یقین جانیے اس میں کوئی کرامت ہے
جو اس دھوئیں میں مری سانس بھی سلامت ہے
نظر بھی حال مرے دل کا کہہ نہیں پاتی
زباں کی طرح مری آنکھ میں بھی لکنت ہے
جو ہو رہا ہے اسے دیکھتے رہو چپ چاپ
یہی سکون سے جینے کی ایک صورت ہے
میں اس کے جھوٹ کو بھی سچ سمجھ کے سنتا ہوں
کہ اس کے جھوٹ میں بھی زندگی کی قوت ہے
یہ کس کی آنکھ ٹکی ہے اداس منظر پر
یہ کون ہے کہ جسے دیکھنے کی فرصت ہے
کوئی بعید نہیں یہ بھی اشتہار چھپے
ہمارے شہر میں جلّاد کی ضرورت ہے
سپر تمام بدن کے حواس ڈال چکے
بس ایک آنکھ ہے جس میں ابھی بغاوت ہے
دل و دماغ میں رشتہ نہیں جہاں کوئی
اک ایسے جسم میں جینا ہماری قسمت ہے
کہیں بھی جائیں سزائیں ہمیں ہی ملنی ہیں
عدالتوں کی ہماری عجیب حکمت ہے
ہمارے بیچ یہ عقدہ نہ کھل سکا اب تک
کسے وصال کسے ہجر کی ضرورت ہے
اسی کو سونپ دیا ہم نے منصفی کی زمام
کہ جس کے خواب میں بھی عکسِ غاصبیت ہے
٭٭٭
جب کوئی چادر رخِ شفّاف پر تانی گئی
تب کہیں جا کر ہماری شکل پہچانی گئی
خوش گمانی ہے کہ اس دنیا سے من مانی گئی
سچ تو یہ ہے دیدۂ حیراں سے حیرانی گئی
عقل و دانش کی کمی کا رنج ہے سب کو مگر
غم زدہ میں ہوں کہ میرے گھر سے نادانی گئی
اب کنارے پر پہنچنے کا مزہ باقی کہاں
کشتیاں سیدھی ہوئیں دریا سے طغیانی گئی
روشنی، پہچان، لذّت، ولولہ، سب کچھ گیا
میں نے سمجھا تھا فقط اک اوڑھنی دھانی گئی
شاید آ جائے ہماری راہ میں کچھ روشنی
اب تو اپنے جسم و جاں سے خوئے انسانی گئی
روشنی تھی کس قدر اس کے بدن کی تابناک
گھور کہرے میں بھی جس کی شکل پہچانی گئی
پوچھیے اس ملک کے راجا سے اس کا حال چال
جس کے قبضے سے نکل کر صرف اک رانی گئی
دوست کو دشمن سمجھ کر دشمنی کرتے رہے
کیا اسی مقصد سے یہ چادر یہاں تانی گئی
٭٭٭