچے انتہائی بدتمیز تھے جب وہ لڑتے تھے تو میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا کیونکہ وہ فارسی بولتے تھے لیکن اتنا تو میں سمجھتی تھی کہ وہ انتہائی غصے میں ہیں اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہ رہے ہیں۔ ‘‘

مجھے تو انہوں نے ایک نوکرانی بنا ڈالا تھا میں کھانا بناؤں، برتن دھوؤں، جھاڑو پہونچ کروں، میں فرش کو Mop کر دیتی، وہ گندے جوتوں سمیت آ جاتے، میں کچن ٹھیک کرتی وہ اس کو الٹ دیتے۔ سسٹر انہوں نے میری کار کو Scratch کیا اس پر لکیریں ڈال دیں۔ الماری میں میرے کپڑوں اور سویٹروں میں سوراخ کر دیے۔

’’ان کے باپ سے میں کچھ کہتی تو وہ ان کو ڈانٹتا تو وہ اور دشمنی پر اتر آتے۔ ”

میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا "تو ثنیہ تمہارا شوہر تمہارے ساتھ کیسا تھا؟”

"سسٹر! یوں تو وہ اچھا تھا لیکن گھر کے کاموں میں میری کوئی مدد نہیں کرتا تھا اور سب سے بڑا دکھ تو مجھے اس بات کا ہوا کہ وہ بالکل نماز نہیں پڑھتا تھا۔ جمعے کی نماز بھی نہیں پڑھتا تھا۔ بچے بھی اس طرح کے تھے۔ میں تو حیران و پریشان تھی کہ کیا کوئی مسلمان ایسا بھی ہو سکتا ہے جو نماز نہ پڑھتا ہو‘‘ بے چاری معصوم ثنیہ آئیڈیل مسلمہ اسے کیا معلوم کہ عالم اسلام کے کم از کم 60 فیصد لوگ ایسے ہیں جو نماز نہیں پڑھتے۔

’’میں انہیں نماز پڑھنے کو کہتی تو ہنستے تھے میرا مذاق اڑاتے تھے، بچوں سے میں نے کہا مجھے قرآن سناؤ کہنے لگے ہم نہیں پڑھتے۔ ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں نماز پڑھتی تھی تو مجھ پر ہنستے تھے تو سسٹر مجھے اتنا افسوس ہوتا کہ میں نے تو بہت خلوص سے یہ شادی کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے کس بات کی سزا دی ہے ؟ پھر مجھے معلوم ہوا کہ مجھے حمل ہے۔ میں نے تہیہ کر لیا کہ میں اپنے ہونے والے بچے کو اس گندے، غلیظ اور نفرت انگیز ماحول میں (اس نے Abusive Relations کا لفظ استعمال کیا)‘‘ نہیں پالوں گی تو میں چوتھے مہینے میں اپنی امی کے پاس واپس آ گئی۔ آنے کے چند روز کے بعد میرا حمل ضائع ہو گیا۔ ” یہ کہ کر اس کی خوبصورت آنکھیں آنسوؤں سے چھلک پڑیں۔ مجھے بھی بہت دکھ ہو رہا تھا۔ "ثنیہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے۔ ” میں نے اس سے وہی جملہ کہ دیا جو بہت سے لوگ میری دلجوئی کے لیے کہتے ہیں۔

” اگر میں تمہیں اپنی کہانی سناؤں تو تمہیں یقین نہیں آئے گا کہ میں اس سب کے باوجود نارمل کیوں ہوں، ہمیں ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور صبر کرنا چاہیے تمہیں تو پتا ہے مومن کے لیے تو یہ دنیا ایک مسافر خانہ ہے۔ A Temporary abode”‘‘ ”

’’وہ سسٹر ہر وقت فون کرتا ہے، ای میل بھیجتا ہے، کہتا ہے میں طلاق نہیں دونگا، میں نے کورٹ میں طلاق کے لیے فائل کر دیا ہے۔ کینیڈین قانون کے مطابق ایک سال کی علیحدگی کے بعد طلاق ہوتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میری ماں بھی میرا ساتھ دے رہی ہے ‘‘

وہ پھر میرے ساتھ مستقل رابطے میں تھی، بتاتی تھی کہ اس کا شوہر دھمکیوں پر اتر آیا ہے اور وہ ڈر رہی ہے کہ اسے نقصان نہ پہنچائے اسے اپنے وکیل کو ہر بات سے آگاہ کیا۔ اس کی صحت کافی خراب رہنے                        لگی تھی اسے Fibromyalgia ہو گیا تھا اس وجہ سے وہ ہر وقت ٹائیگرز بام ملتی تھی میں نے اس بیماری کا نام پہلی دفعہ اس سے سنا۔ بتاتی تھی کہ سارے جسم میں ایک شدید درد اور تناؤ رہتا ہے۔

جب اس کی طلاق ہوئی تو بے حد خوش تھی کہ اب میں اس جھنجھٹ سے آزاد ہو گئی۔ "سسٹر اس خوشی میں ٹریٹ (Treat) دوں گی۔ ”

"ثنیہ اللہ تعالیٰ تمہیں بہترین متبادل دے۔ ”

میں اس کی دلجوئی میں رہتی تھی۔ ایک جاننے والے شمیم صاحب کی بھی طلاق ہو گئی تھی اور پھر شادی کرنے کے خواہشمند تھے میرے بھائی سے دوستی تھی اس نے مجھے سے متعارف کروایا کہ باجی بہت سے لوگوں کو جانتی ہیں۔ میں نے ایک دو پاکستانی خواتین کا ذکر کیا جو خود بھی مطلقہ تھیں لیکن وہ کہنے لگے ’’جی کوئی کنواری ہو تو زیادہ بہتر ہے ”

پھر مجھے ثنیہ کا خیال آیا۔ جب میں نے کہا کہ میری ایک گوری کینیڈین دوست ہے اس کی بھی طلاق ہو چکی ہے تو صاحب کی رال ٹپکنے لگی کہنے لگے ’’ہاں گوری تو اچھی رہے گی۔ ”

میں نے ثنیہ سے بات کی تو اس نے صاف ان کار کر دیا میری صحت کافی خراب رہتی ہے اور میں ابھی ذہنی طور پر پھر شادی کے لیے تیار نہیں ہوں‘‘

میں نے اسے مشورہ دیا، تم مل کر بات چیت کر کے دیکھ لو، لیکن اس نے میرا بے حد شکریہ ادا کرتے ہوئے صاف انکار کر دیا۔ چند سال پہلے میں نے بزنس مینجمنٹ انسٹیٹیوٹ سے انٹر پینورشپ (Entrepreneurship)اپنے کاروبار سنبھالنے کا کورس کیا تھا میں خود تو کوئی بزنس شروع نہ کر سکی۔ البتہ ہر سال اس کا سیشن شروع ہونے سے پہلے اپنی دوستوں کو E-mail سے بھیج دیتی تھی۔ حکومت کینیڈا کی طرف سے یہ اپنا کاروبار شروع کرنے کا اور اس کے طریقہ کار کو سمجھے کا بے حد اچھا پروگرام ہے۔ اس سے مستفید ہو کر اگر کوئی اپنا بزنس شروع کرے تو وہ اپنی ملازمت تو ڈھونڈ ہی لیتا ہے ساتھ میں کچھ اور کو بھی ملازمت دے سکتاہے۔ حکومت اس سلسلے میں کافی مدد مہیا کرتی ہے۔ الزبتھ نے جب مجھے نئے سال کے پروگرام کی آؤٹ لائن بھیجی تو اپنی میلنگ لسٹ میں ’’میں نے ثنیہ کو بھی شامل کیا۔ اس نے اور اس کی بہن نے اس پروگرام کو جوائن کیا‘‘

میں کچھ عرصے کے لیے امریکہ چلی گئی تھی جب اس کی ای میل آئی کہ انہوں نے اپنی آن لائن بزنس شروع کی ہے۔ بڑا اچھا ویب سائٹ تھا اوردہ لوگ الیکٹرونکس کی چیزیں وغیرہ بیچ رہے تھے۔ شاید کوئی ایجنسی لی تھی۔ میں نے اپنی تمام Mailing اور گروپس کو اس کی ویب سائٹ کا بھیجا۔ وہ اپنے بزنس سے کافی خوش لگ رہی تھی پھر اس کی طرف سے خاموشی ہو گئی، میں نے ایک دو ای میل بھی بھجیں لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ تقریباً ایک سال گزرنے کے بعد جب میں واپس اوک ول آئی تو الفلاح میں جمعے کی نماز کے لیے گئی۔ نماز سے فارغ ہو کر ملنا ملانا شروع کیا۔ مجھے خیال ہو رہا تھا کہ آج شاید ثنیہ سے ملاقات ہو جائے۔

اتنے میں مسز ندوی سامنے آئیں دعا سلام کے بعد کہنے لگیں "آپ کو معلوم ہے وہ ثنیہ تھی نا آپ کی دوست، اس کا انتقال ہو گیا "، مجھے اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا بمشکل میں نے کہا ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ کیسے ؟ کیا ہوا تھا؟ میرے دل میں ایک ہوک سی اٹھ رہی تھی۔ ’’

"اس نے ایک یمنی سے شادی کر لی تھی اور اس کے ساتھ یمن چلی گئی تھی پھر نہ جانے اس کو وہاں کیا ہوا کہ واپس آئی تو بہت بیمار تھی، ہسپتال میں داخل ہوئی اور انتقال ہو گیا، جب انتقال ہوا تو "وہ ذرا چپ سی ہو گئیں” اس کی بہن نے یہاں الفلاح میں فون کیا، مرزا صاحب کمرہ بند کر کے چلے گئے تھے فون بار بار Voice mail پر جا رہا تھا، اس کی بہن نے Messages چھوڑے ‘‘ چونکہ اس کی ماں اس کی وارث تھی تو ہسپتال والوں نے اس سے پوچھا کہ وہ لاش کا کیا کرنا چاہتی ہے ؟چونکہ تدفین اس کو مہنگی پڑتی تھی تو اس نے ان سے کہہ دیا کہ میت کو جلا ڈالو اور ہسپتال والوں نے اس کو جلا دیا۔ ”

” اوہ میرے خدایا "میں اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ شاکرہ پھر اس کی راکھ مسجد میں لائی، جنازہ پڑھا گیا اور پھر راکھ کو قبرستان میں دفنایا گیا۔

"میں لڑکھڑاتے قدموں سے آتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ اس کی ماں نے کیا بدلہ اس سے لیا۔ لیکن وہ تو شہید ہے ہو جو ایک سچی مسلمان تھی اپنی زندگی اس نے پل صراط پر گزار دی اور موت بھی ویسی ہی ملی۔ نہ معلوم یمن میں اس پر کیا بیتی ؟ کتنے روز میں نے اس کے نمبر پر کال کیا کہ اس کے گھر کے کسی فرد سے بات ہو جائے۔ لیکن وہ ڈس کنکٹ ہو چکا تھا۔ میری بھابھی ہر گوری مسلمان کو کہتی ’’ باجی یہ اس کی بہن ہے ‘‘ آج بوجھل اور غمگین دل کے ساتھ میں نے اس کا ای میل ایڈریس Delete کر دیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ تمہیں اپنی رحمتوں سے ڈھانپ لے اور تمہیں اعلیٰ درجات سے نوازے کہ یہی ایک مومن کی اصلی متاع ہے۔ ۔ ۔ ۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے