ہے تصور میں عہدِ نبی سامنے، اس زمانے کے پل جگمگاتے ہوئے
آنکھ کے سامنے ہیں مناظر بہت، چلتے پھرتے ہوئے، آتے جاتے ہوئے
ایک چادر کو تھامے ہوئے ہیں سبھی،چاہتے ہیں سبھی آپ سے منصفی
آپ کے دستِ فیصل میں سنگِ سیہ سب قبیلوں کا جھگڑا مٹاتے ہوئے
عتبہ ابن ربیعہ ہے بیٹھا ہوا، صحنِ کعبہ میں ہاتھوں کو ٹیکے ہوئے
اور نبی اس کو ترغیب و ترہیب کی چند آیاتِ قرآں سناتے ہوئے
مشرکوں کی غلامی ہے دشوار تر،ک یسی تعذیب میں ہے سمیہ کا گھر
اور یہ پہلی شہادت ہے اسلام کی ایک باندی یہ اعزاز پاتے ہوئے
ان میں ام عبیس اور زنیرہ بھی ہیں نہدیہ اور ابن فہیرہ بھی ہیں.
سخت تکلیف میں دیکھتے ہیں انہیں پھر ابو بکر گردن چھڑاتے ہوئے
امِ معبد کا خیمہ ہے اک مستقر، ہے یہ مکہ سے یثرب کی جانب سفر
دودھ سے بھر گئے اس کی بکری کے تھن، میزبانوں کی قسمت جگاتے ہوئے
خوف سے ہیں سراقہ کے اوسان گم، دھنس گئے ریت میں تیز گھوڑے کے سم
اس کو کسری کے دو کنگنوں کی خبر دے رہے ہیں نبی مسکراتے ہوئے
دور سے ایک ناقہ ابھرتا ہوا، اک سوار آپ پر سایا کرتا ہوا
حد یثرب پہ انصار کی لڑکیاں، گیت گاتے ہوئے، دف بجاتے ہوئے
آنے والا جب اس شہر میں آئےگا، تا ابد یہ مدینہ ہی کہلائے گا
ایک چھوٹی سی بستی ہے یثرب ابھی، راہ ہجرت میں آنکھیں بچھاتے ہوئے۔
اک کھجوروں کا باغ اور کچھ مال و زر، ہے یہ سلمانِ فارس کا بخت دگر
چومتی ہے زمیں آپ کی انگلیاں کچھ کھجوروں کے پودے لگاتے ہوئے
دور ہجرت کی تشنہ دہانی ہے یہ، بئر رومہ ہے اور میٹھا پانی ہے یہ
اور عثمان اسے وقف کرتے ہوئے، پیاس شہر نبی کی بجھاتے ہوئے
تین افراد کو سنبلہ کی تپش اور کھجوروں کا موسم ہے روکے ہوئے
ایک غزوے کی خاطر نکلتے ہوئے قافلے دور سے دور جاتے ہوئے
ایک تسمے کی صورت تھا پانی یہاں،چھو رہی ہیں جسے آپ کی انگلیاں
دیکھتی ہے تحیر سے تشنہ زمیں، ایک صحرا کو گلشن بناتے ہوئے
(نامکمل )
٭٭
وہ صبحِ منوّر مکّے کی، وہ جگمگ رات مدینے کی
عمّامہ سنہرے ریشم کا، چادر نیلے پشمینے کی
صحرا سے ندا سی آتی ہے راتوں میں مجھ کو جگاتی ہے
یہ دل پر تھاپ کسی دَف کی یہ ہُوک کسی سازینے کی
ان اونچے ٹیلوں کے پیچھے کوئی ہجر کا نغمہ گاتا ہے
ہم ٹھنڈی ریت پہ بیٹھے ہیں، میں اور یہ شب زرّینے کی
کل رات یکایک جاگ اٹھے کچھ منظر خفتہ یادوں کے
پھر خوشبو آئی قہوے کی پھر تیز مہک پودینے کی
میں جو اور دودھ پکاتا ہوں پھر ان میں شہد ملاتا ہوں
مرے دل سے رنج مٹاتی ہے تاثیر اسی تلبینے کی
اک عنبر صاع کھجوروں کا اک خوشہ سبز انگوروں کا
یہ سب یاقوت و زمرد ہیں دولت انمول خزینے کی
جو کی روٹی کا نوالہ ہے اک برتن سرکے والا ہے
یہ دنیا قیمت کیا جانے مرے مملوکہ گنجینے کی
اک کوزہ مجھ کو بلاتا ہے جی بھر کے نبیذ پلاتا ہے
پھر پیاس مری بھڑکاتا ہے اک سیرابی میں جینے کی
ممکن ہے کہ اک دن یہ دونوں مرے ہاتھ پکڑ کر لے جائیں
یہ خواہش عجوہ کھانے کی، یہ حسرت زمزم پینے کی
میں بئر اریس پہ بیٹھا ہوں پانی پر نقش ابھرتے ہیں
وہ نقرئی مہر انگوٹھی کی، خاتم نقشین نگینے کی
اے خالق عظمتِ ابجد کے، اے خالق نعتِ محمدﷺ کے
سکھلا دے لفظ سلیقے کے، بتلا دے بات قرینے کی
ممکن ہے کہ دوسری دنیا کی تقویم میں بس اک ساعت ہو
اس ماہ ربیع الاوّل کی، اس عالم ساز مہینے کی
تشکیک زدہ ان لوگوں میں ہم لوگ یقیں پروردہ ہیں
ہم آخری منزل جانتے ہیں اس نیلے گول سفینے کی
تھک ہار کے آخر جب تجھ تک آئے گی تو دنیا کر دے گی
تائید سبھی اندازوں کی، تصدیق ہر اک تخمینے کی
واللہ انہی کے کرم سے ہے، لا ریب انہی کے دم سے ہے
یہ ندرت میرے لفظوں میں، یہ برکت میرے سینے کی
سرمایہ میرے اب و جد کا یہ ہیرا دینِ محمد کا
سب رب کی عطا اور محنت ہے نسلوں کے خون پسینے کی
شجرے کے آخری کونے پر اک نام سعود بھی لکھا ہے
یہ پیڑھی نچلی سیڑھی ہے چودہ سو سالہ زینے کی
٭٭٭