میں نے اپنی لاڑی کو بچپن میں اس وقت چن لیا تھا جب میں ماں کا دودھ پیتا بچہ تھا اور وہ لاڑی تھی ایک گوگلیانی۔
پنجاب میں گوگلیانی، راجستھان کی ان عورتوں کو کہتے ہیں جو گلی گلی، گھر گھر، سوئیاں اور کندھوئیاں بیچتی ہیں۔ یہ سوئیاں، کندھوئیاں بیچتے ہوئے انہوں نے اپنے پکے ججمان بھی بنا رکھے ہیں۔ اپنے ججمانوں کے گھروں میں نئے بچے کی پیدائش پر لوریاں، شادی ہونے پر گھوڑیاں اور دوسرے خوشی کے گیت گایا کرتی ہیں، کوئی افسوس کا موقعہ ہو، وہ بین کے دردناک گیت گا کر اپنے ججمانوں کے دکھ درد میں بھی شریک ہوتی ہیں۔ میری پیدائش کے موقع پر بڑی گوگلیانی چونکہ مر گئی تھی، اس لئے اس کی چودہ پندرہ سال کی بیٹی میری لوری کے گیت گانے آئی۔
گو گیلانی گاوے لوری
کاکا لمبڑی عمریا توری
اونچ اَٹریا جو تو جائے
تجھ کو دنیا سیس نوائے
تیرا اونچا ہو اقبال
امبڑی لا مصری کا تھال
گوگلیانی گاوے گھوڑی
لاڑا لاڑی بڑھیا جوڑی
جو تو بیاہ کرنے کو جائے
کوئی اپسرا بیاہ کر لائے
تیری چاچی ہوئے نہال
چاچی لا مصری کا تھال
کاکا بلاں وچ مسکائے
دادی پیلاں پاندی آئے
متھا چمے مرچاں وارے
دادی پوتے توں بلہارے
اس کا مکھڑا سوہا لال
دادی لا مصری کا تھال
میری ماں بتایا کرتی تھی کہ مجھے گود میں لے کر، گوگلیانی اپنی باریک لمبی آواز میں جب یہ لوری گا رہی تھی تو پتہ نہیں کب میں اس کے دودھ کو منہ میں ڈال کر چپل چپل پینے لگا۔ میں دودھ پی رہا تھا اور شرم کے مارے گوگلیانی کا چہرہ لال انار ہوتا جا رہا تھا۔
دادی نے جب مصری کے بھرے ہوئے تھال کے اوپر پانچ روپے رکھ کر گوگلیانی کی جھولی میں ڈالے تو بولی، ’’لے میں نے تجھے مصری کھلا دی تو بھی ماں بننے والی ہے، تو بھی مجھے مصری کھلانا۔‘‘ گوگلیانی نے شرم کے مارے مجھے اپنی چھاتی سے بھینچ لیا اور جب وہ مجھے ماں کی گود میں ڈالنے لگی، میں واپس جا ہی نہ رہا تھا۔ اتنی اچھی لگی تھی مجھے گوگلیانی۔
جب میں کچھ بڑا ہوا تو گوگلیانی کی انگلی تھامے میں گلی گلی گھوما کرتا تھا۔ وہ سوئیاں اور کندھوئیاں بیچتی رہتی اور میں اس کے غرارے یا رنگ دار چنری کو تھامے اس کی طرف دیکھتا رہتا۔ جب وہ کسی کی لوری گاتی تو مجھ پر وجد کا سا عالم طاری ہو جاتا تھا۔ میں آنکھیں بند کیے اپنے کانوں میں اس کی میٹھی آواز کا رس گھولتا رہتا۔ لوگ مذاق میں اس سے پوچھتے کہ یہ تیرا کون لگتا ہے تو وہ ہنس کر کہتی، ’’یہ میرا لاڑا ہے۔‘‘
رہی میری بات تو میں تو کہتا ہی تھا کہ یہ میری لاڑی ہے۔ میرا جواب سن کر لوگ ہنستے اور میری لاڑی کا رنگ چنبے کی طرح کھل اٹھتا۔
میرے ذہن میں اپنی اس لاڑی کی جو تصویر محفوظ ہے وہ کچھ اس طرح ہے۔ کنوئیں کی طرح گہری، ٹھوڑی کے اوپر شعلوں کی طرح دہکتے دو تراشے ہوئے ہونٹ، ان کے اوپر لٹکتی تیکھی پتلی تلوار سی ناک، اس ناک پر رکھی ہوئیں کٹار سی بڑی بڑی آنکھیں جن کے اوپر کالی بھنویں اس طرح جھکی رہتیں جیسے آنکھوں کی خوب صورتی کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی ہوں۔ اس کے ماتھے کے عین بیچ و بیچ بالوں کے چیر سے لٹکتی ہوئی چاندی کی زنجیر کے سہارے ایک ٹیکا جھولتا رہتا تھا۔ سر کے بیچ و بیچ چوک پھول اور اس چوک پھول کی اونچی ٹیسی پر اٹکا ہوا اس کی گہرے رنگ کی ساڑھی یا دوپٹے کا پلو، جو اس کے لمبے چہرے کو اپنے ہالے میں لئے رہتا تھا اور اس کی چنری کے رنگ کی دمک اس کے گورے رنگ پر پڑتی ہوئی کوئی ایسا جادو جگاتی جیسے قوس قزح کے ساتوں رنگ اس کے چہرے پر نکھر آئے ہوں۔
پھر اس کے ہاتھوں سے لے کر کہنیوں تک اور کہنیوں سے لے کر کندھوں تک سفید، لال اور ہرے رنگ کاچوڑا بازوؤں کی ذرا سی حرکت سے جھنجھنا اٹھتا تو مجھے ایسا لگتا جیسے چھاکے والے کنوئیں کی اونچی نشار کاپانی ’’اولو‘‘ میں گرتا ہوا میٹھا گیت گا رہا ہو۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے بچپن میں، میں اس کی گود میں بیٹھ کر اس کی چپکی ہوئی چولی میں ٹنکے چھوٹے چھوٹے شیشوں میں اپنا چہرہ دیکھاکرتا تھا۔ چہرہ دیکھتا اور اپنی چھوٹی چھوٹی انگلیاں ان شیشوں پر مار مار کر کہا کرتا تھا، ’’میں یہاں بھی ہوں، میں یہاں بھی ہوں۔‘‘
’’میرا لاڑا تو میرے دل میں رہتا ہے۔‘‘ وہ مجھے اپنے سینے سے بھینچ کر کہتی تھی۔
پھر یہ ہوا کہ بچپن کے دن بہت پیچھے رہ گئے۔
آخری مرتبہ جب میں نے اپنی لاڑی کو دیکھا تب میں چودہ پندرہ سال کا بھرپور جوان ہو گیا تھا۔ جوان، لمبا چوڑا، چھ فٹ سے نکلتا قد، سر پر کلف لگی پگڑی باندھ کر میں پورا مرد لگتا تھا۔ اس بار جب وہ آئی تو میرے بڑے بھائی کی منگنی ہوئی تھی اور اس کی سربال سے بڑے بڑے موتی چور کے لڈو آئے تھے۔ ایک ایک لڈو پاؤ پاؤ بھر کا تھا۔ اتنا موٹا کہ میرے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں میں نہ سماتا تھا۔ ہمارے گھر کے کھلے چوڑے آنگن میں گوگلیانی بدھائی کا گیت گا رہی تھی۔
ہوئی منڈے دی کڑمائی
گوگلیانی دئے بدھائی
دوہٹی بیٹھی پیڑا ڈاہ کے
گل وچ ہار ہمیلاں پا کے
اس کی گود میں کھیلے بال
امبڑی لا مصری کا تھال
گوگلیانی گا رہی تھی، ناچ رہی تھی۔ ناچتی ہوئی جب وہ تیزی سے چکر پر چکر کاٹتی تو اس کا کھلا گگرا، چھتری کی طرح پھیل جاتا اور اس کے دوپٹے، اس کی چولی میں ٹنگے رنگ برنگے شیشوں سے رنگ برنگی کرنیں پھوٹتی رہتیں۔
اس موقع پر سب خوش تھے۔
سب اس کے تال میں تال ملا کر تالی بجا رہے تھے۔
اس تالی میں اگر کسی کے ہاتھ نہیں اٹھ رہے تھے تو میرے۔ میں اداس تھا۔ میرا بچپن بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ اس لئے گوگلیانی کی انگلی تھامے اس کے ساتھ نہیں گھوم سکتا تھا۔ اب میں اس کے ڈیرے میں جا کر اس کی گدڑی کے نرم اور گرم بستر میں اپنی لاڑی کے سینے سے لگ کر نہیں سو سکتا تھا اور ابھی میں پورا مرد بھی نہیں بنا تھا کہ کھل کر اس سے اپنے عشق کا اظہار کر دوں۔ میں تو ابھی سوچ رہا تھا کہ وہ میری لاڑی ہے اور اب سر پر کلف دار پگڑی باندھے، پورا مرد بننے کی کوشش کے باوجود مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب مجھے لاڑی کے سینے سے لگ کر جو سکھ مل سکتا ہے، اسے کیسے حاصل کروں۔
اس کاناچ جاری تھا۔ اس کے گیت کی باریک دھن اب بھی میرے کانوں میں رس گھول رہی تھی اور اس رس کا نشہ دھیرے دھیرے میرے وجود پرچھا رہا تھا لیکن مجھے مکمل سرشاری نہیں مل رہی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا جیسے میرے بڑے ہونے کے ساتھ ہی میری لاڑی مجھ سے دور ہو گئی ہے۔ شاید اسی لئے اس نے ابھی تک میری آنکھوں میں جھانک کر نہیں دیکھا تھا۔ پہلے کی طرح اپنے سینے سے لگاکر مجھ سے پیار نہیں کیا تھا۔ اس کمی کو پوراکرنے کے لئے میں بار بار اپنے بچپن میں لوٹ جاتا لیکن لاڑی کے جسم سے نکلتی کرنوں کی رنگینی مجھے واپس آنگن میں لے آئی۔
میری اداسی کو شاید گوگلیانی نے بھی بھانپ لیا۔ مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ ناچتے ناچتے کب اس کا بازو کوند کر لپکا۔ مجھے تو تبھی پتہ چلا جب اس نے بازو سے پکڑ کر مجھے آنگن کے بیچو بیچ کھینچ لیا اور میرے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، میرے جوان چہرے کے دونوں طرف ناگن کی طرح سر گھماتے، میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال اس نے گیت کا مکھڑا اٹھایا۔
میرا لاڑا کھڑا اداس
میں تو جاتی اس کے پاس
میری دولت اس کا پیار
اپنی جان میں کروں نثار
یہ تو میرا قیمتی لعل
امبڑی لا مصری کا تھال
گیت جاری تھا۔ لاڑی میرے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گدے کی تال میں ناچ رہی تھی۔ چاروں طرف کھڑے میرے گھر والے اور محلے بھر کی عورتیں مرد اکٹھے ہو کر اپنی تالی سے تال دے رہے تھے، ہنس ہنس کر دوہرے ہو رہے تھے اورمیرے لئے تو جیسے وقت کا چلتا ہوا چکر رک گیا تھا۔ آسمان سے امرت کی گنگا اتر رہی تھی اور دھرتی اس امرت کو گرہن کر کے سچے سکھ کا آنند لے رہی تھی۔ اس سرشاری میں میری آنکھیں مندی جا رہی تھیں۔ ان آنکھوں میں اتنی تاب ہی نہیں تھی کہ میں اپنی لاڑی کے سورج کی طرح چمکتے چہرے کی طرف دیکھ سکوں۔
مجھے ہوش اس وقت آیا جب میں نے دیکھا کہ لاڑی میری دادی کے لائے ہوئے لڈوؤں سے بھرے تھال کو اپنے جھولے میں ڈال رہی تھی۔ لڈو جھولے میں رکھ کر اس نے تھال میں رکھے چاندی کے دس سکے بھی اٹھائے اور انہیں بھی اپنے جھولے کی اندرونی جیب میں رکھ لیا۔
گوگلیانی میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔ مجھے بہت اچھا لگا۔ میں نے ایسا محسوس کیا کہ اب لاڑی کے لئے وہاں سب کے موجود ہونے کے باوجود اور کوئی موجود نہیں تھا۔ اگر کوئی تھا تو صرف میں، جس کی طرف دیکھ کر وہ بار بار مسکرا رہی تھی۔
اس نے ذرا سا دم لے لیا تو وہ خود ہی بولی، ’’اب تک تو میں بڑے بیٹے کی کڑمائی کی بدھائی دینے کے لئے گا رہی تھی۔ اب میں صرف اپنے لاڑے کے لے گاؤں گی۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک ادا سے شرارت بھری نظر سے میری طرف دیکھا۔ میں تو پہلے ہی اس کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا جو ناچتے ناچتے سرخ انار ہو رہا تھا۔ میرے اندر کاجوان مرد یہ سوچ رہا تھا کہ یہ عورت کسی طرح بھی چونتیس پینتیس کی نہیں لگتی۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے وقت اس کے لئے ٹھہر گیا ہو۔ گزرتے ہوئے وقت کا اس پر کچھ بھی اثر نہ پڑ رہا ہو اور جیسے وہ میری ہم عمر ہی ہو۔
اتنے میں اپنے جھولے کو سمیٹتی ہوئی وہ اٹھی اور پھر کھڑے ہو کر بازو لہرا کر اس نے ایک ہاتھ کان پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے مجھے اپنی طرف کھینچ کر اس نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا، میرے ماتھے اور گال چوم کر گیت کی تان اٹھائی۔
مجھ کو مل گیا میرا لاڑا
جیون بھر کا ساتھ ہمارا
ہم نے چن لی اپنی راہ
ٹنڈے لاٹ کی نہیں پرواہ
منڈیا میں مچھلی تو جال
دادی لا مصری کا تھال
گوگلیانی مجھے اپنے ساتھ لے کر گا رہی تھی، ناچ رہی تھی، میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مجھے اپنے حسن کے جادو سے مسحور کر رہی تھی۔ سب ہنس رہے تھے، خوش ہو رہے تھے۔ لیکن میری خوشی کی کوئی تھاہ نہیں تھی۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ جس مقام پر خوشی کی انتہا ہوتی ہے وہ مقام سوئی کی نوک کے ہزارویں حصے سے بھی چھوٹا ہوتا ہے۔ انسان کا وجود تو دور رہا۔ وہ اپنے تصور میں بھی اس مقام پر ٹھہر نہیں سکتا۔ اس اونچائی سے اس کے قدم جب پھسلتے ہیں تو وہ رنج کی گہری کھائی میں جا گرتا ہے اور وہ خوشی جسے پانے کے لے اس کا من مچلتا رہتا ہے، وہی سوئی کی نوک کی طرح اس کے وجود کے روئیں روئیں میں چبھ کر اسے چھلنی کرتی رہتی ہے، لہولہان کرتی رہتی ہے۔
یہی میرے ساتھ ہوا۔
زندگی کے اس موڑپر جہاں گوگلیانی نے میرے گھر والوں کے سامنے مجھے اپنا لاڑا مان کر زندگی بھر ساتھ رہنے کا گیت گاتے ہوئے کہا تھا کہ اے لڑکے میں وہ مچھلی ہوں جو تمہارے جال میں پھنس چکی ہے۔
ہاں زندگی کے اسی موڑ پر میرا دل غم سے روشناس ہوا۔
ہوا یہ کہ میری لاڑی نے جب سے میرے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر یہ گیت گایا تھا کہ:
مجھ کو مل گیا میرا لاڑا
جیون بھر کا ساتھ ہمارا
ہم نے چن لی اپنی راہ
ٹنڈے لاٹ کی نہیں پرواہ
منڈیا میں مچھلی توں جال
دادی لا مصری کا تھال
بس اسی وقت سے مجھ پر نشہ طاری تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس دن جب لاڑی اپنا سوئیوں کندھوئیوں والا تھیلا کندھے سے لٹکائے ہمارے گھر سے اپنے ڈیرے کی طرف گئی تو میں ہانپتا ہانپتا گھر کی چھت پر چڑھ کر کھیتوں کی پگڈنڈیوں میں اٹھلا اٹھلا کر چلتی اپنی لاڑی کو اس وقت تک دیکھتا رہا جب تک وہ مجھے دکھائی دیتی رہی تھی۔
اور جب وہ آموں کے جھنڈ کے پاس جا کر نظروں سے اوجھل ہو گئی، تب بھی میرے تصور نے اسے اس پگڈنڈی کے ہر موڑ پر کھڑا کر کے دیکھا کہ وہ وہاں کتنی خوب صورت لگتی ہے۔
میرے ہونٹ انہی بولوں کو گنگناتے رہے
منڈیا میں مچھلی تو جال
منڈیا میں مچھلی تو جال
لیکن میرا یہ سپنا جاگتے میں دیکھا ہوا سپنا تھا۔
اس مقام پر جب میرے دل کو کسی طرح قرار نہیں آیا تو میں نے ماں سے سفید شلوار مانگی۔ اپنے بڑے بھائی کی شہر سے دھل کر آئی ہوئی استری کی ہوئی قمیص پہنی۔ سر پر کلف لگی پگڑی باندھی اور اس طرح اپنی طرف سے پورا چھیلا بن کر میں گوگلیانی کے ڈیرے کی طرف چل دیا۔ شام کے وقت وہاں اچھا خاصا جمگھٹ لگتا تھا۔
گوگلیانیوں کے مردوں کی بھٹیاں جن میں دن کے وقت وہ کسانوں کے لئے درانتیاں کھرپیاں بنایا کرتے تھے، شام کے وقت وہ الاؤ میں تبدیل ہو جاتیں، ان میں ایک طرف گوگلیانیاں کھانا بناتیں اور دوسری طرف مرد آگ سینکتے رہتے، گؤ دھول کے وقت جب کسان اور چرواہے لوٹتے تو ان کے جلتے ہوئے الاؤ کے گرد کبھی کبھی گانے بجانے کے پروگرام بھی ہو جاتے۔ اس دن شام کے دھندلکے میں جب میں وہاں پہنچا تو ویسا ہی جمگھٹ لگاہوا تھا۔ سب لوگ ارد گرد کھڑے تھے اور میری لاڑی بیچ میدان میں بوڑھے نمبردار کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ناچ رہی تھی گارہی تھی۔
آیا سیالکوٹ کا لاڑا
یہ تو من کا میت ہمارا
میں نے ایسی جوت جلائی
اس کی لوٹ جوانی آئی
اس کو مل گئے بیتے سال
بوڑھے لا مصری کا تھال
لاڑی بے سدھ ہو کر گا رہی تھی۔ وہی شمع کی طرح دہکتا چہرہ، وہی ناگن سی لہراتی اس کی چوٹی اور۔۔۔
میرے دل پر چوٹ لگی۔ یہ تو میری لاڑی ہے صرف میری اور یہ کسی دوسرے کے ساتھ ناچ رہی ہے۔ زخمی سانپ کی طرح پھنکارے مارتا میں الٹے پاؤں واپس لوٹ آیا تو لاڑی نے آدھے راستے میں ہی مجھے آ دبوچا، ’’تم لوٹ آئے ناراض ہو کر۔۔۔ ارے پگلے یہ تو ہماری روزی روٹی ہے۔ نمبر دار کے ساتھ تو میں ڈھونگ کر رہی تھی۔‘‘ لیکن میرا غصہ کافور نہیں ہوا۔ میں آنکھوں میں آنسو بھرے لوٹ آیا۔
اس رات میں نے کھانا نہیں کھایا، اگلے دن بھی نہیں۔ سارا دن اپنے گھر کی پچھلی اندھیری کوٹھری میں رضائی میں دبکا پڑا رہا۔ وہ رات وہ دن میرے لیے زندگی کی سب سے اندھیری رات تھی، جس میں میرے تن بدن پر کانٹے چبھتے رہے، روح لہولہان ہوتی رہی۔ اگلے دن گوگلیانی آئی تو اسے دادی سے پتہ چلاکہ میں نے کل سے کچھ نہیں کھایا۔ جب اس کے آواز دینے پر بھی میں باہر نہیں آیا تو وہ خود ہی اندر آ گئی۔ آتے ہی میرے ساتھ رضائی میں لیٹ گئی۔ مجھے سینے سے لگا کر پیار کیا۔ اپنے دوپٹے سے میرے آنسو پونچھے، میرے ماتھے اور گالوں کو چوما۔
اتنے میں اس کے اشارے پر دادی میرے لئے چاولوں کی تھالی بھر کے لے آئی۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے ایک ایک لقمہ کر کے مجھے چاول کھلائے۔ آخری لقمے پر بولی، ’’لے یہ بھی کھا لے، اتنے پیار سے تو میں نے اپنے خصم کو بھی کھانا نہیں کھلایا ہو گا۔‘‘ پھر وہ پاس کھڑی دادی سے بولی، ’’سردارنی تمہارا یہ پوتا بھی اب جوان ہو گیا ہے۔ اس کے لئے بھی بڑھیا سی لاڑی ڈھونڈ تو پھر میں اس کے بیاہ کی گھوڑی گانے آؤں گی۔‘‘
’’تو کیا دے گا رے، سیالکوٹ کے لاڑے، مجھے اپنی گھوڑی گانے کا۔‘‘ اس نے بڑے پیار سے ٹھوڑی سے میرا چہرہ اوپر اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’تمہارے جیسی سندر چاند سی بہو۔ ‘‘میں نے کہا۔
’’یہ بات ہوئی نہ کچھ۔‘‘
’’لیکن وہ میری لاڑی کی بہو ہو گی، نمبر دار کی لاڑی کی نہیں۔‘‘ میں نے شرارت بھری نظر سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور اس کی ہنسی کے ساتھ ہی اس اندھیری کوٹھری کا کونہ کونہ میری لاڑی کے حسن کی چمک سے جگمگا اٹھا۔ میں نے دیکھا اس کے چہرے پر ماں کی ممتا چھلک رہی تھی اور محبوبہ کا پیار بھی۔
٭٭٭