حمید سہروردی کی نظم "صفر”کا تجزیہ۔ ۔ ۔ عبد الرب اُستاد

________________________________________________

حمید سہروردی

________________________________________________

 

ایک

صفر صفر دو

صفر صفر صفر تین

صفر صفر صفر صفر چار

صفر صفر صفر صفر صفر پانچ

صفر صفر صفر صفر صفر صفر چھ

صفر صفر صفر صفر صفر صفر صفر سات

صفر صفر صفر صفر صفر صفر صفر صفر آٹھ

صفر صفر صفر صفر صفر صفر صفر صفر صفر نو

صفر ہی صفر

ہجوم صفر

تیرا اور میرا

حاصل

ایک دائرہ

یا

ایک نقطہ

٭٭

 

 

________________________________________________

 

دیکھیں کیا گذرے ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

دنیائے ادب میں حمید سہروردی کی شناخت افسانہ نگار کی حیثیت سے مسلم ہے۔ جب کہ انھوں نے شاعری بھی کی ہے۔ ان کے اکثر افسانوں کے ٹکڑوں پر شاعری کا گمان ہوتا ہے۔ اس طرح جہاں انھوں نے نثر میں شاعری کو سمو دیا ہے تو وہیں شاعری کے لیے نثری شاعری کا انتخاب کیا۔ اور نہ صرف بہت ساری نظمیں لکھ ڈالیں بلکہ شعری مجموعہ "شش جہت آگ” قارئین کے ہاتھوں میں سونپ دیا۔ اس مجموعہ میں جہاں مختلف عنوانات کے تحت نظمیں ملیں گی ان میں ایک نظم "صفر” بھی ہے۔ بظاہر یہ نظم کچھ عجیب و غریب سی لگتی ہے، بلکہ بچکانہ سی محسوس بھی ہوتی ہے۔ مگر بہ نظر غائر اس کو پڑھیں تو اس میں کئی اسرار و رموز پوشیدہ ملتے ہیں اسی وجہ سے اس نظم نے مجھے اپنی طرف راغب کیا۔ وگر نہ سرسری نگاہ میں تو کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس میں تو بس صفر سے لے کر نو تک کے اعداد کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد تیرا یا میرا اور پھر ایک دائرہ یا نقطہ کہہ کر نظم کو مکمل کر دیا گیا ہے۔ گویا آغاز بھی صفر، اور انجام بھی صفر ہے۔ ایسی صورت میں اس نظم میں آخر کون سی بات ہے جو اپیل کرے اور جب اپیل کر رہی ہے تو یقیناً اس میں کوئی بات ہے۔ معاً میرا ذہن شاعر کی طرف گیا کہ وہ تو سہروردیہ سلسلہ سے ہیں۔ یقیناً یہی ان کے تحت الشعور اور لا شعور میں موجود ہے جو شعوری رنگ اختیار کر گئیں اور اس نظم کی وجہ تخلیق بن گئیں۔        اس نظم میں تین حصے بن گئے یعنی ایک سے نو تک کے اعداد اور تیرا اور میرا حاصل، اور دائرہ یا نقطہ، اس طرح اس نظم میں مجھے تین نکات مل گئے اور وہ تین نکات یہ ہیں۔

۱۔ خدائی عظمت       ۲۔ انسانیت کی معراج   ۳۔ عدم سے عدم تک کا انسانی سفر

جسے ایک طریقہ سے یوں بھی کہا جا سکتا ہے

۱۔ خدا           ۲۔ کائنات                 ۳۔ بشر       یا

۱۔ صفر (خدا) ۲۔ میرا یا تیرا حاصل (فنا تصادم)       ۳۔ دائرہ یا نقطہ(بندہ)

علم الاعداد کے تحت، صفر سے ۹تک کے اعداد تمام اکائی کی صورت میں موجود ہیں ان میں صفر بے قیمت ہونے کے باوجود لا قیمت ہو گیا ہے۔ یعنی بظاہر اس کی کوئی قیمت نہیں ہے اور اگر یہ کسی عدد سے جڑ جائے یا کوئی عدد صفر سے جڑ جائے تو اس عدد کی قیمت صفر کی وجہ سے بڑھ جائے گی۔ اور وہ عدد اگر صفر سے ٹکرا جائے یعنی ضرب دیا جائے تو وہ عدد خواہ کتنا ہی بڑا ہو، اپنی قیمت کھو دے گا۔ معلوم ہوتا ہے یہ صفر گویا کچھ بھی نہ ہو کر بہت کچھ ہے۔ اگر ہم اس کو خالق کائنات سے تعبیر کریں تو کیفیت یہ ہو گی کہ وہ جس کے ساتھ جڑے وہ لا قیمت ہو گا اور کوئی اس سے ٹکرانے کی کوشش کرے تو پاش پاش اور ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔ ضرب کا ایک اور معنی اپنے وجود کا احساس بھی ہے جو صوفیوں کے ہاں ملتا ہے۔ کیوں کہ صوفی بھی ہمیشہ لا الہ کی ضرب اپنے دل پر لگاتا رہتا ہے اور اس سے لذت اندوز ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ ضرب خود کی نفی کے لیے ہو تو انسانی معراج میں معاون ہوسکتا ہے بقول اقبال

مٹا دے اپنی ہستی کو اگر تو مرتبہ چاہے

اور اگر یہ رعونت پر محمول ہو جائے تو فرعون، شداد، نمرود وغیرہ کی طرح موجب عبرت بن جائے۔ غالباً یہی وہ سہروردیہ قوت شاعر کے لاشعور میں عود کر آئی ہو جسے انھوں نے صفر سے نو تک کے اعداد کا حاصل ضرب صفر بنا کر اس ذات بے ہمتا کی طرف اشارہ کر دیا ہو۔ وگر نہ تو صوفیوں نے کہا تھا کہ لا موجود الا اللہ، جبکہ اس ذات قوی کو اسی ضرب کی معرفت خود کے اندر محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔

دوسرا زینہ من و تو کا ہے، جسے شاعر نے تیرا یا میرا سے تعبیر کیا ہے۔ علامہ اقبال کے ہاں یہ کیفیت بڑی شد و مد کے ساتھ نظر آتی ہے کہ جب انسان خود کی تلاش یا خود احتسابی میں غرق ہو جائے تو اس کو وہ ذات قوی کا پر تو محسوس ہوتا ہے حضرت بندہ نوازؒ نے کیا خوب فرمایا تھا

پانی میں نمک ڈال بسا دیکھنا اسے

جب گھل گیا نمک تو نمک بولنا کسے

 

یوں گھولے خودی اپنی خدا ساتھ مصطفی

جب گھل گئی خودی تو خودی بولنا کسے

چنانچہ انسان اپنے خدا سے متصادم ہو جائے تو وہ مٹ جائے گا اور اگر اپنی ہستی کو مٹا کر اس سے جڑ جائے تو وہ بھی بے کراں ہو جائے گا۔ اسی لیے حکم ہوا کہ تم اپنے رب کا اقرار بھی کرو تو اس کا آغاز نفی سے کرو، یعنی "لا الہ الا اللہ "کہ پہلے نفی کرو غیر اللہ کی، دنیاوی معبودوں کی، اس کے بعد تمہارا اقرار کہ اللہ ہمارا رب ہے مناسب ہو گا۔ یعنی بغیر انکار کہ اقرار بھی نا مکمل ہے اس طرح شاعر نے

تیرا یا میرا

حاصل

ایک دائرہ

کہہ کر اکملیت انسانی کی طرف اشارہ کر دیا۔ کہ معراج کی شب کا خلاصہ کائنات، محسن انسانیت، ہادیٔ کامل، سرکار دو جہاں، خاتم الانبیاء، حضرت محمد رسول اللہ صلعم عرش کی جانب رواں دواں تھے اور حضرت جبرئیل خاموش کھڑے۔ بقول اصغر

عرش تک تو ساتھ لے گیا تھا حسن کو

پھر نہیں معلوم اب خود عشق کس منزل میں ہے

آپ عرش کی جانب بڑھ رہے ہیں اور خدا عرش سے نیچے کی طرف آ رہا ہے۔ کیا کیفیت ہے۔ سورة النجم میں یوں بیان ہوا ہے : و اذ قاب قوسین ثم دنی فتدلیٰ

اور جب دونوں قوسین مل گئے اور ایک دوسرے میں پیوست ہو گئے تو یہ جاننا مشکل ہو گیا کہ کون خالق ہے اور کون بندہ۔ اقبال کے بقول

عشق کی ایک ہی جست نے کر دیا قصہ تمام

اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں

شاعر نے کل کو جز سے بیا ن کر دیا۔ اس طرح آخر میں شاعر نے نقطہ یا دائرہ پر نظم کا اختتام کیا اب یہ دائرہ یا نقطہ کیا ہے ؟یہی دائرہ یا نقطہ دلالت کرتا ہے انسانی سفر کی جو عالم عدم سے عالم موجودات تک اور پھر موجودات سے عدم تک کو۔ جس کو ہمارے مقتدر شعرا نے مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے جیسے غالب نے کہا تھا کہ

دیکھیں کیا گذرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

قطرہ دراصل ایک نقطہ یا دائرہ، یا صفر ہی ہے۔ عموماً شارحین نے قطرہ سے مراد قطرہ نیساں لیا ہے، جو سیپ میں بند ہونے کے بعد رُلتا رہتا ہے اور ایک مقررہ مدت تک رُلنے کے بعد وہ ایک چمک دار موتی بن جاتا ہے۔ برخلاف اس کے اگر ہم اس قطرہ کو انسانی نطفہ سے تعبیر کریں تو وہ رحم مادر میں نو ماہ دس دن تک مختلف کیفیتوں سے گذرتا ہوا ایک نادر و نایاب گہر کی صورت میں نمودار ہوتا ہے جسے خود اللہ تعالیٰ نے خلیفة اللہ یا خلیفة الارض کہہ کر پکارا ہے۔ اصل میں یہ وہ گہر ہے جو ابتدا میں صرف قطرہ، نقطہ، دائرہ یا صفر کی شکل میں ہوتا ہے اور ارتقا کی مختلف منزلوں سے گذرتا ہوا درِ ناب بن جاتا ہے اور جب یہ اپنی حقیقت کو جان جاتا ہے یا پہچان لیتا ہے تو وہ، وہ نہیں رہتا جو وہ ہوتا ہے۔ اور پھر یہ بھی ایک دائرہ میں یعنی Globeفطرت میں زندگی گذارتا ہے، وہ بھی دائرہ یا صفر ہی ہے۔ اس طرح عالم عدم سے موجودات تک اور عالم موجودات سے عدم کی طرف مراجعت اختیار کر تا ہے جو اس کا مقدر ہے۔ ان سے قطع نظر یہ نظم ایک بصری پیکر لیے ہوئے ہے اور وہ پیکر درا صل رواں تیر کی شکل میں محسوس ہوتی ہے جو شکار کی طرف جا رہا ہو۔ یہ اشارہ بھی وہی صوفی کی ضرب پر دال کرتی ہے جو اس کے دل پر لگتی ہے جس سے ایک نئی زندگی سے وہ ہم کنار ہوتا ہے۔

غرض یہ نظم، ا یک مکمل نظم ہے جو انسان کو یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ بذات خود کوئی چیز نہیں بلکہ اسے چاہئے کہ وہ ہمیشہ اس خدائے قادر کے فرمان کے تابع رہ کر زندگی گذارے اور خود کو پہچان لے اور اسی میں ضم ہو جائے۔ قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

http://www.punjnud.com/ViewPage.aspx?BookTitle=Akkas%20shamarah%20number%206

٭٭٭

One thought on “حمید سہروردی کی نظم "صفر”کا تجزیہ۔ ۔ ۔ عبد الرب اُستاد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے