جیلر بہت عجیب تھا۔ ہوتا بھی کیوں نہ…نو عمری میں ہی عہدہ جو سنبھال لیا تھا۔ اس کی جیل میں ہندو مسلم ہر مذہب و ملت کے قیدی تھے۔ جیل میں اتنے نہاں تہ خانے تھے کہ کب کون سا قیدی آیا اور کب کون گیا کسی کو خبر نہیں ہوتی تھی بلکہ کسی قیدی کو اس بات کا علم ہی نہیں ہونے پاتا تھا کہ جیل میں اس کے سوا بھی کوئی قیدی ہے یا نہیں۔ جیلر سخت محتاط تھا۔
جیسا کہ عرض کر چکا ہوں جیلر بہت عجیب تھا۔ ذرا سی غلطی ہونے پر وہ ان بھولے بھالے قیدیوں پر ظلم کرتا۔ ان کو ڈپٹتا، جھڑکتا، ان پر بگڑتا اور گرجتا۔ کبھی کسی قیدی پر اتنا برہم ہو جاتا کہ گالیوں سے نوازتا۔ تنگ آ کر قیدی اس کے آگے گڑگڑانے لگتا۔ اس کے پیر پکڑتا۔ مستقبل میں فرما بردار رہنے کا وعدہ کرتا تب جا کر کہیں جیلر خاموش ہوتا۔ اس سب کے بر عکس کبھی کبھی کسی قیدی کو لے کر قہوہ خانے بھی جاتا۔ کچھ خاص قیدیوں کو ریسٹورنٹ اور سنیما بھی لے جاتا اور واپس لا کر پھر جیل میں بند کر دیتا۔ قیدی کی تو سیر ہو جاتی لیکن جیلر کو نہ جانے کیا ملتا تھا۔ کچھ قیدیوں سے خصوصی طور پر ان کے سیل میں جا کر ہی ملتا اور گھنٹوں باتیں کرتا۔
ایک طرح سے جیلر اس جیل کا بادشاہ تھا اور اپنی گرجدار آواز کے ساتھ حکومت کرتا تھا۔ کسی بھی قیدی میں اس کے سامنے سر اٹھانے کی سکت نہیں تھی۔ جیل میں نہ جانے کیا جادو تھا جو بھی وہاں ایک بار آیا تو باہر نکلنے کے بارے میں سوچتا ہی نہیں بلکہ جیلر کے مظالم سہتے ہوئے بھی خوشی سے رہتا۔ کچھ قیدی ایسے تھے جو خاموش پڑے رہتے تھے اور سالہا سال ان سے جیلر کی ملاقات یا بات نہیں ہوتی تھی لیکن وہ بھی جیل سے نکلنے کے بارے میں نہیں سوچتے تھے۔ اب ایسے ماحول میں بغاوت کے آثار ٹھیک ویسے ہی تھے جیسے گولر کا پھول ہوتا ہے۔ جیلر کا بے فکرا ہونا لازمی تھا۔
ایک دن ایک قیدی نے دلیری کا مظاہرہ کیا اور جیلر کو نصیحت کرتے ہوئے اس کے سامنے ہی فرار ہو گیا۔ ایسا ہوتے ہی جیل میں زبردست آگ لگ گئی اور جیلر تڑپ اٹھا۔ جیل کی روایت ٹوٹی تھی…کوئی قیدی اس سے پہلے بھاگا نہیں تھا، وہ بھی جیلر کو نصیحت کر کے …ایسا تو کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔ جیلر کئی روز تک اداس رہا لیکن اس مفرور قیدی کو ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی۔ جیل میں لگی آگ سے دیگر قیدی بھی متاثر ہوئے۔ کبھی کبھار جیلر اگر کسی قیدی کے سیل کی طرف سے گزرتا تو قیدی اس سے جیل کی بڑھی ہوئی حرارت کے بارے میں دریافت کرتا لیکن جیلر خاموش وہاں سے گزر جاتا اور اگر کسی سے کوئی بات کرتا بھی تو بڑی بے رخی سے۔
دھیرے دھیرے سب معمول پر آنے لگا لیکن جیلر پچھلے سانحے سے ابھی تک ابر نہیں پایا تھا۔ اس نے قیدیوں کے ساتھ باہر جانا بہت کم کر دیا تھا جن قیدیوں سے روز ملتا تھا ان سے ہفتے میں اور جن سے ہفتے میں ملتا تھا ان سے مہینے میں ملنے لگا…اور جن قیدیوں سے برسوں میں ملاقات ہوتی تھی ان کو تو فی الوقت بھلا ہی دیا تھا۔ جیلر کا دل اب جیل میں نہیں لگ رہا تھا بلکہ وہ خود فرار چاہتا تھا۔ اپنے اسی ارادے کی تکمیل میں اس نے سارے قیدیوں کو آزاد کر دیا اور خود جنگل کا رخ کیا۔ جنگل میں ایک سفیدریش بزرگ سے ملاقات ہوئی انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے بتاتے ہوئے کہا…پہاڑوں کے اس طرف ایک گھنا جنگل پار کرنے کے بعد دور ایک شہر آئے گا اور اس شہر کے بعد ایک ’’کتابوں کا جنگل‘‘، تم وہیں جاؤ تمہاری منزل وہیں ملے گی اور سکون بھی۔ بزرگ اتنا کہہ کر غائب ہو گئے اور جیلر نے بھی اپنا راستہ لیا۔ کئی دنوں کی مشقت کے بعد جب جیلر کتابوں کے جنگل میں پہنچا وہاں کا نظارہ ہی دوسرا تھا۔ اس کی آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں۔ یہاں آنے کے بعد اس نے کچھ ہی دنوں میں محسوس کیا کہ وہ کسی قید خانے میں آ گیا ہے لیکن اس بار وہ جیلر نہیں قیدی ہے۔
٭٭٭