کوئی امید کسی سے نہ گلہ رکھتے ہیں
بے نیازانہ جو جینے کی ادا رکھتے ہیں
ہم مریضان تجاہل کو خفا رکھتے ہیں
دُکھتی رگ پر کبھی انگلی جو ذرا رکھتے ہیں
جذبہ و شوق شہادت تو وہ کیا رکھتے ہیں
جیب میں جان بچانے کی دوا رکھتے ہیں
بد گمانی کا ہمیں کیسے یقیں آئے گا
نرم گوشہ تری خاطر جو سدا رکھتے ہیں
ہم تو لوٹاتے ہیں فوراً اسی سکے میں انھیں
آج کا کام کہاں کل پہ اٹھا رکھتے ہیں
مصلحت علم و صداقت کی نفی کرتی ہے
ہر ابو جہل کو ہم لوگ خفا رکھتے ہیں
ہم پہ چلتا ہی نہیں کوئی کسی کا جادو
نام نامی کو ترے ڈھال بنا رکھتے ہیں
ہم ہیں ان کے لیے پاگل تو ہمارا کیا ہے
کیسے کیسوں کو وہ دیوانہ بنا رکھتے ہیں
وہ روا دار نہیں خیرؔ روا داری کے
ناروائی کو بہ ہر حال روا رکھتے ہیں
٭٭٭
خیمے کے گل چراغ اگر ہو کے رہ گئے
کچھ لوگ جو ادھر تھے اُدھر ہو کے رہ گئے
پہلے بھی اک مثال تھے اب بھی ہیں وہ مثال
شیر و شکر تھے تیر و سپر ہو کے رہ گئے
جن کی حقیقتاً ابھی ٹھہری نہیں نظر
ایسے بھی لوگ اہلِ نظر ہو کے رہ گئے
خوش آمدید کہتا ہے کوچہ وہ آج بھی
ہم ہی اسیر شام و سحر ہو کے رہ گئے
ہوتے تھے خوش وہ دیکھ کے خبروں میں اپنا نام
پھر یوں ہوا خود ایک خبر ہو کے رہ گئے
وہ دن بھی تھے کہ رونقِ محفل ہمیں تو تھے
افسوس آج بارِ نظر ہو کے رہ گئے
اچھوں کے حق میں خیر سراپا ہیں خیرؔ ہم
اشرار ہی کے واسطے شر ہو کے رہ گئے
٭٭٭