رفیق سندیلوی کی نظم : ’’وُہی مخدوش حالت‘‘۔ ۔ ۔ ڈاکٹر طارق ہاشمی

 

________________________________________________

وُہی مخدوش حالت

________________________________________________

 

رفیق سندیلوی

________________________________________________

 

ہمیشہ سے وُہی مخدوش حالت

ایک آدھی مینگنی دُم سے لگی ہے

ناک میں بلغم بھرا ہے

ہڈّیاں اُبھری ہوئی ہیں پشت کی

دو روز پہلے ہی

مُنڈی ہے اُون میری

سردیوں کے دِن ہیں

چٹیل بے نُمو میدان میں

ریوڑ کے اندر

سَر جھُکائے

گھاس کی اُمّید میں

مدّھم شکستہ چال چلتا

خشک ڈنٹھل

اَور پولی تھین کے مردہ لفافوں کو چباتا

دِن ڈھلے باڑے میں آتا ہوں

 

ہمیشہ سے وُہی دوزخ کی بھاری رات

کہنہ خوف کا اَسرار

گہری بوُ

نکیلی قتلیوں والے سُو َر

کتوں کی لمبی بھونک

کہرے اور اَندھیرے کی چڑھائی

بھیڑیوں کے دانت

خطرہ!

صبح دَم باڑے میں

کوئی آدمی آتا ہے

موٹی چھال کی رسّی گلے میں ڈالتا ہے

ذبح خانے کی طرف چلتا ہے

دُنیا اپنے اندر مست ہے

ارض و سما اپنی جگہ موجود ہیں

پانی اُسی سرعت سے دریاؤں میں بہتا ہے

پہاڑوں کی وُہی اِستادگی

سب کچھ وُہی ہے

ہست کی سانسیں

مسلسل چل رہی ہیں

مضمحل کمزور ٹانگیں

ایک دُوجے سے اُلجھتی دستیاں

بے مایگی کا آخری لمحہ

زُبانِ بے زُبانی

ایک دَم گردن پہ

تیزی سے چھری چلتی ہے

قصّہ ختم ہوتا ہے !

 

ہمیشہ سے یہاں قربان ہوتا آ رہا ہُوں

کار آمد جانور ہُوں

کھال سے جوتے

سنہری اُون سے بنتی ہیں سَر کی ٹوپیاں

اور گوشت پکتا ہے !!

٭٭

 

 

اُردو نظم کی روایت میں اُسلوب کے متنو ّع قرینے اختیار کیے گئے ہیں۔ ہر شاعر نے اپنی وسعتِ ذہنی اور فنی شعورو آگہی کے باعث اپنے لیے اظہار کا نیا راستہ نکالنے کی اپنے طور پر ایک کوشش کی ہے۔ اِس سلسلے میں ابلاغ بھی ایک مسئلہ رہا ہے، اگرچہ شعرا نے اِسے ایک حد تک اہمیت دی ہے یعنی جہاں ابلاغ حسنِ ابہام کو مجروح کرنے لگے تو شاعر قاری کو نظر انداز نہ بھی کرے تو اپنے مخاطبین کا حلقہ محدود ضرور کر لیتا ہے، لیکن اچھا شاعر اپنے اُسلوب کی انفرادیت کو اپنی ترجیحات میں اوّلیں اہمیت دیتا ہے۔

اُردو نظم کے اسالیب میں ایک انداز وہ بھی ہے جسے ایلیٹ نے شاعری کی تیسری آواز قرار دیا ہے یعنی ایسا انداز جس میں شاعر خود خطاب کرنے کے بجائے اپنے ماضی الضمیرکا اظہار کسی کردار کی زُبانی کرتا ہے۔ شاعری کی تیسری آواز جس کی جانب ایلیٹ نے نشان دہی کی ہے، مشرق و مغرب ہر دو شعری روایتوں میں متعدد شعرا کے ہاں مختلف النو ّع کرداروں کی صورت میں سنائی دیتی ہے، جن میں انسانی کرداروں کے علاوہ حیوانات، دیو مالائی مخلوقات، جمادات و نباتات اور مجرد عناصر حتّٰی کہ کیفیات و احساسات بھی بطورِ کردار دکھائی دیتے ہیں۔ اِن کرداروں کی تشکیل کی متنو ّع شعری غایتیں ہو سکتی ہیں، جن میں ایک اُسلوبیاتی غایت علامت نگاری ہے۔

رفیق سندیلوی کی نظم ’’وُہی مخدوش حالت‘‘ میں ایک ایسا کردار تراشا گیا ہے جو بے زُبان حیوان ہے۔ یہی کردار نظم میں واحد متکلم کی صورت میں مخاطب بھی ہوتا ہے۔ نظم کی ابتدا اُس کے تعارف سے ہوتی ہے، جس میں وہ دِن بھر تلاشِ رزق کی ناکام اور اُکتا دینے والی مشقّت اُٹھانے کے بعد شام کو واپس آتے ہوئے یوں گزارشِ احوال کرتا ہے :

 

ہمیشہ سے وُہی مخدوش حالت

ایک آدھی مینگنی دُم سے لگی ہے

ناک میں بلغم بھرا ہے

ہڈّیاں اُبھری ہوئی ہیں پشت کی

دو روز پہلے ہی

مُنڈی ہے اُون میری

 

کردار کے اِس سراپے کی تصویر میں کوئی جمالیاتی پہلو نہیں ہے بلکہ انتہائی قبیح تصویر سامنے آتی ہے۔ اِس تصویر میں حُسن بھرنا شاعر کا اختیار بھی نہیں ہے مگریہ بدصورتی کی جمالیات ہے جو اِس کردار کی ہیئت کذائی کو واضح طور پر متشکل کرتی ہے۔ غور کیجیے تو اِس کردار کا تعلق اُسی طبقے سے ہے جس کے ماحول کا تعارف فیضؔ نے اپنی نظم ’’کتّے ‘‘ میں کراتے ہوئے غلاظت میں گھر اور نالیوں میں بسیرے دکھائے ہیں لیکن نظم کا یہ کردار فیضؔ کے کردار سے مختلف ہے یعنی وقت آنے پر آقاؤں کی ہڈّیاں چبانے کا شعور نہیں رکھتا اور نہ ہی اِس کی طاقت کیوں کہ یہ کردارگوسفندی قبیلے سے ہے۔ نظم آگے بڑھتی ہے اور شاعر دِن بھر کی ناکام مساعی کے بعد اُس ماحول کی منظر کشی کرتا ہے جہاں رزق کی دستیابی کے امکانات معدوم ہیں :

سردیوں کے دِن ہیں

چٹیل بے نُمو میدان میں

ریوڑ کے اندر

سَر جھکائے

گھاس کی اُمّید میں

مدّھم شکستہ چال چلتا

خشک ڈنٹھل

اور پولی تھین کے مردہ لفافوں کو چباتا

دِن ڈھلے باڑے میں آتا ہوں

 

مذکورہ ماحول میں رزق جس قدر قلیل ہے، خوف اور دہشت اُسی قدر فراواں ہے :

 

ہمیشہ سے وُہی دوزخ کی بھاری رات

کہنہ خوف کا اَسرار

گہری بوُ

نکیلی قتلیوں والے سُوَر

کتوں کی لمبی بھونک

کہرے اور اندھیرے کی چڑھائی

بھیڑیوں کے دانت

خطرہ!

 

نظم کے دوسرے حصّے میں ایک اور کردار داخل ہوتا ہے :

 

صبح دَم باڑے میں

کوئی آدمی آتا ہے

موٹی چھال کی رسّی گلے میں ڈالتا ہے

ذبح خانے کی طرف چلتا ہے

 

اِس کردار کا تعارف اُس کی آمد سے پہلے ہو چکا ہے، یا یوں کہیے کہ اِس کردار کی آمد کا خوف ساری رات لاحق رہا اور اُس کی وحشت کے روپ وہ ہیں جنھیں نظم کے پہلے حصے میں مختلف وحشی کرداروں یعنی سو َر، کتّے یا بھیڑیے کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔ نظم کا یہ دوسرا کردار مرکزی کردار کو اُس طرف لے جا رہا ہے، جہاں اُسے اپنے آخری انجام سے دو چار ہونا ہے۔ فنا کے اِس لمحے میں اُسے ہر طرف بقا کے آثار نظر آتے ہیں لیکن یہ اُس کے لیے نہیں، دیگر عناصرِ حیات کے لیے ہیں :

 

دُنیا اپنے اندر مست ہے

ارض و سما اپنی جگہ موجود ہیں

پانی اُسی سرعت سے دریاؤں میں بہتا ہے

پہاڑوں کی وُہی اِستادگی

سب کچھ وُہی ہے

ہست کی سانسیں

مسلسل چل رہی ہیں

زمین، آسمان اور کوہسار اپنی جگہ موجود و اِستادہ ہیں اور اپنے حال میں مست لیکن نظم کا مرکزی کردار فنا سے دو چار ہونے جا رہا ہے۔ پانی کی روانی فزوں تر ہے۔ ہست کی سانسیں چل رہی ہیں لیکن کردار کی رفتار میں ایک عجیب سا اِضمحلال ہے۔ گویا ایک طرف کائنات کا عنصر بقا کا ترانہ گا رہا ہے مگر وہ فنا کے گریے سے دو چار ہے اور بالآخر:

مسلسل چل رہی ہیں

مضمحل کمزور ٹانگیں

ایک دُوجے سے اُلجھتی دستیاں

بے مایگی کا آخری لمحہ

زُبانِ بے زُبانی

ایک دَم گردن پہ

تیزی سے چھری چلتی ہے

قصّہ ختم ہوتا ہے !

 

نظم کا اختتام مرکزی کردار کی بعد از مرگ خود کلامی پر مشتمل ہے لیکن یہاں یہ کردار کثرت میں وسعت کی مثال ہے یعنی وہ المیہ جس سے یہ کردار نسل در نسل اور زماں در زماں دو چار ہے۔ نظم کے اِس حصّے میں اُسی بنیادی فلسفے کو بیان کیا گیا ہے جس کے اظہار کے لیے گذشتہ سطور ایک پس منظر کا کام دیتی ہیں :

 

ہمیشہ سے یہاں قربان ہوتا آ رہا ہُوں

کار آمد جانور ہُوں

کھال سے جوتے

سنہری اُون سے بنتی ہی سَر کی ٹوپیاں

اور گوشت پکتا ہے !!

 

وہ وجود جو اپنی زندگی میں زندہ رہنے کے وسائل سے محروم تھا، موت سے دو چار ہوکر دوسروں کے لیے زندگی کے مختلف اسباب پیدا کر رہا ہے۔ سَرسے لے کر پاؤں تک امان کے سامان بہم پہنچا رہا ہے اور یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو کسی ایک مکانی دائرے یا زمانی وقفے میں نہیں ہوا بلکہ ازل کے لمحے سے رُونُما ہوتا آرہا ہے۔ اَن گنت صدیوں کا یہ وہ تاریک بہیمانہ طلسم ہے، جس نے اِس طبقے سے وابستہ ہر کردار کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔

ایک اور زاویے سے دیکھیں تو درج بالا سطور میں رجائیت کا ایک پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ کرداراِس سرشاری میں ہے کہ وہ مرنے کے بعد ایک اور طرح کی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے۔ اُسے جوتوں، ٹوپیوں اور گوشت کی صورت میں ایک اور عرصۂ حیات مل جاتا ہے، بالفاظِ دیگر اُس کے وجود میں قلبِ ماہیّت کی صلاحیّت ہے۔ اگر پہاڑ اپنی جگہ موجود ہیں اور ہست کی سانسیں چل رہی ہیں تو اُسے بھی بقا کا ایک راستہ مل گیا ہے۔ وہ اَب ایک حیوان کے روپ میں نہیں بلکہ دیگر کار آمد عناصرِ حیات کے روپ میں ایک نئی زندگی گزارے گا۔

ساخت کے اعتبار سے دیکھیں تو یہ نظم تین حصوں میں بٹی ہوئی ہے اور ہر حصّے کی ابتدا یکساں نوعیّت کے مصرعوں سے ہوتی ہے :

-i     ہمیشہ سے وہی مخدوش حالت

-ii    ہمیشہ سے وہی دوزخ کی بھاری رات

-iii   ہمیشہ سے یہاں قربان ہوتا آ رہا ہوں

پہلے دونوں مصرعے بالترتیب کردار کے دن اور رات کی تصویر ہیں جب کہ تیسرا مصرعہ زندگی کا دن گزار لینے کے بعد زندگی کی شام کی تصویر ہے۔ تینوں تصویریں کردار پر وقت کے جبر کا اظہار کر رہی ہیں جن میں احتجاج کا کوئی رنگ نہیں ہے۔ شاید یہ بے احتجاجی ہی ایک طرح کا احتجاج ہے جس میں گھمبیر خاموشی کا احساس ہوتا ہے جو دیکھنے والے کے ذہن میں وجود، عدم، موت اور تسلسلِ حیات کے بارے میں سوالات اُبھارتا ہے۔

زندگی کا یہ وہ کردار ہے جو اِسی لیے پیدا ہوتا ہے کہ موت سے دو چار ہو۔ اُس کی زندگی کا زمانی وقفہ محض ایک مہلت ہے، اُس کے وجود کے اِس قابل ہو جانے کی کہ اُسے بعد از مرگ استعمال کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کی زندگی میں فنا کا خوف اُس کی سرشت میں شامل ہو جاتا ہے۔ ہر شب وہ اپنے طے شدہ انجام کے انتظار میں گزارتا ہے۔ اُس کے لیے ہر دن موت کے معیّن دن جیسا ہے۔

نظم کا یہ علامتی کردار جس سطح پر انسان کے جس طبقے کی نمائندگی کرتا ہے، اُس کا احوال بڑی عمدگی سے سامنے لایا گیا ہے۔ انسان کے اِس طبقے پر جس طرح رزق کے دروازے بند اور خوف کے دریچے کھول دیے گئے ہیں، جابر اور قاہر طبقہ اِس پر جس نوع کے مظالم روا رکھتا ہے، نظم میں علامتی انداز میں اس کی دِلگداز اور پُر اثر تصویر کھینچی گئی ہے۔

نظم کا مرکزی کردار چونکہ بے زُبانی کا شکار ہے، اِس لیے نظم میں اختیار کیا گیا دھیما لہجہ اور مصرعوں کے اختصار نے نظم کے اُسلوب کو ایک فطری رنگ دے دیا ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے