ادا جعفری خود شناسی کا سفر۔ ۔ ۔ شاہدہ حسن

اپنی خود نوشت ’جو رہی سو بے خبری رہی‘ میں ادا جعفری رقم طراز ہیں :

"شاعری اپنی سوانح عمر ی بھی ہوتی ہے اور اپنے عہد کے شب و روز کا منظر نامہ بھی۔ شعر و ادب کی دنیا میں میں نے جو سفر شروع کیا تھا وہ شدید روایتی ماحول اور قدامت پسند خاندانی پس منظر کی وجہ سے میرے لیے زیادہ ہی دشوار تھا اور حوصلہ طلب تھا۔ عورت کے دکھ درد میں نے آنکھ کھولتے ہی دیکھے اور بہت قریب سے دیکھے۔ عورت کا پہلا روپ جو میں نے دیکھا وہ میری ماں کا تھا۔ آندھیوں میں چراغ کی لو اونچی رکھنے والے ہاتھ مجھے یاد ہیں "۔

یوں گویا ادا بدایونی نے خود شناسی کے سفر کا آغاز اپنی ماں اور اپنی عزیز ترین ہستی کی خواہشوں کے عین مطابق کیا تھا۔ اپنے بچپن کے حوالے سے اپنا ایک قلمی مرقع پیش کرتے ہوئے لکھتی ہیں :

"شام پڑے باورچی خانے میں دھیان کی پرائی کا دامن تھامے چولھے کی آگ سے اٹھتا ہوا دھواں توے سے اترتی ہوئی سنہری روٹیاں پکانے والی ملازمہ کی بے رنگ چوڑیوں کی کھنک– اور سامنے پیڑی پر بیٹھی ہوئی ایک اکیلی لڑکی جو وقت کے جادوگر سے اپنا پتا پوچھ رہی تھی”۔

جدید سائنسی انکشافات اور تحقیقات کے اس حیرت انگیز دور میں علم نفسیات کی رو سے ہمیں اس تجزیے میں مدد ملتی ہے۔ کہ کسی انسانی وجود کی کیمیا میں وہ کون کون سے عناصر باہم آمیز ہوئے ہیں جن کے ایک خاص تناسب کے با وصف اس شخصیت کے انفرادی خدوخال ترتیب پائے ہیں۔ اس ضمن میں بچپن کے حالات خاندانی پس منظر، تعلیم و تربیت، ذاتی آرزوئیں، تمنائیں محرومیاں، مسرتیں — غرض حیات کے دائرے میں شامل مختلف النوع تجربات، احساسات اور نفسیاتی رد عمل بطور خاص لائق مطالعہ قرار پاتے ہیں۔

ادا جعفری– آج اپنی عمر کی آٹھویں دہائی کی تکمیل کر چکی ہیں اوراس عرصہ حیات میں وہ دنیا کے بہت سے خوب صورت علاقوں کی سیر بھی کر چکی ہیں۔ فطرت اور مظاہر فطرت کے ان گنت مشاہدوں سے بھی فیض یاب ہو چکی ہیں — مگر جب وہ 22اگست 1926ء کو اس دنیا میں آئی تھیں تو وہ شہر بدایوں کی ایک قلعہ نما حویلی کی قدیم روایت پسند اور پرسرار فضائیں تھیں۔ ان کے والد مولوی بد ر الحسن ایک برے زمیں دار تھے اور کٹر مسلمان۔ یہ قلعہ نما حویلی اد ا کا ننھیال تھا۔ اس ایک گھر میں کئی گھر آباد تھے بڑی حویلی چھوٹی حویلی دیوان خانہ اور نانا کی کوٹھی۔ یہ گھرانا ٹونک والا خاندان کے نام سے جانا جاتا تھا اس خاندان کا ایک رواج تھا کہ ان کی بیٹیاں بیاہ کر سسرال نہیں بھیجی جاتی تھیں َ ادا کے والد کانپور میں رہائش پذیر تھے۔ جہاں ان کی ملازمت تھی اور ان کی والدہ نانا کی کوٹھی میں اپنی تین بیٹیوں کے ہمراہ شہر بدایوں میں مقیم رہتی تھیں۔

بدایوں شہر علم پسندوں کی ایک پرکشش بستی تھی۔ جسے بدھ نام کے کسی راجا نے آباد کیا تھا۔ پھر مسلمان بادشاہوں نے اسے بدایوں کا نام دے دیا۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کا مولد اور بہت سے صوفیائے کرام اور روحانی ہستیوں کی آخری آرام گاہوں سے مزین یہ شہر تاریخ کے اوراق میں اہل فکر و نظر کے حوالوں سے پہچانا جاتا ہے۔ سبز ریشمی چادروں مہکتے پھولوں اور ڈھے مزاروں حسین گنبدوں اور عالی شان مسجدوں سے آراستہ اس شہر میں ادا کبھی کبھار بہ صد اہتمام دوسری خواتین کے ہمراہ باہر نکلتی تو ضرور تھیں مگر اس خوب صورت شہر کو انہوں نے کبھی ایک رستے بستے شہر کی حیثیت سے دیکھا ہی نہیں۔

اپنی خود نوشت میں لکھتی ہیں :

"یہ سارے مزارات اور تاریخی مقامات جن کی زیارت کے لیے لوگ دور دور سے آتے تھے میرے لیے محض کہانیوں کی دنیا کی طرح رہے ہیں۔ یہ مقامات اس وقت بھی میرے لیے شہر کی تاریخ کے کچھ حوالے تھے اور آج بھی ہیں "۔

اک ایسی مقید محصور اور محدود دنیا میں ایک گہرے احساس تنہائی کے ساتھ ادا جعفری کا بچپن گزرا۔ پھر یہی احساس ان کی شخصیت میں ہمیشہ کے لیے سرایت کر گیا ان کی خود نوشت کا مطالعہ کرتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ادا کے معصوم اور ننھے سے دل میں اپنے بکھرے ہوئے رشتوں کا ملال بہت گہرا تھا اور بطور خاص شفقت پدری سے مسلسل دوری نے اس میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ وہ اپنے والد سے بہت پیار کرتی تھیں مگر ان سے ملنے سال میں صرف ایک بار اپنی والدہ اور بہنوں کے ہمراہ کانپور جایا کرتی تھیں۔ دونوں بڑی بہنیں تو سلائی سیکھنے یا پڑھنے لکھنے میں مصروف ہو جاتیں مگر وہ ماں کی نظر بچا کر گھر کی چھت پر چلی جایا کرتیں۔ املی کے درخت سے گرتے بیجوں کو اکٹھا کرتیں اور ان سے کبھی ریل گاڑی اور کبھی اپنے گھر کا نقشہ بنایا کرتیں۔ بعد کی زندگی میں یہی دونوں آرزوئیں یعنی سفر اور گھر ادا جعفری کے فن اور شخصیت کے اہم استعاروں کے طور پر اپنی مختلف جہتوں کے ساتھ ہمیں ان کی شاعری کے اوراق میں نظر آتی ہیں —

ادا تین برس کی ہوئیں تو والد علیل ہو گئے ٹانگ کے زخم نے ناسور کی صورت اختیار کر لی اور بالآخر جان لیوا ثابت ہوا مگر ادا کو والد کی وفات کی خبر سے دور رکھا گیا۔ کہہ دیا گیا کہ وہ علاج کے لیے کہیں اور گئے ہوئے ہیں نانا کی جھاڑ فانوسوں سے آراستہ کوٹھی میں ان کا دل ہر لمحے اچاٹ رہتا تھا۔ وہ بہت خاموش اور گم سم اور تنہا نشین ہو گئیں۔ اسی عالم تنہائی میں مسلسل پانچ برس تک اپنے والد کا انتظار کرتی رہیں۔ والد کی وفات کے تین ماہ بعد ان کے اکلوتے بھائی طیب حسن صدیقی پیدا ہوئے۔ ان کی کم عمر بیوہ نے نو مولود بیٹے اور تین کم سن بچیوں کی پرورش اور نگہداشت ایک چٹان بن کر کی۔ عبادت گزار کم گو ور صابر ماں نے بیٹیوں خو تعلیم دلوانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ گھر پر ٹیوٹر کا انتظام کیا گیا۔ فارسی کے ساتھ ساتھ انگریزی کی تعلیم کا بھی بندوبست ہوا۔ ادا کو باقاعدہ کالج میں داخل ہو کر تعلیم حاصل نہ کرنے کا دکھ زندگی بھر رہا۔

ادا جعفری کی شخصیت میں کتابوں بچوں اور مظاہر فطرت سے محبت اور قربت کا احساس بچپن ہی سے شامل رہا ہے۔ زندگی کی انہیں خوشیوں کو ترتیب دے کر وہ اپنے اداس دل کے بہلاوے کی صورتیں پیدا کر لیتی تھیں۔ ابتدا میں انہوں نے کاغذ اور قلم تھام کر ہر گزرنے والے لمحے کا حساب درج کرنا شروع کر دیا وہ بڑی باقاعدگی سے روزنامچہ لکھا کرتی تھیں۔ اپنی ڈائری میں اپنے روز و شب کا احوال لکھتے ہوے وہ اپنے جذبوں کی کہانیاں رقم کیا کرتی تھیں۔ یہ ڈائری اگر آج دستیاب ہوتی تو اندازہ ہو سکتا کہ وہ ابتدائی زندگی میں وہ کن کن جذبات و احساسات سے دوچار رہی تھیں۔ مگر ۱۹۴۷ء کے فسادات میں یہ ڈائری کہیں گم ہو گئی اور یوں ادا جعفری کے اظہار ذات کی صورت گری کے اولین مراحل سے ہماری شناسائی کا ایک در ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔

ٹونک والا پھاٹک کے اندر چھوٹی حویلی میں محرابی دروں اور منقش ستونوں والے برآمدے کو ایک کونے میں زمین پر کتابوں رسالوں اور مخطوطوں کا ڈھیر ہوا کرتا تھا۔ گردو غبار میں اٹا ہوا۔ اس حصے میں ایک پراسرار دل پذیر خاموشی کے بیچ ادا کی اولین مطالعہ گاہ ترتیب پا چکی تھی۔ وہ وہیں زمین پر بیٹھ کر اردو فارسی اور انگریزی کی کتابوں کے انبار میں سے کسی آسان سے آسان کتاب کا انتخاب کر لیتیں اور اسے پڑھنے لگتیں َ لغت کے پھٹے ہوئے اوراق ہاتھ لگ جاتے تو الفاظ کے مطالب یاد کرنے لگتیں َ یوں طبیعت میں روانی آنے لگی لکھتی ہیں :

"نو سال کی عمر میں سب سے چھپ کر پہلا شعر کہا اور جب ڈرتے ڈرتے اپنی امی کو سنایا تو ان کی آنکھوں سے شفقت کی پھوار برسنے لگی”۔

شاعری نے انہیں بڑا سہارا دیا۔ زیادہ تر نظمیں اور کبھی کبھی غزلیں لکھتی تھیں جو اس وقت سے قابل ذکر جرائد "سویرا” "ایشیا” "ادب لطیف” "افکار” اور”شاہکار، ، وغیرہ میں شائع ہونے لگیں َ اپنی ایک ابتدائی نظم کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں :

"بڑی حویلی کے آنگن کے اوپر چار وں طرف چھجا تھا۔ چھجے کی منڈیر پر بڑے بڑے گملے رکھے ہوئے تھے ج میں مختلف قسم کے پودے لگے ہوئے تھے۔ اسی چھت پر سے ہو کر چھوٹی حویلی کی چھت پر ایک چھوٹی سی کھڑکی سے گزر کر کتابوں کے پاس جاتی تھی۔ ایک دن حسب معمول جب اوپر پہنچی تو حیران رہ گئی نارنگی کے بوٹے کی شاخ شاخ شگوفوں سے لدی وہئی تھی۔ یہ منظر جمال ابھی تک میری نگاہوں سے اوجھل کیسے رہا۔ میں ٹھٹک کر رہ گئی پھر وہیں منڈیر پر بیٹھ گئی۔

ان شگوفوں نے مجھے خوشبو کا جو تحفہ دیا تھا میری حیرانیوں نے ان کے نام نظم لکھی عنوان تھا "شگوفے ” اس نظم کا آخری حصہ کچھ یوں ہے :

آج سے پہلے بھی پھوٹے ہوں گے

یہ شگوفے یہ لجیلے لپنے

یہ بہاروں کے سجیلے سپنے

اسی شوخی اسی رعنائی سے

یہی لہجہ یہی لہجے کی کھنک

یہ سجاوٹ یہ سجاوٹ کی جھمک

یہ نگاہیں یہ نگاہوں کی جھجک

اسی معصوم و برنائی سے

شکوہ بیگانہ نگاہی کا لیے

شاخ میں پہلے بھی پھوٹے ہوں گے

یہ شگوفے یہ لجیلے سپنے

(میں ساز ڈھونڈتی رہی)

اندازہ ہوتا ہے کہ شاعری کے ابتدائی موضوعات میں بھی اپنی محدود لفظیات کے باوجود ادا جعفری کے یہاں مظاہر فطرت اور حسن تخلیق سے ایک بے ساختہ کشش کا رویہ شامل رہا ہے۔

ادا کے اولین مجموعے میں ساز ڈھونڈتی رہی۔ میں ان کی ایک نظم "بیزاری” شامل ہے۔ ادا کی زندگی کے تناظر میں اس نظم کی معنویت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ نظم ان کے شعری اظہار کے ایک واضح منشور کے طور پر نظر آئے گی۔

زیست اک خواب طرب ناک و فسوں ساز سہی

رس بھرے نغموں کی اک دل نشیں آواز سہی

فرش مخمل بھی زر و سیم کی جھنکار بھی ہے

جنت دید بھی ہے عشرت گفتار بھی ہے

چشم سرشار کا اعجاز سہی–

قہر ہے اف، یہ تسلسل یہ تواتر، یہ جمود

یہ خموشی، یہ تسلی، یہ گراں بار سکوت

شوق کو رخصت پرواز نہیں

رفعت روح کا دربار نہیں

جسم آسودہ سہی روح مگر ہے بے تاب

ایک بے نام تغیر کے لیے —

پھر نظم کے اختتام میں یہ آرزو کی گئی ہے کہ اس محصور و مقید زندگانی میں کہیں تازہ ہواؤں اور سورج کی کرنوں کے لیے ایک دریچہ کھل جائے —

تو گویا یہی دریچہ کھلا۔ اور ادا جعفری نے اپنے باطنی وجود کو حرف و لفظ کی روشنی میں منکشف کرنا شروع کر دیا۔

یہ زمانہ ایک مختلف زمانہ تھا۔ خیال و خواب کی پہنائیوں سے نکل کر زندگانی کی حقیقتوں تک رسائی کا سفر کھلی آنکھوں سے کیا جار ہا تھا۔ عصری صداقتوں کو زبان مل رہی تھی۔ ادب میں پہلی بار حقیقی زندگی کو اس کے تمام تر روشن اور تاریک پہلوؤں کے ساتھ قلم بند کیا جا رہا تھا۔ نثر اور شاعری میں نئے نئے موضوعات در آئے تھے۔ نئی ہئیتوں نئی لفظیات اور نئے افکار کو جگہ دی جا رہی تھی۔ نت نئے مباحث جنم لے رہے تھے۔ اس عہد میں لکھنے والوں کے لیے تنقید بھی بڑا اہم کردار ادا کر رہی تھی۔ زندگی کے منفرد تجربوں اور طرز احساس سے جنم لینے والے تخلیقی اظہار کی تفہیم کے لیے علمی مضامین لکھے جا رہے تھے۔

٭٭٭

ماخوذ از پاکستانی ادب کے معمار سیریز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے