مکاں سے لامکاں تک محیط و بسیط آفاقی پیغام۔ ۔ ۔ ڈاکٹر سلیم خان

انسان اپنی زندگی کا شعوری سفر شروع کرنے سے بہت پہلے لاشعوری طور پر ایک نام سے منسوب ہو جاتا ہے۔ قلمی سفر میں بھی یہی ہوتا ہے ابتداء ہی میں یہ جانے بغیر کے اسے کن راہوں سے گزرنا ہے اور کن منازل کو سر کرنا ہے فنکار اپنے لئے ایک نام تجویز کر لیتا ہے۔ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ جسے اقبال مندی ملنے والی ہو اس کا نام اقبال رکھ دیا جائے۔ دنیائے شاعری میں غلبہ و کامرانی جس کا مقدر ہو وہ اپنا تخلص غالب رکھ لے۔ عوام کو فیضیاب کرنے کی تڑپ رکھنے والے کواس کے والدین بچپن ہی سے فیض کہہ کر پکارنے لگیں اور بلندیوں پر پہنچنے والا پہلے ہی قدم فراز کہلائے۔ قیادت کرنے والے کیلئے سردار کا لقب اور مسحور نغمات کے خالق کو ساحر کے نام سے یاد کیا جائے۔ ایسا ہوتا ہے اور ایسا ہی کچھ اختر علی فاروقی کے ساتھ ہوا کہ جس وقت انہوں نے اپنا قلمی نام پیغام آفاقی رکھا تو انہیں اس بات کا علم نہیں رہا ہو گا کہ وہ آگے چل کر مکان لکھیں گے۔ لیکن آج ان کا ہر قاری معترف ہے اس معرکۃ الآراء ناول کا آفاقی پیغام مکاں سے لامکاں تک پھیلا ہوا ہے۔ ۔

پیغام آفاقی کا ناول مکان عصرِ حاضر کا بالکل صاف و شفاف آئینہ ہے جس میں ہر عکس نہایت واضح اور اپنی اصل ہئیت میں نظر آتا ہے۔ ایک ایسا آئینہ جس سے نکلنے والی عکسی شعاعیں کرداروں کے نفس و ذہن اتر کر ظاہر و باطن کی تصویر کشی کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ اس لئے بجا طور یہ حقیقت نگاری کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ ہم اپنے معاشرے میں آئے دن جو کچھ دیکھتے ہیں اور اخبارات میں جو کچھ پڑھتے ہیں وہی سب اس کتاب میں نہایت دلچسپ انداز میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اس موقع پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخراس ناول میں اور ایک اخبار میں کیا فرق ہے ؟ ایک نامہ نگارو صحافی سے ناول نگار پیغام آفاقی کیوں کر مختلف و ممیز ہے ؟ ان سوالات سے بھی اہم تر سوال یہ ہے کہ اگر آج کا قاری ان حالات و واقعات کا ہر روز مشاہدہ اور مطالعہ کر ہی لیتا ہے تو وہ آخر اس ناول کو کیوں پڑھے ؟

ان سارے سوالات کا جواب اسی’ کیوں‘ میں پوشیدہ ہے بلکہ درحقیقت سارا فرق ’ کیا؟‘ اور’ کیوں ؟‘ کا ہے۔ یہ کہانی کیا سے شروع ہو کر کیوں پر ختم ہوتی ہے۔ چونکہ یہ جواب سوال سے زیادہ پیچیدہ ہے اس لئے وضاحت درکار ہو۔ ہم لوگ جو دیکھتے اور پڑھتے ہیں وہ کیا کہ زمرے میں آتا ہے۔ ہمارا مشاہدہ اور مطالعہ’ کیا‘ کے حصار میں مقید ہونے کے سبب ا یک محدود محور کے اندر محوِ گردش رہتا ہے اور ناظر و قاری کو بے چین و بیکل رکھتا ہے۔ پیغام آفاقی اپنے قاری کواس’ کیا‘ کی بندش سے نکال کر ’کیوں ‘ کی منزل میں لے جاتے ہیں۔ وہ اسے بتلاتے ہیں کہ یہ حالات و واقعات کیونکر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔

کیا اور کیوں کے درمیان ظاہر و باطن کا سا رشتہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے منسلک ہونے کے باوجود اپنا مختلف وجود رکھتے ہیں۔ عام صحافی بلکہ فنکار بھی ظاہر پر اکتفاء کرتا ہے اس لئے کہ یہ نہایت سہل ہے۔ اس کیلئے کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی بلکہ حواس خمسہ کا استعمال کافی و شافی ہوتا ہے لیکن اگر کیوں تک رسائی کرنی ہو تواس کیلئے ظاہر کا پردہ چاک کر کے اس کے پرے جھانکنا پڑتا ہے۔ یہ خاصہ دقت طلب کام ہے اس کیلئے بصارت کا فی نہیں ہوتی بلکہ بصیرت کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ بصیرت جو اظہار سے محروم موہوم و پراسرار حقیقت کی معرفت حاصل کر لیتی ہے۔ جو انسانوں کے قلب و ذہن کے اندر کروٹ لے رہی ہوتی ہیں۔ ان تک پہنچنے کیلئے عقل و فہم کے بھرپور استعمال درکار ہوتا ہے۔

خالق کائنات نے ہر فردِِ بشر کوحواس خمسہ کے ساتھ ساتھ فہم و فراست کی بیش بہا دولت سے بھی نوازہ ہے لیکن کم لوگ ہیں جو اس کا کماحقہ استعمال کرتے ہیں۔ پیغام آفاقی نے جس خوبی کے ساتھ ان خدا دادا صلاحیتوں سے استفادہ کیا ہے یہ ان کا اپنا حصہ ہے۔ اپنے محدود مطالعہ کی بنیاد پر میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اس بابت اردو ادب میں کوئی اور ان کا ہمسر نہیں ہے۔ لیکن پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر لوگ اس بیش بہا دولت کی ناقدری کیوں کرتے ہیں ؟ اس کو بروئے کار لانے سے کیوں گریز کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو سہل پسندی ہو سکتی ہے لیکن اس سے زیادہ اہم سبب ظاہر پرستی ہے۔

شیطان کی بغاوت کے پسِ پشت ایک وجہ ظاہر پرستی کی بناء پر پیدا ہونے والا غرور و تکبر تھا۔ وہ انسانوں بہکانے کیلئے یہی حربہ استعمال کرتا ہے اور انہیں ظاہر ی صفات و خصوصیات یا مال و اسباب کے کبر یا حرص میں مبتلاء رکھنے کی سعی میں لگا رہتا ہے۔ انسان کے قلب و ذہن میں مختلف قسم کے وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔ اس کائنات ہستی میں چونکہ ابن آدم کی آزمائش کا بیشتر سامان مادی و حسی ہے اس لئے دولت و ثروت، آرام و آسائش، شان و شوکت، نام و نمود یا قدرت و جبروت کے پھیرے میں انسان کو گرفتار کر کے گمراہ کر دینا سب سے آسان حربہ ہے جو اکثر و بیشتر افراد کو اپنی چنگل میں جکڑ لیتا ہے۔ اس کیلئے تو صرف ھل من مزید کا چسکالگا دینا کافی ہوتا ہے۔ یہ نشہ بذاتِ خود دکھلائی نہیں دیتا لیکن اس کے سحر میں گرفتار لوگوں سے سرزد ہونے والے حرکات و اعمال منصۂ شہود پر آتے ہیں۔

ظاہری اعمال کے پسِ پشت جو فکری عوامل کارفرما ہوتے ہیں ان کا تجزیہ کرنے کی توفیق کم لوگوں کو ہوتی ہے اس لئے کہ فکر و فہم کا میدان کار نفس انسانی کے اندر ہے۔ پیغام آفاقی اپنے کرداروں کے قلب و ذہن سے ہوتے ہوئے اس دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں اور انسانی نفس کا تجزیہ کر کے بتاتے ہیں کہ وہ کیا سوچ رہا ہے ؟ اور کیوں سوچ رہا ہے ؟ اخبار کا نامہ نگار تو صرف یہ بتانے کو اپنا فرضِ منصبی سمجھتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے ؟اور اسی پر اکتفاء کر لیتا ہے ؟ تجزیہ نگار صحافی اس سے آگے بڑھ کر اسباب و محرکات بیان کرتا ہے تا کہ کیوں ہو رہا ہے کا جواب مل سکے۔ لیکن جو لوگ یہ سب کر رہے ہیں وہ کیا سوچ رہے ہیں اور کیوں ؟ یہ بہت آگے چیز ہے۔ جن قارئین کو اس کی معرفت حاصل کرنی ہو ان کیلئے پیغام آفاقی کے پاس ایک بہت ہی اہم پیغام ہے اور راحتِ جان کا سامان بھی ہے۔

اپنے پیغام کی تمام تر آفاقیت کے باوجود پیغام آفاقی ایک زمینی انسان ہے اس لئے ان کے سارے کردار قاری کو جانے پہچانے نظر آتے ہیں۔ دورانِ مطالعہ کسی کردار کے چہرے پر قاری کو اپنے کسی شناسائی کا نام اور کسی کے نام کے پیچھے اپنا کوئی عزیز و اقارب نظر آ جاتا ہے۔ پیغام آفاقی کا سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ فلسفی نہیں ہے۔ اگر کسی کو علم ِفلسفہ کے رموزو نکات سے واقف ہونا ہو تو وہ فلسفہ کی کتاب پڑھے۔ ناول کا قاری تو زندگی سے روشناس ہونا چاہتا ہے لیکن ہاں فلسفہ کاجس قدر عمل دخل روز مرہ کی زندگی میں ہوتا ہے اتنا فلسفہ تو پیغام کے آفاقی کے یہاں مل ہی جاتا ہے۔ پیغام آفاقی اپنے قاری کو اس لئے بھی اچھے لگتے ہیں کہ وہ اسے اپنے علم و فضل سے مرعوب کرنے کی مصنوعی کوشش نہیں کرتے۔ ان کا ناول مکان پڑھتے ہوئے قاری کا یک گونہ تعلق انمإ. کینوں سے ہو جاتا ہے جو اس کے اندر اور باہر رہتے ہیں۔ وہ ان سے محبت بھی کرتا ہے اور نفرت بھی اور جب یہ سب ہو رہا ہوتا ہے تو پیغام ایک جانب کھڑے مسکرا رہے ہوتے ہیں اس لئے کہ کسی فنکار کی اس سے بڑی کامیابی کوئی اور نہیں ہو سکتی کہ لوگوں کو اس کے فسانے پر حقیقت کا گمان گزرے۔

پیغام آفاقی نے اپنی کہانی پہلے دو صفحات میں بیان کر دی اس لئے قاری یہ جاننے کیلئے کتاب نہیں پڑھتا کہ آگے کیا ہونے والا ہے ؟ اسے نہ صرف پتہ ہوتا ہے بلکہ یقین ہوتا ہے کہ یہی ہو گا اس کے باوجود وہ کتاب کو اپنے ہاتھ سے نہیں رکھتا اس لئے کہ وہ جاننا چاہتا ہے کہ یہ جو کچھ ہو گا وہ آخر کیسے ہو گا؟ گویا مکان کا قاری ’ کیا‘ کے بجائے ’کیسے ‘ کے پیچھے بھاگنے لگتا ہے اور اس کو ’کیوں ‘ کی جانب لے جاتے ہیں۔ وہ ان پیچیدہ سوالات کا جواب اس قدر دلچسپ اور تہہ دار انداز میں دینے لگتے ہیں کہ قاری ان سے لطف اندوز ہونے لگتا ہے اور نہیں چاہتا کہ کتاب ختم ہو۔

پیغام آفاقی کا امتیاز ان کی نفسیاتی تجزیہ نگاری ہے جس میں کردار خود اپنی ذات کی معرفت حاصل کرتے ہیں اور اپنے منفرد نقطۂ نظر سے حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس ناول کے اندر نہ مکان بدلتا ہے اور نہ اس کے آس پاس کا ماحول تبدیل ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے مکین اور متعلقین بھی نہیں بدلتے لیکن ان کا انداز فکر ضرور بدل جاتا ہے اور اس داخلی انقلاب کے سبب باہر کی دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہو تی چلی جاتی ہیں۔

مکان کی نیرا اور اس کے خالق پیغام آفاقی کا اگر موازنہ کیا جائے تو ایک بڑا فرق یہ نظر آتا ہے کہ پیغام من حیث الفرد نیرا کی مانند مجبور نہیں ہیں لیکن ان دونوں کے اندر دنیا کی آسائش و آفات سے بے نیازی کی صفت پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی صورت ہار نہ ماننے کی حوصلہ اور کامیابی کے حصول کی خاطر اپنا سب کچھ جھونک دینے کا جذبہ بھی قدرِ مشترک ہے۔ اس حقیقت کے باوجود یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ من حیث القوم اس ملک کا ہر عام آدمی نیرا کی مانند جبر و استحصال کا شکار ہے اور اگر وہ اس کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ اس کے اندر وہی جرأت و بے نیازی ہو جو پیغام آفاقی کے اندر پائی جاتی ہے۔ جس نے سرکاری ملازمت میں رہتے ہوئے ان سے مکان جیسا ناول لکھوا دیا ورنہ تو یہ ہوتا ہے دنیا کی حرص پولس کے ہاتھ کی ہتھکڑی اور مراعات کے چھن جانے کا خوف پاؤں کی بیڑی بن جاتا ہے۔

ناول مکان کی آفاقیت کا یہ تقاضہ تھا کہ اس کا ترجمہ مختلف زبانوں میں ہوتا۔ الحمدللہ فی الحال وہ انگریزی کے قالب میں تو ڈھل چکی ہے اور اسی کے ساتھ دیگر زبانوں میں اس کی رسائی کا دروازہ بھی کھل گیا ہے۔ اس کو بجا طور پر یونیورسٹی کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے اس لئے کہ یہ عصر حاضر کے نمائندہ ناول ہے جسے آل احمد سرور نے عہد حاضر کے زوال پذیر رویوں کے خلاف جہاد عظیم قرار دیا ۔ مکان پر گفتگو کا تقاضہ ہے کہ اس کے چند اقتباسات کو اس میں شامل کئے جائیں لیکن اس مکان کی وسعت و بلندی نیز گہرائی و گیرائی اس قدر زیادہ ہے کہ میرے پسندیدہ اقتباسات کو ایک مختصر تحریر میں سمویا نہیں جا سکتا۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ قارئین اقتباس کے بجائے پوری کتاب کا مطالعہ کریں۔ اردو کے جو قارئین اپنی زبان میں ناول نگاری کے حوالے سے مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں میں انہیں پیغام آفاقی کے مکان میں تشریف لانے کی دعوت دیتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اس کی فضا میں اطمینان و سکون کی بیش بہا دولت سے فیضیاب ہوں گے۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے