حاصلِ سیرِ جہاں کچھ نہیں، حیرانی ہے ۔۔۔ غضنفر

 

کئی راتوں تک آنکھوں نے سوائے آنسوؤں کے کچھ نہیں دیکھا اور جب آنسو خشک ہوئے تو دیدوں میں یہ منظر تیر گیا ؎

بھٹک رہی تھی جو کشتی وہ غرقِ آب ہوئی

چڑھا ہوا تھا جو دریا اتر گیا یارو

محرومی و محزونی کے اس منظر نے ماضی کے بے شمار منظر ابھار دیے۔ اچھے دنوں کے منظر، اچھی محفلوں کے منظر، اچھی ساعتوں کے منظر۔ اچھی صحبتوں کے منظر۔ آنکھوں میں ایک سرخ رو شخص مثلِ منارۂ نور آبسا۔ یہ وہ شخص تھا جس کے مثبت رویہ کی روشنی میں کتنے ہی بیڑے پار ہو چکے تھے۔ کتنی ہی کشتیاں کنارے لگ چکی تھیں۔ یہ شخص وہ تھا جو ایک ایک شخص کی پریشانی، سینے کے جلن، سانسوں کی گھٹن، آنکھوں کے طوفان، ذہنوں کے ہیجان، چہروں کی بے چہرگی، دلوں کی اداسی، مایوسی، افسردگی، تنہائی، رشتوں کی شکست و ریخت، قدروں کے زوال، جذبوں کی سردمہری، خوابوں کی فراوانی، تعبیروں پر حیرانی، آنکھوں کی اشک شوئی، زمانے کی بے حسی، گویا پوری بیسویں صدی کے درد و کرب کو اپنے سینے اور شعروں میں اتار کر اپنے دور کا مغنی بن چکا تھا۔ جس نے اپنی تخلیقی تپش، فنکارانہ بصیرت، اور مکاشفانہ ریاضت سے ذات و کائنات کی تسخیر کے لیے ’اسمِ اعظم‘ دریافت کر لیا تھا اور جو ’سا تواں در‘ اور ’خواب کا دربند ‘ کھولنے میں کامیاب ہو چکا تھا، اور اپنے اسمِ اعظم سے سا تواں در کھول کر گیان پیٹھ کے مسندِ اعزاز پر متمکن ہو چُکا تھا لیکن بلندیوں کی تسخیر کے باوجود بوریا نشین دکھائی دے رہا تھا، اپنے قد سے بے نیاز، احساسِ برتری کے بھاری بھاؤں سے آزاد، ہشّاش بشّاش، نہایت نارمل، حد درجہ سادہ اور انتہائی سہج جیسے کوئی مخلص دوست جیسے کوئی ہم عمر بھائی، جیسے کوئی ہم خیال کلاس فیلو، جیسے کوئی روشن خیال اور شفیق باپ، اس شخص کے دل سے نکلے ہوئے کلمات بھی کانوں میں گونجنے لگے:

’’میں بہت کم لوگوں کو عزیز رکھتا ہوں۔ ان میں سے آپ بھی ہیں۔ آپ جب چاہیں میرے گھر آ سکتے ہیں، میرا دروازہ آپ کے لیے ہمیشہ کھلا رہے گا۔ ‘‘

________

’’غضنفر تم صحیح کہہ رہے ہو کہ کام کے لیے جس کو فون کیا جا رہا ہے وہ منع بھی کر سکتا ہے مگر یہ بھی تو ممکن ہے کہ میرے فون کرنے سے کسی کا کام بن جائے ‘‘۔

________

’’خورشید صاحب(خورشید الاسلام، صدر شعبۂ اردو، علی گڑھ)راضی تو نہیں ہوئے مگر آپ گھبرائیے نہیں، میں اپنے غصّے اور محبت دونوں کی آگ ان کے کمرے میں چھوڑ آیا ہوں۔ یہ آگ ضرور اپنا اثر دکھائے گی۔ آپ دیکھیے گا‘‘۔

________

’’بیٹے ! نہ خود بیوی پر حاوی ہونا اور نہ بیوی کو اپنے اوپر حاوی ہونے دینا۔ ‘‘

________

’’سروس جوائن کرنے جا رہے ہو تو ایک بات کا خیال رکھنا،  وقت پر جانا اور پورے وقت تک آفس میں رہنا۔ ‘‘

________

’’نیرج بہت اکیلے پڑ گئے ہیں، چلو آج ان سے مل آئیں ‘‘

________

’’خوش رہنا اور رکھنا چاہتے ہو تو دوسروں کے مثبت پہلوؤں کو ہی نگاہ میں رکھّو‘‘۔

________

’’زند گی میں کامیابی کے لیے اعتدال اور توازن کا ہونا ضروری ہے۔ یہ ہنر ابو الکلام قاسمی سے سیکھنا چاہیے ‘‘۔

________

’’غضنفر !اپنے محسن کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ تم نے نارنگ صاحب کا خاکہ لکھ کر بہت اچھا کیا‘‘۔

________

’’ تمہارا بیٹا کامران گاتا اور گٹار بجاتا ہے، یہ جان کر بہت اچھا لگا۔ زندگی میں پڑھائی کے علاوہ ثقافتی سرگرمی بھی ضروری ہے ‘‘۔

میرے کانوں میں گونجنے والے یہ ارشادات آنکھوں میں کسی پیرو مرشد کی شبیہ اُبھار رہے تھے۔ ایک ایسے پیر کی جو اپنے مریدوں کو ایسے ایسے اقوالِ زریں سے نوازتا ہے کہ جن سے تاریک راہیں دمک اٹھتی ہیں۔ سفر ٹھوکروں کی زد سے بچ جاتا ہے صعوبتیں سبک ہو جاتی ہیں اور زندگی بہ آسانی منزل آشنا ہو جاتی ہے۔

ہمارا یہ پیر جو خلوت میں کنور اخلاق محمد خاں اور جلوت میں شہر یار کے نام سے جانا جاتا ہے، ہم پر اپنے زریں اقوال کی بارش کرتا، ہمارے راستے میں اپنی ذات و صفات کے رنگ و نور اور خوشبو بکھیرتا اور دنیا کو اپنے کمالات کا جوہر دکھاتا اور یہ درس دیتا ہوا ؎

سفر یہ ختم ہو جائے، نہیں ایسا نہیں ہو گا

بہت ہو گا تو ان اشجار کا سایہ نہیں ہو گا

شانِ بے نیازی سے آگے بڑھتا رہا مگر ایک دن دنیا کو سفرِ مدام کا درس دینے والا خود فنا پذیر ہو گیا۔ سر پر سایۂ اشجار کے باوجود اس کا سفر ختم ہو گیا اور اس کے اس شعر ؎

ہمارے غم میں ناحق دوست دبلے ہوتے جاتے ہیں

مرض جو ہم کو لاحق ہے، کبھی اچھا نہیں ہو گا

کا استعاراتی معنی اس کا ذاتی معنی بن گیا اور اس کا یہ خیال ؎

تھکنا ہے، ٹھہرنا ہے، بہر حال سبھی کو

جی اپنا بھی بھر جائے گا ایک روز سفر سے

خود اس کے لیے بھی حقیقت کے سانچے میں ڈھل گیا۔

شہر یار نے اپنی زندگی کے سفر میں جہانِ آب و گل کی ایسی سیر کی ہے اور اتنے رنگ و نور بکھیرے ہیں کہ اگر سیرِ جہاں کا حاصل اور بکھرے ہوئے رنگ و نور کو سمیٹا جائے تو ایک نگار خانہ بن سکتا ہے۔

مگر یہ وقت نگار خانہ بنانے کا نہیں بلکہ اس الم کدے میں جھانکنے کا ہے جہاں انھوں نے اپنے آخری ایّام جاں کنی کے عالم کی طرح گزارے۔ پچھلے کئی مہینوں سے بستر پر پڑے پڑے زندگی اور موت کے درمیان ہونے والی کشا کش سے جوجھتے رہے۔ اس کشاکش سے ابھرے کرب کو جھیلتے رہے۔ روز تھوڑا تھوڑا مرتے رہے۔ تھوڑا تھوڑا مٹتے رہے۔ تھوڑا تھوڑا معدوم ہوتے رہے۔ جسم و جان کے عزیز حصّوں کو کھوتے رہے۔ کسی دن ایک ہاتھ جُدا ہو گیا، کسی دن کوئی پاؤں چلا گیا، کسی وقت دماغ کا ایک حصہ رخصت ہو گیا، کسی وقت دل کی کوئی دیوار بیٹھ گئی، کسی ساعت کوئی رگِ جاں منجمد ہو گئی، کسی وقت کمر ساتھ چھوڑ گئی، کسی دن گویا ئی غائب ہو گئی۔ کسی دن سماعت جاتی رہی۔ وہ ہاتھوں کی بے وفائی، پیروں کی بے اعتنا ئی، لبوں کی سرد مہری، بالوں کی جدائی اور چہرے کی سیاہی پر آنسو بہاتے رہے اور اپنے ہی آنسوؤں میں چپ چاپ بہتے رہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ میڈیکل سائنس نے کافی ترقی کر لی ہے۔ وہ مریض کو موت کے منہ سے کھینچ لاتی ہے مگر ہماری آنکھوں نے دیکھا کہ ایک شخص کو اس سائنس نے جیتے جی مار دیا۔ چہرے سے رنگ اُڑا دیا۔ آنکھوں میں اندھیرا بھر دیا۔ سر سے بال چھین لیے۔ جسم کا گوشت خشک کر دیا۔ رنگ روپ کو بد ہیئت بنا دیا۔ زندگی کی صورت کو موت سے بد تر کر دیا۔ جب بھی میری آنکھیں وقت کے ہاتھوں مسخ شدہ اس کرب ناک حلیے پر مرکوز ہوئیں تو ان کا یہ جملہ کانوں میں گونج پڑا ’دعا کرتا ہوں کہ کسی بڑی بیماری میں نہ پھنسوں اور دوسروں کو پریشان نہ کروں، اور اس دنیا سے چلتے ہاتھ پیر چلا جاؤں ‘اور ایک شعری نشتر میرے سینے میں پیوست ہو گیا ؎

اس بات پہ کس واسطے حیران ہیں آنکھیں

پت جھڑ ہی میں ہوتے ہیں جدا پتّے شجر سے

جب بھی میں انھیں دیکھنے جاتا میری نگاہیں بار بار میز پر سجے قیمتی انعاموں اور ٹرافیوں کی جانب اٹھ جاتیں۔ شاید میرے دل کے کسی کونے میں اب بھی یہ امید باقی تھی کہ سائنس نہیں تو ادب اور فن کچھ کر سکیں۔ یہ قیمتی انعامات اپنی قیمت دکھاس کیں۔ ان کے جوہر رنگ لا سکیں۔ پت جھڑ کو بسنت میں بدل دیں، شجر کو اس کے پتّے لوٹا دیں، اسے ہرا بھرا کر دیں۔ یہ امید میں شہر یار صاحب کی آنکھوں میں بھی محسوس کرتا اور اس وقت بے ساختہ اسمِ اعظم کا یہ بند میرے ذہن میں کھُل جاتا ؎

ابھی نہیں ابھی زنجیرِ خواب برہم ہے

ابھی نہیں ابھی سینے کا داغ جلتا ہے

ابھی نہیں ابھی دامن کے چاک کا غم ہے

ابھی نہیں ابھی پلکوں پہ خوں مچلتا ہے

ابھی نہیں ابھی در باز ہے امیدوں کا

ابھی نہیں ابھی کمبخت دل دھڑکتا ہے

لیکن زنجیرِ خواب کا ہلنا، سینے کے داغ کا جلنا، پلکوں پہ خوں کا مچلنا اور دل کا دھڑکنا رفتہ رفتہ کم ہوتا گیا اور جلد ہی مجھ کو بھی یہ یقین ہو گیا کہ ع

حاصلِ سیرِ جہاں کچھ نہیں، حیرانی ہے

زندگی کے آخری دنوں میں شہریار کو صرف کینسر نے ہی نہیں رلایا بلکہ کچھ دوسرے ناسوروں نے بھی انھیں آنسوؤں میں خوب بھِگویا۔

علاج کے بعد دبئی اور ممبئی سے علی گڑھ لوٹے تو میں نے انھیں فون کیا:

’’اب تو آپ بالکل اچھے ہو گئے ہوں گے ؟

جواب میں بولے ‘ کیسی بے وقوفی کی بات کر رہے ہو ایسی حالت میں کیا کوئی اچھا ہو سکتا ہے؟‘‘ان کے جواب میں جھنجھلا ہٹ تھی۔

کچھ دنوں بعد ایک اتوار کی صبح ان کے پاس بیٹھا تھا تو کسی نے فون پر خیریت دریافت کی۔ جواب دیا، ’’خدا کا شکر ہے، اچھا ہوں ‘‘۔ حالاں کہ ان کی حالت پہلے کے مقابلے میں زیادہ بگڑ چکی تھی۔

ایک ہی سوال کے دو جواب۔ ایک میں جھنجھلاہٹ، دوسرا جھنجھلاہٹ سے خالی۔ ایک میں اکھڑا ہوا لہجہ، دوسرے میں ٹھہرا ہوا انداز۔ آخر یہ تضاد کیوں ؟

اس سوال نے میرے ذہن کو ایک انٹرویو کی طرف موڑ دیا جس میں میرے متعلق ایک سوال کے جواب میں شہریار صاحب نے فرمایا تھا:

’’غضنفر سے میرا بہت ہی پرسنل تعلق ہے۔ ان کے بچّوں کا، ان کی بیوی کا جو رشتہ مجھ سے رہا، وہ بہت ہی گھریلو قسم کا ہے۔ جس طرح میں اپنے بچّوں کے سلسلے میں معروضی نہیں ہو سکتا، اسی طرح غضنفر کے سلسلے میں بھی معروضی نہیں ہو سکتا۔ طاقت بھی ہیں میری غضنفر اور کمزوری بھی۔ ‘‘

اس انٹرویو کے لفظوں نے جواب کے تضاد کا مفہوم مُجھے سمجھادیا۔ جھنجھلاہٹ میں چھپی محبت بھی سامنے آ گئی۔ وہ درد بھی ابھر آیا جو صرف اپنوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ درد جس میں شکایت بھی پوشیدہ ہوتی ہے اور دوائے درد کی خواہش بھی دبی ہوتی ہے اور اپنی حالتِ زار کا وہ غصّہ بھی شامل ہوتا ہے جو صرف اپنوں پر ہی اتارا جا سکتا ہے۔ یکا یک اس انٹرویو کے ساتھ ایک واقعہ بھی جڑ گیا۔

عید الاضحی کے موقعے پر حسبِ معمول میں ان سے ملنے گیا۔ عید مل چکے تو بولے ’’میرے حصّے کا گوشت کہاں ہے ‘‘؟ جواب میں میں نے جھوٹ بول دیا کہ گوشت کا پیکٹ گھر پر رہ گیا حالاں کہ سچّی بات تو یہ تھی کہ اس بار شہر یار صاحب کے حصّے کا پیکٹ بنا ہی نہیں تھا۔ اس لیے کہ گوشت ووشت تو ان کا کب کا بند ہو چکا تھا، اب تو وہ صرف لکویڈ غذا پر چل رہے تھے۔

اتفاق سے اسی دن مجھے دہلی آنا پڑ گیا اور ان کا حصّہ رہ گیا۔ شام کو ان کا فون آیا کہ ابھی تک میرا حصّہ نہیں پہنچا، کیا تم لوگوں نے مجھے اپنے فیملی ممبر سے اب الگ کر دیا ہے۔ اس جملے نے مجھے دہلا دیا۔ اس کی کر بنا کی مجھے سر سے پیر تک چیر گئی۔ شرمندہ ہو کر میں نے پھر ایک بہانہ بنایا، ’’مجھے جلدی میں دہلی آنا پڑا اس لیے میں خود نہیں پہنچا سکا، ویسے میں بشریٰ سے کہہ آیا ہوں کہ وہ آپ کا حصّہ کسی سے بھجوا دیں۔ شاید وہ بھول گئیں۔ میں ابھی ان کو فون کیے دے رہا ہوں ‘‘۔ اور میں نے بشریٰ کو فون کیا کہ وہ فوراً شہریار صاحب کا حصّہ ان تک پہچانے کا بندو بست کریں۔

کوئی دو ڈھائی گھنٹے بعد شہر یار صاحب کا فون آیا، ’’بیٹے !میرا حصّہ مل گیا۔ شکریہ ‘‘۔

اپنے حصّے کے لیے ضد کی حد تک تقاضا کرنا اس نفسیاتی گرہ کی طرف ہمیں لے جاتا ہے جو بیماری کے دنوں میں ان کے دل و دماغ میں پڑ گئی تھی۔

میں ان کا ا پنوں جیسا تھا، اپنا نہیں تھا، پھر بھی میرے لیے ان کی یہ نفسیات۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اپنوں کے ساتھ ان کی اس نفسیات کا کیا عالم ہو گا ؟

میری آنکھوں نے ہر ملاقات میں دیکھا کہ ان کی آنکھیں کچھ ڈھونڈ رہی ہیں۔ کون آیا ؟ کون نہیں آیا ؟ کون کیوں نہیں آیا؟اور کون کتنی بار آیا؟ شاید ان سب کا حساب لگا رہی ہوں۔ دیدوں میں چھپے آنسو یہ بھی بتاتے تھے کہ ان پر کیا کیا گزر رہا ہے ؟ کیسا کیسا ملال دل میں پل رہا ہے ؟ کس کس طرح کا غم انھیں کھائے جا رہا ہے ؟ کیسی کیسی پھانس سینے میں چبھی ہوئی ہے ؟

جس شخص کو ساری عمر ایک ایک انسان کو اپنا بنانے کی فکر رہی ہو، جس کے دل میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے قریب کرنے کی خواہش پلی ہو، جس نے ایک عالم کو اپنے ارد گرد سمیٹ لیا ہو اور جسے اپنوں کو کھونے کا اندیشہ اور کھو چکے لوگوں کا غم ستاتا رہا ہو، اسے یہ محسوس ہونے لگے کہ اس سے اس کے اپنے چھوٹ رہے ہیں۔ لوگ اس سے دور جا رہے ہیں۔ دوری بنا رہے ہیں۔ صرف تکلّفات نبھا رہے ہیں تو اس پر کیا گزرتی ہو گی؟ کیسی قیامت ٹوٹتی ہو گی؟ جو انسان دلوں کے درمیان دوری نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس کو اپنوں سے دوری کا احساس ہو جائے یا دل میں دوری کا اندیشہ ہی سما جائے تو وہ کس کرب سے گزرے گا اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے اور اسی اذیت ناک کرب کے ساتھ دل میں یہ خواہش لیے بھی کہ

بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہو گی

وہ شخص ایک دن گزر گیا۔

جب طائرِ روح نے پرواز کیا اور آشیاں کے دیدار کا سلسلہ شروع ہوا تو علی گڑھ کے ایک سفینے میں خلقت کا ازدہام سمٹ آیا۔ ملک کے گوشے گوشے سے چاہنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ میں بھی دیدۂ پر نم لیے حاضر ہو ا۔ دیدار کا شرف بھی حاصل ہوا لیکن آج میرے سوالوں کے جواب خاموشی دے رہی تھی اور ذہن کے پردے پر یہ منظر عکس ریز تھا ؎

وہ جو آسماں پہ ستارہ ہے

اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لو

اسے اپنے ہونٹوں سے چوم لو

اسے اپنے ہاتھوں سے توڑ لو

کہ اسی پہ حملہ ہے رات کا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے