شوق اب وحشت میں داخل ہو رہا ہے
خستگی میں لطف حاصل ہو رہا ہے
زخم کھائے دل کی طاقت ہی عجب ہے
سینہِ خنجر بھی گھائل ہو رہا ہے
جس کی غم خواری متاعِ جاں تھی میری
وہ ستم کاروں میں شامل ہو رہا ہے
اک قیامت ٹوٹنے والی ہے سر پر
وہ جفا پر پھر سے مائل ہو رہا ہے
تیرے نقشِ پا کی ہے سب مہربانی
راستہ رشکِ منازل ہو رہا ہے
عشق ہے یا کوئی الہامی صحیفہ
سینۂ عاطفؔ پہ نازل ہو رہا ہے
٭٭٭