بلا شک و شبہ غضنفر آج ہماری نسل کے افسانہ نگار، ناول نگار اور شاعر کی حیثیت سے ایک اہم اور ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کی افسانہ نگاری اور ناول نگاری کا کوئی ذکر، کوئی فہرست غضنفر کے نام کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ یہ بات ان کے ہم جیسے مخلص اور سچے دوستوں کے لیے باعث فخرومسرت تو ہے ہی ذاتی طور پر میرے لیے تھوڑی سی حیرت کی بھی ہے یا یوں کہیے کہ یہ تحّیر ہر اُس فرد کے لیے بھی ممکن ہے جو غضنفر کے بیحد قریب ہے، رگ جاں کی طرح۔ ہاں ہم ایک دوسرے کے لیے رگِ جاں کی طرح تھے اور ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ رگ یہ قربت یونہی نہیں پھڑکتی، اس لہو کو گرم اور رگوں میں رواں دواں ہونے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو دہائیاں بھی صرف ہو جاتی ہیں۔
ہمارا ساتھ بھی بر سوں کا نہیں، دہائیوں کا ہے، اسی لیے مجھے مسرت کے ساتھ تھوڑی سی حیرت بھی ہے کہ غضنفر جیسا معصوم اور سادہ لوح انسان محض اپنی ذاتی محنت و لگن، عرق ریزی، تخلیقی گہما گہمی سے اپنے قارئین اور ناقد ین کے درمیان اتنی جلدی توجہ کا مرکز اور آج کے افسانوی ادب کا محور کس طرح بن گیا؟ اسے تو وہ چلت پھرت، ہشیاری اور چالاکی بھی نہیں آتی جو آج کے ادبی ماحول میں نام نہا د ادبی مقام کے حصول کے لیے ضروری ہوا کرتی ہے۔ وہ تو کسی ادارے کا چیر مین یا ڈائرکٹر بھی نہیں۔ کوئی بڑا افسر بھی نہیں، پر وفیشنل قسم کا مفکر اور مقرر بھی نہیں، مزاج میں خوشامد بھی نہیں۔ اسی لیے آج تک اُسے کوئی قابل ذکر انعام و اعزاز بھی نہیں ملا جس کے حصول کے لیے بعض لوگ اپنی عزت و دولت تک کی بازی لگا دیتے ہیں لیکن ان سب کے باوجود غضنفر نے اپنی پہچان بنائی۔ اس بھیڑ میں ایک منفرد پہچان جو یقیناً تا دیر قائم رہے گی۔ ہے نا حیرت کی بات۔ ایک بات کی حیرت مجھے اور بھی ہے لیکن اس حیرت کو سمجھنے کے لیے کئی دہائی قبل لوٹنا ضروری ہے۔ صرف میری حیرت کے لیے نہیں بلکہ غضنفر کی شخصیت کی تفہیم کے لیے بھی یہ مراجعت ضروری ہے۔
یہ وہ دن تھے جب ہم علی گڑھ میں تھے۔ یہ بات ۷۴۔ ۷۵ ء کی ہے۔ میں الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد عبد ا لحلیم شررؔ کے ناولوں پر ریسرچ میں داخلہ لے چکا تھا۔ میرے نگراں پروفیسر سید محمد عقیل صاحب تھے۔ الہ آباد کے ایک جلسے کی نظامت کرتے ہوئے میری ملاقات مرحوم نسیم قریشیؔ سے ہوئی جو اس جلسہ کے مہمانِ خصوصی تھے۔ دورانِ گفتگو جب ان کو یہ معلوم ہوا کہ میری تحقیق کا موضوع شرؔ ر ہے، تو وہ خوش ہوئے اور ذکر کیا کہ کبھی انہوں نے بھی شررؔ پر کام شروع کیا تھا، خاصا مواد بھی جمع کر لیا تھا لیکن اپنی گو نا گوں مصروفیات کی وجہ سے وہ کام مکمل نہ کر سکے۔ انہوں نے اپنے ساتھ علی گڑھ چلنے کی دعوت دی اور میں تیار ہو گیا۔ کئی ماہ ان کے ساتھ آفتاب منزل، شمشاد مارکیٹ میں قیام رہا۔ نسیم قریشیؔ صاحب کے ساتھ گزارے ہوئے اوقات و ایّام کی ایک الگ داستان ہے جو کبھی اطمینان سے رقم کروں گا، لیکن نسیم صاحب کے توسط میری ملاقات ابو الکلام قاسمیؔ اور شارق ادیب سے ہوئی۔ قاسمی ایم اے کرنے کے بعد شعبۂ اُردو میں لکچرر ہو چکے تھے اور شارق غالباًسیا سیات سے ایم اے کر رہا تھا۔ لیکن شعر و ادب اور بالخصوص افسانوی ادب سے گہری دلچسپی رکھتا تھا اور یہی ہم دونوں کی دوستی کی اصل بنیاد تھی۔
اس وقت علی گڑھ میں نوجوان ادیبوں، شاعروں اور افسانہ نگاروں کا ایک بڑا حلقہ تھا۔ خاصہ سرگرم، متحرک، بولتا ہوا بعض اوقات چیختا ہوا بھی۔ جو شاعر تھے مثلاً عبیدؔ صدیقی، فرحت احساسؔ ، آشفتہؔ چنگیزی، مہتاب حیدرؔ نقوی، اسعد بدایونی، اور بعض دوسرے وہ خلیل الرحمان اعظمی اور ان سے زیادہ شہر یار کے قریب تھے۔ شارق ادیب، سید محمد اشرف، طارق چھتاری، تھوڑا اور جونیر ابن کنولؔ ، غیاث الرحمانؔ وغیرہ قاضی عبدالستارؔ سے زیادہ قریب۔ کچھ لوگ دونوں ہی سے قریب تھے۔ بہر حال اس بھیڑ میں ایک سانولہ سلونا چہرہ غضنفر کا تھاجس کی شخصیت کا سب سے پر کشش چہرہ اس کے سر کے بال تھے۔ گھنے بھرے بھرے کالے اور لمبے بال تو خیر ہمیشہ ہی پسند کیے گئے لیکن مردوں کے بالوں کا کان تک ڈھکے رہنا اس زمانے کا فیشن تھا۔ ہم سب اس کوشش میں رہتے لیکن اس فیشن کی زینت اور سعادت غضنفر کے حصے میں زیادہ آئی تھی۔ بال تو طارق چھتاری کے بھی بہت اچھے تھے اور ان کا ہیئر اسٹائل اگرچہ سادہ تھا لیکن کم پر کشش نہ تھا۔ بال میرے بھی اچھے تھے لیکن ہزار کوشش کے باوجود وہ کان تک نہیں پہنچ پاتے، اینٹھ جاتے یا روٹھ جاتے اور اب تو کچھ ایسا روٹھ گئے ہیں کہ مکمل رخصتی پر آمادہ ہیں۔
بہر حال سب سے پہلے غضنفرؔ کے بالوں نے مجھے متوجہ کیا تھا، پھر معلوم ہوا کہ موصوف شاعر بھی ہیں اور شہر یار کی صحبت میں زیادہ عمل دخل ہے تو پھر وہ بال مجھے فیشنِ زمانہ کم اورگیسوئے شاعرانہ زیادہ لگنے لگے۔ بہر حال کوئی بات ایسی تھی جو مجھے غضنفرؔ سے قریب کرنے لگی علیگڑھ کی کئی محفلوں میں انھوں نے اشعار سنائے۔ وہ اشعار کس معیار کے تھے، کہہ نہیں سکتا لیکن ان کی ادائیگی اور پیش کش میں بڑی سادگی ہوتی۔ اس سادگی نے مجھے متاثر کیا۔ اس لیے کہ اس وقت عین نوجوانی کے عالم اور ابتدائے شاعری کے ایام میں بھی بعض شعرا نہ جانے اپنے آپ کو کیا سمجھتے تھے۔ شراب، سگرٹ، چائے وغیرہ کی کثرت کے ساتھ رعونت و نخوت بھی جھلکتی رہتی۔ بعض تو پائپ یا سگار پیتے دکھائی دیتے جس کی وجہ سے وہ شاعر کم افلاطون زیادہ لگتے شہر یار کے فرزند کم فاروقی کے داماد زیادہ لگتے۔ ایسے میں غضنفر کی سادگی متاثر کرتی اور حیرت میں بھی ڈالتی۔
کچھ ٹھیک سے یاد نہیں، بہر حال دوستوں کے ہی حوالوں سے غضنفر سے ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھنے لگا تو پتہ چلا کہ حضور علّامہ شبلی نعمانی پر پی، ایچ، ڈی بھی فرما رہے ہیں اور بہار سے تعلق رکھتے ہیں علیگڑھ میں ہی مجھے پہلی بار بہار کے طالبِ علموں کو ایک خاص نظر سے دیکھے جانے کا اندازہ ہوا کہ قاسمی، خورشید، عقیل، غضنفر اور بعض دوسرے سبھی بہار کے تھے جو بڑے زور و شور سے پوری یونیورسٹی میں بالعموم اور شعبۂ اردو میں بالخصوص داخل ہو رہے تھے اور غالباً بہار کی یہ پہلی نسل تھی جو اتنی کثیر تعداد میں شعبۂ اردو سے وابستہ تھی اور محض درس و تدریس میں ہی نہیں، پوری ادبی دنیا میں مداخلت کر رہی تھی۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں اعظمیؔ ، بدایونیؔ ، بریلوی شاہجہاں پوری کو یہ بات اندر اندر پسند نہ آتی ہو لیکن یہ سب باتیں میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ اس لیے کہ اس وقت میں بہار و غیر بہار کا شعور نہ رکھتا تھا اور آج بھی نہیں ہے۔ لیکن وہ جو محاورہ ہے کہ جادو وہ ہے کہ سرچڑھ کر بولے اور جادو بول رہا تھا۔ خود بہار میں اور بہار سے باہر بھی۔
اردو کے تعلق سے تو بہار کی بہار تھی ہی غضنفرؔ بھی بہار کے تھے۔ عقل و ہنر کے ساتھ ساتھ دل کے معاملات میں بہار کے احباب آگے آگے تھے۔ قاسمی اور غضنفرؔ اس وقت معاملات عشق میں پیش پیش تھے اور طارق چھتاریؔ کی آرزوئیں بھی دخترِ آرزو کی زلفوں میں الجھ چکی تھیں اور ان کے دل کے باغ کا دروازہ سرو سمن سے مہکنے کے لیے پوری طرح سے تیار تھا۔ اور وہ مہک کر رہا۔ گزرتے ہوئے وقت نے طارق اور یاسمینؔ دونوں کی زندگی میں بہار ہی بہار بھر دی۔ خدا نظرِ بد سے بچائے کہ ہمارے دوستوں میں طارقؔ اور یاسمینؔ کا جوڑا ہر اعتبار سے ایک آئیڈل جوڑا سمجھا جاتا ہے۔ تو اس وقت معاملات عشق و شباب پر تھے۔ خیر قاسمی تو روزگار سے تھے لیکن طارق چھتاریؔ اور غضنفرؔ بے روزگار۔ لیکن اس معاملہ میں غضنفر نے وہ کام کیا جو رستم سے بھی نہ ہوا ہو گا۔ عین پریشانی اور بے روزگاری کے عالم میں نجیب آباد کے سادات گھرانے کی خوش شکل اور اس سے زیادہ خوش کردار و گفتار لڑکی بشریٰ سے نہ صرف دیوانہ وار عشق کیا بلکہ پوری ایمانداری، سچائی اور سادگی کے ساتھ شادی کر لی۔ اس میں غضنفر کی شرافت اور سچے جذبۂ عشق کا تو دخل تھا ہی، کم و بیش یہی کیفیت اور خصوصیت بشریٰ بھابھی میں بھی تھی۔ وہ ایک بہت اچھی بیوی، بھابھی اور ماں ثابت ہوئیں۔ یقیناً محبوبہ بھی بہت اچھی رہی ہوں گی۔
یہ وہی دن تھے جب ہم بیروزگار تھے۔ پریشان حال تھے اور عشق میں بھی مبتلا تھے لیکن ہمارے گھر والوں نے عشق کی ناپختگی اور معاشی نا ہمواری دیکھ کر اور والدہ نے دودھ کا واسطہ دے کر ہماری شادی خاندان کی ایک لڑکی سے کر دی۔ چنانچہ غضنفرؔ ، طارقؔ اور میں تینوں شادی شدہ، تینوں بے روز گار اور سامنے زندگی کا میدانِ کارزار بلکہ خاردار، طارق کے پاس کچھ بنیادی سہو لتیں تھیں اس لیے اکثر وقت ہم دوستوں کا ان کے گھر پر گزرتا۔ چائے، سگریٹ، کھانا اور افسانہ۔ ہم نے سگرٹ پی پی کے افسانے سنے اور چائے پی پی کر کڑوے کسیلے تبصرے کیے۔ سید محمد اشرف، شارق ادیب، طارقؔ ، ابن کنولؔ کی افسانہ نگاری کی داغ بیل پڑ چکی تھی۔ اشرف کا ’ڈارسے بچھڑے‘ ابن کنول کا ’بندراستے ‘غیاث الرحٰمن کا ’وہ دن‘ شہرت اختیار کر چکا تھا۔ یاد نہیں کہ ان افسانوں کے ساتھ غضنفر کا بھی کوئی افسانہ آیا ہویا مشہور ہوا ہو۔ ہم لوگ اُنہیں شاعر کے روپ میں زیادہ جانتے تھے۔ اسی زمانہ میں علی گڑھ میں افسانہ پر ایک سیمنار ہوا جس میں محمد حسنؔ ، عابد سہیلؔ اور بعض دوسرے شریک ہوئے۔ عابد سہیلؔ نے اپنا تازہ افسانہ ’’سوانیزہ پر سورج‘‘پہلی بار اسی محفل میں سنایا اور محمد حسن اور قاضی عبدالستار نے افسانہ پر بہت اچھی تقریریں تو کیں لیکن نئے لوگوں کا ذکر نہیں کے برابر کیا چنانچہ ہم لوگوں نے مباحثہ میں اس کی زوردار شکایت کی۔ مجھے یاد ہے کہ چائے پیتے وقت محمد حسن صاحب نے الگ سے مجھ سے کہا تھا کہ اس طرح شکایت سے کوئی فائدہ نہیں۔ کام کر کے دکھائیے۔ ایک طرح سے انہیں کی تحریک پر میں نے جلد ہی بیس نئی کہانیوں کا انتخاب کیا جسے عابد سہیلؔ صاحب نے شائع کیا اور الہ آباد میں ’نئی کہانی نئے مسائل‘کے عنوان سے بڑاسیمنار کیا جس میں اشرف، طارق، شارق وغیرہ کے علاوہ تقریباً۵۵کہانی کار اور کہانی کے ناقدین نے شرکت کی۔ بزرگوں میں محمد حسن، قمر رئیس، عابد سہیلؔ ، جو گیندر پالؔ ، کلام حیدریؔ ، رام لعل، قاضی عبدالستار، غیاث احمد گدیؔ ، احمد یوسف، وغیرہ خاص تھے۔ بعد میں محمد حسن صاحب نے بیس نئی کہانیوں پر عصری ادب میں تبصرہ کیا اور نئی کہانی اور نئے کہانی کاروں کا استقبال کیا۔
مجھے یاد ہے اس سمینار میں غضنفر شریک نہیں ہوئے اور نہ بیس نئی کہانیوں میں ان کی کوئی کہانی شامل ہوئی اس کی وجہ غالباً یہی تھی کہ اس وقت تک بحیثیت کہانی کار ان کی پہچان نہیں کے برابر تھی۔ ان کے کچھ افسانے اس وقت شائع ہوئے جب وہ سولن جا چکے تھے۔
انھیں دنوں ’’الفاظ ‘‘میں میں نے ان کا افسانہ ’’ڈگڈگی ‘‘ پڑھا تھا جو مجھے بہت پسند آیا تھا۔ پہلی بار مجھے محسوس ہوا تھا کہ غضنفرؔ میں افسانہ لکھنے کی بھی صلاحیت ہے۔ وہ اگر اس طرف توجہ دیں تو زیادہ اچھی بات ہو گی اور یہ بات میں نے سولن کی ملاقاتوں میں بار بار کہی تھی۔
اس سے قبل ایک بات کا ذکر کرنا اور ضروری ہے کہ جب میں نے یہ سنا تھا کہ غضنفرؔ شبلیؔ پر تحقیقی مقالہ لکھ رہے ہیں اور میں نے شررؔ پر کام کرتے ہوئے کہیں پڑھا تھا کہ شر رؔ سرسید کے رفقائے کار میں سب سے زیادہ شبلیؔ سے متاثر تھے۔ شررؔ شبلیؔ سے زیادہ کھلا ذہن ضرور رکھتے تھے لیکن اسلامیات کے سلسلے میں وہ شبلی سے بڑی عقیدت رکھتے تھے انھوں نے اپنے رسالہ ’’دلگداز ‘‘میں شبلیؔ کی کئی کتابوں پر بہت اچھے تبصرے کیے اور جب شبلیؔ کا انتقال ہو گیا تو شرر نے بہت اچھا تاثراتی و تعزیتی مضمون بھی لکھا جسے بعد میں میں نے یوپی اردو اکادمی کی طرف سے شائع کتاب مضامینِ شرر میں شامل کیا۔ تو میں شبلی کے بارے میں ایک عالمانہ حیثیت کا تصور رکھتا تھا۔ سیّد صاحب تو بیچارے شبلیؔ حالیؔ کی عزت و محبت کرتے ہوئے رخصت ہو گئے۔ اب وہاں صرف صاحب ہی صاحب رہ گئے۔ ایسے میں علیگڑھ میں کوئی شبلی پر کام کرے تو میرے لیے حیرت سے زیادہ عقیدت اور محبت کی بات تھی چنانچہ غضنفر سے محبت اور دوستی کا یہ بھی ایک حوالہ بنا تھا۔
محبت سے یاد آیا کہ ہم تینوں دیوانہ وار محبت میں مبتلا تھے۔ عین عالمِ شباب کی شب تاب بے روز گاری میں ہم نے شادیاں بھی کر لی تھیں طارق کے لیے مسئلہ نہ رہا ہو لیکن غضنفرؔ اور میرے لیے تو مسئلے ہی مسئلے تھے اور شب تاب جوانی شب تار میں بدلنے ہی والی تھی کہ انہیں دنوں سینٹ جانس کالج آگرہ میں اردو لکچرر کی جگہ خالی ہوئی انٹر ویو میں غضنفرؔ اور میں دونوں ہی بلائے گئے۔ مجھے ڈی فل کی ڈگری مل چکی تھی اور غضنفرؔ کو ملنے والی تھی۔ اتفاق سے نسیم قریشیؔ صاحب ممتحن تھے۔ انتخابات ہوئے تو پہلے نمبر پر میں تھا اور دوسرے نمبر پر غضنفرؔ ۔ غضنفرؔ ان دنوں کچھ زیادہ ہی پریشان تھے۔ اسی پریشانی کے عالم میں مجھ سے کہا۔ ’’ فاطمی اگر تم نہ جوائن کرو تو میرا تقرر ہو جائے گا۔ ‘‘ میری دوستی اور انسانیت سب خطرے میں پڑ گئی۔ اپنی تحقیق اور یونیورسٹی کے لالچ میں ہندو ڈگری کالج مراد آباد کی ملازمت چھوٹ چکی تھی جس کی وجہ سے والدین کی لعن طعن سن چکا تھا۔ اب بیوی اور سسرال کی لعن طعن سننے کی تاب نہ تھی۔ غضنفرؔ کو اپنی مجبوری بتائی تو اس نے اسی دوستانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ’’نہیں۔ نہیں تم جوائن کر لو آخر تم بھی تو بے روز گار ہو، شادی شدہ ہو‘‘ بھاری من سے اس اجنبی شہر میں ملازمت تو کر لی لیکن وہاں کی اجنبیت اور غیر ادبیت مجھے تقریباً ہر ہفتہ علی گڑھ پہنچا دیتی اور میرا زیادہ تر وقت قاسمی، شارق، اشرف، طارق، کنول وغیرہ کے ساتھ گزرتا۔ خورشید الاسلام صاحب ریٹائر ہو چکے تھے۔ ثریا حسین صدر شعبہ ہوئیں۔ نورالحسنؔ نقوی، قاضی عبدالستار۔ شہر یارؔ وغیرہ میرے آگرہ کی سر گرمی اور میرے علمی و ادبی مشاغل سے قدرے خوش تھے۔ مرحوم اطہر پرویز الہ آباد کے تعلق سے خصوصی محبت و شفقت فرماتے تھے۔
انہیں دنوں علی گڑھ میں دو لکچرر کی جگہ خالی ہوئی۔ اطہر پرویز نے مجھ سے علی گڑھ آنے کو کہا لیکن میرے استادسید محمد عقیل صاحب مجھے الہ آباد بلانا چاہ رہے تھے اور میں جلدی ہی الہ آباد پہنچ گیا۔ علی گڑھ میں ان جگہوں پر باہر کے دو لوگ قاضی افضال حسین اور قاضی جمال حسین کا تقرر ہو گیا اور علی گڑھ کے کئی اچھے لوگ محروم رہ گئے جس میں غضنفرؔ بھی تھے لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ جلدی ہی غضنفرؔ کا تقرر سولن کے اردو ٹیچنگ اینڈ ریسرچ سینٹر میں لیکچرر کے طور پر ہو گیا۔ بعد میں طارق چھتاری بھی ریڈیو پر پروگرام آفیسر ہو گئے لیکن یہ سب اس وقت ہوا جب ہم شادی کر کے ایک ایک بچے کے باپ بن چکے تھے۔ طارق بھی ایک بیٹے کے، اور میں غضنفرؔ ایک ایک بیٹی کے۔ ۱۹۸۲ء میں جب میں الہ آباد چلا آیا تو غضنفرؔ سو لن میں تھے۔ طارق گورکھپور میں۔ اس لیے ملاقاتوں کے سلسلے ٹوٹ گئے۔
یہ غالباً ۱۹۸۵ء کی بات ہے۔ ہم الہ آباد میں فراق گورکھ پوری سیمنار کا اہتمام کرنے جا رہے تھے جس میں شرکت کرنے کراچی سے ممتاز ترقی پسند نا قد ممتازحسینؔ الہ آباد آئے ہوئے تھے۔ ہم لوگ ان کی آؤ بھگت میں مصروف تھے کہ ایک دن ڈاک میں ایک خاکی رنگ کا لفافہ ملا۔ ممتاز صاحب کی آمد اور پروگرام کے انتظام میں ہم اس قدر مصروف تھے کہ لفافہ کھولنے تک کی نوبت نہ آئی۔ بعد میں اطمینان سے کھولا تو غضنفرؔ کی طرف سے سولن آنے کی سرکاری دعوت تھی۔ تقریباً پندرہ بیس دن کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ہماچل کے اسکولوں میں جا کر اردو درس و تدریس کا معائنہ کرنا تھا۔ غضنفرؔ سے ملنے کی تڑپ، سولن شملہ گھومنے کی خواہش نے ہمیں سولن پہنچا دیا۔ سولن پہنچنا بھی اپنے آپ میں ایک واقعہ ہے۔ وہاں اردو ریسرچ سینٹر کا ہونا دوسرا واقعہ ہے۔ جب ہم سولن پہنچے تو وہاں غضنفرؔ و بشریٰ بھابی نے جس طرح استقبال کیا، اس نے فوری طور پر ہمیں ایک بار پھر حیرت میں ڈال دیا۔ اس وقت تک غضنفرؔ ایک بیٹے کا بھی باپ بن چکا تھا۔ میاں بیوی دو چھوٹے چھوٹے بیٹے بیٹی اور پہاڑ کی وادی میں بسا ہوا چھوٹا سا گھر لیکن بشریٰ بھابھی کی نفاست اور سلیقہ مندی کا اعلان کرتے ہوئے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ وہاں سبھی گھر اور محلے ٹیڑھے میڑھے ہیں لیکن لوگ بڑے سیدھے ہیں۔ غضنفرؔ کی سادگی اور شرافت ہماچل کے گنگناتے آبشاروں، منڈراتے بادلوں اور بہتے ہوئے ٹھنڈے نیلے نیلے پانیوں میں گھل مل گئی اور وہ اسی فطرت کا حصہ ہونے لگا۔
اس بار جب میں غضنفرؔ سے ملا تو ایک نئے غضنفرؔ سے تعارف ہوا۔ وہ ایک عمدہ شوہر اور دوست تو تھاہی، ایک بہترین استاد، رفیق کار اور فن کار بن چکا تھا۔ ایک ذمہ دار انسان بھی۔ یہ دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہو ئی۔ ہم دونوں بیس بائیس دنوں تک ہماچل کے مختلف شہروں، دور دراز علاقوں میں بنے اسکولوں میں جا کر اردو پڑھتے ہوئے پہاڑی بچوں کو دیکھ کر تو خوش ہوئے ہی، اس سے زیادہ خوشی ہوئی ان غیر مسلم اردو ٹیچروں سے مل کر، ان کی خاطر تواضع اور ان کے دلوں میں غضنفرؔ کے لیے بے پناہ عزت اور احترام دیکھ کر۔ اس سفر اور قیام میں ہم نے سولن، شملہ، کلوّ منالی کے خوبصورت قدرتی مناظر تو دیکھے ہی، وہاں کا کلچر رہن سہن، کھان پان، ان کی مہمان نوازی، سادگی اور ایمانداری دیکھ کر میں یوپی کا تو حیران تھا ہی اس سے زیادہ حیرانی تھی غضنفرؔ کو کہ وہ بہار کا تھا۔ کچھ اس کے بر عکس یہ بھی صورت تھی کہ ہم ہماچل کی خوبصورتی اور سادگی سے جس قدر متاثر تھے، وہاں کی غربت و افلاس نے ہمارا دل بھی دکھایا۔ غضنفرؔ جو پورے سفر میں پوری ایمانداری کے ساتھ حساب کتاب کرنے میں مصروف رہتا اور میں وہاں کی تہذیب و ثقافت اور سیاست کو سمجھنے کی کوشش کرتا۔ ہم دونوں ان موضوعات پر اکثر باتیں کرتے۔ غضنفرؔ اسی فطری سادگی کے ساتھ وہاں کے سارے حالات سے ہمیں آگاہ کرتا۔ کچھ ایسی اندرونی معاشرتی باتیں جو ایک دانشور کم فنکار زیادہ دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے۔
اس محبت اور گفتگو سے صاف اندازہ ہوا کہ وہ غضنفرؔ جو علی گڑھ میں محض ایک شاعر تھا، اب ایک ذمہ دار انسان اورحساس فنکار بن چکا ہے۔ اس لیے کہ اس نے ہمیں صرف اطلاع نہ دی تھی بلکہ اس اطلاع میں درد تھا۔ ایک ایسا درد جو اندر ہی اندر سے اسے کرب میں مبتلا کیے ہوئے تھا لیکن ملازمت اور گھر کی ذمہ داریاں اسے دبائے ہوئے ضرور تھیں لیکن وہ چھلکنے اور باہر آنے کے لیے بیتاب تھا۔ اس سفر میں مجھے یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ اس کے اندر کا چھپا ہوا افسانہ نگار اب بیدار ہو چکا تھا۔ عین ممکن ہے کہ اس کے باطن کا شاعر اور افسانہ نگار باہم متصادم ہوں اور یہ تصادم غضنفرؔ کو مشکل اور کشمکش میں ڈالے ہو لیکن مجھے یہ بھی یقین تھا کہ غضنفر کے مزاج کی سادگی اور ایمانداری کرب اور تصادم کا پوری ایمانداری سے سامنا کرے گی اور جو مناسب اور فطری راہ تلاش کرے گی، اسے اپنانے میں غضنفرؔ کو کوئی ہچک اور مصلحت نہ ہو گی۔ اور وہ پوری سچائی کے ساتھ اس راستہ پر چل پڑے گا۔
اور وہی ہوا جب ہم کچھ وقفہ کے بعد استاد سید محمد عقیلؔ صاحب کے ساتھ دوبارہ سولن گئے تو وہ مکمل طور پر افسانہ نگار ہو چکا تھا اور اس کے کچھ بہت اچھے افسانے کاغذ پر آ چکے تھے لیکن تھوڑی سی عدم اعتمادی اور بے کیفی تھی کہ وہاں کس کو سنائے، کس سے تبادلۂ خیال کرے، علی گڑھ کا ماحول تو اس سے مختلف تھا۔ ایسے میں غضنفر نے عقیل صاحب جیسا ناقد اور مجھ جیسا دوست پایا اور ہم لوگ اس کے ساتھ اس کے گھر ہی ٹھہرے تھے اور بشریٰ بھابی کے ہاتھوں سے پکی ہوئی مشروم کی لذیذ سبزی کھا کھا کر لطف اندوز ہو رہے تھے تو نمک کا حق تو ادا کرنا ہی تھا۔ اس نے اپنے افسانے سنائے اور جی کھول کر سنائے اور اپنے اندر کے عوامل و محرکات بھی بتائے۔ ان افسانوں کو سن کر مجھے بیحد مسرت ہوئی لیکن عقیل صاحب کو حیرت۔ شایداس لیے کہ عقیل صاحب اس وقت تک غضنفر سے زیادہ واقف نہ تھے اور اس بات پر بھی کہ اتنے خوبصورت ماحول حسین مناظر میں رہتے ہوئے غضنفرؔ نے اس بدصورتی کو کیسے چھو لیا جو اس کے افسانوں کی آتما کی پکار بن گئی تھی۔ اس کا مرکزی خیال فنکارانہ تو تھا ہی اس سے زیادہ دردمندانہ۔ عقیل صاحب نے جی بھر کے تعریف کی اور یہ تعریف کے پہلو اس وقت زیادہ روشن ہوئے جب غضنفر نے ’’پانی‘‘ نام کا ناول لکھ ڈالا۔ اس کی اشاعت سے قبل غالباً ہم لوگوں نے ہی اُسے پہلی بار سنا۔ اس ناول کی اشاعت سے قبل ’’ ڈگڈگی‘‘، ’’پہچان‘‘ اور بعض دیگر افسانے چھپ چکے تھے لیکن ان کی ان ابتدائی کہانیوں نے اردو میں قابل قدر اضافہ کی حیثیت اختیار نہیں کی تھی لیکن یہ ضرور ہو گیا تھا کہ وہ بحیثیت افسانہ نگار اپنا مثبت اور صحت مند تعارف کر اچکے تھے۔
سولن کے بعض ایام میں انہوں نے کچھ اور بھی افسانے ’’ حیرت فروش‘‘، ’’تیشہ‘‘، ’’یوکلٹپس اور دیواریں ‘‘ لکھے۔ کہانیوں کا مزاج و ماحول ان کے پچھلے افسانوں سے خاصا مختلف تھا۔ ان میں ایک خاص قسم کا جغرافیائی و ثقافتی ماحول کام کر رہا تھا۔ پہاڑ، آبشار، ندی نالے، پیڑ پودے، کھیت، باغ، چرند، پرند اور عام دیہی و عوامی مزاج کے انسان۔ اردو میں ان دنوں عجب قسم کے علامتی تجریدی نوعیت کے افسانے لکھے جا رہے تھے لیکن غضنفرؔ کے یہ افسانے اس نوعیت کے نہ تھے لیکن روشن علامت نگاری اور تہہ دار بیانیہ سے الگ بھی نہ تھے کہ اس عہد کے افسانوں میں فکرو فن کی بظاہر عام صورتیں اس بات کا بھی اعلان کر رہی تھیں کہ غضنفرؔ کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔ اس کے ذہن میں بہت کچھ پک رہا ہے جس کی چنگاریاں افسانوں کے مختصر کینواس میں سما نہیں پا رہی ہیں اس لیے ان میں فنکارانہ تشنگی رہ جاتی ہے۔ چنانچہ وہ تشنگی جو ان کے اس عہد کے افسانوں میں بظاہر کمزوری سمجھی جا سکتی ہے اس نے ان کے ناول کا مرکزی خیال اختیار کر کے علامتی بیانیہ کی ایک انوکھی اور البیلی صورت اختیار کی پوری مہارت اور بلاغت کے ساتھ۔
غضنفرؔ ۸۶ یا ۸۷ میں الہ آباد اپنے شاگرد واساتذہ کے ساتھ آئے۔ میں نے ہی سب کے قیام و طعام کا اہتمام کیا۔ یہ سب تقریباً پندرہ روز رہے۔ اس درمیان متعدد نشستیں ہوئیں۔ ایک نشست میں انھوں نے اپنے ناول ’’ پانی‘‘ کا مسودہ پڑھا۔ ہم سب اس کی اردو دانی، تخلیق اور علامتی زبان اور طرح طرح کی ترکیبوں اور اصطلاحوں کو سن کر حیران رہ گئے۔ اس ناول میں ایک ماہر زبان داں ناول نگار اور مفکر بول رہا تھا۔ اس وقت جو تبصرے ہوئے سو ہوئے میری حیرانی یہ تھی کہ بھولے اور سیدھے سے غضنفرؔ میں اتنی دانشوری اور فنکاری کہاں سے آ گئی۔ وہ غضنفرؔ جو علی گڑھ میں اپنے تقرر کے لیے ذرا بھی حکمت عملی سے کام نہ لے سکا، اپنے گھر میں چراغ نہ روشن کر سکاوہ دوسروں کی روشنی اور پیاس کے لیے کس قدر تڑپ رکھتا ہے۔ میرے دل میں ایک دوست کی حیثیت سے غضنفرؔ کے لیے جو پیار تھا اس نے ایک قاری کی حیثیت سے عزت کا روپ لے لیا اور مجھے صاف اندازہ ہونے لگا کہ بحیثیت فکشن رائٹر جلد ہی غضنفر اپنا مقام بنا لے گا لیکن تھوڑی سی فکر بھی تھی کہ اس راہ میں بھی جو چلت پھرت اور کرتب بازی کی ضرورت پڑتی ہے، اسے غضنفرؔ کس طرح سےا پنا سکے گا۔ اس لیے کہ اسے تو یہ سب آتا ہی نہیں ہے۔ لیکن فکر و فن کا طلسم ایک ایسا طلسم ہے جو ہزاروں کرتب بازیوں کو روند کر اکادمیوں و اداروں کے اعزاز کو ٹھوکر مار کر قارئین کے دل و دماغ پر اپنا اثر دکھاتا ہے اور ان کے ہاتھوں توجہ اور پسندیدگی کا وہ تاج پہنتا ہے جو بڑے بڑوں کے نصیب میں نہیں آتا۔
ہم سب واقف ہیں کہ ۱۹۹۰ٰ کے آس پاس اردو کے جن تین ناولوں نے اردو ناول کا رخ موڑ دیا ان میں عبد الصمد کا ’’ دو گز زمین ‘‘ پیغام آفاقی کا ’’ مکان‘‘ کے ساتھ ساتھ غضنفر کا ناول ’’پانی‘‘ بھی تھا۔ ’’پانی‘‘ کے ہر طرف چرچے، تذکرے اور تبصرے تھے اور آج بھی ہیں۔ آج سے تقریباً بارہ تیرہ سال(۸۹) قبل چھپا محض سو صفحات پر مشتمل یہ ناول وہ کام کر گیا جو موٹے موٹے ناول نہ کر سکے۔ آج بھی نئی ناول نگاری کی ابتداء کی بات ہو گی تو ’’پانی‘‘ کا ذکر ضرور ہو گا۔ آخر کوئی تو بات ہے کہ ’’پانی‘‘ کے اس بہاؤ میں بڑے بڑے شاطر اور بڑے بڑے پرویز بہہ گئے۔ سبھی حیران تھے، میں بھی حیران تھا لیکن میری حیرانی اس ناول کی زبان کو لے کر زیادہ تھی۔ ایسی مفرّس و معرّب اور کلاسیکی زبان غضنفر نے کہاں سیکھی؟ کیا اس کا شاعر ہونا کام آیا یا شبلی پر کام کرنے کے جوش نے رنگ دکھایا۔ یا سولن میں اردو املا اور اردو لسانیات کے نئے نئے سبق سیکھ کر اس نے یہ قدیمی اور کلاسیکی زبان استعمال کی۔ بہر حال ’’پانی‘‘ کی کامیابی کی جتنی خوشی غضنفرؔ کو تھی کہ وہ بہر حال اس کے اصل خالق ہیں اتنی ہی مجھے بھی کہ اس کی اشاعت سے قبل اس کو سنتے وقت و رائے مشورہ کے وقت گفتگو در گفتگو، کردار در کردار میں بھی اس میں شریک تھا اس لیے میں اپنے آپ کو ’’پانی‘‘ کا کوآتھر (Co-Auther) سمجھ رہا تھا۔
غضنفرؔ کی اکثر کہانیوں اور ناولوں کے پہلے قاری میں یا طارق رہے ہیں، وہ جتنے بھولے پن سے اپنی تخلیقات سناتا ہے اتنی ہی معصومیت و فراخدلی سے ہماری تنقید بھی برداشت کرتا ہے۔ یہی اس کا بڑکپن ہے اور اس کی تخلیقی عظمت کی دلیل بھی۔ مجھے اس بات کی بے انتہا خوشی تھی کہ تر بتوں کے شہر کے مقابلے پر بتوں کا یہ شہر اس کو راس آ رہا تھا۔ گوپال گنج سے نکلے ہوئے غضنفرؔ کو علی گڑھ تو اتنا راس نہیں آیا لیکن سولن اور شملہ ضرور موافق اور ہموار تھا۔ شبلی اور شاعری کے مقابلے افسانہ نگاری اسے موافق آ رہی تھی اور علی گڑھ کی چائے کے مقابلے سولن کا پانی اسے نہ صرف سر سبز و شاداب کر گیا بلکہ اس نے اس کی فکری اور تخلیقی سفر کے دھارے موڑ دیئے۔
اب ہر طرف غضنفرؔ کے چرچے تھے۔ شہرت تھی۔ ایسی شہرت جس سے بڑے بڑوں کے مزاج بدل جاتے ہیں اور ان پر غمناک نحوست اور المناک رعونت طاری ہو جاتی ہے لیکن میں نے دیکھا اور بہت قریب سے دیکھا کہ اس کا بھولا پن، معصومیت اور سادگی اسی طرح بر قرار ہے بلکہ اس نے دو قدم آگے بڑھ کر انسان دوستی اور روشن خیالی کا روپ اختیار کر لیا تھا جس کی وجہ سے اس کے اندر ایک تخلیقی سنجیدگی کا اضافہ ہو گیا تھا جس نے اس کو خود نگری اور خود نمائی کے مذمومانہ عناصر سے دور رکھا۔ ایسا اس لیے بھی ہوا کہ اس کی فطرت ہی اس سے مختلف ہے اور یہی فطرت ہی اسے لے گئی ان عناصر کی طرف جو بعد میں اس نے اپنے دیگر افسانوں اور ناولوں میں جذب و پیوست کیے اور اس کا تخلیقی سفر تیزی سے آگے بڑھتا گیا۔ اس درمیان ملک کے حالات بدلے۔ فرقہ وارانہ سیاست، تفریق اور نفرت نے زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کیا۔ اس ضمن میں ۹۲ء میں بابری مسجد کا حادثہ تو ایک علامت بن گیا۔ اس عہد کے تقریباً تمام شاعر اور افسانہ نگار اس ماحول سے متاثر ہوئے اور الگ الگ انداز سے موضوعات پر لکھنا شروع کیا۔ کچھ افسانہ نگاروں نے اس سنجیدہ اور حساس موضوع کے ساتھ بھی کھلواڑ کیا اور کرتب بازی دکھانی شروع کی، وہ ان کی مجبوری بھی تھی اور کمٹ منٹ کی کمزوری بھی لیکن غضنفر جیسے افسانہ نگار نے اس موضوع کو نئے ڈھنگ سے برتا۔
طبیعت کی شرافت اور انسانیت نے اپنا اثر دکھایا۔ اس نے نہایت سادگی کے ساتھ فرقہ واریت جیسے نازک موضوع کو آسان تر اور پر اثر بنا دیا۔ ملاحظہ کیجیے اس کے افسانے ’’خالد کا ختنہ‘‘۔ ’’کڑوا تیل‘‘ اور بعض دوسرے افسانے جن کے عنوانات ہی بتا رہے ہیں کہ وہ ہماری روز مرہ کی زند گی سے کس قدر قریب ہیں۔ ان افسانوں کو پڑھیے اور غضنفرؔ کی بے تکلّف گھریلو قسم کی شخصیت پر غور کیجیے۔ غضب کی مماثلت نظر آئے گی۔ لیکن یہ مماثلت وہی محسوس کر سکتا جس نے ان دونوں کو قریب سے پڑھا اور محسوس کیا ہو۔ ان کے بعد کی کہانیوں کو پڑھیے تو صاف اندازہ ہو گا کہ غضنفرؔ شعر تو سہل ممتنع میں کہتے ہی ہیں افسانے بھی سہل ممتنع میں لکھتے ہیں اور اپنی زند گی بھی سہل ممتنع میں بسر کر تے ہیں۔ غضنفرؔ کی شخصیت اور فن کے اس اسلوب اور ہنر کو دیکھ کر یہ احساس یقین میں بدل گیا کہ فن تو در اصل مشکل بات کو سہل ممتنع میں کہنے کا ہی نام ہے، جینے کا نام ہے اور زندۂ جاوید ہونے کا نام ہے۔ ان کے افسانوں میں ہی نہیں ان کی زند گی میں بھی یہ فن بدرجۂ اتم موجود ہے۔
چند برسوں کے بعد غضنفرؔ کا ٹرانسفر لکھنؤ ہو گیا۔ ہم اور قریب آ گئے۔ اس قربت سے اندازہ ہوا کہ بکھرے ہوئے غضنفراؔ ب منظّم انداز میں کام کرنے لگے ہیں۔ کہہ نہیں سکتا کہ یہ مزاج ان کو دفتر نے دیا یا بشری بھابی نے۔ اس طرح انھوں نے ادب میں بھی اپنی بعض بکھری ہوئی کہانیوں کو نظم و ضبط دے کر ’’کہانی انکل‘‘ نام کا ناول لکھ دیا۔ جو بالکل ایک الگ نوعیت کا ناول ہے۔ اس کے بعد ایک اور ناول ’’کینچلی‘‘ لکھا۔ ’’کہانی انکل‘‘ پر ہم نے الہ آباد میں مذاکرہ بھی کیا۔ ناول پسند ضرور کیا گیا لیکن ’’پانی‘‘ جیسی شہرت اسے نہ مل سکی۔ پہلی تخلیق ہٹ ہو جائے تو یہ مشکل تو ہوتی ہی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ لکھنؤ میں مجھے انہوں نے اپنے تازہ ناول ’’دویہ بانی‘‘ کا مسودہ پڑھ کر سنایا جو اس وقت مجھے پسند نہ آیا تھا۔ شاید اس لیے کہ اس کی زبان سخت ہندی تھی جو اس وقت تک مجھے پسند نہ آئی لیکن جب ’’دویہ بانی‘‘ چھپ کر آیا اور میں نے با ضابطہ اس کا مطالعہ کیا تو میں اس کی ہندی دانی پر دنگ رہ گیا۔ ’’پانی‘‘ کی زبان کے بالکل بر عکس وہ ایک بہترین قدیم ہندی زبان میں لکھا گیا ہندو سبھیتا پر بہترین ناول ہے۔
وہ ایک دلت نظام پر لکھا گیا اردو کا پہلا ناول ہے جس میں باقاعدہ صرف زبان ہی نہیں کردار ہی نہیں، مکمل نظام اور اس نظام سے نہ جانے کتنے اٹھتے ہوئے سوال اور استحصال جنم لے رہے ہیں۔ میں حیران رہ گیا کہ ہندوستان کے قدیم اور جدید سماجی نظام اور انسانی استحصال کو لے کر اتنے معنی خیز اور فکر انگیز سوال غضنفرؔ کے ذہن میں کہاں اور کس طرح سے آئے ؟ اور اس نے یہ پختہ اور کلاسیکی ہندی زبان کہاں سے سیکھ لی ؟میں نے ’’دویہ بانی‘‘ کو دو بار پڑھا اور ناول سے متعلق اپنے ایک مضمون میں اس کا خوب خوب ذکر بھی کیا لیکن یہ سوال اس وقت اور کلبلانے لگا جب اس نے اپنی تازہ کہانی ’’سائبر اسپسؔ ‘‘ نیا سفر، کے فکشن نمبر کے لیے دی۔ اس کو پڑھنے کے بعد بھی میری حیرانی میں اضافہ ہی ہوا کہ یہ تو ہم سے اور ہماری آئیڈیولوجی سے زیادہ ترقی پسند ہے۔ اس حد تک ہم تو صرف باتیں کرتے ہیں غضنفرؔ نے تو ’’دویہ بانی‘‘ اور اس کے بعد کی کہانیوں میں اپنے خیالات کو ایک فیصلہ کن ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ غضنفرؔ نے اردو کے تازہ ترین فکشن کو جو مسئلہ اور جو بیانیہ دیا ہے اور دیتا جا رہا ہے اس کی آج سخت ضرورت ہے۔ غضنفرؔ جس راستے پر چل پڑے ہیں اس راہ پر اگر چہ اردو فکشن جو پہلے قدرے گمراہی کا شکار تھا، اب چل پڑا ہے اور اسے راہ راست پر لانے میں غضنفرؔ کی نسل کا ہاتھ تو ہے ہی خود غضنفرؔ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
اس درمیان جانے انجانے میں عملی زندگی میں غضنفر سے ایک چوک بھی ہو گئی۔ علی گڑھ کی تعلیم و تربیت نے انہیں مدرّس ہونے کی چاہ تو پیدا کر ہی رکھی تھی۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے وابستہ ہونے کی خواہش بھی دبی ہوئی تھی، جو ایک خاص موقع پر ابھری اور ایک موقع ملا تو وہ اپنی پختہ ملازمت اور پرنسپل شپ چھوڑ کر عارضی طور پر شعبۂ اردو میں ریڈر ہو گئے لیکن ڈھائی تین سال گزر جانے کے بعد بھی وہ جب وہاں مستقل نہ ہوئے یا نہیں ہونے دیا گیا تو مجبور ہو کر انھیں واپس آنا پڑا لیکن اس درمیان انھوں نے اپنا مکان بنوا لیا اور بیوی بچوں کو بھی مستقل کر دیا۔ ڈھائی تین سال کا یہ وقفہ ایک تلخ احساس کی طرح ان کے سینے میں اٹک گیا لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ وہ اپنی واپسی پر رنجیدہ نہیں ہیں بلکہ خوش ہیں اور خوب کام کر رہے ہیں۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ یہاں رہ کر جتنا کام کر سکیں گے علیگڑھ میں رہ کر نہیں کر سکتے تھے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ غضنفر کی سادگی اس کی شریفانہ سوچ اور خلّاقانہ اُپج سولن شملہ جیسی وادیوں میں تو گل کھلاسکتی ہے علی گڑھ میں نہیں۔ علی گڑھ میں رہتے تو صرف شاعر ہوتے لیکن اس میں بھی وہ عبید صدیقیؔ ہوتے نہ اسعد بدایونی، البتہ مہتاب حیدر نقوی کی طرح ضرور ہو جاتے۔ اچھے شاعر اچھے دوست اور اچھے انسان۔ لیکن گوشہ نشین۔ آج جو ایک افسانہ نگار اور ناول نگار کی حیثیت سے اس کی شہرت ہند و پاک کی سر حد کو چھو رہی ہے شاید وہ مقدر میں نہ ہوتی اور اردو کا نیا ناول اور افسانہ ان کے قابل ذکر افسانوں اور ناولوں سے یقیناً محروم رہتا۔ اس بات کا احساس غضنفرؔ کو علی گڑھ کے پہلے طویل قیام میں ہوا ہو یا نہ ہوا ہو اس ڈھائی تین سال کی مدّت میں ضرور ہو گیا۔ اس لیے اب جہاں وہ ہے خوش اور مطمئن ہے اور اس کے میرے جیسے احباب بھی خوش اور مطمئن ہیں۔
غضنفرؔ آج اردو فکشن کا بہت اہم اور شہرت یافتہ نام ہے لیکن یہ شہرت اس نے ادبی ریاکاری اور افسانوی کرتب بازی یا شاعرانہ مکرو فریب سے حاصل نہیں کی جیسا کہ ان دنوں عام ہے۔ شہرت و سعادت اس نے واقعی اپنی ریاضت، محنت شخصیت کی سادگی اور ایمانداری اور فنکارانہ ذمہ داری کو باہم متھ کر فکشن کا ایک فکری اور فطری راستہ اپنا کر حاصل کی۔ اگر ایک طرف اس نے ’’پانی‘‘ میں اردو زبان کی مہارت اور خلاقی دکھائی تو دوسری طرف ’’دویہ بانی‘‘ جیسا نال لکھ کر ہندو تہذیب کے دیرینہ فرسودہ نظام کی نقاب کشائی کی۔ ان دونوں کے درمیان ان کی کہانیاں ملی جلی زبان، بیان، اسلوب آہنگ کا نمونہ ہیں اس لیے کہ وہ اپنی بات کو عام آدمی تک پہچانا چاہتا ہے۔ کچھ یہ بھی ہے کہ جو کچھ آسان زبان لکھ سکتا ہے وہی مشکل زبان بھی لکھ سکتا ہے اور جو صرف مشکل زبان لکھتا ہے وہ آسان زبان نہیں لکھ سکتا، تخلیقی زبان تو لکھ ہی نہیں سکتا۔ اس کے حصہ میں صرف افلاطونی زبان ہی آتی ہے اس لیے وہ اپنے کو بہت جلد افلاطون سمجھنے لگتا ہے۔ لیکن ایسے بقراط قسم کے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ افلاطونی شخصیت، ناموسی قابلیت، دانشورانہ اظہاریت یہ سب وہ ظاہری صفات ہیں جنہیں عام انسانی تہذیب اور ادبی تاریخ بہت جلد بھلا دیتی ہے اس لیے کہ یہ سب عملی طور پر اندر سے کھوکھلی ہو جاتی ہیں۔
غضنفرؔ کی یہی ادا انھیں بحیثیت انسان اور بحیثیت فنکار زندہ رکھے گی کہ انہوں نے اپنی غزل گوئی کو غزل بازی میں نہیں بدلا اور اپنی افسانوی حقیقت کو غیر حقیقی افسانوں کی شکل میں نہیں پیش کیا۔ ان کے بعض ناول علامتی، تخّیلی ضرور ہیں لیکن ان سب کا ماضی سے لے کر حال تک کی حقیقت سے گہرا تعلق ہے۔ وہ لکچرر ہوئے، ریڈر ہوئے، پرنسپل ہوئے، شاعر، افسانہ نگار اور ناول نگار سبھی کچھ ہوئے لیکن افلاطون نہیں ہوئے۔ ایک اچھے انسان اور اچھے دوست ہی رہے۔ اس لیے آج بھی ان کے ذہن میں ایک عام انسان کے طرح طرح کے دکھ دردو مسائل کی داستان بسی ہوئی ہے جو خون جگر کے ذریعہ ان کے افسانوں میں ڈھلتی رہتی ہے اور وہ اس کو پورے درد مندانہ اور فنکارانہ انداز میں پیش کرتے جا رہے ہیں۔ اپنی شخصیت کی بھر پور سادگی اور ہمدردی کے ساتھ، فکرو عمل کا یہ وہ عمل ہے جس سے دیدہ و دل آئینہ کی طرح صاف و شفاف رہتے ہیں۔ یہی پاکیزہ آلود گی یا آلودہ پاکیزگی ان کی تخلیقات میں منعکس ہے جس میں آپ بہ آسانی آج کے عہد کا پورا انسان اور ہندوستان دیکھ سکتے ہیں۔
ایسا لگتا تو ہے کہ غضنفرؔ نے شعوری یا لا شعوری طور پر تخلیق کی عظمت کا یہ راز اپا لیا ہے اور راہ بھی لیکن ابھی شاہراہ پر چلنا باقی ہے لیکن ان کی عرق ریزی، درد مندی، کوشش و کاوش کا سفر یونہی جاری رہا اور وہ اس راہ پر پھونک پھونک کر قدم رکھتے رہے تو یقین کامل ہے کہ آنے والا وقت انھیں اس منزل پر لاکھڑا کرے گا جہاں پہنچنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ جہاں تک غضنفرؔ ، طارقؔ اور فاطمیؔ کے رشتوں اور محبتوں کا تعلق ہے تو اس کو رقم کرنے کے لیے ایک عمر چاہیے جو فی الحال ممکن نہیں اس لیے کہ ابھی تو ہماری دوستی کی صرف ایک ربع صدی ہی گزری ہے۔ ذرا نصف صدی تو گزرنے دیجیے ہمیں یقین ہے کہ ہم اس وقت بھی یہی کہیں گے کہ ؎
یہ زند گی تو بہت کم ہے دوستی کے لیے
کہاں سے وقت نکلتا ہے دشمنی کے لیے
٭٭٭