طوائف۔۔۔ ریاض شاہد

 

وہ سب اس کمرے میں صبح سے یوں بیٹھے تھے جیسے پولیس کی جیل گاڑی میں قیدی بیٹھے ہوئے اپنے اپنے سنگین مقدمات کی عدالت میں پیشی کا انتظار کر رہے ہوں۔ گاہے گاہے ایک دبلے پتلے جسم اور سالخوردہ شلوار قمیض میں ملبوس چپراسی نما ہرکارہ آ کر کسی امیدوار کا نام پکارتا تو وہ نروس انداز میں اپنے لباس کی شکنیں درست کرتا بالوں پر ہاتھ پھیرتا اندر چلا جاتا۔ صبح سے پلاسٹک کی اس کرسی پر بیٹھے انتظار کرتے ساجد کے کولہے سن ہو چکے تھے۔ کمر اور گردن کے پٹھوں میں بھی شدید اینٹھن ہو رہی تھی۔ ٹائی کی گرہ کا پھندہ تنگ ہونے کی وجہ سے دم گھٹ رہا تھا اور چہرہ سرخ ہو رہا تھا جس پر جون کی گرمی سے پسینہ بہ کر کتے کے کانوں کی طرح مڑے ہوئے کالر کو مزید داغدار بنا رہا تھا۔ اس نے گرہ قدرے ڈھیلی کی لیکن گھٹن بدستور قائم رہی کہ پرانی قمیض دھل دھل کر اب تنگ ہو گئی تھی اور قمیض کا کالر بھی تنگ ہو چکا تھا، لیکن اس کا بٹن وہ اس ڈر سے نہیں کھول رہا تھا کہ نجانے کب اندر سے بلاوا آ جائے اور دیر سے اندر جانے پر کہیں جاب انٹرویو لینے والے حاجی صاحب کا موڈ نہ خراب ہو جائے۔ پیٹ میں اگرچہ بھوک کی وجہ سے درد ہو رہا تھا کہ صبح جلدی پہنچنے کی خاطر چائے کا محض ایک کپ پی کر نکلا تھا۔ دوپہر کو لنچ کرنے کو جب دل چاہا تھا تو اس نے جیب میں پڑے سو کے نوٹ کو مٹھی میں جکڑ لیا تھا کہ یہ بھی ہوسٹل کے ایک دوست سے ادھار مانگ کر لایا تھا اگر کھانا کھا لیا تو پھر واپسی پہ پیدل جانا پڑے گا۔ یہ اس کا کوئی پچاسواں انٹرویو تھا۔ اسے ایم بی اے کیئے دو سال ہو چکے تھے لیکن ملازمت کا ہنوز کوئی پتہ نہیں تھا اوپر سے ریفرنس کوئی نہیں تھا۔ پتہ نہیں وہ ریفرنس کہاں سے ملے گا جو اسے جھٹ سے ملازمت کا اہل کر دے۔

آخر کار اس کے نام کی آواز پڑی تو امید و بیم کی کیفیت میں کمرے میں داخل ہوا۔ اندر داخل ہوتے ہی ایئر کنڈیشنر کی خنکی، ائر فریشنر کی مہک اور دفتر کی سجاوٹ سے اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ کسی تپتی ہوئی بھٹی سے کسی ایسی جگہ پہنچ گیا ہو جہاں ہوائیں کسی جنت کی وادی سے آتی ہوں اور اس میں بیٹھے انسان کسی اور دنیا کے باسی۔ کتنے خوش قسمت لوگ ہیں یہ، اس نے دل میں سوچا۔

کمرے میں یوں تو تین افراد انٹرویو کے لیئے موجود تھے لیکن ان میں سب سے بھاری بھر کم شخصیت حاجی صاحب کی تھی۔ حاجی صاحب نے ایک نظر اس کے حلیئے پر ڈالی اور گویا ہوئے

ہاں تو نوجوان تم اس نوکری کے لیئے اپنے آپ کو موزوں کیوں سمجھتے ہو؟

سر میرا تعلیمی ریکارڈ بہت اچھا رہا ہے اور میں زندگی میں آگے بڑھنے کا عزم رکھتا ہوں

یہ عزم کس قدر پختہ ہے ہے ؟ کیا کچھ بھی کر سکتے ہو ؟ حاجی نے بھی کی ی کو لمبا کرتے ہوئے کہا۔

ساجد کے تصور میں اس کے ریٹائرڈ سکول ٹیچر نمازی باپ کا باریش چہرہ آ گیا جس نے ساری زندگی حق حلال کی کمائی کی تھی لیکن اس کی چادر ہرگز اتنی لمبی نہ تھی کہ دو وقت کی روٹی کے علاوہ کسی اور ضرورت کا تن ڈھانک سکتی۔ پیٹ کی اینٹھن اور لنڈے کی ٹائی کے نیچے دم گھوٹتی قمیص کے کالر نے اس کی زبان کو مہمیز دی،

سر کسی بھی حد تک۔

کسی بھی حد تک ؟ کیا تمہیں یقین ہے ؟

ہاں جی کسی بھی حد تک

حاجی صاحب داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے معنی خیز انداز میں اپنے دائیں جانب بیٹھے مینجر کو دیکھ کر مسکرائے اور انہیں کوئی اشارہ کیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاجی صاحب نے زندگی کا آغاز شیخوپورہ کی ایک مل میں مزدور کی حیثیت سے کیا تھا اگرچہ وہ بی اے تھے لیکن پتہ نہیں ان کی قسمت تھی یا کیا کہ جوتیاں چٹخانے کے باوجود انہیں کہیں نوکری نہ ملی۔ وہ شاید مزدور ہی فوت ہو جاتے یا یوں گھسٹے گھسٹے زیادہ سے زیادہ فورمین کے عظیم الشان عہدے تک چھلانگ لگا لیتے لیکن یہ چودھری سکندر تھا جس نے اسے ایک دن بلا کر عملی زندگی کا سبق دیا۔

پتر تیرے باپ نے گاوں والوں کی، میری اور میرے باپ کی بہت خدمت کی تھی ساری حیاتی، وہ وفادار رہا۔ شیدے میراثی کا قتل جو میرے چچا کے ہاتھوں ہوا تھا وہ غلطی سے اس کے سر پر چلا گیا اور پھانسی چڑھ گیا۔ تجھے اُس وقت بھی سمجھایا تھا لیکن تیرا خون گرم تھا تجھے سمجھ نہیں آئی، تو ہم سے بد گمان رہا، لیکن اب بھی وقت ہے میرا کہنا مان اور جو میں کہتا ہوں کرتا جا ، دیکھ زندگی میں ترقی کرے گا وگرنہ دیکھ اسی طرح محتاج مر جائے گا۔ حاجی صاحب بھی اس وقت تک عسرت کے تھپیڑے کھاتے کھاتے بال سفید کیئے زندگی کی دوڑ میں ہانپ رہے تھے۔ کیا کرنا ہے ؟

بس کرنا کچھ نہیں یہ جو گورنمنٹ کی جوتے بنانے کی مل ہے نا اس میں میری مرضی چلنی چاہئیے،

جناب آپ مالک ہیں سرکار اور ہم آپ کے غلام جو کہیں گے ویسا ہی ہو گا۔

اس دن کے بعد سے اس مل میں روز کوئی نہ کوئی ہنگامہ ہو جاتا کبھی کسی اہم مشین کا پرزہ اچانک ٹوٹ جاتا جو امریکہ یا جرمنی سے آتا ہے تو کبھی کسی مزدور کے دیر سے آنے پر تنخواہ کٹنے کی سزا کے کے نتیجے میں ہڑتال ہو جاتی۔ محض دو سال میں یہ یونٹ جو پہلے ہی خسارے میں چل رہا تھا لیکن گورنمنٹ اسے لشٹم پشٹم کھینچ رہی تھی بالکل ہی بیٹھ گیا۔ گورنمنٹ نے تنگ آ کر اسے بیچ کر جان چھڑانے کا سوچا۔ پرائیویٹائزیشن ہوئی تو کوئی سرمایہ کار اس علاقے میں اپنا سرمایہ لگانے کو تیار نہ ہوا کہ اس علاقے میں پہلے ہی جرائم کی شرح زیادہ تھی،لوگ اکھڑ مزاج تھے، ویسے بھی یونٹ کی تاریخ کچھ اتنی نیک نام نہ تھی۔ چودھری سکندر جس نے باپ کی موت کے بعد تیزی سے سکڑتی زمین کو دیکھ اب سیاست میں منہ مارتے مارتے ایم پی اے کی سیٹ حاصل کر لی تھی یہ مل اونے پونے داموں حاجی صاحب کو بطور فرنٹ مین استعمال کرتے ہوئے خرید لی ویسے بھی جب اندھا ریوڑیاں بانٹتا ہے تو دیکھتا نہیں، تو کسی نے پڑتال نہیں کی کہ حاجی صاحب کے پاس پیسہ کہاں سے آیا، گورنمنٹ نے جان چھڑا سکھ کی سانس لی۔ چوہدری سکندر نے بھی لکھت پڑھت نہیں کی کہ چوزہ بچ کے کہاں جائے گا ویسے بھی آجکل اسمبلی میں اثاثوں کی جانچ پڑتال زیادہ ہو رہی تھی ادھر ٹی وی چینل ہر بات کو لے اڑتے تھے۔ تین سال بعد جب چودھری سکندر ایک ٹریفک کے حادثے میں انتقال ہوا تو حاجی صاحب نے مل پر حق ملکیت جتاتے ہوئے مل پر مکمل قبضہ کر لیا اور چودھری سکندر کی بیوہ کسی اولاد نرینہ کی غیر موجودگی میں محض سرکار دربار میں عرضیاں ہی دیتی رہ گئی۔

حاجی صاحب نے اب تک زندگی میں آگے بڑھنے کا گر سیکھ لیا تھا اور وہ تکلیف دہ حد تک عملیت پسند ہو چکے تھے۔ ایکیونٹ سے جب مناسب جگہ پر رشوت، خوشامدانہ خوش خلقی اور ” چمڑے ” کاتڑکا لگا تو ایک مل سے مزید ملوں کے بچے یوں پیدا ہوتے چلے گئے جیسے خرگوشوں کی آبادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اب وہ لاہور ڈیفنس میں دو کنال کے ایک بنگلے میں رہتے تھے۔ یورپ کا چکر لگاتے واپسی پر حج بھی کر لیا تھا داڑھی رکھنے کے بعد موقع بے موقع ماشا اللہ اور الحمد اللہ قرات سے ادا کرتے تھے اور حاجی صاحب کہلاتے تھے، محفل میلاد گھر پر بڑی باقاعدگی سے منعقد کراتے لیکن بالا طبقے کے افراد کو خوش رکھنے کا ہنر جانتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاجی صاحب کی کرگسی نظر نے ساجد کے اندر چھی ہوئی ذہانت اور مجبوری کے نتیجے میں ضمیر کا رسہ تڑاتے خواہش کے منہ زور حیوان کو پہچان لیا تھا۔ باقی افراد کے انٹرویو بس نام کے ہی ہوئے ، شام تک مینجر ہیومن ریسورس کا پروانہ اس کے ہاتھ میں تھا، پچھتر ہزار روپے تنخواہ مقر ر ہوئی اور ساتھ نئی کرولا بمعہ ڈرائیور کے۔ ایک آدھ ماہ بعد اسے والٹن گلبرگ میں ایک فرنشڈ فلیٹ بھی کرائے پر مل گیا جو کہ کسی ریٹائرڈ فوجی افسر کا تھا لیکن اسے ریٹائر منٹ کے بعد اپنے بچوں کی تعلیم مکمل کرنا تھی اس لیئے وہ اسے کرائے پر چڑھا خود اپنی فیملی کے ہمراہ واپڈا ٹاون کی نواحی بستی میں ایک کم کرائے کے چھوٹے سے گھر میں منتقل ہو گیا تھا۔ ساجد اس نئی کمیونٹی میں آ کر یوں محسوس کرنے لگا جیسے اس نے عسرت کے اس منحوس ٹیکے کو جو بدبختی کے ٹھپے کی طرح اس کی پیشانی پر وقت پیدائش سے چسپاں تھا ہمیشہ کے لیئے اتار پھینکا تھا۔

دفتر میں یوں تو وہ مینجرہیومن ریسورس تھا لیکن زیادہ تر کام حاجی صاحب اسے خود ہی فون پر بتا دیتے تھے جو اگرچہ اس کے کرنے کے نہیں تھے لیکن اسے کرنے کا کہتے تھے اس لیئے مزدوروں سے متعلق زیادہ تر معاملات اس کا اسسٹنٹ ہی دیکھتا۔ مثلاً پہلے پہل اس کے اضافی کاموں میں صرف مل کے لیئے بنک سے کیش لانا اور جمع کرانا تھا۔ لیکن ہوتے ہوتے اتنے سال گذر جانے کے وہ تقریباً تمام ایسے کام انجام دے رہا تھا جو اس کے فرائض میں شامل نہیں تھے۔ مل میں کسی مزدور کے مشین میں آ جانے سے موت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی الجھنوں مثلاً لیبر ڈیپارٹمنٹ کے انکوائری افسر کا منہ نوٹوں سے بند کرنا، اخباری اور ٹی چینلوں کے صحافیوں کی زبان بندی کا انتظام کرنا، مقامی پولیس اور تھانے دار کی سرکاری اور غیر سرکاری ضروریات سے نمٹنا، مل کے ارد گرد کی آبادی ویلفیئر کے نام پر بھیک بانٹنا کہ ان کی ہمدردیاں مل مالکان کے ساتھ رہیں، سرکاری و غیر سرکاری افسراور، باہر سے آنے والے امیر گاہکوں کی ہر قسم کی "راحتوں ” کا لاہور اور دوسرے صحت افزا مقامات پر بندوبست۔ حاجی صاحب کی بیگم کے نخرے اور دوبئی میں شاپنگ کی ہمراہی اور ان کے بچوں کی معزز ڈرائیوری۔ اب وہ حاجی صاحب کا نفس ناطقہ بن چکا تھا حتی کہ بعض اوقات وہ صبح آئینے میں شیو بنانے کھڑا ہوتا تو اسے یوں محسوس ہوتا کہ وہ ایک چھوٹا سا حاجی ہے لیکن جلد ہی اس کی زندگی میں بکھری خوشبودار راحتیں اس احساس کو مدھم کر دیتیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی میں راحت آئی تو اس کے چہرے پر نکھار خود بخود آ گیا۔ غربت کے دور کے ٹریڈ مارک آم کی طرح چسا ہوا چہرہ اب پُر گوشت ہو گیا تھا، لہجہ پُر اعتماد اور نشست و برخواست سے ایک تیقن جھلکتا تھا۔ زندگی مزے سے بسر ہو رہی تھی کہ ایشل نے آ کر اس کی زندگی میں ہلچل مچا دی تھی۔ یوں تو وہ اس کی مل کی اشتہاری فرم ریڈ کمونیکیشن میں محض ایک سیکرٹری تھی لیکن اس کی ابتدائی زندگی کے چند سال انگلینڈ میں بسر ہوئے تھے جہاں سے اس کا پاکستانیپلمبر باپ اس کی ماں سے علیحدگی کے بعد اسے لے کر سمن آباد کے ایک فلیٹ میں لے آیا تھا۔ وہ ابھی اے لیول کر کے فارغ ہوئی تھی کہ اس کے باپ کا انتقال ہو گیا۔ اس کے حسن میں اس کی برٹش ماں کے رنگ و روپ کا شعلہ سا لپکتا تھا جسے اس کا برٹش انگریزی لہجہ سہ آتشہ بناتا تھا۔ جب سے اس نے ریڈ کمونیکیشن میں ملازمت اختیار کی تھی ساجد وہاں ہر دوسرے تیسرے روز کھنچا چلا جاتا تھا۔ اب پتہ نہیں یہ ساجد کا دیہاتی بیک گراونڈ تھا، ایشل کا حسن تھا یا اس کے باپ دادا کے خون میں صدیوں سے رچی خوئے غلامی جو سفید رنگت اور انگریزی لہجے کے سامنے رکوع میں چلی جاتی تھی لیکن ساجد یہی سمجھتا تھا کہ اسے ایشل سے سچی محبت ہو چکی ہے اور اس سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا۔ ایشل کو بھی پتہ نہیں ساجد کی آنکھوں جھانکتا والہانہ پن بھایا یا پھر اس کے مستقبل میں ترقی کے امکانات نے متاثر کیا کہ اس نے بھی شادی کے لیئے ہاں کر دی۔ اور یوں وہ منگنی کے بندھن میں بندھ گئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساجد شاید نوٹس نہ لیتا لیکن یہ تیسری دفعہ تھا کہ ایشل کو مختلف جگہوں پر دیکھ چکا تھا کہ اس کے دل میں حسد کی آگ سی فروزاں ہو گئی تھی۔ پہلی مرتبہ اس نے دوپہر کے وقت مال روڈ پر ایشل کو اپنے باس کے ہمراہ ایک کیفے کے سامنے اترتے دیکھا وہ دونوں کسی بات پر ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس رہے تھے، دوسری دفعہ آواری ہوٹل میں ایک پارٹی پر اس کا باس اسے ایک موٹے مل مالک شیرازی متعارف کروا رہا تھا، شیرازی نے ہاتھ ملاتے ہوئے اس کا ہاتھ دیر تک پکڑے رکھا تھا اور اس کی آنکھوں میں جو ہوس تھی وہ اسے ایک گدھ سے مشابہ بنا رہی تھی۔ تیسری دفعہ وہ لیبر ڈیپارٹمنٹ میں کسی دفتری کام سے آئی ایک سرکاری افسر سے مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہی تھی اور اس کے بعد وہ دونوں نے وہیں لنچ بھی کیا اور وہ باہر بیٹھا شیشے میں سے یہ سب دیکھ کر اُٹھ گیا۔

اس دن بادشاہی مسجد کے پہلو میں ایک بازار میں واقع اس ریستوران کی چھت پر جس میں اس شہر کے نو دولتیے کلچرڈ کہلانے کے شوق میں آتے تھے وہاں سورج کی سرخ ٹکیہ جب افق کے سمندر میں ڈوب رہی تھی اور شام کا ملگجا اندھیرا کسی سیاہ عفریت کی طرح شہر پر چھاتا جا رہا تھا اور بیرا ان کے سامنے برتن لگا کر جا چکا تھا ساجد نے ایشل سے کہا

میرا خیال ہے کہ اب تم ملازمت چھوڑ دو۔

کیوں ؟ ایشل نے کھڑے بازو کی ہتھیلی کے پیالے میں شفق کی کرنیں منعکس کرتا اپنا روشن چہرہ دھرتے اور مسکراتے ہوئے کہا

میرا خیال ہے کہ اس کا ماحول تمہارے لیئے مناسب نہیں ہے۔

اس سے پہلے تو تم نے کوئی اعتراض نہیں کیا کبھی ؟

پہلے کی بات اور تھی۔ ساجد نے آنکھیں میں سختی لیئے اور ہاتھ میں پکڑی کھانے کی چھری کی دھار پر اپنا انگوٹھا دباتے ہوئے ہوئے کہا۔

دیکھو ساجد ملازمت مجھے معاشی تحفظ کے علاوہ مجھے میرے ہونے کا احساس بھی دیتی ہے ویسے بھی میں نے کبھی کچھ غلط نہیں کیا۔ ایشل نے قطعی لہجے میں کہا۔

اور وہ جو تمہارا باس تمہیں پارٹیز میں نمائش کے لیئے لے کر جاتا ہے اپنے رکے ہوئے کام نکلوانے کے لیئے سرکاری دفاتر میں بھیجتا ہے وہ ؟

تم جانتے ہو کہ وہ سب میری ملازمت کا حصہ ہے میں کوئی ڈاکٹر یا انجنیئر نہیں ہوں کہ اپنا کوئی آزادانہ کام کر سکوں۔ ایسے میں ایک اے لیول پاس لڑکی کو اتنی اچھی ملازمت کوئی کیوں دے گا۔ ویسے بھی اگر محض میری ایک مسکراہٹ سے میرے دفتر کا کام نکل سکتا ہے تو اس میں کیا حرج ہے ؟

ساجد وہ جو اب تک، زندگی کے اب تک کے ہر قدم پر، ہر کام بڑی مہارت سے نکلواتا آیا تھا، بڑے بڑے اکھڑ افسروں کو جھکایا تھا ، اس کی انا گزرے وقت کے ساتھ اب اتنی خود سر ہو چکی تھی کہ انکار اور وہ بھی محض ایک لڑکی سے، سن کر ، رگوں میں دوڑتا خون اس کی کنپٹیوں میں دھماکے کرنے لگا۔ غصے اور جنوں کے عالم میں اس کے انگوٹھے نے کھانے کی چھری کی دندانے دار کند دھار پر اپنا دباؤ شدت سے بڑھا دیا آنکھوں میں، وہ ایک لمحہ، جس میں انسانی آنکھوں میں ایک حیوانی چمک ہوتی ہے، لیئے ہوئے اس کے منہ سے نکلا

مجھے اب احساس ہوا کہ تم لڑکی نہیں ایک طوائف ہو

ایشل کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور چہرہ صدمے کی شدت سے سفید پڑ گیا۔ اس نے اپنا لیڈیز بیگ کندھے پر رکھا اور اس کی ڈوریوں کو اتنی شدت سے بھنچا کہ یوں لگا کہ اس کی انگلیوں کے پوروں سے ابھی خون بھل بھل بہنے لگے گا

مسٹر ساجد، میر خیال تھا کہ میں یہاں مشرق میں سچی محبت پا سکوں گی لیکن شاید میں غلط تھی، اس خطاب کا شکریہ، وہ مڑی اور اونچی ہیل سے فرش پر زور زور سے کھٹ کھٹ کرتی سیڑھیاں اتر گئی۔

ساجد کسی زخم کھائے ہوئے درندے کی طرح نتھنوں سے آگ نکالتا وہاں بیٹھا رہ گیا۔

تو اس وقت ریستوران کی چھت پر سے نظر آنے والے، بادشاہی مسجد کے گنبدوں پر بسیرا کرنے والے کبوتر، جب اپنے پروں کو پھڑ پھڑاتے غٹر غوں غٹر غوں کی زبان میں خدائی محبت کا گیت الاپ رہے تھے، اس وقت، اس مسجد کے پہلو میں نیچے بازار کے کسی کوٹھے سے گھنگھروؤں کی چھنکار کے ساتھ بجتے عامیانہ سے فلمی گانے کی آواز ہوا کے دوش پر اس کے کانوں آ رہی تھی

٭٭٭

http://www.riazshahid.com/2013/09/%d8%b7%d9%88%d8%a7%d8%a6%d9%81/#sthash.em4UXeFc.dpuf

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے