دسمبر۔ ۔ ۔ ناصر ملک

سنا ہے اس دسمبر میں تغیر ہی تغیر ہے

دسمبر کا اکیلا پن نہیں ہو گا دسمبر میں

دسمبر کی اداسی بھی نہیں ہو گی دسمبر میں

سنا ہے اب کے سردی بھی نہیں ہو گی دسمبر میں

جنوں ہو گا نہ ویرانی، تو کیا ہو گا دسمبر میں

بڑی ہی بے سرو سامانیاں دیکھیں گے ہم شاعر

بڑی ہی بد گماں تنہائیاں ہیں اس دسمبر میں

دسمبر میں جو میری ڈائری پر گرد جم جائے

دسمبر میں کوئی بھی لفظ گر میں لکھ نہ پایا تو

قیامت آخری لمحے پہ آ کے تھم نہ جائے گی؟

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے