وہ پارک میں ملی تھی۔ لیکن شبھا کے لئے صرف اتنا کہنا کافی نہیں ہے کہ وہ پارک میں ملی تھی۔ اس میں کئی ایسی خوبیاں تھیں، جس نے مجھے اس کے قریب آنے اور اسے سمجھنے پر مجبور کیا تھا۔ ریور سائیڈ پارک میں اس دن میں اکیلی تھی۔ عام طور پر میں اکیلی ہی ہوتی ہوں۔ اپنے بارے میں اتنا بتا دوں کہ ابھی ابھی میں یونیورسٹی سے باہر نکلی ہوں۔ کچھ خواب ہیں، کچھ خواہشات لیکن اس سے پہلے، آگے بڑھتے ہوئے مجھے زندگی کے رنگوں کو قریب سے سمجھنا اچھا لگتا ہے۔ دوست بنانے میں میری دلچسپی نہیں۔ ماں بچپن میں مر گئی تھی۔ والد ایک سرکاری نوکر تھے۔ ایسے سرکاری نوکر جو کسی طرح بیٹی کی شادی کر کے آزاد ہو جانا چاہتے ہیں۔ لیکن مجھے آسان زندگی اچھی نہیں لگتی۔ اک ہرنی کی طرح میں بھاگتی رہتی ہوں۔ کبھی ادھر کبھی ادھر۔ کبھی شور اور آوازوں کے درمیان، کبھی شانتی کی تلاش میں۔ سکون کی تلاش میں ہی میں ریور سائیڈ پارک آئی تھی۔ میں اسے ایک اکیلے بینچ پر بیٹھے دیکھ کر چوک گئی تھی۔ اس میں کچھ ایسا تھا، جس نے پہلی بار میں اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔ وہ میری طرف ہی دیکھ رہی تھی۔ عمر کوئی ۵۵ کے آس پاس ہو گی۔ اس نے جینس اور ٹی شرٹ پہن رکھی تھی۔ میک اپ نہیں تھا لیکن ایک خوبصورت جسم تھا اس کے پاس۔ گورا رنگ، قد لمبا، لمبی گردن اور دو بڑی بڑی گہری آنکھیں، جن سے زندگی کا کوئی راز آپ چھپا کر نہیں رکھ سکتے۔ ایسی گہری آنکھیں جو پہلی ہی نظر میں سب کچھ جان جاتی ہیں۔
میں نے دیکھا، وہ اشارے میں مجھے بلا رہی تھی۔ میں مسکرا کر آگے بڑھ کر اس کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی۔
’ہیلو! میں شبھا ہوں۔ وہ دھیرے سے بولی۔ شبھا جوزف۔ ‘
’ہائے۔ میں آصفہ ہوں۔ ‘
’تمہارا چہرہ بتا رہا تھا کہ تم مسلمان ہو۔ ‘
’کیسے؟‘
’چہرہ بتا دیتا ہے، وہ زور سے ہنسی۔ ’چہرے پر دھرم نہیں لکھا ہوتا۔ شبھا نے مجھے پاس میں بیٹھنے کو کہا۔ پھر مجھے دیکھ کر بولی۔ ’’دھرم مانتی ہو؟‘‘
میرے ہاں کہنے پر وہ زور سے ہنس پڑی۔ پھر میری جانب دیکھ کر بولی۔
’میں تو برہمن تھی۔ جس سے پیار کیا وہ کرسچین تھا۔ پھر شبھا جوزف بن گئی۔ ‘
ریور سائیڈ پارک میں چاروں طرف دھوپ بکھری ہوئی تھی۔ مجھے احساس ہوا، شبھا کی گہری نظریں میرے اندر تک کا جائزہ لے رہی ہوں۔ مجھے اس راز کا پتہ تھا — یہ انہیں لمحوں میں ہوتا ہے جب ہم ایک دوسرے کے قریب آنے والے ہوتے ہیں۔ لیکن قریب آنے سے قبل کشمکش اور شک کی ایک پتلی سی کانچ کی دیوار ہوتی ہے۔ شبھا اس کانچ کی دیوار کو توڑ چکی تھی۔ اب اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
’کیا تم میرے گھر آؤ گی آصفہ؟‘
’کیوں۔ ابھی تو آپ نے مجھے ٹھیک سے جانا بھی نہیں ہے؟‘
شبھا ہنسی۔ ’جان گئی ہوں۔ کسی کو جاننے کے لئے برسوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کچھ تو برسوں ساتھ رہتے ہوئے بھی نہیں کھلتے۔ ‘
میں جانتی تھی یہ تکلیف جوزف کو لے کر ہو گی۔ لیکن اس وقت میں نے کچھ بھی پوچھنا ضروری نہیں سمجھا۔
جب سے یہ دنیا قائم ہوئی ہے، اب تک کی تمام عورتوں کے ایک ہی رنگ ہیں۔ عورت کسی بھی ملک کی، کسی بھی مذہب کی ہو، وہ کتنی ہی حساس کیوں نہ ہو، مگر وہ اندر سے ایک سیدھی سادھی عورت ہی ہوتی ہے۔ شبھا جوزف کو ساؤتھ ایکس کے بڑے سے بنگلے میں دیکھتے ہوئے میرا پہلا اندازہ یہ تھا کہ میں دور تک پھیلے ایک خوبصورت جنگل میں آ گئی ہوں۔ ایک بہت گہری اداسی بنگلے کی خوبصورتی میں سمائی ہوئی تھی۔ دوسری جھلک میں مجھے یہ بنگلہ ایک قید خانہ نظر آیا۔ گھر میں کل ملا کر پانچ لوگ تھے۔ باہر گیٹ پر ایک چوکیدار تھا۔ اندر جاتے ہوئے پودوں کو پانی دیتا ہوا ایک مالی دکھائی دیا۔ شبھا نے بتایا کہ باہر ایک کمرہ ہے۔ یہ وہیں رہتا ہے۔ بیوی مر چکی ہے۔ بچے نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ادھیر عمر کی عورت اور اس کی ایک جوان بیٹی تھی جن کی حیثیت گھر میں خدمت گار کی تھی۔ کھانا بنانے سے لے کر گھر کی دیکھ ریکھ کی ساری ذمہ داری ان دونوں عورتوں کی تھی۔ شبھا نے اپنے شوہر جوزف سے ملوایا، جس کے گھٹنے اب کام نہیں کرتے تھے۔ کئی بار کے آپریشن کے بعد بھی ناکامی ملی تھی۔ اب وہ ایک اپاہج کی طرح بیمار سا بستر پر پڑا تھا۔ جوزف کو اٹھانے، بٹھانے، وہیل چیئر پر گھمانے کا سارا کام نشی کے ذمہ تھا، جو گھر کی ادھیڑ عمر والی عورت سونیدھی کی بیٹی تھی۔ میں نے نشی کو دیکھا تو اس کے چہرے پر بھی ایک راز دارانہ اداسی کا جال بچھا ہوا نظر آیا۔
شبھا مجھے لے کر ایک بڑے سے کمرے میں آئی جہاں اس کی بنائی ہوئی کچھ پینٹنگس کی آڑی ترچھی لکیروں کو دیکھتے ہوئے یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی تھی کہ شبھا کو رنگوں کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ ممکن ہے اس نے اندر کی اداسی کو کم کرنے کے لئے پینٹنگس کا سہارا لیا ہو۔
’کیسی ہے میری پینٹنگس؟‘ شبھا گہری آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔
’اچھی ہے۔ ‘
’میرا دل رکھنے کے لئے کہہ رہی ہو؟‘
’نہیں۔ ‘
شبھا مسکرائی۔ ’میں جانتی ہوں اچھی نہیں ہے …… لیکن یہ پینٹنگس اچھی کیسے ہو سکتی ہیں آصفہ؟ کیا یہاں تمہیں کچھ بھی ٹھیک لگا؟ اتنا بڑا عالیشان بنگلہ…… مگر …… سکون کے لئے ادھر ادھر ماری ماری پھرتی ہوئی میں۔ کہاں جاؤں …… برش اٹھاتی ہوں تو آدھی ادھوری لکیریں ہوتی ہیں جو کسی تصویر کو مکمل ہونے کہاں دیتی ہیں؟‘
شبھا نے سچ کہا تھا ’کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا…… اس دن میں شام تک اسی ویرانی کا حصہ رہی۔ لگا، میں کسی تاریخ کے ملبے میں ہوں۔ دہلی میں مہرولی سے پرانا قلعہ تک تاریخ کی اداسیاں پھیلی ہوئی ہیں …… چلتے وقت دروازے تک آ کر شبھا نے طنز سے میری جانب دیکھا…… پھر پوچھا۔
’آصفہ یہاں تمہیں کچھ بھی زندہ لگا؟‘
’ہاں آپ!‘
’میں ……‘ شبھا زور سے ہنسی…… میں بھی زندہ کہاں ہوں۔ کبھی لگتا ہے کہ کوئی دیو داسی ویران راج محل میں رات کے وقت ہاتھوں میں جلتا ہوا دیا لے کر روحوں کی طرح بھٹک رہی ہو…… جانتی ہو ایسا کب ہوتا ہے؟ ایسا تب ہوتا ہے جب پیار کھو جاتا ہے ……‘
میں بڑے سے لوہے کے گیٹ سے باہر نکل آئی۔ تب بھی شبھا کے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے ……’ایسا تب ہوتا ہے جب پیار کھو جاتا ہے۔ ‘
شبھا کے الفاظ میں کہوں تو ایک لمحہ کے لئے ہم پیار کو بھی اپنی زندگی کا سچ مان بیٹھتے ہیں۔ پیار تو دھوکہ ہوتا ہے۔ جوزف نے جب ایک برہمن لڑ کی کے دل پر ڈاکہ ڈالا تو اس وقت زندگی کا سارا سچ پیار کے احساس کے بیچ چھپ گیا تھا۔ وہ نہ آگے دیکھ پائی نہ پیچھے، گھر والوں نے مخالفت کی تو بہتی ندی نے اس وقت گھر والوں کی رضا مندی کو بھی ضروری نہیں سمجھا۔ گھر خاندان سے ناطہ ٹوٹ جانے کے بعد صرف پیار کا سہارا رہا…… شبھا نے کہا تھا، تب لگتا تھا، زمین کا کوئی کنارہ پیار سے الگ نہیں، جہاں جاؤں وہیں پیار ہے۔ زمین سے آسمان تک پھیلا ہوا۔ تب آپ صرف پیار کے پیچھے بھاگتے ہیں اور ہوتا یہ ہے کہ آپ زندگی کو نظر انداز کرتے جاتے ہیں …… زندگی کی چھوٹی چھوٹی سچائیوں کو چھپاتے جاتے ہیں ……
پھر شبھا اپنے گھر والوں سے نہیں ملی۔ ایک دن پتا کا فون آیا…… ماں مرنے والی ہے …… تمہیں یاد کر رہی ہے …… ملنا چاہتی ہو تو……
اس کے بعد فون کٹ گیا۔ سالوں بعد اپنے ہی گھر میں شبھا اجنبیوں کی طرح داخل ہوئی۔ پتا اسے لے کر ماں کے کمرے میں آ گئے۔ ماں اس وقت بھی بے ہوشی کے عالم میں تھی۔ اس نے گھر کو دیکھا…… سارا گھر بدلا ہوا تھا…… وہ جتنی دیر وہاں رہی، پتا خاموش رہے …… پتا نے کچھ نہیں پوچھا…… اس نے کچھ نہیں بتایا…… کچھ دیر بیٹھنے کے بعد شبھا اپنے بنگلے میں لوٹ آئی تھی۔
میرے لئے اس چھوٹے سے سچ سے گزرنا بھی آسان نہیں تھا کہ ایک وقت پیار کسی کو اس حد تک اجنبی بنا سکتا ہے؟ میری ماں نہیں تھی۔ اصول پسند باپ کی شرطوں پر اب تک زندگی گزاری جہاں پیار کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ لیکن شبھا جن راستوں پر چلی تھی وہاں مجھے صرف کانٹے نظر آ رہے تھے۔ اس بیچ شبھا سے کئی بار ملی۔ کبھی اسی ریور سائیڈ پارک میں، جہاں وہ اپنے گھٹن اور قید سے نجات پانے آیا کرتی تھی اور کبھی اسی قید خانہ میں جہاں بھید بھری ویرانی میں ایک اپاہج بدن بستر پر بے بس پڑا ہوتا تھا……
اس دن میں شبھا کے گھر گئی تھی۔ شبھا کچھ کام سے باہر گئی تو میں یوں ہی چلتی ہوئی جوزف کے کمرے کے پاس سے گزرنے لگی۔ دروازہ آدھا کھلا ہوا تھا۔ آدھے کھلے دروازے کے اندر کا نظارہ پر اسرار تھا۔ کوئی تھا جس کا سر جوزف کے سینے پر تھا۔ آہٹ ملتے ہی سایہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ میرے اندر ایک طوفان تھا…… کیا یہ نشی تھی؟ سنیدھی کی بیٹی……؟ راز کی ان پرتوں میں کچھ تو تھا، جسے شبھا نے اب تک چھپائے رکھا تھا۔ میں واپس لوٹی تو شبھا چائے ناشتے کے ساتھ میرے انتظار میں تھی۔
’’کہاں گئی تھی……‘‘
’’بس یونہی……‘‘
شبھا ہنسی…… ایک دن محبت اپاہج ہو جاتی ہے …… لو چائے پیو…… آگے بڑھ کر شبھا نے کھڑکیاں کھول دیں۔
’تم نے نشی کو دیکھا؟‘
’ہاں ……‘
’کچھ لگا……؟‘
’کیا……؟‘
شبھا پھر سے ہنس دی…… ’محبت اپاہج کیوں ہوتی ہے؟‘
شبھا مسکرا رہی تھی…… اس کا چہرہ کانپ رہا تھا…… ہونٹ لرز رہے تھے ……
’سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ میں نے اس کے لئے گھر چھوڑا تھا۔ اپنے گھر والوں کو بھول گئی تھی…… مرنے سے پہلے ماں کو دیکھ آئی تھی…… پھر بابو جی بھی چلے گئے۔ لیکن اچانک لگا، مرد وہ نہیں ہوتا جو نظر آتا ہے۔ جوزف کا پراپرٹی کا بزنس تھا۔ ہماری ایک بیٹی تھی ارپنا۔ ارپنا کے اسکول جانے تک سب کچھ ٹھیک رہا۔ جوزف مصروف ہوتا گیا۔ میں جب اس کی مصروفیات کے بارے میں پوچھتی تو وہ بس یہ کہہ کر مجھ کو چپ کر دیتا کہ جو کچھ کر رہا ہوں، تمہارے اور ارپنا کے لئے کر رہا ہوں۔ گھر میں کام کرنے والی بائی کی ضرورت تھی…… جوزف نے ایجنسی سے بات کی اور سنیدھی ہمارے گھر آ گئی۔ ان دنوں میں اپنے این جی او میں مصروف ہو گئی تھی۔
خاموشی نے شبھا کو گھیر لیا تھا……
’آٹھ بجے صبح گھر لوٹی تو ارپنا روتی ہوئی مجھ سے لپٹ گئی۔ میں حیران رہ گئی۔ ‘
’کیا ہوا؟‘
’پاپا بہت برے ہیں۔ ‘
’لیکن کیا ہوا؟‘
’پاپا اور سونیدھی…… میں نے کئی بار دونوں کو…… تم سمجھ رہی ہو ماں …… گھر پر وقت دو۔ پاپا اس بات کو سمجھتے ہیں کہ میں جان چکی ہوں ……‘
’پھر؟‘
’تم اس کے انجام سے واقف نہیں ہو ماں۔ پاپا چاہتے ہیں کہ یہ بات تم بھی جان جاؤ۔ ‘
’لیکن کیوں؟‘ میں حیرانی سے ارپنا کو دیکھ رہی تھی……‘
’بہت بھولی ہو ماں۔ پاپا اب یہ سب بغیر ڈر، بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کرنا چاہتے ہیں ……‘
شبھا نے میری طرف دیکھا…… ’ہم سمجھتے ہیں، مرد ہم سے اپنے غلطیوں کو چھپانا چاہتا ہے۔ مرد چھپانا نہیں چاہتا وہ کھل کر شکار کرنا چاہتا ہے۔ میں نے سونیدھی کو بلایا۔ اس نے اقرار کیا کہ دونوں میں ناجائز تعلقات ہیں۔ اس رات بارہ بجے جوزف ہنستے ہوئے میرے کمرے میں آیا…… مجھ سے پوچھا…… ارے …… میں نے تو سمجھا تھا کہ تم نے جانے کی تیاری کر لی ہو گی۔
’کیوں؟‘
’اتنی بڑی بات ہو گئی۔ ‘ وہ ہنس رہا تھا، سنو شبھا…… زندگی …… پیار…… سیکس…… یہ سب ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ آسان زندگی اور خوش رہنا چاہتی ہو تو بہت کچھ کو نظر انداز کرنا سیکھو۔ ‘
شبھا نے میری طرف دیکھا…… ’میں کمزور تھی۔ گھر چھوڑ کر آئی تھی۔ میرے پاس ایک کمزور احساس کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ کچھ دن بعد ارپنا کی شادی لندن میں ایک بزنس مین سے کر دی۔ گھر خالی تھا۔ اس بیچ سنیدھی نے بتایا کہ اس کی ایک بیٹی بھی ہے۔ وہ اپنی جوان بیٹی کو لے کر گھر آ گئی۔ ‘
زندگی کے بہت سارے ایسے صفحات ہوتے ہیں جہاں ایک ایسی پر اسرار کہانی چھپی ہوتی ہے، جس کو ہم کوئی نام نہیں دے پاتے۔ شبھا کا پیار ایسے ہی پر اسرار واقعات سے گھرا ہوا تھا۔ ایک شاندار بنگلے کی چہار دیواری میں اتنے پت جھڑ ایک ساتھ جمع ہو سکتے ہیں، میرے لئے یہ سوچنا بھی ممکن نہیں تھا……
’پھر کیا ہوا؟‘ میں نے شبھا کی طرف دیکھا ……
’سنیدھی سب کچھ جانتی تھی۔ مگر اب جو ہوا، وہ میرے لئے نیا تھا۔ جوزف نشی کے پیار میں پڑ گیا تھا۔ میرے پاس راستہ نہیں تھا۔ سنیدھی کے پاس راستہ نہیں تھا…… مگر ایک دن راستہ کھلا۔ جب نشی حاملہ ہو گئی۔ اس کے پاس ایک ہی راستہ تھا، جتنی جلدی ہو سکے نشی کا حمل گرا دے …… جب وہ نشی کو لے کر جا رہا تھا۔ میں اچانک اس کے سامنے آ گئی۔ میں زور سے چیخی۔
’کیا اس کی ضرورت ہے؟‘
’ہاں‘
’تم تو اس سے پیار کرتے ہو۔ ‘
’پیار بانٹا نہیں جاتا۔ ‘
’وہ تمہارا جز ہے۔ ‘
’مگر پیار نہیں۔ ‘
’پھر پیار کیا ہے؟‘
شبھا اچانک خاموش ہو گئی۔ اس کی آنکھوں میں ایک درد نظر آیا…… وہ میری طرف دیکھ رہی تھی……
’جانتی ہو میری بات پر اس نے کیا کہا؟‘
وہ پہلے چپ رہا۔ میں پھر زور سے چیخی…… ’پھر پیار کیا ہے؟‘
’تم‘ — اس کو سوچنے کی ضرورت نہیں تھی۔
’اور سونیدھی ……؟‘
’نہیں ……‘
’نشی……؟‘
’نہیں ……‘ وہ زور سے چیخا…… ’یہ وقت پیار کے سلسلے میں بات کرنے کا نہیں ہے ……آہ میرے گھٹنے ……‘ وہ پھر چیخا…… پیار کا صحیح وقت وہی تھا، جب تم زندگی میں آئی تھیں…… پیار اب بھی تم ہو…… پیار دکھاوا نہیں ……ہے ……‘
میں حیران نظروں سے شبھا کو دیکھ رہی تھی۔
’پھر آپ مان گئیں؟‘
’نہیں۔ ‘
’میں زور سے چیخی…… سنیدھی اور نشی کے ساتھ تم صرف خود سے پیار کرتے ہو…… تم اتنے گھٹیا سطح پر آ سکتے ہو، میں کبھی سوچ نہیں سکتی تھی…… وہ مسکرایا گھٹنے کا درد اسے پریشان کر رہا تھا۔ وہ زور سے بولا…… ’پہلا پیار پاگل اور معیاری ہوتا ہے ……پھر مرد معیار نہیں ڈھونڈتا…… معیار سے نیچے گر جاتا ہے …… وہ پھر چیخا — تم پاگل ہو…… میری زندگی میں ان کے علاوہ بھی بہت سی عورتیں آئی تھیں …… کیا تم باہر میرے ساتھ ہوتی تھیں ……؟‘
میں اب تک حیران تھی۔ پیار کی اس کہانی سے بالکل ہی ناواقف اور انجان…… ہوا تیز ہو گئی تھی…… شبھا نے آگے بڑھ کر دروازہ بند کر دیا۔ وہ دیر تک چھت کو گھورتی رہی۔ پھر میری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں ابھی ماضی کے سفر سے لوٹی نہیں تھیں۔
’پھر آپ نے اسے معاف کر دیا؟‘
’کہہ نہیں سکتی…… میں تنہائی، پارک، برش اور کینوس کی دنیا میں چلی گئی۔ ادھر جوزف کے گھٹنے کا درد بڑھ چکا تھا۔ خاموش سنیدھی اور نشی نے اپنی زندگی اسے وقف کر دی تھی۔
سچ کہوں تو میرے لئے یہ بھی راز تھا۔ سچ سننے اور جاننے کے بعد بھی کیا یہاں رہنا دونوں کی مجبوری تھی؟
’پھر دونوں گئے کیوں نہیں؟‘
’یہ بات بھی مجھے پریشان کرتی رہی۔ جب کئی آپریشن ہونے کے بعد جوزف کو اپنے اپاہج ہونے کا احساس ہوا تو ایک بار اس نے دونوں کو بلایا…… اور کہا کہ میں ایک بڑی رقم دینے کو تیار ہوں — تم دونوں چاہو تو اپنی زندگی کہیں بھی گزار سکتے ہو……
’پھر‘
’سونیدھی اور نشی دونوں نے منع کر دیا…… تم بتا سکتی ہو ایسا کیوں ہوا ہو گا؟ میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ یہ ضرور سوچتی تھی، کہ کیا سونیدھی کے اندر نشی کو لے کر یا نشی کے اندر اپنی ماں کو لے کر کوئی بوجھ نہیں ہو گا؟ میں اس طرح کے جذبات کو نہیں سمجھ پائی۔ لیکن اتنا کہہ سکتی ہوں، پیار یہاں بھی سچ جاننے کے باوجود اپنی تکمیل کی تعریف میں موجود ہو گا۔ ایک بات اور ہوئی……
شبھا کو اچانک کچھ یاد آ گیا…… اس دن میں اپنے کمرے میں تھی۔ نشی وہیل چیئر پر لے کر اسے میرے کمرے میں آئی تھی۔ آتے ہی اس نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا…… پھر اس نے کہا، ’شبھا…… ہم پیار کو ساری زندگی نہیں سمجھ پاتے۔ لیکن میں نے سمجھا ہے۔ پیار کا ایک ہی ساون، ایک ہی گیت، ایک ہی لمحہ، اور ایک ہی خواب ہوتا ہے …… وہ سارے ساون، گیت، لمحہ، خواب ایک خاص وقت میں، میں نے تم سے حاصل کر لیا۔ میں نے سارا کا سارا پیار لے لیا۔ باقی کی زندگی صرف پت جھڑ اور اندیکھے سیلاب کے نام رہی…… لیکن ایک ہی زندگی میں یہ موسم ایک بار پھر لوٹتا ہے۔ یہ موسم لوٹ آیا ہے۔ اس کے لئے تمہاری موجودگی ضروری نہیں۔ تمہارا احساس ضروری ہے، جو میرے پاس زندہ ہو گیا ہے۔
میرے لئے سوچنا نا ممکن تھا کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ لیکن شبھا کے ساتھ ایسا ہوا تھا…… پیار کا ایسا تصور میرے لئے نیا تھا۔ اس کے بعد کافی دنوں تک میں شبھا سے نہیں ملی۔ شبھا نے فون پر ہی جوزف چلے جانے کی خبر دی…… کافی دنوں بعد میں شبھا سے ملنے آئی۔ تو دروازے پر قدم رکھتے ہی چونک گئی۔ سب کچھ وہی تھا۔ لیکن مجھے اداسی کا احساس نہیں ہوا۔ ایک کمرے میں سنیدھی اور نشی بھی نظر آئے۔ شبھا مجھے لے کر اندر اپنے کمرے میں آ گئی۔ جہاں جوزف کی تصویر پر مالا پڑی ہوئی تھی۔ کافی دیر بعد میں نے راز کی پرتوں کو ہٹانے کے خیال سے پوچھا …… ’اب بھی سب کچھ ویسا ہی چل رہا ہے ……‘
شبھا کچھ دیر خاموش رہی پھر بولی…… جوزف کے جانے کے بعد میں صرف اسی ساون کے گھیرے میں ہوں جس کا ذکر جوزف نے آخری ملاقات میں کیا تھا۔ پیار پہلے ساون کو آواز دیتا ہے۔ پھر شاید ایک عمر گزر جانے کے بعد دوسری بار لوٹ آتا ہے …… باقی تو زندگی ہوتی ہے ……‘
اس کے بعد کافی دیر تک خاموشی چھائی رہی…… مجھے شدت سے احساس تھا، کھڑکی سے چھن چھن کر آنے والی ہوا میں پیار کے پہلے ساون کا لمس گھلا ہوا ہے۔ جس نے اس اداس بنگلے میں پیار کے گیتوں کو زندہ کر دیا ہے مگر یہ بھی احساس تھا کہ محبت اکثر کمزور کر دیا کرتی ہے۔
میں شبھا کے چہرے پر اس کمزوری کو پڑھ چکی تھی۔
٭٭٭