گذشتہ صدی کی آخری دہائیوں میں جن قلم کاروں نے مختلف ادبی حوالوں سے اپنی شناخت قائم کی، ان میں غضنفر ایک معتبر نام ہے۔ فکشن، شاعری، تدریس، تنقید اور لسانیات کے موضوع پر ڈیڑھ درجن سے بھی زائد کتابوں کا اشاعت پذیر ہونا جہاں ان کے علمی اور ادبی دائرہ کار کو نشان زد کرتا ہے، وہیں کارِ ادب میں مسلسل انہدام اور قرطاس و قلم سے طبعی انسلاک کا زائچہ بھی پیش کرتا ہے۔
غضنفر کی تحریروں کے مطالعے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ بنی بنائی شاہراہ پر اپنا ادبی سفر طے کرنا ان کا شیوہ نہیں۔ نادیدہ جہانوں کو دیدہ بنانے کی خو، ان کی اصل فنی روش ہے۔ فکشن ہویا شاعری، تدریس ہو یا تنقید ہر قبیل کی تحریریں فکری، فنی، موضوعاتی یا لسانی کسی نہ کسی نہج سے ان کے تجرباتی رویّوں کو اجاگر کرتی ہیں اور غور و فکر کے زاویۂ مزید کی دعوت دیتی ہیں۔ جانے پہچانے لفظوں کے ایسا سیاق وسباق عطا کرنا کہ نئے معانی پھوٹنے لگیں غضنفر کا مخصوص آرٹ ہے جہاں الفاظ اپنے متعینہ معانی سے جداگانہ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔
غضنفر اساسی طور پر تخلیق کار ہیں لہٰذا ان کی تنقید میں بھی تخلیقیت کے جھلملاتے عکوس، فکری تازگی اور ذہنی انبساط کا سامان فراہم کر جاتے ہیں۔
غضنفر (پورا نام غضنفر علی)ضلع گوپال گنج، صوبہ بہار کے ایک گاؤں چوراؤں میں ۹مارچ ۱۹۵۳ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسہ اور مکتب میں ہوئی۔ ۱۹۷۰ء میں وی۔ ایم۔ ایم۔ ایچ۔ ای اسکول گوپال گنج سے ہائر سکینڈری، ۱۹۷۳ء گوپال گنج کالج گوپال گنج سے بی۔ اے آنرس اور ۱۹۷۶ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے امتیاز کے ساتھ ایم۔ اے کیا۔ ۱۹۸۲ء مولانا شبلی نعمانی کے تنقیدی نظریات پر مقالہ لکھ کر پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ حصولِ تعلیم کے بعد شعبۂ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بحیثیتِ لکچرر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ ۱۹۸۲ء میں گورنمنٹ آف انڈیا کے مشہور و معروف ادارہ سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگویجز میسور کی ایک ذیلی شاخ اردو ٹیچنگ اینڈ ریسرچ سینٹر سولن، ہماچل پردیش میں لکچرر کم جونیئر ریسرچ آفیسر بنے اور اسی ادارے کے لکھنؤ سینٹر میں ۱۹۹۰ء میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اسی دوران تین سال تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ریڈر کی حیثیت سے کام کیا۔ کسی وجہ سے علی گڑھ کو چھوڑ کر انھیں دوبارہ لکھنؤ کی پرنسپل شپ جوائن کرنی پڑی۔ پرنسپل شپ کے دوران سندھی اکادمی بڑودہ کے ڈائریکٹر انچارج بھی رہے۔ ۲۰۰۸ء میں اکادمی برائے فروغِ استعدادِ اردو میڈیم اساتذہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر اور ڈائریکٹر ہوئے۔
ملازمت کے دوران غضنفر مختلف انجمنوں، تنظیموں اور اداروں مثلاً گیان پیٹھ، این۔ سی۔ ای۔ آر۔ ٹی۔ این۔ ٹی۔ ایم، این۔ ٹی۔ ایس، سی آئی۔ ایل وغیرہ کے ممبر بھی رہے۔
غضنفر ایک ہمہ جہت ادیب ہیں۔ انھوں نے ناول لکھے، افسانے تحریر کیے، خاکے قلم بند کیے، تدریسی اور تنقیدی کتابیں لکھیں، ڈرامے تحریر کیے اور شعر و ادب کی مختلف ہئیتوں میں تخلیقی و فنّی تجربے بھی کیے۔ ان کے اب تک:
نو ناول: پانی، کینچلی، کہانی انکل، دویہ بانی، فسوں، وش منتھن، مم، شوراب اور مانجھی
دو افسانوی مجموعے، ’حیرت فروش‘ اور’ پارکنگ ایریا‘
دو شعری مجموعے: ’آنکھ میں لکنت‘ اور’ سخن غنچہ‘
دو خاکے: ’سرخ رو ‘اور ’روئے خوش رنگ‘
دو تنقیدی مجموعے: ’مشرقی معیارِ نقد ‘ اور ’فکشن سے الگ‘
تین تدریسی کتب: ’زبان و ادب کے لسانی پہلو‘ ’تدریسِ شعرو شاعری‘ اور ’لسانی کھیل‘
ایک ڈرامہ: ’کوئلے سے ہیرا‘
اور ایک مثنوی: ’مثنوی کربِ جاں ‘شائع ہو چکے ہیں۔
دویہ بانی اور کہانی انکل کا ہندی میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔
غضنفر ’اردو اسٹائل مینول‘ کے ایڈیٹر اور ’’ فرہنگِ مرکباتِ غالب‘‘ کے مرتب بھی رہے۔
غضنفر ایک تدریسی مجلہ ’’تدریس نامہ‘‘ بھی نکالتے ہیں جو اردو میں منفرد و انوکھا رسالہ ہے۔
اس وقت غضنفر اکادمی برائے فروغِ استعدادِ اردو میڈیم اساتذہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، کے ڈائریکٹر ہیں، ان کا عارضی قیام: B-29اسٹریٹ نمبر 7شاہین باغ، جامعہ نگر میں ہے اور ان کا مستقل پتا ہے:
بشریٰ، حمزہ کالونی، نیوسرسید نگر، علی گڑھ۔ موبائل نمبر: 9990237388