سائرہ غلام نبی کی کہانی ’’سہمی ہوئی تصویر‘‘ اور ایک تجزیاتی تجربہ۔ ۔ ۔ زیب اذکار حسین

________________________________________________
سہمی ہوئی تصویر
________________________________________________

سائرہ غلام نبی
________________________________________________
جیسے ہی ان سب کو قدموں کی آہٹ سنائی دی، اس حبس زدہ کمرے میں صدیوں کا سنّاٹاٹھہر گیا۔
’’آ گیا سالا دماغ کی دہی کرنے ‘‘ ان میں سے کسی نے زیرِ لب کہا۔
باقی سب مصروف دکھائی دینے کی اداکاری کرنے لگے۔ صاف لگتا تھا کہ برسوں کی ریہرسل کے باوجود بھی مہارت میں اناڑی پن ہے۔
نام نہاد مالکانہ استحقاق سے اٹے چہرے پہ سیاہ رنگ کا چشمہ چڑھائے وہ دروازے سے داخل ہوا۔ اس سیاہ چشمے کے بارے میں اس کے ماتحتوں کا خیال تھا کہ وہ حالات سے چشم پوشی کے لےا لگاتا ہے۔
جس کمرے میں وہ داخل ہوا، یوں لگتا تھا کہ مستقبل بنیادوں پر خصوصی پلاننگ کر کے بے ترتیبی پھیلائی گئی ہے کہ دفتری امور تندہی سے انجام دینے والے کسی سہولت کا ذائقہ نہ چکھ لیں اور تن آسان نہ ہو جائیں۔ سیٹھ کی مخصوص ذہنیت اس کمرے کے کونے کونے سے ٹپکتی تھی۔ جہاں پانچ کرسیاں، تین میزیں، میزوں پر چائے کے دو کپ، ایک جگہ، چار گلاس، کبھی پانچ، کبھی دو، کبھی تین۔ البتہ ملازمین کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہتی۔
دروازے کے عین سامنے والی دیوار میں ایک کھڑکی تھی، جس کے پٹ مضبوطی سے بند کےد گئے تھے کہ کہیں تازہ ہوا کا جھونکا اندر نہ آ جائے، ، جس کے درزوں سے موسم جھانکتا گزر جاتا تھا۔ البتہ اس کھڑکی کے اوپر ٹنگی گھڑی وقت گزرنے کا لمحہ بہ لمحہ اعلان کرتی تھی۔
اس کمرے کی اشیا بہ شمول افراد کب کاٹھ کباڑ میں تبدیل ہوئے، دیوار پر پھڑپھڑاتا کلینڈر اس سلسلے میں خاموش تھا۔
وہ انگنت بل پیشانی پہ ڈالے اپنی بے آرام نشست گاہ پر بےٹھنت لگا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی اس لمحے بج کر گویا اسے چڑانے لگی۔ وہ کئی سیکنڈ تک گھور کر اسے دیکھتا رہا تو وہ جےسھ سہم کر چپ ہو گئی۔
وہ ان سب پر انچارج مسلط کیا گیا تھا۔ سیٹھ کی نظروں میں سرخرو ہونے کی کوشش میں اچھے برے کی تمیز بھلا بیٹھا تھا۔ برسوں اندر کی پکار کو سلاتے سلاتے جسم کے احتجاج نے نہ ختم ہونے والی جھلّاہٹ اس کی رگ رگ میں بھر دی تھی۔ سیٹھ کے سامنے گھگھیانے والا اپنے ماتحتوں میں آ کر خوف کی آلودگی پھیلانے والا ایسا آلہ بن جاتا تھا جو صرف ان کے دماغوں میں دھواں بھرتا۔
لائٹر سے شعلہ نکلا اور سگریٹ کی بجائے خود ہی سلگ اٹھا، ہر روز کی طرح اب بھی اس کی نظر سیدھی پلستر اکھڑی دیوار پہ ٹنگے قدیم فریم پہ جا ٹکی، جس کا جھکاؤ قدرے ترچھا ہو رہا تھا جو سہما سہما ہواسا تاثر دیتی تھی۔ جانے کیا بات تھی کہ وہ کمرے کی حالتِ زار کو یکسر نظر انداز کر کے اس تصویر پر نظر پڑتے ہی بھنّا اٹھتا اور اس کا پہلا سوال ہوتا۔ ’’آج بھی یہ فریم سیدھا نہ ہوسکا۔ ‘‘
آج بھی اس نے پہلی بات وہیں سے شروع کی، جو کل کی آخری تھی۔
’’تم لوگوں نے کل کچھ کیا ہے، جو آج کر لو گے ‘‘ وہ ترچھے فریم کو نفرت سے دیکھتے ہوئے بولا۔
’’ایک کیل تو تم سے ٹھونکی نہیں گئی، کرتے ہو انقلاب کی باتیں …‘‘
مقابلے سے پہلے ہتھیار پھےنکنی والے ہر روز کی طرح آج بھی حق دق تھے کہ ان کے ذہن میں یہ خنآس کب تھا۔
بات ننھی سی کیل سے شروع ہو کر ہمہ گیر ہو چکی تھی، اب وہ لاینحل مسائل کو لےا جھنجلا کر ان کے اعصاب پر برس رہا تھا۔
یہ روز کا معمول تھا، وہ سیٹھ کے کاروبار کے جوڑ توڑ میں الجھتا، شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بنا، سھٹے کے کمرے سے لوٹتا، جہاں اس کے ماتحت کام کرنے والے والوں کے سر جھکے ہوئے ہوتے، ان کو فرض شناسی سے کام کرتا دیکھ کر اس کو آگ لگ جاتی، اور ترچھے فریم میں مٹےج ہوئے نقش و نگار والی تصویر، اس کے جھلّاہٹ کا نقطہ ٔ آغاز بن جاتی اور وہ مغلظات بکنے لگتا کہ تصویر تک سہم کر، دیوار سے چپک جاتی اور کان دبا کر سننے لگتی۔
’’مقدّر تم لوگوں کا۔ سزا ہم جیسوں کو … ہمارے ٹیکسوں پہ پلنے والے، یہ صرف اور صرف تمہارے اعمال کی سزائیں ہیں، تم لوگوں نے منتخب کر کے ہمارے سروں پہ بٹھایا ہے، ‘‘ وہ از خود صالحین میں شامل ہو گیا۔ اور بقیہ کو عوام کی گالی دے کر ہر قصور سے خود کو بری الذمہ قرار دے دیا۔
’’خدا کی قسم! ہم نے تو کسی پارٹی کو ووٹ نہیں دیا‘‘ بے ارادہ ہی ان میں سے ایک صفائی دے بیٹھا۔ اب اس کا روئے سخن اس کی طرف تھا۔ یہ الزامات نئے نہ تھے، نہ آج ہی کوئی قصور سرزد ہوا تھا۔ یہ تو روز کا قصہ تھا۔ ہزار بار کے دہرائے ہوئے جملوں سے معنی مر چکے تھے، الفاظ کی سڑاند بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ یقیناً یہ وہ خیالات تھے، جو سیٹھ اپنے مفادات کے تحت اس کے اندر انڈیلتا جنہیں وہ باہر آ کر اگلنے لگتا۔
’’ یہ تم ہو نا عوام، جن کی اتنی بساط نہیں کہ ایک ذرا سے ترچھے فریم کو سیدھا کرسکیں۔ ‘‘
بھلا کہاں فریم، کہاں عوام، کہاں نظام … عجب بے ربط جوڑ تھا۔
’’سر ! وہ آج کی مہلت مل جائے تو …‘‘
یہ سنتے ہی اس کا تند لہجہ استہزا آمیز ہو گیا۔
’’اونہہ ! آ چکی کل…‘‘ کمرے میں موجود اس کے علاوہ سب ہی نے دانت کچکچا کر اس فریم کو دیکھا، اور ماحول کی کڑواہٹ کو اندر دھکیل کر مانیٹر کی اسکرین میں گھسنے کی کوشش کرنے لگا۔
ان سب کو اس فریم شدہ تصویر سے لے کر ملک کے نظام تک سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں تھی، ان کی بلا سے نظام بدلے، چہرے بدلیں، انصاف ہو یا نہ ہو، انقلاب آئے یا نہ آئے۔ انہیں تو فقط اپنے کام کا معاوضہ درکار تھا۔ جس سے زندگی کی تہمت کو گور تک با آسانی لے جائیں۔
کچھ توقف کے بعد کمرے میں اس کی آواز پھر ان سب کے کانوں کے پردے سے ٹکرائی۔
’’اخبار پڑھتے ہو؟‘‘
’’ جی … جی‘‘ اب اس جی میں اقرار تھا یا انکار۔
اس کو بھی یہ جاننے سے دلچسپی نہیں تھی۔ وہ شام کے اخبار کی شہ سرخی بن گیا اور ہراس پھیلانے لگا۔
’’تم لوگوں نے کچھ سوچا۔ اونہہ بھلا تم کیا سوچ سکتے ہو۔ زیادہ سے زیادہ بڑی طاقتوں کو گالی دے دو گے۔ ‘‘ خود سے سوال کر کے خود ہی جواب دینے کا فریضہ انجام دیا۔ سب کی نوک زباں پر ایک غلیظ ترین گالی آئی، مگر وہ گالی اندر کو دھکیل دی گئی۔
ان سب کو خاموش دیکھ کر کسی اینکر پرسن کی طرح سارے قصور ان کے سر تھوپتا چلا گیا۔ جانے کتنے میڈیا مسائل تھے جو لمحے بھر میں گنوا دئےف گئے تھے۔
ہر دن کی طرح ایک بار پھر وہ سب سوچنے لگے، وہ پہلے جمہوریت کا بحران حل کریں، گمشدہ افراد کو بازیاب کروائیں، ڈرون حملوں کو رکوائیں یا اس بھونپو کو اٹھا کر باہر پھینک دیں، یا کم از کم اس فریم کو جلد از جلد خاکستر کر دیں۔ ان سب کی سوچوں میں وقتی اُبال اُٹھا، معمول کی طرح سر جھکا کر کام کرتے جےسظ ہی پانچ بجے، عارضی رہائی پاتے ہی کمرے کا ہر غم بھلا کر صبح نو تک کے لےا اپنی دنیا میں مگن ہو گئے۔
………………
صبح کے نو بج چکے تھے، ایک ایک کر کے وہ آ چکے تھے، ان سب کا مصمم ارادہ تھا کہ وہ ا س ترچھے فریم والی تصویر کو سیدھا کر کے رہیں گے۔
’’یار ! یہ بھی کوئی مشکل کام ہے۔ ‘‘ ایک نے اسٹول کو دیوار کے قریب رکھتے ہوئے کہا۔
’’خوامخواہ اس بڈھے نے اِشو بنا رکھا ہے۔ ‘‘ دوسرا اسٹول پر چڑھ گیا۔
چوتھے نے دوسرے کو پیپر ویٹ تھمایا۔ وہ کیل اکھاڑ کر نئے سرے سے ٹھونکنے لگا۔ چند ہی لمحوں میں ٹھیک زاوئےو سے فریم، کچھ اجنبی سا تاثر دے رہا تھا۔
’’الو کا پٹھا ‘‘ دوسرا ہاتھ جھاڑتے ہوئے فقط معصوم سی گالی دے کر رہ گیا۔ تیسرے نے زور دار گالی دینے کے لےی منہ کھولا ہی تھا کہ ان کے قدموں کی چاپ سنائی دی، اور پل بھر میں حبس زدہ کمرے میں سنّاٹا ٹھہر گیا۔ وہ نپے تلے قدم اٹھاتا، فرش کو روندتا اندر داخل ہوا۔
اس سے پہلے کہ فون اسے چڑاتا۔ اس نے اسے اٹھا کر کریڈل پر رکھ دیا۔ برسوں کی عادت کے مطابق، سیدھی اس کی نظر پلاستر اکھڑی دیوار تک گئی۔ جہاں فریم سیدھا ہو کر پھیکی سی مسکراہٹ کا تاثر دے رہا تھا۔
کچھ دیر مکمل خاموشی طاری رہی۔ وہ فریم کو تکتا رہا۔
’’ یہ فریم کس نے سیدھا کیا ہے۔ ‘‘ کڑک دار لہجہ ان کو ایک بار پھر سہما گیا۔
’’ وہ ہم نے …‘‘ ان میں سے کسی ایک نے جوش میں بولنے کی کوشش کی … اور ہکلا کر رہ گیا۔
’’کیا سارے مسائل حل ہو گئے ؟‘‘ اس نے سب کو باری باری گھورا، سب کے سر عادتاً پنڈولم کی طرح ہلے۔
’’آج مجھے یقین ہو گیا، تم سب کچھ بھی نہیں کرسکتے، کچھ بھی نہیں۔ ‘‘ وہ تیز آواز میں بار بار ایک ہی جملے کی تکرار کرنے لگا۔
’’ کیا مذاق ہے، پوری قوم مل کر ایک کیل ٹھونکنے میں لگی ہوئی ہے، تمہیں خبر ہے تمہاری سرحدوں پر کیا ہو رہا ہے۔ تمہاری اسمبلیاں آج کل کس اِشو پر لڑ رہی ہیں اور وہ تمہاری عدالتیں …‘‘
ایک بے ضررسی کیل تھی، لاینحل مسئلے تھے او ر وہ تھا …
فریم میں مٹی مٹی سی تصویر ان سب پر ہنس رہی تھی، اور وہ سب اپنے آپ میں چھپ رہے تھے۔
٭٭٭
________________________________________________
وہ تخلیقات جو اپنے سُپر اسٹرکچر(Super Structure)مںن ایک ایسی معنوی دلیل قائم کرتی ہں ، جس کی تنسیخ ہمںت خیال، ہیئت اور اظہار کی یکجائی مںی کہںر نظر نہں آتی۔ تو ایسی صورت مںک بسا اوقات تجزیاتی تدبّر۔ معنویت شکنی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ بالکل یہی خیال میرے ذہن مںی اُس وقت آیا جب مںس ’’سہمی ہوئی تصویر ‘‘ پڑھ چکا۔
یوں تو سائرہ غلام نبی کے تمام افسانوں ( جن کا مطالعہ مںل نے کیا ہے ) مںپ اس تخلیقی دلیل کی نفی نظر نہںی آتی جو یہ اپنی کہانی یا افسانے کے آغاز مںے قائم کرتی ہںے او ر عام طور پر ان کے ہر افسانے مں زبان و بیان، ہیئت اور اظہار کا تجربہ اپنے مواد کی تخلیقی ہم آہنگی کی مناسبت سے نظر آتا ہے۔ مگر ’’سہمی ہوئی تصویر‘‘ مںئ انہوں نے جس معروض سے ایک موضوع کو تخلیق کیا ہے۔ اس موضوع کی بھی ایک معروضی دنیا بنتی نظر آتی ہے۔ اب اس معروضیت کے کلچر آف انڈرسٹینڈنگ / میننگ (Culture of Understanding/ Meaning) کو تجزیاتی آنکھ کہںی نہ کہںن متاثر کرسکتی ہے۔ دوسرے لفظوں مں ۔ معنویت کی یک سطحی تفہیم کہانی کے باطنی مفاہیم کی بیخ کنی بھی کرسکتی ہے۔
بجائے اس کے کہ ایک منضبط تجزیاتی خاکہ کھینچا جائے۔ کیوں نہ اس کو ایک تجزیاتی تجربہ سمجھ کر گوارا کیا جائے۔ ذرا غور فرمائےے ’’سہمی ہوئی تصویر‘‘ ایک ایسے دفتر کی کہانی ہے جو اپنے (Space)مںی ہی محدود نہںو ہے، بلکہ اپنے وقت (Time)مںر بھی ایک اعتبار سے محدود ہے۔ یہاں پر ایک کردار ’’نام نہاد مالکانہ استحقاق سے اَٹے چہرے پہ سیاہ رنگ کا چشمہ چڑھائے پھرتا ہے۔ ‘‘ اس سیاہ چشمے ے بارے مںا ماتحتوں کا خیال ہے کہ وہ حالات سے چشم پوشی کے لےہ لگاتا ہے۔
کہانی کے آغاز مں ’سیٹھ کی ذہنیت اور کمرے کی بے ترتیبی‘ کے تعلق سے کچھ باتںل یوں واضح کی گئی ہںک۔
’’ جس کمرے مںا وہ داخل ہوا، یوں لگتا تھا کہ مستقبل بنیادوں پر خصوصی پلاننگ کر کے بے ترتیبی پھیلائی گئی ہے کہ دفتری امور تندہی سے انجام دینے والے کسی سہولت کا ذائقہ نہ چکھ لںب اور تن آسان نہ ہو جائںا۔ سیٹھ کی مخصوص ذہنیت اس کمرے کے کونے کونے سے ٹپکتی تھی۔ جہاں پانچ کرسیاں، تین میزیں، میزوں پر چائے کے دو کپ، ایک جگہ، چار گلاس، کبھی پانچ، کبھی دو، کبھی تین…۔ البتہ ملازمین کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہتی۔ ‘‘
یہاں پرمسئلہ ایک بوسیدہ سی دیوار پر ٹنگے ایک فریم کے ترچھے پن کا ہے، فریم کسی وجہ سے ایک طرف کو جھک گیا ہے اور اس آفس کا انچارج سیٹھ کی نظر مںھ اچھا بننے کی کوشش مںئ اچھے برے کی تمیز بھلا بیٹھا ہے اور برسوں اندر کی پکار کو سلاتے سلاتے جسم کے احتجاج نے نہ ختم ہونے والی جھنجلاہٹ اس کی رگ رگ مںت بھر دی ہے۔ انچارج اپنے ماتحتوں کو ہر روز کھری کھری سناتا ہے کہ آخر فریم کا جھکاؤ جو قدرے ترچھا ہو چکا ہے، سیدھا کیوں نہںا کیا جا رہا ہے جو تصویر بنتی نظر آتی ہے وہ کچھ یُوں ہے :
’’ لائٹر سے شعلہ نکلا اور سگریٹ کی بجائے خود ہی سلگ اٹھا، ہر روز کی طرح اب بھی اس کی نظر سیدھی پلستر اکھڑی دیوار پہ ٹنگے قدیم فریم پہ جا ٹکی، جس کا جھکاؤ قدرے ترچھا ہو رہا تھا جو سہما سہما ہواسا تاثر دیتی تھی۔ جانے کیا بات تھی کہ وہ کمرے کی حالتِ زار کو یکسر نظر انداز کر کے اس تصویر پر نظر پڑتے ہی بھنّا اٹھتا اور اس کا پہلا سوال ہوتا۔ ’’آج بھی یہ فریم سیدھا نہ ہوسکا۔ ‘‘
آج بھی اُس نے پہلی بات وہں سے شروع کی، جو کل کی آخری بات تھی۔ ‘‘
اب کہانی کے اختتام کو ایک نظر دیکھیے :
’’ برسوں کی عادت کے مطابق، سیدھی اس کی نظر پلاستر اکھڑی دیوار تک گئی۔ جہاں فریم سیدھا ہو کر پھیکی سی مسکراہٹ کا تاثر دے رہا تھا۔
کچھ دیر مکمل خاموشی طاری رہی۔ وہ فریم کو تکتا رہا۔
’’ یہ فریم کس نے سیدھا کیا ہے۔ ‘‘ کڑک دار لہجہ ان کو ایک بار پھر سہما گیا۔
’’ وہ ہم نے …‘‘ ان مں سے کسی ایک نے جوش مںج بولنے کی کوشش کی … اور ہکلا کر رہ گیا۔
’’کیا سارے مسائل حل ہو گئے ؟‘‘ اس نے سب کو باری باری گھورا، سب کے سر عادتاً پنڈولم کی طرح ہلے۔
یاد رہے کہ اس کردار نے ابتدا مں‘ کہا تھا ’’تم لوگوں نے کل کچھ کیا ہے، جو آج کر لو گے۔ ‘‘
اس نے یہ بھی کہا تھا کہ’’ ایک کیل تو تم سے ٹھونکی نہںک گئی، کرتے ہو انقلاب کی باتںر …‘‘ اور مقابلے سے پہلے ہتھیار پھےنکنم والے ہر روز کی طرح آج بھی حق دق تھے کہ ان کے ذہن مںل یہ خناس کب تھا۔
اور اب کہانی کے اختتام پر یہی کردار یہ کہتا دکھائی دیتا ہے۔
’’ کیا مذاق ہے، پوری قوم مل کر ایک کیل ٹھونکنے مں لگی ہوئی ہے، تمہںہ خبر ہے تمہاری سرحدوں پر کیا ہو رہا ہے۔ تمہاری اسمبلیاں آج کل کس اِشو (Issue)پر لڑ رہی ہںے اور وہ تمہاری عدالتں …‘‘
کہانی کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے۔
’’ ایک بے ضررسی کیل تھی، لاینحل مسئلے تھے اور وہ تھا …فریم مںو مٹی مٹی سی تصویر ان سب پر ہنس رہی تھی، اور وہ سب اپنے آپ مںا چھپ رہے تھے۔ ‘‘
اب ذرا مشاہداتی ادراک ان جملوں کی صورت مںل دیکھیے جو کہانی مںر جا بجا آئے ہںا۔ یہ جملے کہں تو کہانی کار کے اپنے شعوری اظہار کے طور پر آئے ہںر یا مختلف کرداروں کی شعوری سطح، ان کی موومنٹ (Movement)، اعمال اور کریکٹر ایزیشن(Characterization)کے تعلق سے آئے ہں ۔ اور اگر ان اسٹیٹمنٹس(Statements)کو ایک کلّی ادراک یا (As a what perception)کے طور پر دیکھا جائے تو یہ ایک ایسا کمنٹ(Comment)بن جاتا ہے ایک صور ت حال پر جو ریاستی جبر، سیاسی اور سماجی استحصال اور ثقافتی زبوں حالی کا جہنم ہے۔ اس جہنم مںت موجود کم و بیش تمام کردار ایک تباہ کن نفسیاتی دباؤ کا شکار بھی نظر آتے ہںک۔ ذرا جملوں کی ساخت اور زبان کا استعمال دیکھیے جو اظہار کی کئی ایک پرتوں کو اپنے حصار مںو لےتح یا ان کی کوریج(Coverage)کرتے دکھائی دیتے ہںا۔
’’دروازے کے عین سامنے والی دیوار مںک ایک کھڑکی تھی جس کے پٹ مضبوطی سے بند کےا گئے تھے کہ کہںe تازہ ہوا کا جھونکا اندر نہ آنے پائے۔ ‘‘
اس کمرے کی اشیا بہ شمول افراد کب کاٹھ کباڑ مںو تبدیل ہوئے، دیوار پر پھڑپھڑاتا کلینڈر اس سلسے مںا خاموش تھا۔
’’بات ننھی سی کیل سے شروع ہو کر ہمہ گیر ہو چکی تھی، اب وہ لاینحل مسائل کو لے جھنجلا کر ان کے اعصاب پر برس رہا تھا۔ ‘‘
’’مقدّر تم لوگوں کا۔ سزا ہم جیسوں کو … ہمارے ٹیکسوں پہ پلنے والے، یہ صرف اور صرف تمہارے اعمال کی سزائیں ہںت، تم لوگوں نے منتخب کر کے ہمارے سروں پہ بٹھایا ہے۔ ‘‘
وہ ازخود صالحین مںو شامل ہو گیا۔ اور بقیہ کو عوام کی گالی دے کر ہر قصور سے خود کو بری الذمہ قرار دے دیا۔
’’ان سب کو اس فریم شدہ تصویر سے لے کر ملک کے نظام تک سے قطعاً کوئی دلچسپی نہں تھی۔ اُن کی بلا سے نظام بدے، چہرے بدلںم، انصاف ہو یا نہ ہو، انقلاب آئے یا نہ آئے۔ انہںد تو فقط اپنے کام کا معاوضہ درکار تھا، جس سے زندگی کی تہمت کو گور تک با اسانی لے جائںا۔ ‘‘
کچھ توقف کے بعد کمرے مںر اس کی آواز پھر ان سب کے کانوں کے پردے سے ٹکرائی۔
’’اخبار پڑھتے ہو؟‘‘
’’ جی … جی‘‘ اب اس جی مںن اقرار تھا یا انکار۔ اس کو بھی یہ جاننے سے دلچسپی نہںم تھی۔ وہ شام کے اخبار کی شہ سرخی بن گیا اور ہراس پھیلانے لگا۔
’’تم لوگوں نے کچھ سوچا۔ اونہہ بھلا تم کیا سوچ سکتے ہو۔ زیادہ سے زیادہ بڑی طاقتوں کو گالی دے دو گے۔ ‘‘ خود سے سوال کر کے خود ہی جواب دینے کا فریضہ انجام دیا۔
’’سب کی نوک زباں پر ایک غلیظ ترین گالی آئی، مگر وہ گالی اندر کو دھکیل دی گئی۔ ‘‘
’’ ان سب کو خاموش دیکھ کر کسی اینکر پرسن کی طرح سارے قصور ان کے سر تھوپتا چلا گیا۔ جانے کتنے میڈیا مسائل تھے جو لمحے بھر مںھ گنوا دئےظ گئے تھے۔ ‘‘
’’ہر دن کی طرح ایک بار پھر وہ سب سوچنے لگے، وہ پہلے جمہوریت کا بحران حل کریں، گمشدہ افراد کو بازیاب کروائںت، ڈرون حملوں کو رکوائں یا اس بھونپو کو اٹھا کر باہر پھینک دیں، یا کم از کم اس فریم کو جلد از جلد خاکستر کر دیں۔ ‘‘
اگر آپ کوژاں پال سارتر کا ایک کھیل غالباً ’’نو ایگزٹ‘‘ (No Exit)کے کرداروں کی بحث یاد ہو تو اس کا لب لباب ’’دوسرے جہنم مںت ‘‘ یا اودرز از ریل(Others is Real)کے تصور کی صورت مںر سامنے آئے گا۔ ہر کردار کم و بیش ایک دوسرے سے نفرت کرتا ہے اور ایک منافقانہ فضا مںآ اپنے ’’ہونے ‘‘ کا خراج دے رہا ہے۔ نوایگزٹ دراصل زندگی کی بے معنویت کو کسی بھی طور ’’مرادی ‘‘ یا علامتی مفہوم مں اجاگر نہںہ کرتا بلکہ اپنے منطقی نتائج کا کنکلویژن(Conclusion)مںے Existenceکی لایعنیت۔ (Absurdity)کو پیش کرتا ہے۔ ان پر حالات کی بُنت کاری اور کرداروں کی کشمکش اپنے طور پر ’’ہونے ‘‘(Beingness)کو ایک لایعنی ایکٹویٹی(Absurd activity)کے اثبات کے لےر لفظی اور مکالماتی صورت مںد پینٹ(Paint)کیا گیا ہے اور سائرہ غلام نبی کے اس فن پارے ’’سہمی ہوئی تصویر‘‘ مںض ’’ہونے ‘‘ کے ’’عذاب‘‘ کو Conditionedیا مشروط کیا گیا ہے۔ معاشرتی زبوں حالی، ریاستی جبر، بین الاقوامی سیاسی رسہ کشی، کے نتےجا مںا ترقی پذیر ممالک پر سامراجی تسلط اور اس کے خوفناک نفسیاتی اثرات سے۔ یہاں پر کہانی کے کردار ایک ترقی پذیر ملک( پاکستان) کے کسی بھی شہر کے کسی بھی چھوٹے سے دفتر کے کارندے ہوسکتے ہںس مگر جو زبوں حالی ان کے حصے مںط آئی ہے اس کی ذمہ داری ایک ’’ نام نہاد مالکانہ استحقاق سے اٹے چہرے پر سیاہ رنگ کا چشمہ چڑھائے کردار کے سر جاتی ہے۔
دیگر کرداروں کا رد عمل کم وبیش ایک ہی جیسا ہے یا وہ ایک ہی جیسی صورت حال سے دوچار ہںپ۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں پر ہونے والے (Beingness)… کی تردید یا Rejectionکا سوال در پیش نہںا ہے، بلکہ یہاں پر تو ’’ہونا ‘‘ یا (Existence)ہی ایک سوال بن کر رہ گیا ہے۔ یہاں پر ایک اعتبار سے ایک نمائندہ استحصالی طاقت کے لےے دوسرے جہنم مںn ہںس مگر ان کی مکمل تنسیخ بھی برداشت نہںک کرسکتی۔ یہاں پر ایک فریم جسے سو چ یا تفہیم یا انڈراسٹینڈنگ (Understanding)کا ایک فریم ورک بھی کہا جا سکتا ہے مہیا تو کیا گیا ہے کہ مگر اس فریم ورک(Frame Work)فریم ورک کو بھی ایک آئیڈیل صورت حال مں اون(Own) کرنے کے حق سے محروم رکھا گیا ہے … شاید یہی وجہ ہے کہ کہانی کے کردار فریم شدہ تصویر سے لے کر ملک کے نظام تک سے قطعاً بے بہرہ نظر آتے ہںڈ کیوں کہ انہںت اس امر کا خام سطح پر احساس ہے کہ ان معاملات مں انوالو(Involve) ہونے سے ا ن کے لے مزید مسائل ہی پیدا ہوں گے نہ کہ نجات کی کوئی راہ نکلے گی۔ یہاں پر زندگی یا Beingnessہی ایک بنیادی سوال کا درجہ رکھتی ہے۔ کیوں کہ ’’سہمی ہوئی تصویر‘‘ کے کردار تو فقط اپنے کام کا معاوضہ چاہتے ہں تاکہ ’’زندگی کی تہمت کو گور تک با آسانی لے جائںت۔ ‘‘ یہاں پر کہانی کی ایک پرت یہ نشاندہی کرتی نظر آتی ہے کہ ’’زندگی … ہنوز دور ہے … اور اس کے بجائے ’’زندگی کی تہمت، کے حق دار … اپنے ہونے ہی کی سہولت اور ادراک سے محروم رکھے جا رہے ہں کیونکہ ان کا ہر رد عمل … خود اپنے کے لئے ایک نئی مصتب کا باعث بن جاتا ہے اور وہ جو معروضی صورت حال پر اثر انداز ہونے کی قوت نہںک رکھتے، جب اپنے ہی رد عمل کے نتےج مںا ( جو ایک سطح پرلا یعنی (Absurd)بن جاتا ہے ، ایک نہ ختم ہونے والے مصیبت سے دوچار ہو جاتے ہںے تو فریم مںا مٹی مٹی سی تصویر ان سب پر ہنستی نظر آتی ہے او ر وہ اپنے آپ مں چھپنے لگتے ہںن۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے