صَیقَل ۔۔۔ فیروز عابد

 

میں بہت دیر سے ان کے سامنے دو زانو بیٹھا تھا۔

وہ مراقبے میں تھے۔ خاموشی پورے کمرے میں قفل ڈالے ہوئے تھی۔

اچانک چڑیے کی چوں چوں سے خاموشی لچک لچک کر ٹوٹ گئی اور پھر کرخت لیکن درد سے پُر آواز ابھری کون؟مراقبہ بھی چڑیوں کی چوں چوں سے شاید منقطع ہو گیا تھا۔

تم؟‘‘

جی ہاں میں آج پھر حاضر ہوا ہوں۔۔۔میں نے ان کی آنکھو ں میں جھانک کر کہا۔۔۔میں نے محسوس کیا کی ان کی آنکھوں میں تمنا کا کوئی بھی جال نہیں تھا اور نہ چاہت کی کوئی لکیر تھی۔

ہوں۔۔۔ٹھیک ہے بیٹھو۔۔‘‘

ہاں میں نے کل کیا کہا تھا‘‘۔۔۔قبل اس کے کہ میں کل کے سلسلے کو جوڑنے میں ان کی مدد کرتا انہوں نے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور گویا ہوئے۔

’’ہاں وہ لمبی مسافت طے کر کے آ رہی تھی۔۔۔۔نڈھال تھی۔۔۔۔پریشاں حال تھی۔۔۔۔دوپہر کی کڑی دھوپ کہیں سایہ نہیں آسمان پر ابر کا ایک ٹکڑا نہیں۔۔اس ننگ دھڑنگ راستے میں دور ایک درخت تھا۔۔۔قریب پہنچی، تو دیکھا اُس درخت کے نیچے ایک کتا اپنی زبان نکالے بری طرح ہانپ رہا تھا۔۔۔کمزور و ناتوں۔۔۔اس نے پہلے تو قہر۔۔۔۔۔وہ تھوڑی دیر کے لئے رُکے۔۔۔

کیا کہا۔۔۔۔‘‘ابھی میں نے پوری بات کہی بھی نہ تھی کہ ان کی تھرتھراتی آواز سماعت سے ٹکرائی۔

خاموش۔۔۔۔کوئی سوال نہیں بس سنتا جا اور صیقل کے عمل سے گزرسب سمجھ جائے گا۔۔۔۔۔اس نے کتے کو گود میں اٹھایا اور چل پڑی۔۔۔گھر پہنچ کر اس نے کتے کو گھر کی چوکھٹ کے قریب بٹھایا ،  اندر کمرے میں گئی اور پانی سے بھرا گملا لا کر کتے کے سامنے رکھ دیا۔۔۔نقاہت کے باوجود کتا کھڑا ہو گیا اور پانی پینے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔لوگوں نے اس کی ہنسی اڑائی، اوباش،  بد چلن،  آوارہ۔۔۔۔۔وہ خاموش رہی آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرتے رہے۔۔۔آسمان پر دور بہت دور فرشتوں نے اس کی آنسوؤ ں کو محسوس کیا۔۔۔ عورت نے آنکھیں آسمان کی طرف اٹھائیں۔۔۔۔پتہ نہیں اس نے کیا محسوس کیا سجدے میں گر گئی۔۔۔‘ ‘ سمجھا میں نے کیا سنایا۔۔۔کیا بتایا۔۔۔کیا راہ دکھائی۔۔۔؟‘‘

میں خاموش رہا۔۔۔وہ خاموش رہے۔۔۔۔سناٹا پھر طاری ہونے لگا۔

کیا ہوا۔۔۔۔۔‘‘ کچھ بول ‘‘  ان کی آواز نے سناٹے کو رینگ رینگ کر باہر جانے پر مجبور کیا وہ گویا ہوئے۔۔‘‘ تو سن مگر دماغ اور دل کو وا رکھ، سینے پر ہاتھ رکھ، صیقل کرتا جا۔۔۔۔یہ جو سینہ ہے اس میں بہت کچھ الگ الگ ہے۔۔۔۔سب اہم ہے مگر دل۔۔۔صیقل کر اس دل کا خون اور صاف ہو جائے گا۔۔۔۔گناہ،  ثواب،  بدنما،  خوبصورت، ذائقہ،  طہارت،  پاکیزگی،  غلط اور صحیح سب کا علم ہو جائے گا۔۔۔مگر دھیرے دھیرے۔۔

تو جانتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت عبادت گزار، بہت پرہیزگار۔۔۔۔کہیں کوئی داغ دھبا نہیں ،سب کچھ صاف ستھرا اعلیٰ کر دار روزہ پابندی سے۔۔۔شرعی احکامات پر عمل۔۔۔۔نماز ختم کی۔۔۔۔۔سلام پھیرا اور اپنے بغل میں رکھے عصا کو اپنی طرف تاکتی بلی پر دے مارا۔۔۔۔۔بلی لڑکھڑائی گری اور پھر جست لگا کر دیوار کے اس پار چلی گئی عبادت گزار بزرگ نے زمین کو تاکا اور تاکتے چلے گئے فرشتوں نے دیکھا بلی گریہ کناں تھی۔۔ایک پاؤں اٹھائے آسمان کی طرف تک رہی تھی۔۔عبادت گزار پاکیزہ صفت بزرگ کانپنے لگے۔۔۔چلانے لگے جل گیا، بچاؤ،بچاؤ،بچاؤ۔۔۔؟

کیا ہوا ، کیا سمجھا اور کیا نہیں سمجھا۔۔۔دنیا میں جنت اور دنیا ہی میں جہنم۔۔۔ساری عمر کی کمائی۔۔نیکی۔۔؟ ساری عمر کی کمائی۔۔بدی۔۔۔؟ محاسبہ کون کرے گا۔۔۔۔۔میں اور تو دونوں ہی مٹی کے جاندار پتلے۔۔۔۔مگر سینہ اور اس کے اندر دل بس اُسی کو صیقل کرنا ہے۔۔اور یہی نہیں ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔عبادت فرض مگر ساری عبادات سے افضل۔۔۔۔۔‘‘ انہوں نے آنکھیں کھول دیں۔۔۔سکون ان کی آنکھوں میں ایک دبیز چادر کی طرح براجمان تھا۔۔۔۔انہوں نے ذرا سا کندھے کو اچکایا۔۔۔۔‘‘ تو پھر آ گیا۔۔۔۔کیوں آیا؟   تو نے تو شک کی نگاہوں سے مجھے دیکھا تھا۔۔۔۔کیوں آیا تو بول۔۔۔۔۔۔۔؟  ان کی آنکھوں کا سکون تہہ بہ تہہ کم ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔میں حیران تھا یہ اچانک انہیں کیا ہو گیا۔۔۔۔اسی وقت میری پشت سے آواز آئی۔۔۔’’معاف کر دیجیے۔۔۔میں آپ کا گناہ گار ہوں۔۔۔۔مجھ سے غلطی ہوئی، میں نے آپ کو غلط سمجھا۔۔‘‘

میں نے مڑ کر کر دیکھا ایک شخص پالتی مارے ،ہاتھ جوڑے ، سراپا قصوروار بنا بیٹھا تھا۔۔۔۔۔

ہم انتساب میں غلطی کرتے ہیں۔۔۔۔حضرت موسیؑ نے کسی کے جواب میں کہا کہ وہ سب سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔۔۔۔اللہ کو یہ بات نا پسند آئی۔۔۔۔۔ان جیسے جلیل القدرہستیوں کا علم بس اتنا ہی تھا جتنا چڑے کی چونچ میں پانی۔۔۔۔۔۔ ہم اور تم ،کیا حیثیت ہے ہماری۔۔۔۔۔‘‘

ہاں ساری عبادات سے افضل فرائض کی ادائیگی۔۔۔دنیاوی فرائض۔۔۔۔۔حقو ق العباد۔۔۔۔تمناؤں کی خاکستری۔۔۔آفتاب سے ذرے تک کے حقوق کو اپنے دل و جان سے زیادہ عزیز رکھنا۔۔خدا واحد ہے۔۔۔اس کا کوئی شریک نہیں۔۔۔آسمان سے زمین کے اندر تہہ در تہہ سب کچھ اُسی کاہے۔۔۔وہ سب جانتا ہے۔۔۔اس کو کسی چیز کی حا جت نہیں۔۔۔یہ عبادتیں اس کا امتحان نہیں بلکہ تیرے اور ہمارے دلوں کو فساد، فسق و فجور اور داخلی ہلاکت سے بچانے کا ذریعہ ہے۔۔۔۔تو، میں اور ہم سب جانتے ہیں۔۔۔۔ہر ذرے میں اُس کا ظہور ہے۔۔۔۔گویا ہر ذرے کا وہ خالق ہے۔۔۔پھر عبادات پر غرور کیوں۔۔۔جھک کے ملنے کے بجائے اکڑ کر چلنا یہ کون سا استعارہ یا اشاریہ ہے۔۔۔عبادات دلوں  کے ساتھ نگاہوں میں نرمی اور پاکیزگی لاتا ہے تو پھر ان گنت رنگ کے عبادت گزار کیوں۔۔۔۔ہمارے ہاتھوں انسانیت جاں بلب اور جاندار سراسیمہ کیوں ؟۔۔۔سربراہی صحیح ہے مگر سربراہ کی گفتگو سے کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ وہ سدرۃالمنتہیٰ تک پہنچنے کا دعویٰ کر رہے ہوں۔۔۔تم سمجھ رہے ہو نہ میری بات میرے دوست ، میرے عزیز، میرے بھائی۔۔۔۔میرے لہجے کی اس نرمی اور گھلاوٹ سے تم حیران ہو نہ۔۔۔۔۔دراصل لفظ اسی طرح اسی نرمی اور خلوص کے ساتھ یکے بعد دیگرے سماعت سے ٹکرانے سے روح تک شیریں ہو جاتی ہے۔۔۔تم اپنا کام اسی محبت سے کرو۔۔۔۔۔۔۔سمجھے نا؟

حضور ایک بات کہوں۔۔میں نے بہت عاجزی سے پوچھا۔

ضرور پوچھو میرے بھائی اگر میرے علم میں ہو گی تو اس بات پر روشنی ڈالوں گا۔

’’اے لوگوں :  تمہارا کام بس یہ ہے کہ تم اپنے حصے کا پودا لگاتے جاؤ۔۔۔۔دیکھنا کے نا موافق فضا میں بھی وہ پودا ایک دن گھنا پیڑ بن جائے گا۔‘‘

میرے اس بیان کو سن کر وہ رونے لگے اور گلو گیر آواز میں کہا۔۔’’ یہ تو نے کیا سنا دیا۔۔شیر خدا، باب العلم حضرت علیؓ نے  کیا خوب فرمایا۔۔۔’ناموافق فضا‘ لیکن کام ہر جاندار کی بھلائی کے لئے۔۔۔۔بس یہی کرنا ہے کہ زندگی کی روح اسی میں پوشیدہ ہے۔

اچانک میری پشت سے غصے میں بھری آواز ابھری۔۔’’بس اپنی ہی بکے جا رہے ہو۔۔۔میرے سوال کا جواب تو تم نے اب تک نہیں دیا۔۔۔میں نے اپنے پیچھے بیٹھے آدمی کی طرف مڑ کر دیکھنا مناسب نہیں سمجھا۔

میں جا رہا ہوں۔۔۔تم اپنی بگھارتے رہو۔۔کہیں اور سے لے لوں گا تعویذ۔۔۔‘‘وہ پاؤں پٹکتا کمرے سے باہر نکل گیا۔

میں نے مڑ کر دیکھا اس کی تیز قدموں میں تھکاوٹ تھی۔۔۔میں اُسے دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ مکانوں کے درمیاں تحلیل ہو گیا۔

بہت دیر تک وہ خاموش خاموش بیٹھے رہے۔۔۔میں بھی چپ چپ سناٹے کو حکمرانی کرتے محسوس کرتا رہا۔

اچانک پھر سناٹے پر ضر ب پڑی۔’تعویذ۔۔۔گنڈا۔۔سیدھا راستہ۔۔صراط مستقیم۔۔۔کون صحیح۔۔۔کون غلط۔۔۔ان گنت فرقے۔۔۔۔لا تعداد گروہ۔۔۔۔مذہب ایک۔۔۔ کیا ہو گا ہمارا؟

بہت دور سے اذاں کی آواز آنے لگی۔۔وہ خاموش ہو گئے۔۔اذاں ختم ہو گئی اور وہ خاموش خاموش بیٹھے رہے اچانک سر اٹھایا اور کہا۔۔’’جاؤ عصر کی اذاں ہو گئی۔۔۔مسجد یہاں سے دور ہے۔۔‘‘

عصر کی نماز کے بعد میں پھر ان کے کمرے میں داخل ہوا وہ سر جھکائے دوسری طرف منہ کئے بیٹھے تھے انہوں میری آہٹ پر اپنا چہرہ گھمایا اور بہت آہستگی سے کہا مغرب پڑھ کر ہی آتے۔۔۔۔‘‘

جی میں نے نماز نہیں پڑھی صرف جمعہ کی پڑھتا ہوں۔‘‘

تم سے سب خوش ہیں۔۔۔؟  کوئی تناؤ۔۔۔۔؟ کوئی بھید بھاؤ؟ کوئی فرقہ یا پھر۔۔۔۔۔۔۔‘‘

سب کو خوش کون رکھ سکتا ہے۔۔۔۔۔‘‘

صحیح۔۔۔مگر جیسا کہ تم نے کہا ،ناموافق فضا میں پودا لگانا۔۔۔۔وہ تو کر رہے۔۔ہونا۔۔؟

شکایت کا موقع نہیں دیتا مگر کبھی کبھی غصے پر قابو بھی نہیں رہتا۔۔۔۔‘‘

غصہ۔۔۔۔

مغرب کی اذاں ہو رہی تھی۔۔۔آواز بہت دھیمی تھی۔۔وہ پھر خاموش ہو گئے اور میں ان کے کمرے سے باہر نکل آیا۔

گلیوں سے گزرتا شاہراہ پر آ گیا مسجد بہت دور تھی زندگی اسی طرح دوڑ بھاگ رہی تھی۔۔سڑک ہنگاموں کی جائے پناہ بنی ہوئی تھی۔۔ہر شخص ایک دوسرے سے بے نیاز تھا۔۔۔۔ہر چیز ہوا کے دوش پر اڑ رہی تھی سب الگ الگ مگر سب گتھے ہوئے اور گڈمڈ، پھر اس سے آگے میری سوچ جلنے لگی۔۔۔۔۔۔

میں چلتا رہا۔۔ایک فریم ساز کی دکان پر فریموں کو دیکھنے لگا۔۔۔فریم شدہ بہت ساری تصویریں ایک فریم کے اندر  شاعر اقبالؔ کنپٹی پر انگلیاں رکھے سوچ رہے تھے۔۔۔نیچے یہ اشعار تھے

اقبالؔ کو پڑھا ہے بہت پڑھا ہے مگر ان سارے فریموں کے اندر جو کچھ ہے اس کے درمیان اس فریم کی تحریر پھر پڑھی تو بہت سارے باب روشن ہو گئے۔۔۔

واپس پلٹا اور گلیوں سے گزرتا ان کے کمرے تک آیا کچھ لوگ دروازے پر جمع تھے کچھ اندر کمرے میں تھے ، ان میں وہ شخص بھی تھا جو تعویذ لینے آیا تھا اور غصے میں واپس چلا گیا تھا۔۔سبھی حیران تھے۔۔سبھوں کے چہروں پر ایک عجیب خاموشی طاری تھی۔۔۔۔

وہ سجدے کی حالت میں تھے۔۔۔

میں نے پوچھا کیا ہوا۔۔۔۔لوگوں نے کہا ان سے پوچھیے۔۔۔۔اشارہ اُسی شخص کی طرف تھا۔جب حضرت چیخ رہے تھے اور رو رہے تھے تو یہی صاحب اکیلے ان کے کمرے میں تھے۔۔

کیا ہوا تھا بھائی۔۔‘‘  میں نے پوچھا

اُس شخص نے ڈرتے ڈرتے کہا میں کیا بتاؤں۔۔۔

میں نے تو صرف اتنا کہا کہ مجھے معاف کر دیجیے۔۔۔میں غلط تھا۔۔۔اور آپ نے جو کچھ کہا تھا وہ سچ تھا۔۔۔۔۔

مغرب کی نماز پڑھ کر وہ آنکھیں بند کئے کچھ سوچ رہے تھے۔۔۔۔میں نے جونہی اپنی بات کہی پہلے تو انہوں نے حیرانگی سے مجھے دیکھا اور پھر اپنی دونوں مٹھیاں کس لیں اور سینے پر زور زور سے مارنے لگے۔۔صیقل۔۔صیقل۔۔صیقل۔۔۔ابھی بھی اسے صیقل کی ضرورت ہے۔۔خدا مجھے معاف کر دے۔۔۔مرے وجود کا داخلی حصہ اب تک صیقل ہوا ہی نہیں تو پھر یہ وَعظ و نصیحت کیسی۔۔خدا مجھے معاف کر دے۔۔معاف کر دے۔۔روتے روتے سجدے میں گر گئے۔۔

سب خاموش تھے۔۔۔میں آہستہ آہستہ ان کے قریب گیا۔۔میں نے انہیں دھیرے دھیرے آواز دی۔۔وہ اسی حالت میں رہے۔۔۔۔میں نے ہمت کر کے بس ہلکے سے ان کے سر کو جنبش دی،  وہ داہنی طرف لڑھک گئے۔۔۔۔دونوں مٹھیاں اسی طرح ان کے سینے پر تھیں۔۔۔۔ہونٹ اسی طرح ایک دوسرے سے الگ تھے۔۔۔۔جیسے کہہ رہے ہوں۔۔۔صیقل۔۔صیقل۔۔صیقل۔۔۔۔اور آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔۔۔۔روح آنکھوں سے نکل کر دور فضا میں گم ہو گئی تھی۔۔۔

شاید انہوں نے صیقل کے سارے مراحل طے کر لیے تھے۔۔۔۔۔۔!!!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے