ہندوستانی معاشرے کے دبے کچلے، پسے ہوئے اور پس ماندہ طبقے کے لوگ آج ’دلت‘ کہے جاتے ہیں۔ گاندھی جی نے انھیں ’ہر یجن‘ کا نام دیا تھا۔ سرکاری طور پر انھیں ’شیڈولڈ کاسٹ‘ کہا جانے لگا۔ دلت در اصل ہندوؤں کی نچلی ذات (Low-caste) سے تعلق رکھنے والے وہ غریب، کم زور اور پچھڑے ہوئے لوگ ہیں جنھیں ہندو طبقۂ اشرافیہ نے سماجی، تہذیبی اور مذہبی سطح پر الگ تھلگ کر کے رکھ دیا ہے۔ اونچی ذات کے ہندوؤں کے ذریعے دلتوں کا استحصال اور ان کی ذلت و خواری کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ سلسلہ ویدک عہد سے جاری ہے۔ ہندوؤں کی قدیم مقدس کتاب ’مانو دھرم شاستر‘ (جسے Laws of Manu بھی کہتے ہیں ) کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ قدیم عہد میں ہندو معاشرے کی بنیاد ذات پات کی تفریق پر رکھی گئی تھی۔ اونچی ذات کے ہندوؤں یا طبقۂ اشرافیہ میں برہمن، چھتری، اور ویش شامل کیے گئے تھے جنھیں الگ الگ کام اور ذمے داریاں سونپی گئی تھیں، اور نچلی ذات کے ہندو شودر کہلاتے تھے جنھیں اونچی ذات کے ہندوؤں کی خدمت گزاری پر مامور کیا گیا تھا۔ ان میں سے کسی کی بھی ذات تبدیل نہیں ہو سکتی تھی۔ ان کی آئندہ نسلوں کی ذات بھی وہی مانی جاتی تھی جو ان کے پورو جنوں یعنی آباء کی ذات ہوتی تھی۔ ان چار ذاتوں کے علاوہ ہندوؤں کا ایک اور طبقہ بھی تھا جسے ذات سے باہر (Outcaste) سمجھا جاتا تھا، اور یہ ’اچھوت ‘ کہلاتا تھا۔ انھیں ایسے ادنیٰ کام سونپے گئے تھے جنھیں سرانجام دینا باعثِ عار اور موجب شرم و ذلت سمجھا جاتا تھا۔ یہی اچھوت اور شودر آج کے دلت ہیں۔ غضنفر کا ناول ’دِویہ بانی‘ (۲۰۰۰ئ) اسی سماجی و تہذیبی تناظر میں لکھا گیا ہے۔
کئی جدید ہندوستانی زبانوں، مثلاً مراٹھی، گجراتی، ہندی، تامل، تلگو، وغیرہ کے ادب میں دلتوں کے مسائل اور ان کی طرزِ زندگی پر خاصی توجہ دی گئی ہے، لیکن اردو میں پریم چند (۱۸۸۰ تا ۱۹۳۶ء) سے قبل دلتوں کی حالت کی جانب کسی ادیب کی توجہ مبذول نہیں ہوئی تھی۔ پریم چند غالباً پہلے اردو ادیب ہیں جنھوں نے اپنے ناول ’گوشۂ عافیت‘ (۱۹۲۰ئ) میں کسانوں کے ساتھ دلتوں کے دکھ درد اور مسائل کو بھی حقیقی رنگ میں پیش کیا۔ انھوں نے اپنا آخری افسانہ ’’کفن‘‘ (۱۹۳۶ء) بھی دلت تناظر ہی میں لکھا اور گھیسو، مادھو اور بدھیا جیسے ناقابلِ فراموش کردار تخلیق کیے۔ پریم چند کے بعد ایک طویل عرصے تک اردو میں کسی اور نے اس موضوع پر قلم نہیں اٹھایا، لیکن مابعد جدیدیت کے فروغ پاتے ہی ادبی صورتِ حال یکسر تبدیل ہو گئی اور بعض اردو ادیبوں نے دلتوں کے مسائل پر بھی لکھنا شروع کیا جن میں جابر حسین کے علاوہ ایک نمایاں نام غضنفر کا بھی ہے۔ انھوں نے ’دِویہ بانی‘ لکھ کر اردو ناول نگاری میں ایک نئے اور اچھوتے موضوع کا اضافہ کیا ہے، لہٰذا ’دِویہ بانی‘ کو اگر اردو کا پہلا باقاعدہ دلت ناول کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
(۲)
غضنفر نے ’دِویہ بانی‘ میں دلتوں کی زندگی اور ان کے رہن سہن کے طور طریقوں، نیز مسائل و مشکلات کی بہترین عکاسی کی ہے، اور ان کی ابتر سماجی حالت اور ان کے دکھ درد کو حقیقی رنگ میں پیش کیا ہے۔ اسی کے ساتھ انھوں نے دلتوں کا استحصال کرنے والوں کا بھی پردہ فاش کیا ہے۔ ’دِوّیہ بانی‘ کی قرأت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اونچی ذات کے ہندو (بالخصوص برہمن) دلتوں پر کیسے کیسے مظالم روا رکھتے ہیں۔ ذرا ذراسی بات پر انھیں کس بری طرح مارا پیٹا جاتا ہے۔ پوتربانی (مقدس کلام) دِویہ بانی سننے پر ان کے کان میں پگھلاہوا سیسا ڈال دیا جاتا ہے جو ان کی قوتِ سماعت کو سلب کر دیتا ہے، اور انھیں اس بری طرح زد وکوب کیا جاتا ہے کہ جسم لہولہان ہو جاتا ہے۔ انھیں ’بھگوان‘ کا نام لینے سے بھی منع کیا جاتا ہے۔ دلتوں کو ندی کے صاف پانی میں نہانا، جہاں اونچی ذات کے ہندو نہاتے ہیں، ورجِت (ممنوع) ہے۔ دلت مرد عورتوں کو گندے نالے کے پانی میں نہانا پڑتا ہے۔ دلت اونچی ذات کے ہندوؤں کے صاف ستھرے اور کشادہ رہائشی علاقے بامھن ٹولے سے دور ایک تنگ وتاریک گلیوں والی پرُ تعفن گندی بستی میں رہتے ہیں جو چمٹولی کہلاتی ہے۔ ان کے پھوس اور چھپرکے بنے مکان، دیواریں اور فرش دیکھ کر گھن آتی ہے۔ ان کے گھروں کی کیچڑ اور بدبودار پانی سے بھری لبالب نالیوں میں کلبلاتے ہوئے کیڑوں کو دیکھ کر متلی آنے لگتی ہے، اور گھروں کے آس پاس کی گندگی، غلاظت، کوڑوں کے ڈھیر، گوبر اور مَل موتر (بول و براز) سے اٹھنے والی بدبو سے دماغ پراگندہ ہواٹھتا ہے۔ دلتوں کے کھانوں کے برتن کتوں کے کھانے کے برتنوں جیسے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے کھانا بھی دوسرا بنتا ہے۔ جو بھوجن (کھانا) اونچی ذات کے ہندو کھاتے ہیں وہ انھیں نہیں دیا جاتا ہے۔ دلت کٹھن پر شرم (سخت محنت) کرتے ہیں، کیوں کہ اونچی ذات کے ہندوؤں کے بہ قول ’’ایشور نے شَرم (محنت و مشقت ) انھی کو سوپنا ہے۔ ‘‘ گاؤں کی پاٹھ شالا میں گرو جی دِویہ بانی سناتے ہیں، لیکن جو نچلی ذات کے ہندو ہیں ان کے لیے یہ نہیں ہے۔ اونچی ذات کے ہندو کہتے ہیں کہ ’’جو ہم میں سے نہیں ہے اس نے دویہ بانی سنی تو ڈنڈ (سزا) کا بھاگی ہو گا۔ ‘‘ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ’’ہمارے اترِکت (علاوہ) جو کوئی دِویہ بانی سنے گا، اس پر دیوتا کا شراپ (عذاب) پڑے گا۔ ‘‘
دلت مرد دبلے پتلے اور لاغر ہوتے ہیں جن کا اوپر سے نیچے تک رنگ میلا ہوتا ہے۔ دلت عورتیں بھی کالی کلوٹی ہوتی ہیں۔ ان کی ساڑی میلی چکٹ رہتی ہے۔ دلتوں کے بچے بھی دھول مٹی اور کیچڑ میں لت پت، گندے اور ننگ دھڑنگ رہتے ہیں۔ دلتوں کی غربت کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنا پیٹ بھرنے اور بھوک مٹانے کے لیے مرے ہوئے ڈانگر (جانور) کا سڑا ہوا مانس (گوشت) کھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ دلتوں کے بچے پاٹھ شالا نہیں جا سکتے، کیوں کہ وہاں دِویہ بانی سنائی جاتی ہے جو ان کے لیے ورجِت (ممنوع) ہے۔ دلت یہ سارے ظلم و ستم اور نا انصافیاں برداشت کرتے رہتے ہیں، لیکن اُف تک نہیں کرتے، کیوں کہ انھیں اونچی ذات کے ہندوؤں (برہمنوں ) کے عتاب کا ڈر ہر وقت ستاتا رہتا ہے۔
غضنفر کا یہ ناول دلتوں اور برہمنوں کے درمیان روایتی تضادات اور سماجی نابرابریوں کو بہ خوبی اجاگر کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بامھن ٹولے کے ایک معزز برہمن خانوادے کے بزرگ، جنھیں لوگ ’بابا‘ کہتے ہیں، کی شخصیت کے تضاد اور کردار کے دوہرے پن کو بھی طشت از بام کرتا ہے۔ بابا بہ ظاہر مذہب کے ٹھیکے دار اور اخلاقی قدروں کے پاس دار ہیں، لیکن بہ باطن بد طینت اور بدکردار۔ اس کا پردہ بالآخر فاش ہو جاتا ہے۔ ان تمام امور کے با وصف ’دِویہ بانی‘ برہمن زادے بالیشور اور ایک دلت کے پیٹ سے جنم لینے والی بندیا کے پیار کی کہانی بھی ہے جسے بیانیہ (Narrative) کی شکل دی گئی ہے۔
’دِوّیہ بانی‘ بیانیہ اسلوب میں لکھا ہوا ایک دلت ناول ہے۔ بیانیہ یا ادبی بیانیہ در اصل کہانی ہی کا دوسرا نام ہے جس میں کہانی ہی کی طرح پلاٹ، واقعات کا تسلسل اور کردار ہوتے ہیں۔ بیانیہ میں کہانی کی طرح کلائمکس (Climax) بھی ہوتا ہے۔ ایک مکمل بیانیہ میں بہ لحاظِ ترتیب تین حصے پائے جاتے ہیں یعنی، ابتدا-ارتقا-انتہا-انھیں ہم آغاز، وسط اور انجام بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ در اصل بیانیہ کی زمانی ترتیب ہے جو عمودی (Vertical)ہے۔ بیانیہ کہانی تو ہوتا ہی ہے، کہانی کا کوئی حصہ بھی بیانیہ ہو سکتا ہے۔ بیانیہ میں مصنف یا ناول نگار خود راوی یا بیان کنندہ (Narrator) ہوتا ہے، لیکن اگر بیانیہ طویل ہے تو اس کا کوئی کردار بھی راوی بن سکتا ہے، مثلاً دانو اور دیوتا کے درمیان امرت حاصل کرنے کے لیے جو یدھ (جنگ) ہوا تھا اور جس میں دیوتاؤں کی جیت ہوئی تھی اس کا راوی اس یدھ کے ناٹک میں بھاگ (حصہ) لینے والا جاگیشور ہے جو اس ناول کا ایک کردار ہے۔ اسی طرح گاؤں کی ناٹک منڈلی میں کھیلے گئے ایک ناٹک میں برہما ایک کردار کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں اور اپنے سر، بازو، پیٹ، اور پیر سے انسانوں کی تخلیق کرتے ہیں، پھر کہتے ہیں، ’’میں برہما ہوں، تم سب کا جنم داتا، مجھے پر نام کرو‘‘۔ اس کے بعد کے پورے منظر نامے کے راوی برہما ہی ہیں۔
ناول کا تانا بانا ذات پات کے بھید بھاؤ اور سماجی تفریق کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے جس میں ہندو دیومالائی عناصر کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ اس میں رونما ہونے والے واقعات میں زمانی تسلسل ہے اور کرداروں کے فعل و عمل کے ذریعے بیانیہ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے، ارتقا کی منزلیں طے کرتا ہے، اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب یہ اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ اس ناول کا فکری محور قدم قدم پر پائے جانے والے تضادات، فرسودہ عقائد، کھوکھلی مذہبیت، سماج کے دوہرے معیار، منفی اقدار اور جبرو استحصال، نیز طبقۂ اشرافیہ کے وضع کردہ صدیوں پرانے نارم (معمول) کے خلاف احتجاج (Protest) ہے۔ اس اعتبار سے اسے ایک ’پروٹسٹ ناول‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہ بات دل چسپ ہے کہ صدائے احتجاج بلند کرنے والا کوئی اور شخص نہیں، بلکہ اسی طبقۂ اشرافیہ کا ایک روشن دماغ فرد بالیشور ہے۔
(۳)
یہ ادبی بیانیہ جھگرو نامی ایک دلت پر ڈھائے گئے ظلم و ستم کے بیان (Narration) سے شروع ہوتا ہے۔ جھگروکاقصور صرف اتنا ہے کہ اس نے دِویہ بانی سن لی تھی۔ اس جرم کی پاداش میں اسے اس حد تک مارا پیٹا جاتا ہے کہ اس کا جسم شدید طور پر زخمی ہو جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ اس کے کان میں پگھلا ہوا سیسا بھی ڈالا جاتا ہے۔ وہ ہَون کنڈ کے چبوترے کے نیچے پتھریلی زمین پر قربانی کے جانور کی طرح پچھاڑیں کھاتا ہے۔ ان مظالم کے ڈھانے والے بامھن ٹولے کے وہی بابا ہیں جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے، اور جھگرو ان کاداس (ملازم) ہے۔ بابا اس دلت کو اذیت پہچانے کے ساتھ ساتھ ہَون کنڈ کے چبوترے پر بیٹھے پر سکون انداز میں ہَون کی کریا بھی پوری کرتے جاتے ہیں۔ اس جگر خراش منظر کو بابا کا پوتا بالک (بالیشور) بھی دیکھتا ہے۔ اس کے دل میں جھگرو سے ہم دری اور بابا کے خلاف شدید نفرت کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ بابا سے اس واقعے سے متعلق طرح طرح کے سوالات کرتا ہے جن کے جواب سے وہ قاصر رہتے ہیں۔ جھگرو کا بیٹا بالو بھی اسی گھر میں ملازم ہے۔ وہ بالیشور کی دیکھ بھال پر مامور ہے۔ بالو اور بالیشور ہم عمر ہیں۔ ان دونوں میں دوستی کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے، لیکن بابا اسے پسند نہیں کرتے۔ ایک دن بالیشور بالو کے ساتھ جھگرو کو دیکھنے اس کے گھر (چمٹولی ) جاتا ہے جہاں کی غربت، غلاظت، گندگی، تعفن اور ابتر معاشی حالت کو دیکھ کر اس کا دل بری طرح دکھتا ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ اس میں اور بالو یا جھگرو میں اتنا فرق کیوں ہے، چمٹولی کے لوگ اتنے گندے کیوں رہتے ہیں، اور ان کے بچے پاٹھ شالا کیوں نہیں جاتے، نیز بالو اور اس کے گھر والے دِویہ بانی کیوں نہیں سن سکتے ؟ وہ یہی سوالات پاٹھ شالا کے گروجی سے بھی کرتا ہے جو بچوں کو روز دِویہ بانی سناتے ہیں۔ گروجی پہلے تو ان سوالوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن بالیشور کے کافی اصرار پر وہ یوں گویا ہوتے ہیں: ’’بات یہ ہے کہ برہما نے ہمیں ار تھات ہمارے پرتھم پور وَج کو اپنے سر سے جنم دیا تھا اور جھگرو کے پرتھم پور وَج کو اپنے پاؤں سے نکالا تھا۔ سر اور پاؤں میں جو انتر ہے وہی ہم میں اور جھگرو میں ہے۔ ہم سر کا استھان رکھتے ہیں اور جھگرو پاؤں کا۔ سر اوپر ہوتا ہے اور پاؤں نیچے ‘‘ (ص ۳۳)۔ گروجی بقیہ سوالوں کے جواب دینے سے گریز کرتے ہیں اور اپنی ناراضگی کا بھی اظہار کرتے ہیں۔ بالیشور کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا ہے، لیکن وہ ان سب باتوں سے بے حد فکر مند رہتا ہے۔ بالیشور ایک رات خواب میں دیکھتا ہے کہ ایک نہایت خوف ناک سانپ بابا کے کمرے میں سے نکل کر باہر جاتا ہے اور کبوتروں اور میمنوں کو ڈس کر پھر بابا کے کمرے میں آ جاتا ہے۔ خوف اور دہشت سے اس کی آنکھ کھل جاتی ہے اور وہ بہت دیر تک اس خواب سے پریشان رہتا ہے۔ ماں اسے تھپکی دے کر دوبارہ سلادیتی ہے۔
بالیشور کے گھر میں چمٹولی میں رہنے والے بھیکو کی نوعمر بیٹی بندیا داسی (ملازمہ) ہے۔ وہ اس کی ماں کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی ہے۔ ایک دن وہ بابا کے کمرے میں سے نہایت بدحواسی کے عالم میں روتی ہوئی اور منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے تیزی سے باہر نکلتی ہے۔ اس کی ساڑی پر خون کے دھبے نمایاں ہیں۔ بالیشور یہ منظر دیکھتا ہے، لیکن اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ بابا کو جب یہ پتا چل جاتا ہے کہ بالیشور نے بندیا کو اس حالت میں ان کے کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھ لیا ہے تو وہ اس سے کہتے ہیں کہ بندیا کا کوئی گھاؤ تھا جو پھوٹ گیا ہے اور اس سے خون بہنے لگا ہے۔ اسے فوراً کسی وید کے پاس جانا چاہیے۔ بالیشور کی ماں کو جب یہ بات معلوم ہوتی ہے تو وہ حیران وششدر رہ جاتی ہے۔ ماں کی اتنی زیادہ حیرانی کی وجہ اس کی سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ ماں بالیشور سے کہتی کہ بابا کے و شرام (آرام) کے سمے ان کے کمرے کی طرف مت جایا کرو۔ ان کے و شرام میں بادھا پڑتی ہے۔ بالیشور اس واقعے سے اُس وقت کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ لیکن اس کی تصویر اُس کے پردۂ ذہن پر نقش ہو کر رہ جاتی ہے۔
بالو اور بالیشور کی دوستی، ان دونوں کے درمیان سماجی نا برابر یوں کے باوجود پروان چڑھتی ہے۔ وہ دونوں ندی کے کنارے بیٹھے گھنٹوں باتیں کیا کرتے ہیں۔ بالیشور بالو کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ دِویہ بانی سن لے۔ بالو صاف منع کر دیتا ہے۔ اس تصور سے اس کی روح کانپ اٹھتی ہے کہ اگر اس نے دِویہ بانی سن لی تو اس کا بھی حشر وہی ہو گا جو اس کے باپ جھگرو یا چمٹولی کے دوسرے دلتوں کا ہوا تھا۔ جب بالیشور بالو کو اس بات کا پورا یقین دلاتا ہے کہ وہ اس کا ذکر کسی سے بھی نہیں کرے گا تب بڑی مشکل سے وہ دِویہ بانی سننے کے لیے راضی ہو جاتا ہے۔ دِوّیہ بانی اسے اچھی تو لگتی ہے، لیکن اس کے دل میں یہ خوف بھی سما جاتا ہے کہ اگرکسی کو اس بات کا پتا چل گیا تو کیا ہو گا۔ دھیرے دھیرے بالو میں کچھ تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کا گھر اور نالی بھی اب صاف ستھری رہنے لگتی ہے۔ بابا کو اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ ایک دن انھیں اپنے مخبروں کے ذریعے یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ بالو نے دِویہ بانی سن لی ہے، لیکن یہ بات ان کے لیے معمابنی رہتی ہے کہ بالو کو دویہ بانی کس نے سنائی۔ ان کا شک بالیشور پر جاتا ہے، لیکن ان کے پوچھنے پر وہ صاف ان کار کر دیتا ہے کہ بالو کو دویہ بانی اس نے نہیں سنائی۔ بابا اس بات سے بے حد فکر مند رہتے ہیں۔ بالآخر وہ بالو ہی سے پوچھتے ہیں کہ کیا اس نے دویہ بانی سنی ہے، اور اگر سنی ہے تو یہ اسے کس نے سنائی۔ بابا اس سے یہ بھی کہتے ہیں کہ جھوٹ بولنے والا نرک (دوزخ) میں جاتا ہے، اسے کوڑھ ہو جاتا ہے اور وہ منہ سے لہو تھوکنے لگتا ہے۔ بابا جب اسے اس بات کا پورا یقین دلاتے ہیں کہ سچ بولنے پر اس کی سزا میں تخفیف کر دی جائے گی اور معمولی سی سزادے کر اسے چھوڑ دیا جائے گا اور دِویہ بانی سنانے والے کو بھی معاف کر دیا جائے گا، تب بابا کی بات کا یقین کرتے ہوئے بالو اس بات کا اقرار کر لیتا ہے کہ اس نے دویہ بانی سنی ہے اور سنانے والا بالیشور ہے۔ بابا اس بات سے حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ دویہ بانی بالو کو بالیشور نے سنائی ہے۔ اب بابا کو اپنے پوتے کو بچانے کی فکر ستانے لگتی ہے، کیوں کہ انصاف کی رو سے بالیشور کو بھی ڈنڈ (سزا) ملنا چاہیے، کیوں کہ دِویہ بانی بالو کو اسی نے سنائی ہے۔ اب بابا بالو سے یہ جھوٹ کہلوانا چاہتے ہیں کہ اس کو دِویہ بانی بالیشور نے نہیں سنائی، بلکہ اس نے خود چپکے سے کان لگا کر سن لی۔ بالو بابا سے کہتا ہے کہ کیا ایسا کہنا جھوٹ بولنا نہیں ہو گا۔
اس واقعے کے چند روز بعد گاؤں میں ہون کنڈ تیار کیا جاتا ہے۔ اس کے آس پاس لوگ جمع ہونے لگتے ہیں اور بالو کو ڈنڈ دیے جانے کی پوری تیاری مکمل کر لی جاتی ہے۔ بابا ماتھے پر تلک لگائے پوری تیاری کے ساتھ ہَون کنڈ کے چبوترے پر براجمان ہوتے ہیں۔ بالیشور بھی وہاں پہنچ جاتا ہے اور سچ سچ بتا دیتا ہے کہ بالو کو دِویہ بانی اسی نے سنائی ہے، اس لیے سزا کا وہ بھی مستحق ہے۔ بابا اس کی کوئی بات نہیں سنتے ہیں اور مجمع سے کہتے ہیں کہ بالو ان کا مِتر (دوست) ہے، اس لیے وہ اسے ڈنڈ (سزا) سے بچانے کے لیے ایسا کہہ رہے ہیں۔ وہ اس وقت اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہیں۔ لوگ بابا کی باتوں کا یقین کر لیتے ہیں۔ بالو کو جس کے ہاتھ پیر مضبوط رسی سے بندھے ہوتے ہیں جانور کی طرح پچھاڑ کر زمین پر گرادیا جاتا ہے۔ بابا پتیلے میں کھولتے ہوئے مادے (سیسے ) کو بالو کے کان میں ڈال دیتے ہیں۔ بالو بلبلا اٹھتا ہے، اس کی آنکھیں ابل پڑتی ہیں۔ اس کی چیخ سے زمین و آسمان دہل اٹھتے ہیں۔ چمٹولی کے بچے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں، لیکن بابا کے چہرے پر اس کا کوئی اثر نمودار نہیں ہوتا ہے۔ بالیشور اس اندوہ ناک منظر کی تاب نہ لا کر سکتے کے عالم میں چلا جاتا ہے، پھر اچانک چلا اٹھتا ہے، ’’آپ بڑے نردئی (بے رحم)ہیں بابا! ایک دم کٹھور جیسے پتھر ہوتا ہے۔۔ ۔ پتھر تو پگھل بھی جاتا ہے، آپ پتھر سے بھی ادھک (زیادہ) کٹھور ہیں ‘‘ (ص ۱۱۲)۔ بالیشور بابا کو یہ بھی بتا دیتا ہے کہ ’’اس دن میرے سپنے میں جو سانپ آپ کے کمرے سے نکلا تھا، وہ سانپ نہیں تھا، بلکہ آپ سویم (خود ) تھے۔ آپ ہی نے اس دن کبوتروں کو ڈسا تھا، میمنوں کو کاٹا تھا، آپ سچ مچ۔۔ ۔۔ ‘‘ (ص ۱۱۲)۔ اس خوں چکاں واقعے کے بعد سے بالیشور اداس اور مغموم رہنے لگتا ہے۔ کبھی کبھی وہ رونے بھی لگتا ہے۔ اس کی ماں سے اس کی یہ گم سم حالت دیکھی نہیں جاتی ہے۔ وقت گذرتا جاتا ہے —–
بالیشور جوان ہو جاتا ہے اور سنجیدہ بھی۔ وہ گھنٹوں ندی کے کنارے بیٹھ کر کچھ سوچتا رہتا ہے، لیکن تنہا اور اداس۔ ایک دن ندی سے لوٹتے ہوئے وہ نالے کے گندے پانی میں چمٹولی کے بہت سے مردوں عورتوں اور لڑکے لڑکیوں کو ایک ساتھ نہاتے ہوئے دیکھتا ہے۔ اس کے پاؤں ٹھٹک جاتے ہیں۔ مرد تو سر سے پاؤں تک برہنہ ہو کر نہا رہے تھے۔ عورتوں کے جسم کا اوپری نصف حصہ عریاں تھا۔ صرف ناف سے نیچے جانگھ تک ساڑی لپٹی ہوئی تھی۔ پانی میں ڈبکی لگاتے وقت جب ساڑی اوپر اٹھتی تھی تو ان کی ٹانگیں اور رانیں ننگی ہو جاتی تھیں۔ بالیشور ان عورتوں کو گندے پانی میں نہاتے اور ڈبکی لگاتے ہوئے ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا ہے اور اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھتا ہے۔ چمٹولی کے مردوں اور عورتوں کا نالے کے گندے پانی میں اس طرح نہانا ان کا روز کا معمول تھا۔ نہ مرد عورتوں کو نیم برہنہ دیکھ کر جنسی جذبات سے مغلوب ہوتے تھے اور نہ عورتوں پر مردوں کی برہنگی کا کوئی اثر نمایاں ہوتا تھا، لیکن یہ مناظر پوری قوت کے ساتھ بالیشور کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ اب نالے پر جانا اور ان مناظر سے لطف اندوز ہونا اس کا روز کا معمول بن جاتا ہے۔ ایک دن نالے میں نہاتی ہوئی ایک لڑکی جو اس کی ہم عمر تھی اور جس کا جسم گداز اور چھاتیاں تنی ہوئی تھیں اس کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے۔ بالیشور اب جب بھی نالے پر جاتا تو نہاتی اور ڈبکی لگاتی ہوئی عورتوں اور لڑکیوں میں اسے ضرور تلاش کرتا۔ ایک دن جب وہ لڑکی نہا کر نالے سے باہر نکلتی ہے تو بالیشور اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگتا ہے۔ کچھ دور چلنے کے بعد وہ لڑکی سے اس کا نام پوچھتا ہے۔ لڑکی پیچھے مڑ کر کہتی ہے، ’’بندیا‘‘۔ یہ نام بالیشور کو کچھ مانوس سا لگتا ہے۔ پھر وہ لڑکی سے پوچھتا ہے کہ تم کیا کرتی ہو؟ وہ کہتی ہے کہ پہلے میں آپ کے گھر میں کام کرتی تھی۔ بالیشور کہتا ہے کہ اچھا تو تم وہ بندیا ہو، پھر کام کرنا کیوں چھوڑ دیا۔ وہ کہتی ہے، ’’بابا نے مجھے نکال دیا تھا‘‘۔ ’’کیوں ‘‘؟ بالیشور کے اس سوال پر بندیا بالکل خاموش ہو جاتی ہے۔ بالیشور اب بندیا سے تقریباً روز ملنے لگتا ہے۔ وہ تخیل میں بندیا کو گندے پانی کے نالے سے نکال کر ندی میں لے جاتا ہے جہاں وہ صاف و شفاف پانی میں نہا کر اجلی اور پرکشش ہو کر نکلتی ہے۔ وہ بندیا کو اپنے سینے سے لگا لیتا ہے۔ بندیا کو اب احساس ہوتا ہے کہ نالے کا پانی کتنا گندا اور بدبو دار ہے۔ وہ کنویں سے پانی لا کر اب اپنے گھر میں نہاتی ہے۔ بالیشور بندیا کے دامِ محبت میں بری طرح گرفتار ہو جاتا ہے۔ بندیا کی بے قراری بھی روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔ ایک رات بندیا اور بالیشور جب گاؤں کی جھاڑی کے پیچھے ملے تو ’’بے قابو ہو کر بالیشور نے بندیا کو اپنی آغوش میں بھرلیا۔ بانہوں کی گرفت مضبوط ہوتی گئی۔۔ ۔ وہ بندیا میں اور بندیا اس میں بے روک ٹوک اترتے چلے گئے۔ ‘‘ (ص ۱۳۳)۔
بندیا بالیشور کے بچے کی ماں بننے والی ہے۔ بالیشور اپنی ماں کے سامنے بندیا سے شادی کی تجویز رکھتا ہے۔ ماں اس تجویز کو سختی سے ناپسند کرتی ہے اور بالیشور کو اپنے اس ارادے سے باز رہنے کو کہتی ہے، کیوں کہ ایک شودر لڑکی برہمن خاندان کی بہو کبھی نہیں بن سکتی۔ بالیشور ماں سے کہتا ہے کہ وہ بندیا سے پیار کرتا ہے اور اس کے ساتھ شادی کے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اس کے پیٹ میں جو بچہ پل رہا ہے وہ برہمن کا بچہ ہے، کسی شودر کا بچہ نہیں۔ وہ اسے پالے پوسے گا، اس کی پرورش کرے گا، اور اسے پاٹھ شالا بھیجے گا جہاں وہ دوسرے بچوں کی طرح دِویہ بانی سنے گا۔ ماں کہتی ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ ماں صرف یہی نہیں سوچتی ہے کہ بندیا ایک شودر ہے، بلکہ اس کا ذہن اُس طرف بھی جاتا ہے کہ بندیا کے ساتھ بابا کا جنسی تعلق رہ چکا ہے۔ ماں یہ راز بالیشور سے چھپاتی ہے، لیکن جب بات بہت آگے بڑھ جاتی ہے تو ماں کو یہ راز افشا کرنا ہی پڑتا ہے۔ بالیشور کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر ابھر کر آ جاتا ہے جب ایک دن بندیا بدحواسی کے عالم میں روتی ہوئی منہ پر ہاتھ رکھے تیزی سے بابا کے کمرے سے نکلی تھی اور اس کی ساڑی خون کے دھبوں سے داغ دار تھی۔ بالیشور پر اب یہ بات منکشف ہو جاتی ہے کہ بندیا کی ساڑی میں لگا ہوا وہ خون گھاؤ پھوٹنے کا خون نہیں تھا، بلکہ اس کی وجہ دوسری تھی۔ بابا کی اس ذلیل حرکت کے علم سے بالیشور پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے اور اس کے دل میں بابا کے خلاف شدید نفرت کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ ماں سے کہتا ہے کہ بابا نے بہت بڑا پاپ کیا ہے۔ ماں، بابا کے اس کالے کر توت کا دفاع کرتی ہے اور کہتی ہے، ’’پاپ کیسا؟ بابا نے کوئی پاپ نہیں کیا ہے۔ داسی کے ساتھ سمبندھ (تعلق) رکھنا واستو میں کوئی پاپ نہیں۔ داسی ہوتی ہی اس لیے ہے کہ سوامی جس پر کار چاہے اس کا اپیوگ (استعمال) کرے۔ تم نے بھی داسی کا اپیوگ کیا ہے، اس لیے یہ کسی وِوھی وِدھان (قانون) کے وِرُدھ (خلاف) نہیں ‘‘ (ص ۱۴۰)۔ ماں بالیشور سے صاف لفظوں میں کہہ دیتی ہے کہ بندیا کے گربھ وتی (حاملہ) ہو جانے کا ارتھ (مطلب ) یہ نہیں کہ وہ اسے اپنی پتنی (بیوی) بنا لے۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ بالیشور اپنی ماں کو اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ بندیا سے اس کا جنسی تعلق شہوانی جذبے سے مغلوب ہو کر نہیں ہوا ہے، بلکہ اس تعلق کی بنیاد دونوں کے درمیان سچا پیار ہے۔ بابا کو جب اس بات کا علم ہوتا ہے کہ بالیشور بندیا سے شادی کرنا چاہتا ہے تو وہ آگ بگولا ہو اٹھتے ہیں اور بندیا کو راستے سے ہٹانے کی تدبیریں سوچنے لگتے ہیں۔
ایک دن چمٹولی میں زبردست کہرام مچتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بندیا کو سانپ ڈس لیتا ہے۔ بالیشور کو جب پتا چلتا ہے تو وہ بدحواسی کے عالم میں چمٹولی کی طرف بھاگتا ہے اور دیکھتا ہے کہ بھیکو کے دروازے کے سامنے بندیا کی لاش پڑی ہوئی ہے — وہی بندیا جس سے اس نے پیار کیا تھا اور وہی بندیا جو اس کے بچے کی ماں بننے والی تھی۔ بالیشور صدمے سے نڈھال ہو جاتا ہے۔ وہ صرف بندیا ہی کی لاش نہیں دیکھتا ہے، بلکہ اسے اپنے بچے کی معصوم لاش بھی نظر آتی ہے جو عام نظروں سے اوجھل ہوتی ہے۔ اس کے دل میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ وہ غم و غصے سے پاگل ہو جاتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ تہ و بالا کر کے رکھ دے گا۔ اچانک دِویہ بانی کے بول اس کے کانوں میں گونجنے لگتے ہیں جس سے اس کا اضطراب کم ہو جاتا ہے، غصہ تھم جاتا ہے، اور من کو شانتی ملتی ہے۔
ایک دن بامھن ٹولے میں عجیب و غریب واقعہ پیش آتا ہے۔ لوگ جوق در جوق ہَون استھل کی جانب بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ بالیشور بھی حیرت و استعجاب کے عالم میں بھیڑ کو چیرتا اور کودتا پھاندتا ہون استھل کی طرف بڑھتا ہے۔ وہاں پہنچ کر دیکھتا ہے کہ ہَون کنڈ کے چبوترے کے اوپر ایک سانپ کنڈلی مارے بیٹھا ہوا ہے اور اس کی سرخ زبان بار بار منہ سے باہر نکل رہی ہے۔ اس کا پھن بھی چاروں طرف گھوم رہا ہے۔ یہ وہی سانپ ہے جس نے کچھ دیر پہلے کسی کے گھر میں گھس کر میمنوں کو ڈسا تھا۔ مجمع پر خوف و ہراس طاری ہو جاتا ہے، لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوتی ہے کہ وہ آگے بڑھے۔ بالیشور کچھ دیر تک اس سانپ کی طرف اپنی نظریں گڑا کر دیکھتا ہے، پھر تیزی سے اس کی طرف لپک کر اور آن کی آن میں اس کی گردن کو منہ کے پاس سے پکڑ کر چبوترے سے اٹھالیتا ہے۔ سانپ اپنی پوری طاقت سے بالیشور کی مٹھی سے نکل جانے کی کوشش کرتا ہے۔ بالیشور کی گرفت مضبوط ہوتی جاتی ہے اور سانپ کی گردن کستی جاتی ہے، یہاں تک کہ اس کا منہ نکل آتا ہے، زبان اینٹھ جاتی ہے، آنکھیں پلٹ جاتی ہیں، دُم بے حس و حرکت ہو کر لٹک جاتی ہے اور اس کا پورا وجود ساکت ہو جاتا ہے۔
بالیشور اطمینان کا سانس لیتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ رات کی دیوار ڈھا دی گئی ہے اور روشنی تک پہنچنے کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔ وہ خیالوں میں کھو جاتا ہے۔ اب چمٹولی کے لوگ نالے میں نہانے کے بجائے ندی کے صاف پانی میں نہائیں گے۔ ان کے بچے بھی اب پاٹھ شالا جائیں گے اور وہ بھی سب کے ساتھ مل کر دویہ بانی سنیں گے۔
(۴)
’دِویہ بانی ‘ کا پلاٹ کوئی لمبا چوڑا یا پیچیدہ پلاٹ نہیں، اور نہ ہی اس میں کوئی انوکھا پن ہے، لیکن اس کے سماجی و تہذیبی تناظر اور فکری محور نے اسے دل چسپ بنا دیا ہے۔ مذہب کی آڑ میں سماج کے کم زور طبقے پر طبقۂ اشرافیہ کے ظلم و جبر، استحصال اور سماجی نابرابری کے خلاف احتجاج اور کچھ کر گذرنے کا عزم اس بیانیہ کے پلاٹ کو بیحد جان دار اور متحرک (Dynamic) بنا دیتا ہے۔ دِویہ بانی کی زبان اس کے پلاٹ کے عین مطابق ہے، لیکن سنسکرت کے تتسم الفاظ کا اکثر بے دریغ استعمال اردو قارئین کی سماعت پر گراں گذرتا ہے۔
اس ناول کے بنیادی کردار تین ہیں: بابا، بالیشور اور بندیا۔ بابا ہندو طبقۂ اشرافیہ کے نمائندہ ہیں، لیکن ان کی شخصیت تضادات سے پرُ ہے۔ وہ اس ناول میں منفی کردار نبھاتے ہیں۔ بہ ظاہر وہ مذہب کے ٹھیکے دار بنتے ہیں، لیکن ان کے کردار کی خباثت انھیں بدی کی علامت (Symbol) بنا دیتی ہے۔ بالآخر بدی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ بالیشور (بابا کا پوتا) ایک حوصلہ مند، مہم جو اور پُر عزم نوجوان ہے جو سماج کے اونچ نیچ اور ذات پات کی تفریق نیز فرسودہ عقائد، اور منفی قدروں، برائیوں اور ظلمتوں کے خلاف احتجاج کرتا ہے اور سماجی طبقوں کے درمیان نا برابری کو جڑسے اکھاڑ پھینکنا چاہتا ہے۔ وہ اپنے باپ کی طرح بزدل نہیں، جو بابا سے لڑنے اور احتجاج کرنے کے بجائے اپنا گھربار چھوڑ کر چلا جاتا ہے، اور اس کی بیوی (بالیشور کی ماں ) تمام عمر اس کی راہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔ بندیا بابا کی جنسی ہوس کا شکار ایک مجبور وبے سہارا اور معصوم صفت دلت لڑکی ہے۔ جب وہ بالیشور کی توجہ کا مرکز بنتی ہے تو اس پر اپنا سب کچھ قربان کر دیتی ہے، لیکن قسمت اس کا ساتھ نہیں دیتی ہے۔ وہ بالیشور کے بچے کو اپنے پیٹ میں پالتی تو ہے، لیکن اس کی بیوی بننے اور اس کے بچے کی ماں کہلانے سے پہلے ہی وہ ناگہانی موت کا شکار ہو جاتی ہے اور قاری کے ذہن پر تا دیر نہ مٹنے والا تاثر چھوڑ جاتی ہے۔ بالیشور کی ماں اور بالو (بالیشور کا بچپن کا دوست) بھی اس ناول کے اہم کردار ہیں، لیکن انھیں مرکزی حیثیت حاصل نہیں۔ بالو نہایت بے ضر رانسان ہے، لیکن اسے سچ بولنے کی پاداش میں اور دلت ہونے کی وجہ سے بھی بابا کے ظلم کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ ماں، اپنے بیٹے (بالیشور) سے ہم دردی تو رکھتی ہے، لیکن جب بالیشور کو ماں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کا ساتھ دینے کے بجائے وہ بابا کی غیر مثبت قدروں کی پاس داری کرتی ہے۔
غضنفر نے ’دِویہ بانی‘ میں استعاراتی اسلوب سے بھرپور کام لیا ہے۔ سانپ کے استعارے (Metaphor) کو انھوں نے بڑی فنی مہارت کے ساتھ برتا ہے۔ یہ اس بیانیہ میں بدی، ظلم و جبر اور طبقۂ اشرافیہ کی قوت کے استعارے کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ سانپ کا خاتمہ حقیقتاً بابا کے ظلم و جبر اور قوت و اقتدار کا خاتمہ ہے، بلکہ خود بابا کا خاتمہ ہے۔ ’دِویہ بانی‘ میں اشارتی اسلوب سے بھی کام لیا گیا ہے۔ اس میں ہندو دیوما لائی عناصر کی جھلک بھی صاف دکھائی دیتی ہے۔ اس ناول میں غضنفر نے فلیش بیک (Flash back) کی تکنیک سے بھی کئی جگہ کام لیا ہے جسے انھوں نے ’چنتن‘ کا نام دیا ہے۔ فلیش بیک میں ماضی و مستقبل کی تصویریں بنتی بگڑتی چلی جاتی ہیں اور زمان و مکان کی قیود سے آزاد ہوتی ہیں۔ یہ بیانیہ کا ایک اہم عنصر قرار دیا گیا ہے۔ غضنفر کو جزئیات نگاری پر بھی کمال حاصل ہے۔ وہ جس صورت حال کو بھی بیان کرتے ہیں اس کی تمام تفصیلات پیش کر دیتے ہیں۔ منظر نگاری بھی وہ بہت اچھی کر سکتے ہیں۔ باغ کا منظر یا نہانے کا منظر بیحد دل کش ہے۔
’دِویہ بانی‘ ایک ایسا دلت بیانہ (Dalit Narrative) ہے جو اردو کے دلت لٹریچر میں ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے اولیت کا مرتبہ بھی حاصل ہے کہ اس سے قبل اردو میں دلت لٹریچر کی روایت بہت کم زور تھی۔ فنی سطح پر بھی غضنفر کا یہ ایک کامیاب تجربہ ہے جو ہر لحاظ سے لائقِ دادو تحسین ہے۔
٭٭٭