غزلیں
شبیر ناقد
کبھی ہمارے بھی حالاتِ زندگی لکھنا
جو ہم نے تجھ سے نبھائی وہ دوستی لکھنا
خلوص کا تھا تقاضا تری محبت بھی
روا رہی ہے جو تجھ سے وہ بے رُخی لکھنا
ملے ہیں پھولوں کے ہمراہ خار بھی ہم کو
حیات کرتی رہی ہے جو کج روی لکھنا
ہے تیرا میرا تعلق ادب کی نسبت سے
ملی ہے شعرو سخن سے جو روشنی لکھنا
خلوص و مہر سے موسوم اپنی ہستی ہو
سو تجرباتِ کرم کو بھی آگہی لکھنا
اگرچہ زندگی ساری ہی وقفِ گریہ تھی
نہ سیکھا ہم نے مگر اس کو بے بسی لکھنا
جن میں ہو مذکور تیری چاہت کا
پڑا ہے ایسی ہی باتوں کو شاعری لکھنا
اسی سے گویا عبارت ہے میرا افسانہ
مری حیات کو درپیش مفلسی لکھنا
کبھی رقم ہوں جو حالات اہلِ عالم کے
صلاح یہ ہے انہیں محوِ بے حسی لکھنا
غزل کہی جو ناقد نے تیری الفت میں
تو اُس کو ذوقِ محبت کی تازگی لکھنا
٭٭٭
دوستی کو معتبر میں نے کیا
حُسن کو زیرِ نظر میں نے کیا
کس لیے بھیجا گیا میں دہر میں
جرم کیا اے کوزہ گر میں نے کیا؟
جو جہاں میں بے وفا مشہور ہے
اس کو اپنا چارہ گر میں نے کیا
جو جفاؤں کا رہا خوگر صدا
ہے اسی کو ہم سفر میں نے کیا
بے فروغ و بے اثر تھی دہر میں
شاعری کو پر اثر میں نے کیا
زندگی زندہ دلی میں کٹ گئی
دشت و صحرا کو نگر میں نے کیا
میں نہیں بیٹھا کہیں آرام سے
خود کو بھی ہے در بدر میں نے کیا
درد و رنج و غم جہاں بستے رہے
اس نگر کو رہگزر میں نے کیا
جب دکھائی زندگی نے کج روی
اس سے ناقد پھر مفر میں نے کیا
٭٭٭