غضنفر: ایک نئے ذہن کا ناول نگار ۔۔۔ وہاب اشرفی

 

ایک زمانے سے ناولوں کی ایک مختصر سی تعریف چلی آتی ہے کہ It is a vehicle of social criticism۔ کئی لحاظ سے یہ تعریف ادھوری ہے۔ اس لیے کہ سماج زندگی کے وسیع عوامل پر محیط ہوتے ہوئے بھی کل نہیں ہے۔ ذاتی زنگی کے پیچ و خم، سماجی effections پیش کر سکتے ہیں لیکن ان کے علاوہ بھی اندرون کی دنیا ان سے الگ بھی ہو سکتی ہے۔ فکرو نظر کے مدارج میں سماج ایک جزو ضرور ہے لیکن کل نہیں۔ لہٰذا ناول کی تعریف و سعت چاہتی ہے تاکہ زندگی اور زمانے ہم پر اپنے تمام تر سیاق وسباق کے اس طرح عیاں ہوں کہ ہر ناول کے تجزیے کی ایک صحیح صورت نکل سکے۔ بہ ظاہر یہ ایک دور از کار بات ہے لیکن میرا مطالعہ بتاتا ہے کہ شاعری کے بعد شاید ناول ہی نے ایسے جوکھم اٹھائے ہیں اور پوری زندگی کی تعبیرات کو سامنے لانے کی سعی کی ہے۔ ٹھیک ہے کہ جذبات و احساسات متعینہ تلازموں سے آگے نکلنے میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں لیکن اندرون کی دنیا رسوں کے زمرے میں بھی نہیں۔ لہٰذا جو ناول کام کرنے کی طرف مائل ہیں ان کے لیے کوئی متعینہ بوطیقا کافی نہیں۔ یہ احساس اس وقت اور شدید ہو جاتا ہے جب ہم فکشن کے عالمی منظر نامے پر یاک سرسری نگاہ ڈالتے ہیں اور اس آئینے میں اپنے ملک کے ناولوں کی تصویر دیکھتے ہیں تو کمیوں اور کوتاہیوں کے باوجود محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان کی زبانوں کے بعض ناول خصوصاً ً ً اردو کے قابلِ لحاظ ناول زندگی کے مدد جز رکو وقت کے دائرے میں سمیٹنے میں بہت حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ ایک ہی ناول نگار زندگی کی مختلف سطحوں کو مختلف ناولوں میں برتنے کی سعی مشکور کرتا نظر آتا ہے۔ میں سبھوں کی مثال نہیں دیتا۔ اس وقت میرے پیشِ نظر غضنفر کے ناول ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ پہلے ان پہلوؤں کی نشان دہی کر دوں جو غضنفر کے ناول کا اختصاص پیدا کرتے ہیں۔

اردو میں Subaltenکی بحث بہت پرانی نہیں ہے۔ شاید مغرب میں بھی اس کی تاریخ کچھ قدیم نہیں لیکن آج کے علمی شق میں subailtern یا subalternismایک مخصوص فکری بساط بچھاتے ہوئے نظر آتی ہے۔ میں تکنیکی مباحث میں نہیں پڑوں گا لیکن کم از کم مجھے ایک فکشن نگار ایسا ضرور مل جاتا ہے جو اس فکر کی ایک سی نوعیّتوں کو سمیٹنے پر قادر معلوم ہوتا ہے۔ ایڈو ورڈ سعید، ہومی بھابھا اور گائتری دیوی نے subalternاور اس کے متعلقات پر بہت کچھ لکھا ہے لیکن بعض پہلوؤں کی عملی صورت غضنفر کے ناول پیش کرتے ہیں جن کا ہلکا سا تعارف مقصود ہے۔

ٹھیک ہے کہ پریم چند نے ہریجنوں یا پسماندہ طبقے کی زندگی کو ایک خاص نقطۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کے ہاں اس فکر کا مربوط سلسلہ نظر نہیں آتا۔ یہ اس وقت ممکن بھی نہیں تھا اس لیے کہ وہ علمی کیف جس سے یہ تھیوری عبارت ہے، موجود نہیں تھی۔ غضنفر نے بھی شاید اس نقطۂ نظر سے چیزوں کا مطالعہ نہیں کیا ہو گا لیکن جب عوامل روزانہ کہ تجربے بن جاتے ہیں تو پھر بہت سے نظریے کی تشکیلات کی گونج از خود اذہان میں پیدا ہو جاتی ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ کسی فکر کی شدت تھیوری کو وضع کرتی ہے لیکن خالق تو اس سے پہلے ہی اس پر عمل پیرا ہو جاتا ہے۔ دویہ بانی، کو ذہن میں رکھیے اور پھر منو کی ’اسمرتی ‘ کی عقبی زمین پر غور کیجیے۔ دو مخالف سمتیں نظر آئیں گی۔ اسمرتی کے اشلوک کے زیادہ تر حصے پسماندہ طبقوں کو علم سے دور کرنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ انھیں مختلف طرح کی سزا دینے کی ترکیبیں ہیں۔ اس میں جو Craftsmanshipہے، Eliteسوسائٹی کی حفاظت کے سلسلے میں ہے۔ یہ حفاظت دائمی بھی ہو، منو ہر قدم پر اس کا احساس رکھتا ہے۔ اس کے اشلوکوں کو پڑھتے وقت جو تفصیلات سامنے آتی ہیں وہ ایک حساس قاری کے رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہیں گویا منو‘ کا مرکزی تصور یہ نہیں ہے کہ وہ کسی کو علم سے بے بہرہ کرے بلکہ غایت یہ ہے کہ اشرافیہ کا اشرافیہ کا اشرف مقام ہر محاذ پر نہ صرف قائم رہے بلکہ مستحکم ہوتا چلا جائے۔ غضنفر نے دوسری شق کے حوالے سے اپنی باتیں کہنی چاہی ہیں۔ ان کے اپنے خلق کردہ اشلوک علم کے سلسلے میں ہیں۔ وہ علم جس سے روشن خیالی آتی ہے، وہ جس کے پس منظر میں حیات و کائنات کے بہت سے مسائل کی تفہیم ممکن ہوتی ہے اور اونچ نیچ اور کا بھید بھاؤ قلعہ از خود ڈھیر ہو جاتا ہے۔ در اصل یہاں مظلوم ہیرو یا سورگ باشی نو جوان کی ذلت اس وجہ سے ہے کہ وہ نئے روحانی علوم سے بہرہ ور ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے یہ بہت خطرے کی بات ہے اس لیے کہ اگر یہ ممکن ہوا تو پھر پسماندہ کون رہے گا اور کہاں رہے گا؟ خدمت گار کہاں سے آئیں گے اور نس در نسل استحصال کے مواقع کہاں سے پیدا ہوں گے ؟ گویا جو روحانی اسٹرکچر تیار کیا گیا ہے، وہ نہ Paternalہے اور نہ Maternal بلکہExploitativeہے۔ غضنفر کی نگاہ میں اس کا علاج اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ قوم جو پچھڑی ہوئی ہے، علم سے آراستہ ہو۔ ہیرو کے چہرے پر اشلوک سے نورانی کیف پیدا ہونا در اصل اشلوک کا کیف نہیں ہے بلکہ علم کا کیف ہے۔ گویا غضنفر منو کی ’اسمرتی‘ کو Upholdنہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے طریقے سے اشرافیہ کے ذہن و دماغ میں بسے ہوئے خیالات کو ہمیشہ کے لیے ردّ کر دینا چاہتے ہیں۔ اخیر میں ہیروکی شکست علم کی شکست نہیں ہے، وہ ایک عارضی phenomenonہے اور ایسے کر یہہ حادثے اور مناظر کے بعد بھی جوت جگاتا ہے۔ گویا دویہ بانی ایڈورڈ سعید کے فکرو نظر کی تائید کی ایک عملی صورت ہے جس کا عمل دخل آج کے بدلتے ہوئے زندگی کے تیور میں دیکھا جا سکتا ہے۔ میں نے کہیں کہا تھا کہ غضنفر کا نام ہٹا کر Goldmanلکھ دیا جائے تو ان کے ناولوں کی تعبیر و تفسیر ایک الگ معیار سے کی جانے لگے گی۔ یہ بھی ایک colonial attitude ہے جو تنقید میں بار پاتا رہا ہے۔

قصہ یہ ہے کہ غضنفر کی فکر اور سوچ کا د ائرہ وسیع ہے لیکن ان کا ہنر اختصار اور جامعیت ہے لہٰذا ان کے ناولوں کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔

غضنفر کے دو ناول ہیں۔ پانی اور مم۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پانی زرخیزی کی بھی علامت ہے اور زندگی کی بھی لیکن ایسی علامتوں سے غضنفر کے ناولوں کا کوئی علاقہ نہیں۔ اگر علاقہ ہے بھی تو وہ محض سطح پر ہے۔ در اصل حصولِ آب کی ناکامی ایک وطیرہ بن چکا ہے خصوصاً ً ً ان کے لیے جو حاشیے پر رہتے ہیں۔ اب انھیں خضر بھی محفوظ نہیں کر سکتا۔ یہاں ایک ایسی آواز ابھرتی ہے جو زندگی میں شکستگی اور ربودگی پیدا کرتی ہے۔ آج کی یہ صورت بھی ہے۔ لیکن ’’مم‘‘ نے اس کی ضد پوری کر دی۔ آپ چاہیں تو پانی کا حصول بھی ممکن ہے۔ شکست فتح میں بدل سکتی ہے۔ ناکامی کامرانی کا ذریعہ ہوکستی ہے۔ گویا دو چھوٹے قصے ایک دوسرے کے Contrastکا نتیجہ ہیں اور یہ اضداد بہت بامعنی ہیں۔ اگر آپ تھک کر بیٹھ جائیں تو پھر آپ کے سہارے کے لیے کہیں کوئی نفس موجود نہیں۔ چاہے اس مرحلے میں آپ روحانی اطراف کی طرف رخ کریں لیکن اگر جہدِ مسلسل میں استحکام ہو تو پھر صورت بدل سکتی ہے۔ گویا subalternتھیوری کی توسیع کی ایک صورت ہے جہاں پس ماند گی ہمیشہ کے لیے مقدر نہیں بنتی ہے۔

کہانی انکل کو اکثر لوگوں نے سرسری طور پر لیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کہانی والا غضنفر ایک کردار کی صورت میں سامنے آتا ہو لیکن در اصل یہ مم کا پیش خیمہ ہے جس میں اس نظام کے خلاف پر چم لہرایا گیا ہے جو استحصال سے عبارت ہے۔ بچے تو استحصال کا مفہوم نہیں سمجھتے لیکن کہانی کی بنت میں ایسا انداز اختیار کیا گیا ہے کہ اس کی کہانی آٹھ سے اسی برس کے بچوں کا لایحۂ عمل کا ایک منظر نامہ بن جاتی ہے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ غضنفر استحصال کو انتہائی fluidبنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان کے ہاں crudeواقعات سہل بن جاتے ہیں۔ مرصع کاری نام کو بھی نہیں لیکن استحصال کے چہرے اپنی تمام تر غلاظت کے ساتھ موجود ہوتے ہیں اور ان سے برسرِ پیکار ہونے کی صورت بھی نکلتی رہتی ہے۔ گویا پہلے ناول سے آخری ناول تک موصوف کے احساس و جذبات کی کڑیاں ملتی جاتی ہیں۔ اس طرح کہ ان میں تکرار کی نوعیت بھی سامنے نہیں آتی اور متعلقہ فکر و فلسفے کا ارتقا ہوتا جاتا ہے۔

ایک مختلف قسم کا ناول ’کینچلی ‘ ہے۔ جب میں نے اسے پہلی بار پڑھا تو مجھے ڈی۔ ایچ لارنس کی Lady Chatterlies Loverیاد آیا۔ لارنس کے یہاں بھی وہ صورت دیکھیے کہ ایک ملازم کس طرح اشراف طبقے کی ایک خاتون سے جنسی تعلق قائم کر لیتا ہے۔ اس لیے کہ اس کا شوہر اپاہج ہے۔ اپنی بیوی کی biologicalضرورتیں نہیں پوری کر سکتا۔ لیکن ناول میں اتنا ہی ہوتا تو اس موضوع پر کوئی بھی لکھنے کا اہل ہوتا لیکن ایسا نہیں۔ لارنس نے ناول کے جسم میں تضادات کی کتنی ہی صورتیں اجاگر کر دی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اپنی عقبی زمین میں یہ ایک جنسی ناول بھی ہے اور eliteطبقے کے خلاف ایک آواز بھی ہے۔ افسوس کہ وہ آواز تو دب گئی لیکن جنسی کیف و کم لارنس کے حوالے سے ہمیشہ زیرِ بحث رہا۔ ’کینچلی‘ میں غضنفر نے وہ صورت تو اپنائی جو اپاہج سے متعلق ہے لیکن یہاں معاملہ بے حد مختلف ہے اس لیے کہ تندرست خاتون دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ ایک حصہ شوہر کے لیے ہے، وہ بھی موجود ہے اور دوسرا عاشق کے لیے بھی۔ نہ وہ اسے چھوڑ سکتی ہے اور نہ اسے۔ گویا یہ feeling tone complexesکا ناول ہے جہاں شخصیتیں اکہری باقی نہیں رہتیں اور جذبات و احساسات کی کوئی منطقی تاویل باقی نہیں رہتی لیکن محبت پر کس کا اختیار ہے۔ وہ چاہے تو پوری کائنات پر محیط ہو سکتی ہے۔ لیکن یہاں بہ ظاہر بد چلن عورت تمام تر کردار کی استواری کے ساتھ موجود ہے۔ حالاں کہ اس کے لیے آسان تھا کہ Lady Chatterly کی طرح شوہر سے الگ ہو کر زندگی گزارتی۔ لیکن وہ نہیں چاہتی لہٰذا یہ محبت کی دنیا کا ایک الگ ناول ہے جس کا ڈانڈاWuthering Height(ایملی برونٹے ) سے ملتا ہے۔ میرے خیال میں برونٹے جس طرح جذبات کی عکاسی کرتی ہیں، وہ بے حد Complexہیں۔ غضنفر اس معاملے میں اپنے کردار کی تخلیق کرتے ہیں اور بالکل ایک نیا موضوع اردو والوں کے سامنے آ جاتا ہے۔

میں اس کا احساس دلانا چاہتا ہوں کہ فسوں ہو یا کہ وِش منتھن کہ دویہ بانی غضنفر کے فن کی اساس tensionپر ہے۔ در اصل وہ زندگی کی تطہیر چاہتے ہیں۔ زندگی ہوکہ اس کے مختلف جہات ان کی تطہیر چاہتے ہیں۔ سیاست کو پاکیزہ و منزہ کرنا چاہتے ہیں اور کائنات کے بعض پیچیدہ صورتوں کی تفہیم میں بھی سرگرم عمل معلوم ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کا اسلوب کہیں اساطیری، کہیں اشاراتی، کہیں علامتی، تو کہیں بالکل سامنے کی کیفیت سے عبارت ہوتا ہے۔ ان کے ناولوں کا سرسری مطالعہ بھی یہ احساس دلاتا ہے کہ Mythologyپر ان کی بڑی نگاہ ہے جسے وہ موقع بہ موقع exploitکرتے رہتے ہیں لیکن اس عمل میں وہ میکانکی نہیں ہوتے۔ جہاں معیاری زبان کی ضرورت ہے، وہاں وہ بے حد چوکس نظر آتے ہیں جہاں شاعرانہ کیف مطلوب ہے وہاں تخلیقی جوت جگانا چاہتے ہیں۔ لہٰذا غضنفر کے ناول کو سمجھنے کے لیے ایک نئے شعور کی ضرورت ہے اور زمانے کی بھی۔ ان کے ناول ذہین دماغوں کے لیے ہیں۔ ویسے انھیں سطح پر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے