سید انور جاوید ہاشمی
سکھاگئی ہے ہوا طائروں کو نغمہ گری
عطا ہوئی ہے غزالوں کو خوب عشوہ گری
بہا کے آنسو بہانے سے کام اُن نے لیا
اِک عُمر بعد کھُلی جا کے اُس کی حیلہ گری
بنَا رکھے ہیں تخئیل سے دل میں شیش محل
ہمیں بھی بخشا ہے فطرت نے کارِ شیشہ گری
سوائے فطرت غیبی کسی کا ہاتھ نہیں
اُسی کی جلوہ طرازی، اُسی کی جلوہ گری ُ
٭٭٭
رات میں نغمہ و گریہ زاری وَرنہ دن بھر سنّاٹا
کس نے شور بھرا ہے باہر، رُوح کے اندرسنّاٹا
زادِ سفر میں اس سے زیادہ اور بھلا ہم کیا لکھیں
ان جانی سی راہیں ، مسافر، مٹّی، پتھر سنّاٹا
بابِ سماعت وَا نہیں رہتا لفظ کہیں کھو جاتے ہیں
برسَرِ محفل بھر جائے دیوار کو چھوکر سنّاٹا
کارِ جہاں میں خود کو کھپائیں ہفت افلاک سے کیا لینا
کیسی پستی، کیسی بلندی دیکھا ہے یک سرسنّاٹا
یاد نگاری، نوحہ گزاری، شغل کہیں آزار لکھیں
خوش اوقات رہیں بَل دو پل، پھر ہو مکرّر سنّاٹا
٭٭٭
عفریت کو دلوں میں بٹھائے ہوئے تو ہیں
کرگس کے سر پہ تاج سجائے ہوئے تو ہیں
اربابِ اختیار کے ہر حُکم کا ہے پاس
بے تیغ اپنے سر کو کٹائے ہوئے تو ہیں
سوداگروں کا ہاتھ ہے قوموں کی نبض پر
انسانیت کی روح پر چھائے ہوئے تو ہیں
آنسو ہیں ترجماں غمِ شبیر کی قسم
صدیوں سے اُمتّوں کے بہائے ہوئے تو ہیں
جلتا ہوں تیری آس میں کب ہو اُمیدِ صبح
حسرت کی آگ دل میں لگائے ہوئے تو ہیں
اب کیا بچا ہے زیست میں جس کا گِلہ کریں
ماضی کی یاد دل میں بسائے ہوئے تو ہیں
٭٭٭