غزلیں ۔۔۔ پریتپال سنگھ بیتاب

 

سال گزشتہ کے نام ایک غزل بروز ۳۱ دسمبر ۲۰۲۰

 

میں چھوڑ آیا ہوں پیچھے بے شک دیارِ رفتہ

مگر نہیں چھوڑتا مُجھے یہ خمارِ رفتہ

 

قدم بڑھاؤں گا آگے رستہ نظر تو آئے

چھٹا کہاں ہے ابھی تلک یہ غبارِ رفتہ

 

میرے پروں کو نہیں وہ پرواز بننے دیتا

لدا ہوا میری پیٹھ پر ہے جو بار رفتہ

 

نئی زمیں پر میں پاؤں اپنے جما چکا ہوں

کہاں مگر اعتبارِ رفتہ وقارِ رفتہ

 

میں آئینہ جب بھی دیکھتا ہوں یہ سوچتا ہوں

ہے میری آنکھوں میں کس قدر انتظارِ رفتہ

 

حدِ نظر تک ہے اِس سے آگے دیارِ فردا

ہے چار جانب کھنچا ہوا جو حصارِ رفتہ

 

سمیٹ تو لی ہے تُم نے بیتاب اپنی دُنیا

ہے وہ جو خوابوں میں جا بجا انتشار رفتہ

٭٭٭

 

کسی صحرا کا خود رو اک شجر ہوں

شجر بے شک ہوں لیکن بے ثمر ہوں

 

کبھی گمراہ لگتا ہوں میں خود سے

کبھی لگتا ہے گویا راہ پر ہوں

 

کروں گا فکرِ مستقبل بھی اک دن

ابھی تو حال تک سے بے خبر ہوں

 

نہیں جمتے زمیں پر پاؤں میرے

ازل سے ہی خلا میں در بدر ہوں

 

دماغ اِس پار دِل اُس پار میرا

کسی کو کیا بتاؤں میں کدھر ہوں

 

نہیں ہے منتظر میرا کہیں کوئی

خود اپنے آپ ہی سے منتظر ہوں

 

عجب عالم ہے میری بے خودی کا

خبر میں ہوں خبر سے بے خبر ہوں

 

رہی ہے عُمر بھر اک نا اُمیدی

میں قائم پھر بھی اک اُمّید پر ہوں

 

نہ منزل ہے نہ کوئی سمت بیتاب

سفر میں ہوں مگر میں بے سفر ہوں

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے