__________________________________________________________________________
شرکاء محفل : بی نرسنگ راؤ، مجتبیٰ حسین، مصحف اقبال توصیفی اور خالد قادری
__________________________________________________________________________
ابتدائیہ : سید امتیاز الدین : آج کی اس محفل میں ایک ایسی جگہ کا ذکر ہو گا جو کہنے کو ہوٹل تھی لیکن وہاں ادب و شعر، سیاست اور سماجی مسائل پر گفتگو ہوتی تھی۔ جس طرح ہر آدمی کو اپنے گھر سے اُنس ہوتا ہے، اورینٹ ہوٹل آنے والوں کو اُس کے در و دیوار سے الفت تھی۔ بعض لوگ شام کا انتظار کرتے تھے کہ اورینٹ جائیں اور اپنی شام کو رنگین بنائیں۔ اورینٹ ہوٹل کی عمارت ایک پُرسکون بنگلے کی طرح تھی۔ سنا ہے کہ کسی زمانے میں یہ عمارت حیدرآباد کے ایک رئیس نواب افسر جنگ کا اصطبل تھا اور اسے 15 ہزار روپئے میں خریدا گیا تھا۔ جس خاندان نے اُسے خریدا تھا، اُس کے ایک فرد جناب محمد عبدالوہاب خاں سے ہماری بات ہوئی۔ عبدالوہاب خاں صاحب کافی ضعیف ہو چکے ہیں اور علیل بھی ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ ابتداء میں اس ہوٹل کا نام عزیز کمپنی تھا۔ بعد میں اورینٹ کے نام سے ہوٹل کھُلی۔ 1973 میں یہ ہوٹل بند ہو گئی۔ آج کل یہاں شہر کا بہت بڑا شاپنگ کامپلکس ہے، جہاں سوٹ کیس اور سامانِ سفر سے لے کر ملبوسات اور گھریلو ضروریات کی اشیاء بکتی ہیں۔ حیدرآباد کی قدیم ترین فونٹن پن کی دکان دکن پن اسٹور جو کبھی ترپ بازار کے قریب ہوا کرتی تھی اب یہیں منتقل ہو گئی ہے۔ پہلے اورینٹ ہوٹل میں اہلِ قلم اور دانشور آتے تھے۔ اُس روایت کی پاسداری میں دکن پن اسٹور اہلِ قلم کی خدمت کرتی ہے۔ اورینٹ ہوٹل کے قدیم سرپرستوں میں بہت سے لوگ اب نہیں رہے۔ لیکن اب بھی کچھ ایسی ہستیاں موجود ہیں جنہیں وہ زمانہ یاد ہے۔ آج کی اِس محفل میں چار اصحاب اپنی یادوں کو تازہ کریں گے۔ مجتبیٰ حسین صاحب کا نام محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ نے اپنی ادبی زندگی کی ابتداء اُن ہی دنوں کی جو اِس ہوٹل کے عروج کا زمانہ تھا۔
یہیں آپ کی ملاقات کئی مشہور اہلِ قلم اور دانشوروں سے ہوئی۔ مجتبیٰ حسین اُن دنوں بہت کم عمر تھے، لیکن اُن کی شوخی، بذلہ سنجی اور لطیفہ گوئی کی اتنی دھوم تھی کہ ہر کوئی اُن سے ملنا اور اُن کی باتیں سننا چاہتا تھا۔ بی نرسنگ راؤ زمانۂ طالب علمی ہی سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ نظام کالج کی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر رہے۔ آل حیدرآباد اسٹوڈنٹس یونین کے صدر رہنے کے علاوہ آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے بھی صدر رہے۔ شروع میں وویک وردھنی کالج میں سیاسیاست کے لکچرر رہے۔ پھر کچھ عرصہ انوار العلوم کالج میں بھی سیاسیات کے استاد کے فرائض انجام دیتے رہے۔ بعد میں برطانیہ چلے گئے۔ اِس وقت اورینٹ ہوٹل کے قدیم سرپرستوں میں وہ سب سے زیادہ سینئر ہیں۔ مصحف اقبال توصیفی جدید لب و لہجے کے منفرد اور ممتاز شاعر ہیں اور وہ بھی اورینٹ ہوٹل کے ہر روز کے آنے والوں میں تھے۔ خالد قادری صاحب بھی انگریزی کے استاد رہ چکے ہیں۔ خالد صاحب نے کئی مضامین اور خاکے لکھے ہیں۔ آپ کا تعلق اتر پردیش سے ہے، لیکن اب حیدرآباد آپ کا وطنِ ثانی ہے۔ مصحف اقبال توصیفی اور خالد قادری ذرا بعد میں اورینٹ آئے لیکن آپ دونوں کو بھی وہ پُر لطف شامیں خوب یاد ہیں۔ اِس خوشگوار محفل کی ابتداء مجتبیٰ حسین نے اپنے ایک انشائیے سے کی جو اُنہوں نے اورینٹ ہوٹل کے بند ہو جانے کے بعد لکھا تھا۔ اُس انشائیے کے چند جملے آپ بھی سنیئے۔
مجتبیٰ حسین : ’’اورینٹ ہوٹل کی خوبی یہ تھی کہ یہ علم و ادب، سیاست و تہذیب کا گہوارہ تھی۔ یونیورسٹی سے گریجویشن کی تکمیل کر کے نکلنے والے اکثر طلباء اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے اورینٹ ہوٹل میں ہی داخلہ لیا کرتے تھے، کیونکہ یونیورسٹی میں تعلیم کی جو خامیاں رہ جاتی تھیں وہ یہاں دور ہو جایا کرتی تھیں۔ پھر یہاں تعلیم کی کوئی فیس نہیں دینی پڑتی تھی۔ دن بھر میں ایک چائے منگائی تو منگائی، نہ منگائی تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ اورینٹ ہوٹل میں شعر سنائے جاتے تھے۔ افسانے پڑھے جاتے تھے۔ ایک دوسرے کو گالیاں دی جاتی تھیں۔ غیبت کرنے کے لئے اس سے بہتر مقام کوئی اور نہ تھا۔ ادب میں شعراء کے مقام کا تعین کیا جاتا تھا۔ اچھے سے اچھے شعر کی گونج پہلے یہیں سنائی دیتی تھی اور تب کہیں مشاعرہ میں پہنچتی تھی‘‘۔ اس کے بعد مجتبیٰ حسین صاحب نے بی نرسنگ راؤ صاحب سے خواہش کی کہ وہ اپنے تاثرات پیش کریں۔
بی نرسنگ راؤ : اورینٹ ہوٹل کے بارے میں کہنا ہو تو گھنٹوں لگ جائیں گے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میرے ایک ہم جماعت نظام کالج میں میرے ساتھ تھے۔ اُن کا نام عبدالرحمن تھا جو نواب عبدالباسط خاں صوبیدار ورنگل کے فرزند تھے۔ کرکٹ کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ انہوں نے اِس ہوٹل کی ابتداء کی تھی۔ شروع میں اس کا نام عزیز کمپنی تھا۔ 50۔ 51 19 میں اس کا نام اورینٹ ہوٹل رکھا گیا۔ اُن دنوں حیدرآباد میں اِس طرز کے ریسٹورنٹ کم تھے۔ انڈیا کافی بورڈ نے کافی کو مقبول بنانے کیلئے ہندوستان کے کئی شہروں میں کافی ہاؤس کھول رکھے تھے جیسے لکھنؤ میں حضرت گنج کا کافی ہاؤس، دہلی میں انڈیا کافی ہاؤس۔ پہلے ایسا ہی کافی ہاؤس عابڈس پر تھا جو بعد میں سلطان بازار منتقل ہو گیا۔ 1958 تک کافی جنوبی ہند میں کافی مقبول ہو چکی تھی۔ اِس لئے کافی بورڈ نے کافی ہاؤس بند کر دیا۔ اب سب لوگوں نے اورینٹ کا رُخ کیا۔ ایک صاحب جن کا نام شہاب الدین تھا، مغلپورہ سے دن میں دو مرتبہ پابندی سے اورینٹ آتے تھے۔ اُن کا پہلا سیشن دن میں ایک بجے تک رہتا تھا۔ پھر گھر جاتے اور شام میں دوبارہ اورینٹ آ جاتے تھے۔ وہ کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ تھے اور بسر اوقات کے لئے ترجمے کا کام کیا کرتے تھے۔ 60 کی دہائی میں اور لوگ بھی آنے لگے جیسے ایم ایم ہاشم، ٹی انجیا اور جی وینکٹ سوامی وغیرہ۔ عابد روڈ شہر کا اہم ترین تجارتی مرکز تھا۔ سلطان بازار میں قومی تحریکات کا زیادہ غلبہ تھا۔ پی وی نرسمہا راؤ وغیرہ زیادہ تر اُدھر جاتے تھے۔ تلک روڈ پر نظامیہ ریسٹورنٹ تھا جہاں ابراہیم جلیس اور نظر حیدرآبادی کی نشست رہا کرتی تھی۔ بعد میں نظامیہ بند ہو گیا۔ اورینٹ سماجی مرکز بن گیا۔ لوگ ملنے ملانے کیلئے ایک دوسرے کا پتہ پوچھتے تو اکثر حضرات اورینٹ کا پتہ دیتے۔ کری پفس جیسے اورینٹ میں ملتے تھے ویسے میں نے کہیں نہیں دیکھے۔ شام میں کھلی جگہ پر میزیں لگائی جاتی تھیں جہاں لوگ فرحت محسوس کرتے تھے۔ ایک شام میں اور شہاب الدین بیٹھے تھے۔ ہمارے ساتھ ایک صاحب اور بھی تھے جو ہر موضوع پر بے تکان بولتے تھے۔ اتفاق سے اس وقت عالمگیر شہرت کے آرٹسٹ ایم ایف حسین آ گئے۔ اِن صاحب نے آرٹ کے موضوع پر بولنا شروع کیا اور آدھے گھنٹے تک نان اسٹاپ بولتے رہے۔ حسین خاموشی سے سنتے رہے۔ کبھی رام منوہر لوہیا بھی آ جاتے تھے۔
مجتبیٰ حسین : اُن صاحب کا نام کیا تھا جو ہر موضوع پر بولتے تھے۔
نرسنگ راؤ : اب جانے بھی دیجئے کیونکہ اب وہ نہیں رہے۔ بعد میں بہت اصرار پر نرسنگ راؤ نے بتایا کہ اُن صاحب کا نام پریم چند تھا۔
مجتبیٰ حسین : مخدوم اور خورشید احمد جامی بھی آتے تھے۔
نرسنگ راؤ : میں نے اپنی یادداشت سے اورینٹ ہوٹل کا ایک نقشہ بھی بنایا ہے۔
سید امتیاز الدین : اب میں مصحف اقبال توصیفی سے اپنے تاثرات بیان کرنے کی درخواست کروں گا۔
مصحف اقبال توصیفی : ہم لوگ ابتداء سے تو اورینٹ آنے والوں میں سے نہیں تھے۔ شہریار کا مصرع ہے۔ ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے۔ 1958۔ 59 سے لے کر 1970۔ 71 تک شاذ تمکنت، عوض سعید اور میں اپنی شامیں اورینٹ میں گزارا کرتے تھے۔ شام ہوئی کہ دفعتاً مڑ گئے اک طرف کو ہم، والی بات تھی۔ سلیمان اریب، خورشید احمد جامی اور حسن عسکری سے یہیں ملاقات ہوتی تھی۔ جامی اور حسن عسکری بالعموم دوپہر میں آتے تھے۔ ہم لوگ آپس میں ایک دوسرے کو شعر سناتے تھے۔ ان صحبتوں میں مجھے دو چیزیں حاصل ہوئیں۔ ابتداء میں میرا رجحان نظم گوئی کی طرف تھا۔ شاذ تمکنت نے طرح دے کر مجھ سے غزل کہلوائی۔ اِس طرح میری غزل گوئی کی ابتداء ہوئی۔ مخدوم سے میں پہلے پہل یہیں ملا اور انہیں کلام سنایا۔ مخدوم پسندیدگی کے اظہار کے طور پر مصافحہ کیا کرتے تھے۔ ایک بار شاذ، عوض اور میں اورینٹ گئے تو معلوم ہوا کہ جگر مرادآبادی وہیں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ شاذ نے کہا چلو جگر صاحب سے ملتے ہیں۔ شاذ نے شرارتاً جگر صاحب کے سامنے یگانہ چنگیزی کا ذکر چھیڑ دیا۔ جگر یگانہ کو شاعر ہی نہیں سمجھتے تھے اور انہیں ایک مصرعے کا شاعر کہتے تھے۔ شاذ دراصل یہ جاننا چاہتے تھے کہ جگر صاحب یگانہ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔
یگانہ کا نام سُن کر جگر صاحب نے جھرجھری سی لی اور کہنے لگے صاحب! یگانہ تو ایک شعلہ تھا جو اپنی ہی آگ میں بھسم ہو کر رہ گیا۔ یہ جگر کی عالی ظرفی تھی۔ غرض اورینٹ ایک ہوٹل ہی نہیں ادبی تربیت گاہ بھی تھی۔
خالد قادری : میں لکھنؤ سے حیدرآباد آیا تھا۔ پہلی بار شاذ تمکنت صاحب کے ساتھ اورینٹ آیا۔ جب وہاں پہنچا تو ہم ایک راہداری سے ہو کر اپنے ٹیبل پر پہنچے۔ یہاں بیلیں تھیں اور نسبتاً خاموشی زیادہ تھی۔ میں نے اتنا اچھا ماحول کہیں نہیں دیکھا۔ مجھے تفریح دکن اور مدینہ ہوٹل جانے کا بھی اتفاق ہوا لیکن اورینٹ جیسا ماحول کہیں نہیں تھا۔ ایک بار شاذ صاحب کے ساتھ آیا تو دیکھا کہ ایک ٹیبل پر بڑی ہماہمی تھی۔ شاذ صاحب نے کہا چلو اندر چلیں۔ یہاں مجتبیٰ بیٹھا ہے۔ بہت شریر اور جملہ باز آدمی ہے۔ اورینٹ ہی میں میری ملاقات ٹی انجیا، کیشوراؤ جادھو، حسن عسکری، عالم خوندمیری، اظہر خورشید اور اقبال متین سے ہوئی۔ مغربی ممالک میں اٹھارویں صدی سے کافی ہاؤس کی روایت چلی آ رہی ہے۔ شیلے، ڈاکٹر جانسن اور بہت سے ادیب کافی ہاؤس میں تبادلۂ خیال کیا کرتے تھے۔ بعد میں لندن کی اہمیت گھٹ گئی۔ پیرس (فرانس) میں ادیبوں کی بیٹھکیں ہونے لگیں۔ ایذرا پاونڈ، ارنسٹ ہیمنگوے، ٹی ایس ایلیٹ کافی ہاوس میں بیٹھتے تھے۔ اورینٹ ہوٹل کو بھی ہم اسی زمرے میں رکھ سکتے ہیں۔ جیسے لاہور کا ٹی ہاؤس تھا جہاں ترقی پسندوں کے علاوہ حلقہ اربابِ ذوق کے ادیب، شاعر جمع ہوتے تھے۔
مجتبیٰ حسین : اورینٹ آنے والوں نے کافی نام کمایا۔ بائیں بازو کے دانشور بھی یہاں آتے تھے۔ میری تربیت بھی یہیں ہوئی۔ بشیرالدین احمد جو بعد میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر بنے، رشید الدین خاں، کامریڈ رفیع، نقی تنویر، ڈاکٹر یوسف علی خاں، ایم اے رشید، مجید صدیقی، حفیظ قیصر، احمد رضا قادری، پروفیسر حامد قادری، رحیم اختر، سید رحمت علی، سعید بن محمد، اختر حسن، اسٹیٹ بینک آف حیدرآباد کے عبدالباری، سرینواس لاہوٹی، وقار لطیف، علی باقر اور نہ جانے کتنے لوگ آتے تھے۔
مصحف اقبال : کنول پرشاد کنول بھی آتے تھے۔
مجتبیٰ حسین : ہندی ادیبوں کا حلقہ بھی تھا۔ راجہ دوبے اور اوم پرکاش نرمل بھی آتے تھے۔ گوسوامی صاحب کا قہقہہ فلک شگاف ہوا کرتا تھا۔ کنگ سرکل بھی تھی لیکن وہاں کم لوگ آتے تھے۔
مصحف اقبال : جامی صاحب پنجہ بھی لڑاتے تھے۔
مجتبیٰ حسین : پہلی بار میں نے آر کے لکشمن کو یہیں دیکھا۔ وہ اس وقت کارٹون بنا رہے تھے۔ ایم ایف حسین بھی آتے تھے لیکن کبھی وہ اڈلی دوسہ کھانے کیلئے گوپی ہوٹل چلے جاتے تھے۔
نرسنگ راؤ: بیروں کا یونیفارم ہوا کرتا تھا۔
مجتبیٰ حسین : لاہور کے ایک ہوٹل میں چراغ حسن حسرت جاتے تھے۔ ایک بار وہ ہوٹل میں خاموش بیٹھے تھے۔ ہوٹل کے مالک نے پوچھا کیا آپ نے آرڈر نہیں دیا۔ چراغ حسن حسرت نے جواب دیا کہ آرڈر دیا تو تھا لیکن ابھی تک سپلائی نہیں ہوئی۔ مالک نے پوچھا کیا وہ بیرا بوڑھا تھا۔ حسرت نے جواب دیا ’’جب میں نے آرڈر دیا تھا تب تو وہ جوان تھا۔ شاید اب تک بوڑھا ہو گیا ہو‘‘۔
نرسنگ راؤ : فرانسیس بھی ایک بیرا تھا جو بعد میں فتح میدان کلب چلا گیا۔ متو سوامی سب سے پرانا بیرا تھا۔ ایک ہنس مکھ بیرا قاسم بھی تھا۔
مصحف اقبال : کچھ دن کے لئے اورینٹ میں Jukebox بھی لگا تھا۔ شاذ اکثر بیگم اختر کی ایک غزل ’’اس عشق کے ہاتھوں سے ہرگز نہ مفر دیکھا‘‘ سنتے تھے۔ ایک احمد حسین صاحب بھی تھے جنہوں نے اریب کی شادی کروائی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے باہر کی دنیا کو اورینٹ کے اندر سے دیکھا۔
سید امتیاز الدین : میں اورینٹ کو ایک یا دو دفعہ ہی گیا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ پہلی بار جب میں گیا تو یکم نومبر 1956 تھی اور آندھراپردیش قائم ہوا تھا۔ مخدوم اور شاہد صدیقی بھی تھے۔ شاہد صدیقی نے فی البدیہہ شعر سنایا تھا۔
آندھرا کی پری جب بڑی ہو گئی
چار مینار لے کر کھڑی ہو گئی
نرسنگ راؤ : بہرحال اورینٹ جیسی پرسکون جگہ اب نہیں رہی۔
امتیاز الدین : اس کے بند ہونے کی وجہ کیا تھی۔
خالد قادری : اب قدریں بدل گئیں۔ نئی نسل میں وہ ذوق نہیں رہا۔ دنیا کو فرصت بھی کم ہے۔
امتیاز : مجھے خوشی ہے کہ آج آپ حضرات نے بھولی بسری یادیں تازہ کیں۔
نقش ماضی کے ابھی ذہن میں تازہ ہیں بہت
حافظہ دل کی طرح زود فراموش نہیں
٭٭٭