غزلیں ۔۔۔ محمد احمدؔ

 

نظر سے گُزری ہیں دسیوں ہزار تصویریں

سجی ہیں دل میں فقط یادگار تصویریں

 

مری کتاب اٹھا لی جو دفعتاً اُس نے

گِریں کتاب سے کچھ بے قرار تصویریں

 

میں نقش گر ہوں، تبسّم لبوں پہ رکھتا ہوں

مجھے پسند نہیں سوگوار تصویریں

 

بس اک لفافہ! اثاثہ حیات کا؟ کیسے؟

بس اک کتاب، گلِ خشک، چار تصویریں!

 

مجھے ہے خوف ترے خال و خد نہ بھولوں میں

بنا رہا ہوں تری بے شمار تصویریں

 

وہ مل گیا ہے تو اب کیمرے کی حاجت کیا

نظر میں ہے تو نظر سے اتار تصویریں

 

تلاش کرتا ہے البم میں جانے کس کو وہ

جو دیکھتا ہے یونہی بار بار تصویریں

 

ہری زیادہ ہے کیا گھاس دوسری جانب؟

گئے تھے لینے جو دریا کے پار تصویریں

 

میں آج خوش ہوں کہ موسم ہے خوشگوار بہت

اور اُس نے بھیجی ہیں کچھ خوش گوار تصویریں

 

نئی ہے کب سرِ دالاں یہ چہرہ پردازی

ازل سے ساتھ ہیں دیوارِ غار، تصویریں

 

کسی کو دیکھ کے آنکھیں چُرا بھی لیتی ہیں

نگار خانے میں کچھ ہوشیار تصویریں

 

ہماری آنکھوں میں کچھ کرچیاں ہیں خوابوں کی

ہمارے دل میں ہیں کچھ دل فگار تصویریں

 

اُڑے ہوئے تھے مری طرح رنگ اُن کے بھی

گئے زمانے کی دیکھیں جو یار تصویریں

 

حذر کہ اچھی نہیں ہوتی ہر کوئی تصویر

بچو ! اگر ملیں فتنہ شعار تصویریں

 

جہاں بھی جانا بچا رکھنا آبرو دل کی

فریب دیں گی تمہیں کم عیار تصویریں

 

ہزار لفظوں کی ہے ترجماں گر اِک تصویر

مری غزل میں چھپی ہیں ہزار تصویریں

 

نگار خانۂ اژرنگ ہے جہاں احمدؔ

سجی ہوئی ہیں یہاں روپ دار تصویریں

٭٭٭

 

 

موسموں کا مزاج اچھا ہے

کل سے بہتر ہے آج، اچھا ہے

 

فرد بہتر، معاشرہ بہتر

آپ اچھے، سماج اچھا ہے

 

روٹھ کر بھی وہ مسکراتے ہیں

یہ چلن، یہ رواج اچھا ہے

 

رستگاری غموں سے ہوتی ہے

بیٹھے سے کام کاج اچھا ہے

 

وہ تفنن جو دل پہ بار نہ ہو

اے مرے خوش مزاج ! اچھا ہے

 

احمدؔ اچھی ہے تیری گمنامی

تیرے سر پر یہ تاج اچھا ہے

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے