سپنے تو کجا، پوچھ کہ ہم سو بھی سکیں گے؟
مانوس جدائی سے تری ہو بھی سکیں گے؟
ڈر تھا کہ وہ بچھڑا تو تبسم سے گئے ہم
کیا جانئے اِس ہجر میں اب رو بھی سکیں گے؟
کم مائیگیِ حرفِ تشکر مجھے بتلا
یہ قرض محبت کے ادا ہو بھی سکیں گے؟
اک بار کا اظہار، جو صد خونِ انا تھا
اُس داغِ تمنا کو کبھی دھو بھی سکیں گے؟
حاصل کی ہوا پالنے والے کبھی سوچیں
ایسی ہی سہولت سے اسے کھو بھی سکیں گے؟
جڑ سے تو اکھاڑیں گے چلو، بوڑھے شجر کو
ننھا سا نہال اس کی جگہ بو بھی سکیں گے؟
٭٭٭
غلطی پر غلطی ہو رہی ہے۔ اس پر بہت معذرت۔
سپنے تو کجا، دیکھئے کیا سو بھی سکیں گے؟
مانوس جدائی سے تری ہو بھی سکیں گے؟
۔۔ ’’لفظ کھو جائیں گے‘‘ ۔۔۔ آخری غزل ہے
میں بھی غلط نقل کر گیا
معذرت ۔ درست متن یوں ہے۔
سپنے تو کجا، دیکھئے کا سو بھی سکیں گے؟
مانوس جدائی سے تری ہو بھی سکیں گے؟
۔۔ ’’لفظ کھو جائیں گے‘‘ ۔۔۔ آخری غزل ہے۔
درست یوں ہے ۔۔۔
سپنے تو کجا، جانئے کیا سو بھی سکیں گے؟
مانوس جدائی سے تری ہو بھی سکیں گے؟
بہت آداب ۔۔ ایک درستی فرما لیجئے۔ مطلع یوں ہے ۔۔۔
سپنے تو کجا، پوچھ کہ ہم سو بھی سکیں گے؟
مانوس جدائی سے تری ہو بھی سکیں گے؟