داستانوں میں ذکر حیوانات
ہاجرہ بانو
’’داستان ‘‘ کا لفظ بھلے ہی آج ثانیوں میں دوڑتی بھاگتی انہضامی زندگی کے کانوں کو طوالت بھرا لگتا ہو، لیکن یہ تخیل و تصور کی وہی تیز طرار پرواز ہے جس کی بناء پر کائنات کی تخلیق ہوئی۔ ان کے کارنامے ماضی کے فلیش بیک کو پیش کر کے مستقبل کو توانائی بخشتے ہیں ۔ ان ہی داستانوں نے علمی اور دور رس نکات کو انقباضِ زیست کی جدوجہد کے نئے بال و پر پیدا کرنے کے تعمیری سرچشمے جاری رکھے۔ اس ایقان سے کوئی منحرف نہیں ۔ ان میں موجود مہمات کے حالات و کوائف اور نتائج انسانیت، سخاوت، عشق و محبت، جرأت اور شجاعت کی تحریک و ترغیب دیتے ہیں ۔ دستان زندگی کی حقیقت سے فرار کا نام ہوتے ہوئے بھی اس کے تخیلی آنچل میں ہی سکون و طمانیت کی اوج مضمر ہے۔
بیسویں صدی میں سترہویں صدی کا کارنامہ پیش کرنے کا بیڑا جب مولوی عبدالحق نے اٹھایا تو انہیں اس بات کا اندازہ بھی نہ تھا کہ ان کا یہ کارنامہ اردو ادب کا وہ لازوال سرمایہ بن جائے گا جس کی درخشندگی سے آنکھیں خیرہ ہو کر دل منور ہو جائیں گے۔ جی ہاں میری مراد دکن کے ملا وجہی کی مشہور زمانہ تصنیف ’’سب رس‘‘ سے ہے۔ جو ادب کے تمام ناقدین و محققین اور ماہر لسانیات کے لیے ہر دور میں توجہ کی مرکز بنی رہی اور آج یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہو کر نئی نسلوں کے ہر دور کو دعوت تحقیق دے کر اپنے کئی پوشیدہ پہلوؤں کی عکاسی کرنے کے لیے بے تاب رہی ہے۔ اس داستان کو محمد قلی قطب شاہ کی فرمائش پر جسمانی اعضاء کو کرداروں کے قالب میں ڈھال کر جس بہترین اور انوکھے انداز میں پیش کر کے لازوال بنایا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔
یہاں ہمارا مقصد ملا وجہی کے دلکش اسلوب بیان و نگارش سے نہیں ہے بلکہ اس داستان میں موجود ان حیوانات کا ذکر کرنا ہے جو بوقت ضرورت داستان میں استعمال کیے گئے اور اپنے استمراری زرین نقوش داستان میں اپنا ذکر ارزق آسمان کی طیلستان میں ٹکے چمکدار ستاروں کی مانند ثبت کرتے چلے گئے۔ حیوانی و انسانی صفات کے اظہار کے لیے بھی حیوانات کے کردار کو کچھ اس طرح پیش کیا گیا کہ ان کی نفسیات کے پردے چاک ہونے سے قدرت خداوندی کے سامنے سر بسجود ہونے کے لیے اضطرابی جبیس خاک تلاش کرنے لگی۔
غنائی اثر کے مالک ملا وجہی کی سراپا نگاری کے لیے پرندگان کا ذکر ملاحظہ کیجیے:
’’۔۔۔۔۔ انکھیاں نرگس زلف سنبل رخسار لالا۔ قد پھول کی ڈالی دہن غنچہ سوبال کالا کالا۔ جوڑا طاؤس گلا قمری بچن میں طوطی (کے) تورے، تل بھنوار چال کبک ادھر عین شکر خورے۔ گلے میں چاروں طرف گوہراں ، جانو میٹھے پانی کی لڑیاں ۔۔۔۔۔‘‘
شمع اور پروانے تو اردو ادب کے نظم و نثر کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔ اس معمولی پتنگے کا ذکر شعراء و ادباء نے ہر مقام پر کیا ہے اور پتنگے کی قربانی کو وصل کی پاکیزہ بلندی پر پہنچایا ہے۔
’’۔۔۔۔۔۔۔۔ جاسوس نظر دل پادشاہ عالم پناہ سوں وداع ہو کر قدم رنگے دھر روانہ ہوا۔ اپنے کام کی شمع پر پروانہ ہوا۔۔۔۔۔‘‘
داستان امیر حمزہ، توتی نامہ، گلستان، انوار سہیلی، بہار دانش، لیلیٰ مجنوں ، قصہ بندگان عالی، قصہ ملکہ زمان و کام کندلہ، قصہ انار دانی، سنگھاسن بیتی، حکایت ہائے عجیب و غریب، توتا کہانی، قصہ بہروز سوداگر، قصہ حیرت افزائ، (قصہ دل) از کمتر شاہ، قصہ گل و ہرمز، قصہ دلالہ مختالہ، مرغوب الطبع از حسین علی خان اور بہت ساری ہندی، فارسی اور عربی داستانیں حیوانات کی نفسیات کا احاطہ کرتی ہیں ۔
حاتم طائی کی داستان میں حیوانات سے حسن سلوک بدرجہ اتم ملتا ہے۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب قاری میں حیوانات کی مزاج شناسی، احساساتِ اقدار اور مشاہداتی تجزئیے کی جڑیں ذہن و دل میں ارتسام ہوں ۔ اس داستان میں حیوانات کے جذبات و ضروریات کو بذریعہ حاتم پورا کر کے یہ دکھایا گیا کہ وہ بھی اپنے محسن کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ قربانی و ایثار کا جذبہ جہاں انسانی فطرت میں ازل سے شامل ہے وہیں مذہب اسلام نے اسماعیل علیہ السلام کی اطاعت خداوندی کو ایک آئیڈیل فرزند کے طور پر رہتی دنیا تک ایک ارتفاعی مقام پر قائم رکھا۔ یہ پرنور جذبہ انسان میں ہی نہیں بلکہ حیوانوں کی سرشت میں بھی شامل ہے۔ اس کا جواز یہ ہوسکتا ہے کہ اس جذبے کے پس پردہ وہ محرک قوت کارفرما ہوتی ہے جو نیکی کے اثرات سے دلوں کو لبریز کرتی ہے اور ذہنوں کی انشراح خاطر ہونے کا سبب بنتی ہے۔ حاتم طائی کی پوری داستان میں وقتاً فوقتاً تمام حیوانات اس کے حسن سلوک کا بدلہ بڑی محبت و دور اندیش خطرات سے آگاہی کے ساتھ دیتے ہیں ۔ ان کی چھٹی حس اور بیک وقت کئی جہانوں کی مخلوق کو بے زبان و چشم دیکھنے کی صلاحیت کا اعتراف جدید سائنس نے بھی کیا ہے۔ حیوانات نے سائنس کو جو افاضہ دیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ سائنس کی ترقی تو حیوانات کے بغیر تصور ہی نہیں کی جا سکتی۔ حاتم طائی کا اپنے جسم کا گوشت بھیڑئیے کو کھلانا اور بندر و لومڑی کا قصہ اس قربانی و ایثار کا بدلہ بھیڑئیے کا دشت ہویدا کا پتہ بتا کر خطرناک سفر کو ممکن بنانا اسی کی ترجمانی کرتا ہے۔ اسی طرح ریچھ کی بیٹی کا حاتم کو مہرہ ارمغان دے کر وقت پر مدد کرنا بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ قیمتی پتھر و مہرے انسانی زندگی پر یقیناً اثر انداز ہوتے ہیں ۔ رنگوں کی تاثیر اور پتھروں کے کیمیائی خواص سے تو آج سائنس کو بھی انحراف نہیں ۔
داستان کا یہ مکالماتی اقتباس اسی جذبے اور مستقبل کی انجانی خصوصیات کو پیش کرتا ہے۔
’’حاتم وہاں سے رخصت ہوا لیکن تکلیف سے اس کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے۔ ایک درخت کے نیچے گر کر تڑپنے لگا۔ قریب ہی ایک گیدڑ کا بھٹ تھا اور وہ گیدڑنی کے ساتھ خوراک کے لیے گیا ہوا تھا۔ واپس آنے پر حاتم کو تڑپتا ہوا پایا۔ مادہ بولی ’’یہ آدمی زاد کہاں سے آیا ہے۔ اب اس مکان کو چھوڑ دیا جائے کیونکہ غیر جنس سے موافقت کس طرح ہو اور محبت کب تک نبھے۔‘‘ گیدڑ نے جواب میں کہا۔ ’’شاید یہ نوجوان حاتم ہے اور دشت ہویدا کو جانا چاہتا ہے۔‘‘ مادہ نے کہا ’’تو نے کیونکر دریافت کیا؟‘‘ اس نے کہا ’’میں نے اپنے بزرگوں کی زبانی سنا تھا کہ فلاں تاریخ کو فلانے روز اس جگہ حاتم کا گزر ہو گا اور وہ اس درخت کے نیچے اذیتیں اٹھائے گا۔ وہ تاریخ یہی ہے اور دن بھی یہی ہے۔‘‘
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے آباء و اجداد اور پاستان کی زبانی معلومات اور اجرام فلکی کا علم بھی انسان و حیوان کو دوربین اور دانا بناتی ہے۔ حیوانات مستقبل کی پیشین گوئیوں کے لیے پہلے بھی مشہور تھے اور آج بھی۔ سائنسداں و دانشوران آج بھی حیوانات کی حرکات و سکنات سے آنے والے مصائب و حالات کا بخوبی اندازہ کر لیتے ہیں ۔ ہوائی، سمندری، ریتیلے طوفان، زلزلے، بارش، سردی، گرمی، غرضیکہ انسانی اموات کا علم بھی حیوانات کی غیر معمولی حرکات سے سمجھا جا سکتا ہے۔
حیوانات جہاں غذا کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں وہیں ان میں کئی طبی فوائد بھی پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ ہزاروں اقسام کی دوائیں حیوانات کے کسی نہ کسی عضو کی مدد سے ہی تیار کی جاتی ہیں ۔ داستانوں میں حیوانات کے ذریعے ہی حیوانی طبی خواص پیش کیے گئے۔ وہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی بقاء کے لیے کن حیوانات کو بطور ادویات استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ضحاک کے کندھوں پر پیدا ہونے والے سانپ سماجی حیوان آدمی کا مغز کھاتے تھے تاکہ خود طبی زندگی پاسکیں ۔
جب زخمی حاتم گیدڑ کے بھٹ میں پڑا تھا تو مادہ گیدڑ کو تشویش ہوئی کہ اس کا زخم کس طرح بھرے گا۔ گیدڑ نے کہا ’’ایک جانور دشت مازندران میں ہے۔ اس کا جسم مور کا اور سر آدمی کا ہے۔ اس کا بھیجا اگر زخم پر لگے تو زخم فوراً بھر جائے۔ اگر تو حاتم کی دن رات خبر گیری کرے تو میں اس کا سر کاٹ لاؤں تاکہ انسان پر حیوان کا احسان ہو۔‘‘ ہم گیدڑ کو ہندوستانی کہانیوں میں ایک مکار و چالاک حیوان کے کردار میں ہی سنتے پڑھتے چلے آئے ہیں لیکن حاتم طائی کے پاس اس کا کردار بڑا مثبت ہے۔ یہاں وہ مکر و فریب کی بجائے رحمدلی، دور اندیشی اور اخلاقیات کا مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے۔ یہاں تک کہ موذی جاندار جیسے زہریلے سانپ اور پشت پھاڑ کر نکلنے والے زہریلے بچھو نے بھی حاتم طائی کی انقیاد کی ہے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ حاتم بذات خود ایک رحمدل انسان تھا اور حیوانات، انسانی انساب کی پوشیدہ خصوصیات کو اپنی چھٹی حس کی بناء پر بھانپ کر اخیار افراد کے ساتھ احسن سلوک کرتے ہیں اور اپنے عواطفی موتی لٹاتے رہتے ہیں ۔ برائی کا بدلہ برائی اور اچھائی کا بدلہ اچھائی خدا کا قانون ہے اور اسی قدرتی قانون کی پاسداری آج بھی تمام حیوانات کے خون میں شامل ہے۔ جذبات تو جذبات ہوتے ہیں ۔ بسا اوقات تو اشرف المخلوقات کہلانے والا حیوان بھی کئی گناہوں کا مرتکب بن بیٹھتا ہے۔ حیوانات میں بھی یہی جذبہ نظر آتا ہے لیکن شاذ و نادر ہی بلکہ انسانوں کے مقابلے کئی گنا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگر ان کے کسی غلط روئیے یا برتاؤ کی باریک بینی سے تفتیش کی جائے تو حقیقت واضح ہو گی کہ اسافل کی اجلافی حرکات ہی کہیں نہ کہیں ضرور ذمہ دار ہیں جیسا کہ گزشتہ دنوں کئی علاقوں سے شیر، شیر ببر اور چیتے کے انسانی آبادی میں آ کر کہرام مچا دینے کی خبریں ہم لگاتار سنتے، دیکھتے اور پڑھتے آرہے ہیں ۔ بڑھتی آبادی کے پیش نظر حیوانات کو ان کے عدم تحفظ کی بناء پر یہ قدم اٹھانا پڑا تھا۔ انسان کانکریٹ جنگل بنانے کی دھن میں اندھا دھند جنگلوں کا خاتمہ کرنے پر تلا ہے کئی مقامات پر آج جنگل اور آبادی متصل نظر آتے ہیں ایسے میں یہ بیچارے حیوانات آبادی میں نہ آئیں تو کدھر جائیں ۔
تمام اساطیر میں زمینی حیوانات ہی نہیں بلکہ آبی جاندار بھی ان ہی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں ۔ حاتم طائی کا اژدہے اور گھڑیال کے پیٹ میں چلا جانا، کیکڑے اور مچھلیوں کا مدد کرنا بھی اسی زمرہ میں شامل ہے۔ تمثال آدھی عورت اور آدھی مچھلی (Mermaid) کا ملاحوں کی مدد کرنا آج بھی سنتے ہیں ۔ حاتم طائی کو مہم جوئی کے دوران بھی Mermaid نے ہی بڑی ارادت کے ساتھ مدد کی تھی۔ مختلف مقامات پر حشرات الارض کی اہمیت، افادیت اور کراہیت بھی پیش کی گئی۔ زمینی کرے پر زندگی کے آثار امیبا کی صورت میں ظہور پذیر ہوئے۔ جب تک یہ معمولی سا کیڑا زندہ ہے زمین پر زندگی کی بہار ہے۔ جس دن یہ ختم پورے کرے کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ عمل جراحی کی کئی ایسی نادر مثالیں موجود ہیں جن میں حشرات الارض انسانی جسم میں پرورش پاتے رہے تھے۔ داستان حاتم طائی میں ہاتھی کی سونڈ میں سانپ کا رہنا بھی اسی سے منسلک لگتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف بیماریوں یا سحر کے اثرات کے سبب جسم سے عجیب و غریب کیڑوں کے نکلنے کو بھی داستان نگاروں نے ژیاں خداوندی کا اذعان کیا ہے۔
وفاداری میں کتے کی کوئی نظیر نہیں ۔ اپنے مالک پر آنچ نہ آنے دینا اور ہر قدم پر ساتھ نبھانا یہ اس کی اولین خوبی سمجھی جاتی ہے۔ مغربی تہذیب تو کتے کی بہت دلدادہ ہے۔ سگ اصحاب کہف کو ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ حاتم طائی کی مدد میں یہ وفادار حیوان بھی شامل ہے۔ پالتو جانوروں میں بھینس نے بھی حاتم کا ساتھ نبھایا ہے۔ جو کسی عورت کا روپ ہے اور غصے میں اپنے سینگوں کا استعمال کر کے ہر چیز کو تہس نہس کر دیتی ہے۔ یہاں ذہن میں موت کی دیوتا یم دوت کی سواری ابھرتی ہے۔ گائے بھی مختلف داستانوں میں اپنی ممتا نچھاور کرتی نظر آتی ہے۔ ہندو دھرم میں اسے بہت مقدس سمجھا جاتا ہے۔ تمام دیوتاؤں میں اس کے جسم میں براجمان ہونے کا تصور ہمیں داستانوں میں بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے جسم کے ہر عضو و فضلے میں کئی خصوصیات بتائی گئی ہیں جس کی بناء پر کئی دواؤں میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔
طائران بالخصوص سیمرغ اور طوطا داستانوں میں بہت لافانی نقش ثبت کرتے ہیں ۔ طوطوں کی کلام پر قدرت اور دور رس سیاسی نگاہوں کی تو سب ہی داد دیتے ہیں ۔ حاتم طائی کی داستان میں بھی وہ تمام آزمائشوں اور امتحانوں میں پوری قوت سے چھایا رہا۔ سحر و طلسم کا استعمال کر کے ٹارا، طوطا، بکری، مچھلی، مرغ وغیرہ میں شہزادوں اور راکھشسوں کی جان قید کی گئی۔
بیتال پچیسی جیسی حقیقت اور طلسم کی امتزاجی کہانی جو بنیادی طور پر ہندو میتھالوجی سے ماخوذ ہے۔ اس میں بھی زیادہ تر علم و حکمت کی باتیں حیوانات سے اخذ کی گئی ہیں یا ان کی زبانی کہلوا دی گئی ہیں ۔ وفادار کتے، گھوڑے اور ہاتھی کی شمولیت یہاں بھی ہے۔ کردار میں وفا کی بلندی جا بجا دکھائی گئی ہے۔ اپنے مالک کے لیے جان قربان کرنا تمام اساطیر میں اولیت رکھتا ہے۔ عالم و دانا افراد کے محور پر بیتال پچیسی کی داستانیں رقص کرتی ہیں ۔ پنڈت جیسے ذی عقل افراد حسن و نغمات اور قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور دراصل یہی قدرتی اوصاف حیوانات کی سرشت میں شامل ہوتے ہیں ۔ حیوانات کے ابتہاج کا اظہار مختلف صورتوں میں نظر آتا ہے۔ مور برشگال میں رقص کرتا ہے۔ مینڈک ٹرانے لگتے ہیں ۔ پرندے چہچہاتے ہیں ۔ مچھلیاں پانی سے اوپر آ کر غوطہ زن ہو کر اپنی مسرت کا اظہار کرتی ہیں ۔ چرندے مختلف آوازیں فضا میں بکھیر کر رب کائنات کے حسین مناظر کی داد دیتے ہیں ۔
حیوانات کے جذبات سے مغلوب بیتال پچیسی میں بہت سارے جانوروں کی جبلت میں یہ رجحان ملتا ہے کہ وہ اپنی مادہ کو کسی دوسرے نر کے ساتھ دیکھنا برداشت نہیں کرتے۔ انسانی معاشرے میں بھی مرد چاہتا ہے کہ اس کی عورت پر صرف اور صرف اسی کا حق ہو۔ ان ہی جذبات کی ترجمانی بیتال پچیسی کی ضمنی داستانیں کرتی ہیں اور اس کے برخلاف بعض حیوان کئی کئی نروں سے رشتہ رکھتی ہیں اور نر بھی اس اباحت میں شامل ہوتا ہے۔ آج بھی کئی قبائلی گروہوں و معاشروں میں ایسے رسم و رواج پائے جاتے ہیں جہاں عورت ایک سے زیادہ مردوں سے شادیاں کرتی ہیں ۔ کہیں اسے مذہب سے منسلک کیا گیا تو کہیں حالات و علاقات کا تقاضا کہا گیا۔ بیتال پچیسی میں طوطا و مینا کی شادی کا واقعہ جہاں دلچسپی پیدا کرتا ہے وہیں تعجب و حیرت سے انسانی دماغ کے سافٹ وئیر میں ہلچل ہونے لگتی ہے کیونکہ یہ دو مختلف نسل و جنس سے تعلق رکھتے ہیں ۔ آج سائنسی ترقی نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ Invitro Fertilisation سے دو مختلف انسانی اور حیوانی نسل و جنس کے کروموزومس سے بھی ایک نئی و انوکھی نسل کو دنیا میں لانا ممکن ہے۔ اس تجدد کے پس پردہ اساطیری رموز بھی کار فرما ہیں ۔
سلیمان علیہ السلام اور سلیم علی Ornithologist تھے۔ اس علم کی فضیلت کا ذکر بھی داستان میں نظر آتا ہے جب ایک راجا اپنی بیٹی کے سوئمبر کے وقت مختلف شہزادوں سے ان کے علوم و ہنر جاننا چاہتا ہے تو ایک شہزادے نے خشکی و تری کے چرندوں پرندوں کی بولی جاننے کو فخریہ انداز میں بیان کیا۔ آگے کے ادوار میں ہم دیکھتے ہیں کہ ویش قوم چرندوں پرندوں کی آوازیں اور بولیاں خوب سمجھتی تھیں ۔ بنجاروں کے بھیس میں دیس بدیس گھوم کر یہی قوم تجارت میں یکتا تھی۔
آج عالمی حسیناؤں کو منتخب کرنے کے لیے مختلف اوزان و پیمانے ہوتے ہیں ۔ داستانوں کے زمانے میں عورت کے حسن کا معیار بھی حیوانات اور قدرتی اشیاء پر موازنہ کر کے کیا جاتا تھا۔ چہرہ چاند سا، آنکھیں ہرن کی سی، آواز کوئل جیسی، بال گھٹاؤں جیسے، کمر چیتے جیسی، گلا ہنس جیسا، چال مورنی جیسی، مسکراہٹ گلاب جیسی، دانت انار جیسے، رنگ چمپئی جیسا وغیرہ وغیرہ۔
تمام داستانوں میں بہ در بہ چرندوں پرندوں کی جان کی حفاظت کرنا دھرم کی بنیاد سمجھا جاتا تھا اور ہے۔ اس اساس کا امعان یہ تھا کہ حیوانات پر ظلم اور انہیں کھانے سے بڑھ کر کوئی پاپ نہیں ہے کہ آدمی دوسرے آدمی کا گوشت کھا کر اپنا گوشت بڑھائے۔ ایسے لوگوں کی دنیا میں عمر کم ہوتی ہے اور وہ لولے، لنگڑے، کانے اور اندھے، بونے، کبڑے یا اعضاء سے محروم ہو کر پیدا ہوتے ہیں ۔ جیسے جانوروں اور پرندوں کے اعضاء کھاتے ہیں ویسے ہی اپنے اعضاء کھوتے ہیں ۔
قصہ گل بکاؤلی میں بلی کے سرپر روشن چراغ رکھ کر طلسم بندی کرنے والی طوائف نے کتنی بازیاں جیتی تھیں اور اس سے پرے پوری بازی میں بلی، چوہا اور نیولا قارئین کا مرکز بنے رہتے ہیں ۔ تاج الملوک کا اژدہے کے پیٹ میں جانا اور مراد بر لانا بھی اژدہے کی جسامت کا پتہ دیتا ہے۔ طوطا و مینا کا ہر فن میں ماہر ہونا اور وقتاً فوقتاً تاج الملوک کی مدد کرنا ان کی عظمت کا احساس دلاتا ہے۔ شہزادی کا قمری سے دل لگانا اور صبح و شام اس کے پنجرے کو سینے سے لگا کر رکھنا یہ بتاتا ہے کہ جانوروں کو انسان بنانا اور انسان کو جانور بنانا یہ صرف طلسم کے گرداب کے زور پر مبنی تھا۔ لیکن جانوروں کو ہی اس لیے منتخب کیا جاتا تھا کہ وہ انسانوں کے ساتھ اقتران کا جواز یہ تھا کہ ان پر کوئی شک بھی نہیں کرتا تھا۔
داستانیں تہذیبی مطالعہ کے نقطہ نظر سے نہایت اہمیت کی حامل ہیں اور قصے در قصے قوس قزح کے رنگ بکھیرتے ہوئے صدیوں تک ہمارے ہندو مسلم معاشروں میں گنگا جمنا کے دھاروں کی طرح ہماری تہذیبوں کے ائتلاف میں رس گھولتی رہیں گی۔
٭٭٭