مجھ سے اگر کوئی یہ پوچھے کہ انسانی اعصاب کے لیے سب سے کڑا وقت کونسا ہوتا ہے تو میں بلا تردد عرض کروں گا کہ "اس وقت کہ جب کوئی لکھنے پڑھنے والا فرد نصف شب کے بعد کسی بیتاب قوال سے بہت کم فاصلے پہ موجود ہو”۔ مجھے یقین ہے کہ کسی دوسرے فرد کو میرے اس بیان کی فکر انگیزی اس وقت تک سمجھ آ ہی نہیں سکتی کہ جب تک رات کے پرسکون لمحات میں اچانک ہی خود اس کی سماعت کسی قوال کے ہتھے نہ چڑھ جائے۔۔ ۔ رات میرے گھر کے عین سامنے اک بپھرا ہوا قوال محفل سماع کے نام پہ مائیکروفون پہ نجانے کیا کیا کرنے پہ تلا رہا۔ اور میں گویا شب بھر ‘روحانی ریمانڈ’ پہ رہا۔ میں پہلے شروع میں تو بہت دیر تک ضبط نفس کے طریقے آزماتا رہا لیکن کانوں پہ امنڈتی بانگ درا جب بڑے بڑے اسپیکروں کی ہنر مندی سے چنگھاڑتی ضرب کلیمی بن گئی تو مضطرب ہو کر خود بھی پر عقیدت سامع بن کر ‘وقوعہ’ پہ جا پہنچا۔
دیکھتا ہوں کہ درمیان میں بیٹھا جو شخص سب سے زیادہ گردن ہلا رہا ہے اور ہاتھ چلا رہا ہے وہی اس ‘مقدس ورکشاپ’ کا استاد ہے اور اسنے کئی ‘چھوٹے ‘ یعنی اپرنٹس قوال آہ و فغاں کیلئے دائیں بائیں ساتھ بٹھا رکھے ہیں جو کہ متناسب طور پہ گردن مٹکانے کے ساتھ ساتھ استادانہ لے کی آنچ بڑھانے کیلئے برابر سے زوردار تالیاں بھی پٹخارتے جاتے ہیں۔ اور تالیاں بھی کیا گویا ایک ہتھیلی سے دوسری کو اور دوسری سے پہلی کو کس کس کر چانٹے لگا رہے ہیں۔ ہمراہ ایک نائب قوال بھی ہے کہ جو بار بار بوکھلا کر اچانک اچانک اپنے کان پہ ہاتھ رکھ کر واویلا مچانے کے لیے مخصوص ہے۔ اس کا دوسرا کام پوری چوکسی سے اپنے سر کو ‘استاد’ کی تالیوں کے بیچ آ کر چپاتی بننے سے بچانا ہے کیونکہ وہ قوال کے بالکل نزدیک بیٹھا ہے اور ہر لمحے گمان ہوتا ہے کہ اس قربت کی سزا اسے آج مل کر رہے گی۔ طبلہ ٹھنک رہا ہے اور طبلہ نوازاسی سے ہم آہنگ کر کے اپنی گردن اور دیدے دونوں برابر سے مٹکا رہا ہے۔ ایک لاغر سا بچہ بھی وہیں ساتھ دبکا بیٹھا ہے جس کا کام سوائے اس کے کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ وقفے وقفے سے سیٹی جیسی باریک اور چبھتی ہوئی آواز میں چیختی ہوئی ایں ایں یا ریں ریں کرنے کی کوششیں جاری رکھے اور اسٹیج پہ کسی جونیئر قوال کو نیند کی جھپکی لینے نہ دے، حاضرین کو جگائے رکھنے کا کام البتہ اسی چھٹے ہوئے قول نے مستقل اپنے ذمے لے رکھا ہے۔۔ ۔
میرے سامنے بیٹھے دو افراد دفعتاً ہڑبڑا کر اٹھے اور اسٹیج کی جانب بڑھے اور میں نے یہ جانا کہ گویا نجات کی گھڑی دور نہیں۔۔ اسٹیج تک پہنچنے سے پہلے ان میں سے ایک نے جیب میں ہاتھ ڈالا جس سے میں نے یہ شگون لیا کہ نوبت پستول کے استعمال کی آن پہنچی۔۔ ۔ لیکن ہاتھ جب جیب سے باہر آیا تو اس میں ایک کڑک سا نوٹ تھا جسے ان دونوں نے قدرے جھک کر اپنی ہتھیلیاں باہم جوڑ کر یوں تھاما ہوا تھا کہ جیسے اکیلا بندہ اس بھاری رقم کا بوجھ اٹھانے کے لیے کافی نہیں۔ اسٹیج تک پہنچ کر انہوں نے وہ نوٹ گاؤ تکیہ لگائے ایک جبہ پوش بزرگ صورت فرد کے حوالے کیا جو کہ شاید اسی کام پہ مامور تھے کہ وہ ایسی روحانی وصولیاں کریں اور مزید ایسی وصولیوں کو یقینی بنانے کے لیے متواتر تسبیح گھماتے رہیں۔۔ وہ اپنے سر پہ اتنی شدت سے کس کر پگڑی باندھے بیٹھے تھے کہ ان کی آنکھیں مستقل پھٹی پھٹی سی تھیں۔ اور جب کبھی وصولیوں کا وقفہ لمبا ہونے پہ التجائی لو لگانے کے لیے آنکھیں بند کرنے کی کوشش کرتے تھے تو ان کی پگڑی کا شملہ ہل ہل جاتا تھا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے یہ مالیاتی ہڑبڑاہٹ کئی مردانہ جوڑوں پہ بار بار طاری ہوئی اور وہ اسی ہی مشترکہ مشقت سے کئی نوٹ اپنی منزل تک پہنچتے رہے۔
وہاں بیٹھے ہوئے مجھے اپنے بیتے ہوئے دنوں کی ایک ایسی ہی محفل یاد آ گئی کہ جب ایک دوست نے ایسی ہی اک محفل میں کھینچ لیا تھا۔۔ ۔ اور وہاں پہنچتے ہی میں نے کیا دیکھا کہ ایک اچھا بھالا آدمی اگلی صفوں سے ناگاہ جھومتا ہوا اٹھا اور دیوانہ وار گھومنے لگا بالکل پھرکی کی مانند۔ ،۔ میں تشویش میں تھا کہ اسے اچانک کیا ہوا۔، کوئی ایمبولنیس کیوں نہیں بلاتا۔۔ ۔، ان کو بٹھانے اور فوری طبی امداد دینے یا مساج کرنے کی کوششیں کرنے کے بجائے کئی لوگ ان پہ نوٹ نچھاور کرنے لگے اور میرے چہرے پہ شدید تشویش کے آثار دیکھ کر برابر پلتھا مار کر بیٹھے ایک صاحب نے بڑے رسان سے مجھے بتایا کہ انہیں ‘حال’ آ گیا ہے۔ اس کے جلو میں خمیدہ پشت ہو کر ایک آدمی ان نوٹوں کو سمیٹتا جاتا تھا بالکل ایسے جیسے اس کی راہ سے کانٹے چنتا ہو۔ اسی طرح گھومتے اور آنکھیں موندے ہوئے وہ حاضرین کے اندر ہر طرف پھرتا ہوا میرے قریب آیا تو میں نے دیکھا کہ وہ اپنی موندی ہوئی آنکھوں میں سے بھی بھرپور گنجائش نظارہ بنائے ہوئے ہے۔۔ ۔ جس پر میں نے جلدی سے اپنا سگریٹ لائٹر اس کی جانب کیا اور اسنے فٹا فٹ آنکھیں کھول دیں پھر سٹپٹاکر نارمل ہو گیا اور انتہائی قہر آلود نگاہ مجھ پہ ڈال کر ادھر ادھر ہو گیا۔ گویا وہ ‘ہستی’ اسی قوال کی روحانی و مالیاتی فرنچائز تھی
کافی دیر تک میں اس محفل میں چوکڑی مارے بیٹھا رہا کہ جہاں ایک نہیں کئی لوگ ‘حال’ کے ہاتھوں نڈھال تھے مگر خوب خوب جانتے تھے کہ جھوم کے کس پہ گرنا ہے اور کس کو ‘گرانا’ہے۔ قوال بھی ایسا رقم شناس۔ کہ بہت بہت دیر تک کسی ایک ہی بول پہ اٹکے رہتا۔۔ اور جب تک کئی لوگ وہاں کھڑے کھڑے اپنی جیبیں نہ جھاڑ دیں اس کی قوالی کی گاڑی آگے نہیں بڑھتی۔ تاہم زیادہ تر سب سے چھوٹے نوٹوں ہی کی برسات ہوتی رہی۔ اس حکمت سے عقیدت اور کفایت دونوں کا بھرم رہ جاتا ہے۔ اگر ایسے حکمت پسندوں کے رہتے دس کا نوٹ بھی سکے میں بدل جائے تو کئی قوالوں کا زخمی ہونا یقینی ہے۔، شاید اسی خدشے کے پیش نظر کوئی قوال کتنے ہی جوش میں کیوں نہ آ جائے اور کیسا ہی کیوں نہ بپھر جائے اپنی دونوں آنکھیں ایک ساتھ کبھی بند نہیں رکھتا۔ وہاں چند قوالیاں سن کر یہ اندازہ بھی ہوا کہ کلام کیسا ہی عمدہ کیوں نہ ہو اور کیسے ہی بلند مقام شاعر کا ہی ہو۔ کسی قوال کے ہتھے چڑھ جائے تو آناً فاناً ملیدہ کر کے اور نہایت عبرت انگیز بنا کر ہی دم لیتا ہے ۔۔۔۔ اور اس کے باوجود ہر ایک شعر کی ادائیگی کے بعد بے بس سامعین پہ فاتحانہ نظر ڈال کر داد لینا نہیں بھولتا۔۔
اس محفل سے جب میں تھک چلا تو اٹھ کر سونے کو گھر چلا آیا۔ وہاں میری خوابگاہ جو اس بزم کے بھاری بھاری اسپیکرز کے عین نشانے پہ تھی اس کی ہر چیز طبلے کی سنگت پہ بڑی ہم آہنگی سے دھمک رہی تھی۔ بتی بجھا کر بستر پر لیٹا تو شاید آٹھویں یا ساٹھویں قوالی کی پہلی زوردار لے سے بے چین ہو کر یکبارگی اٹھ بیٹھا۔ محسوس ہو رہا تھا کہ وہ قوال پلنگ کے نیچے ہی کہیں ہے یا شاید پردے کی اوٹ میں لپٹا ہوا الاپ رہا ہے۔، جیسے تیسے اپنے کانوں میں مناسب طور پہ روئی کا اٹمبار ٹھونسا اور غیر ارادی طور پہ آئینے پہ نظر پڑی تو خود کو ہی نیا نویلا مردہ سا پا کر کپکپا اٹھا۔ لیکن یہ کپاسی ناکہ بندی بھی اس عظیم روحانی گڑ گڑاہٹ کے سامنے ڈھیر ہو گئی کہ جو اس پکے گلے کے قوال کے حلق سے مسلسل برآمد ہو رہی تھی۔ ناچار اس گناہ بے لذت یعنی مردہ ٹائپ گیٹ اپ سے عاجز ہو گیا اور سب روئی نکال پھینکی اور واپس اسی قوال کے چرنوں میں اس وقت تک نیم جان ہوا بیٹھا رہا کہ جب تک صبح دم میرا یہ روحانی ریمانڈ اختتام کو نہ پہنچا۔ اب میں جلد ہی اپنے ایک حریف کے گھر کے عین سامنے ایسی ہی ایک تقریب برپا کرنے کے لیے سوچنا شروع کر چکا ہوں۔ بس ذرا چند مخیر حضرات مہربان ہو جائیں۔ پھر دیکھنا تو سہی۔
٭٭٭
jnab Arif sahab bohot hi khoobsoorat or bharpoor mzahiya …magar sachai sai bharpoor shgofta tehrir hai. Parh
ho …..kar aisa maza aya jesai koi khati mithi ambi ya imli ..
likhtai rhain
Allah krai zore qalam or zyada.