غزلیں ۔۔۔ ماجد صدیقی

 

(آمد: یکم جون ۱۹۳۸ء ۔ رفت   ۱۹مارچ ۲۰۱۵ء)

________________________________________________
بہت یاد آؤں گا ہر شخص کو جب میں نہیں ہوں گا

مگر فن ہے مرا موجود تو کب میں نہیں ہوں گا

 

نہ جانیں گے خمیر اِس کا اٹھا کن تلخیوں سے تھا

مرا شیریں سخن دہرائیں گے سب میں نہیں ہوں گا

 

یقیں ہے انتقاماً جب مجھے ظلمت نگل لے گی

مرے فکر و نظر ٹھہریں گے کوکب میں نہیں ہوں گا

 

جتانے کو مری بے چینیاں آتے زمانوں تک

پسِ ہر حرف دھڑکیں گے مرے لب میں نہیں ہوں گا

 

ملا جو صرفِ فن ہو کر مجھے اظہار کا ، ماجِد

سبھی ترسیں گے اپنانے کو وہ ڈھب میں نہیں ہوں گا

٭٭٭

 

 

 

جذبوں کو زبان دے ر ہا ہوں

میں وقت کو دان دے رہا ہوں

 

موسم نے شجر پہ لکھ دیا کیا

ہر حرف پہ جان دے رہا ہوں

 

یوں ہے نمِ خاک بن کے جیسے

فصلوں کو اُٹھان دے رہا ہوں

 

جو جو بھی خمیدہ سر ہیں اُن کے

ہاتھوں میں کمان دے رہا ہوں

 

کیسی حدِ جبر ہے یہ جس پر

بے وقت اذان دے رہا ہوں

 

اوقات مری یہی ہے ماجد

ہاری ہوں لگان دے رہا ہوں

٭٭٭

 

جو آنکھیں دیکھتی ہوں دھُند کے اُس پار، کم کم ہیں

یہاں اہلِ نظر تو ہیں بہت، بیدار کم کم ہیں

 

بھسم کرنے کو آہن، کام میں لایا گیا کیا کیا

فلاحت اور زراعت کے مگر اوزار کم کم ہیں

 

سمجھ بیٹھے ہیں جب سے اصلِ حرصِ خوش خصالاں ہم

کسی بھی صورتِ حالات سے بے زار کم کم ہیں

 

شکم جب سے بھرا رہنے لگا ہے چھِینا جھپٹی سے

وہ کہتے ہیں یہی، نگری میں اب نادار کم کم ہیں

 

فروغِ تیرگی بھی دم بہ دم ماجِد فراواں ہے

نگر میں جگنوؤں کے پاس بھی انوار کم کم ہیں

٭٭٭

 

 

اپنے اندر اُلجھ گیا ہوں باہر کیسے نکلوں مَیں

اپنے آپ کو غیر نگہ سے جانے کب جا دیکھوں مَیں

 

کِس پر تنگ ہوئی یوں دُنیا کس نے حشر یہ دیکھا ہے

جب بھی سانس نیا لیتا ہوں زہر نیا اِک چکّھوں مَیں

 

یہ بھی عجب کیفیتِ غم ہے اپنے آپ میں گم ہو کر

سرتا پا دل بن جاتا ہوں پہروں بیٹھا دھڑکوں میں

 

چہرے پر اک دھول جمی ہے برس برس کا رنگ لیے

دل بے چارہ آس بندھائے ساتھ گلوں کے مہکوں مَیں

 

کون غنی ہے جس کے در کے دونوں پَٹ ہوں کھُلے ہوئے

کس دہلیز کو منزل مانوں کس آنگن میں ٹھہروں مَیں

 

کوئی تو شاید اپنی خبر کو بھی اے ماجدؔ آ پہنچے

ایک نظر باہر بھی دیکھوں در تو اپنا کھولوں مَیں

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے