بہاروں سے بھرا پیشہ
منصور آفاق
بہاروں سے بھرے گھر میں پچاسی سال کا بوڑھا
پچاسی سبز موسم انگلیوں پہ گن کے بولا، ایک لڑکے سے
صدی سے کم نہیں میرا یہاں پر بیٹھنا بیٹے
تجھے چوپال کیوں اچھی نہیں لگتی
مری جاگیر ورثہ ہے مرے اجداد کا بیٹے
مرے دادا کے اور والد کے کھیتوں میں مسلسل چلتے رہنے سے زمیں پر فصل اگتی تھی
یقیناً چاپ سن کر میری نسلوں کی
یہ مٹی اور بھی زرخیز ہو گی
مگر بیٹے کہو بیٹے کہو نم
یہ پیشہ چھوڑنا کیوں چاہتے ہو
وراثت ہے تمہاری
تمہارے باپ دادا۔ ۔ ہل چلاتے تھے
سوتم بھی ہل چلانے کیلئے پیدا ہوئے ہو
یہ محنت کوئی طعنہ تو نہیں ہے۔ ۔ تم کبوتر ہو۔ ۔
کبوتر کیلئے اچھا نہیں شہباز کا پیشہ
یہ ساری گفتگو سن کر کہا، دہقان کے پُر عزم بیٹے نے
’’تمہاری نسل کے گھر میں رکے ہیں سبز موسم
مرے گھر میں کئی نسلوں سے ویرانی خزاں کی
مجھے تو سوچنا ہے
بہاروں سے بھرے گھر
جیسے تم لوگوں کے ہیں بابا
یہ کیسے ہاتھ آتے ہیں
مجھے معلوم کرنا ہے بہاروں سے بھرا پیشہ
مجھے معلوم کرنا ہے بہاروں سے بھرا پیشہ
٭٭٭