انتہائے کمال سے گوشۂ جمال تک (قسط ۳) ۔۔۔ ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ

جمعرات کو روزہ رکھنے کی نیت اسلام آباد سے کر کے چلی تھی کہ مکہ مکرمہ میں پچھلے تینوں اسفار میں کوئی روزہ نہ رکھ سکی تھی لیکن ہوا یہ کہ ہفتے کو مدینہ منورہ جانے کا پروگرام طے پا گیا۔ میں نے سوچا اگر آج روزہ رکھ لیتی ہوں تو کل جمعہ ہے، جمعے کو بہت بھیڑ ہوتی ہے عمرے کے لیے نہ جا سکیں گے اور ہفتے کو مدینہ کے لیے نکل جائیں گے تو عمرہ جمعرات کو کر ہی لیا جائے۔ یوں روزہ نہ رکھنے کا جواز بنا لیا، کیا میں روزے کی مشکلات سے ڈر گئی تھی۔ بہر حال عمرہ مکمل کر کے باب فہد گیٹ نمبر ۹۲ سے ایکسلیٹر کے ذریعے دوسری منزل پہنچ گئے۔ یہاں مکتبہ مسجد الحرام بھی دکھائی دیا بہت جی چاہا لیکن ہم نے جانے کی ہمت نہ کی کہ سامنے بیٹھا شرطہ نسا ممنوع کا نعرہ نہ لگا دے۔ قرآن کریم کے دیوار گیر شیلف بہت خوبصورت ڈیزائن کے تھے ان کی تصویر بھی کھینچ لی کہ کتابوں کے لیے ایسے شیلف بہت کار آمد رہیں گے۔ عصر کی نماز کے ساتھ ہی دسترخوان بچھنے شروع ہو گئے۔ مختلف ٹولیوں میں خواتین اپنے گرد افطار کا سامان لے کر بیٹھ گئیں وہ اور کچھ مدد گار لڑکیوں نے اس سامان کو ترتیب دینا شروع کیا۔ چھوٹی چھوٹی پلیٹیں مختلف قسم کی کھجوروں سے آراستہ کر کے دسترخوانوں پر سجائی جانے لگیں۔ ثروت باجی قرآنِ پاک کی تلاوت میں محو رہیں۔ بچیاں کبھی چاکلیٹس پکڑا جاتیں اور کبھی کھجوریں۔ سامنے بھی بہت کچھ دھرا تھا۔ پچھلے عمرے پر مسجدِ نبوی میں یہ مناظر میں دیکھ چکی تھی، لیکن وہاں انواع و اقسام کی اشیا موجود ہوا کرتی تھیں۔ ثروت باجی کے لیے یہ مناظر نئے تھے، وہ حیران بھی تھیں کہ پچھلے تمام اسفار میں انھوں نے روزہ افطار کرنے کے یہ خوبصورت مناظر کیوں نہ دیکھے۔ دل میں شرمندگی کا احساس جاگتا تھا کہ مجھے بھی آج روزہ دار کے حیثیت سے یہاں ہونا تھا، جسے عمرے کی تکمیل کے اطمینان سے ٹالتی تھی۔
مغرب کی نماز کے بعد گیلری میں آ بیٹھے کہ کعبہ کا حسن دیکھنا ہو تو رات کو دیکھو، دن میں بھی اس گیلری کے چکر لگاتے رہے تھے۔ اب یہاں یہ آرام ہو گیا ہے کہ سیکڑوں کی تعداد میں کر سیاں دھری ہیں۔ کھلا برآمدہ ہے پانچ پانچ سات سات رو بنی ہیں کرسی رکھو، بیٹھو اور دیدار کعبہ سے مستفید ہو، پہلے تو ایک تنگ سی گیلری تھی جس میں کھڑے بھی نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہیل چیر پر طواف کرنے والوں کی گزر گاہ ہے، تسبیحات بہت ترتیب کے ساتھ کرنا چاہتی تھی لیکن بے ترتیبی غالب رہی۔
عشا کے بعد ہوٹل جانے کے لیے باہر نکلے آج مجھے کاؤنٹگ والی تسبیح خریدنا تھی۔ وہ خریدی اور اللہ تعالیٰ سے مدد کی درخواست کی کہ وہ میری شکستہ دعاؤں اور اذکار میں اعداد و شمار کی بھول چوک سے در گزر فرمائے کہ میں جب بھی کوئی تسبیح پڑھتی ہوں اللہ سے پہلے ہی اپنی کوتاہیوں کی معافی طلب کر لیتی ہوں خاص طور سے یہ کہ میں تعداد کا صحیح شمار نہ رکھ پاؤں گی۔ میری دعائیں سلیقے اور طریقے سے محروم ہوتی ہیں تو انھیں شرفِ قبولیت عطا کر، مجھے اپنے شکر گزار بندوں میں شمار کر۔ شمارِ دانہ والی تسبیح لے کر درودِ پاک سے ابتدا کی لیکن مجھے اندازہ ہو گیا کہ جو میں نیت کر رہی ہوں اتنا پڑھنا میرے اختیار میں نہیں۔ یہاں بھی اللہ کے حبیبﷺ نے مدد کی۔ فرمانِ نبویﷺ ہے کہ اگر آپ رات میں عبادت کی نیت کرتے ہیں ( جیسا کہ شبِ برات، شبِ قدر وغیرہ) اور کسی بھی سبب آپ اتنی عبادت نہیں کر پاتے تو آپ ظہر کی نماز سے پہلے پہلے پڑھ لیں، یہ ایسا ہی ہو گا جیسا کہ آپ نے شب بیداری کی۔ ثروت باجی، جاوید بھائی اور شاہد بھی اس تسبیح کی تکمیل میں مسلسل شامل رہے۔ اللہ ہم سب کی دعاؤں کو قبول کرے۔
وہ ربِ کریم بہت مہربان اور اپنی مخلوق سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ کیا ہم پر بھی فرض نہیں ہے کہ ہم اس کی ذات اس کی عبادات میں اتنا ہی ادب ملحوظ رکھیں۔ وہ عطا ہی عطا میں خطا ہی خطا۔ اللہ کا کرم ہے کہ وہ پھیلے ہوئے ہاتھوں کو، دل کی سرزمین پر اگنے والی خواہشوں کو، لبوں سے نکلتی دعاؤں کو شرف باریابی بخشتا ہے۔ ہم شکر ادا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
ثروت باجی کی محبتوں کی کوئی حد ہے نا حساب۔ جب انھوں نے عمرے پر جانے کی بے حد خوشی سے ہامی بھر لی۔ تیاری بھی شروع کر دی اور اچانک انھیں کمر کے شدید درد نے آ گھیرا۔ ڈاکٹرز، دوائیاں، انجکشن، مالش، ہر عمل کیا گیا۔ ایک آدھ مرتبہ تو وہ عمرے پر جانے سے مایوس ہی ہو گئیں۔
’’طاہرہ! میں تو سیدھی کھڑی بھی نہیں ہو سکتی، واش روم تک جانا بھی شدید مشکل ہو گیا ہے۔ میں نہیں جا سکتی میرا بلاوا نہیں ہے۔‘‘
جاوید، فہد، ڈاکٹر صدف سبھی کی زندگی کا سب سے بڑا امتحان یا چیلنج یہی تھا کہ کسی طرح ثروت باجی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائیں، اتنے شوق سے تیاری کر رہی ہیں اللہ انھیں صحت دے، یہ اس کے گھر سے ہو آئیں۔ اس آخری مرحلے پر راستہ کھوٹا نہ ہو جائے۔ پھر ان کا فون آیا:
’’میں بہتر محسوس کر رہی ہوں، سامان پیک کروانے میں بھی مدد کر رہی ہوں۔‘‘ اور ایک جملہ یہ بھی ان کے منہ سے نکل گیا کہ آج میں سلائی مشین پر بھی بیٹھی ہوں، لیکن جلدی سے انھوں نے بات آئی گئی کرنے کی کوشش کی۔ آج جمعۃ المبارک کی تیاری کے لیے میں نے نماز فجر کے بعد واپسی ہی سے شور مچا دیا تھا کہ نو بجے کے بعد گئے تو حرم میں جگہ نہیں ملے گی۔ اب ثروت باجی نے وہ خوبصورت سفید سوٹ نکال کر مجھے دیا۔ ’’یہ میں نے تمھارے لیے جمعے کی نماز کے لیے خود سیا ہے‘‘ ۔ شکریہ کہنا تو بے معنی بات ہوتی، میں نے بہت محبت اور احساسِ شکر گزاری کے ساتھ سوٹ پہنا اور اب ہم جمعے کی نماز کے لیے حرم جاتے تھے اور یہ بتانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ میں جو سوچ کر گئی تھی کہ ثروت باجی کا بہت دھیان رکھنا ہے۔ روز انھیں دباؤں گی۔ بہت آہستہ آہستہ چلوں گی۔ ان کی دواؤں کا خیال رکھوں گی وغیرہ وغیرہ اور جب انھیں بایئس نومبر کو پہلے روز ہی دیکھا تو معلوم ہوا کہ ماشا اللہ بہت برق رفتار، بہت تازہ دم اور اس روز کے بعد سے اب تک میں دیکھ رہی تھی کہ ماشا اللہ مجھ سے آگے آگے چل رہی ہیں۔ دوران طواف ان کی چال سے قطع نظر میں تو ان دعاؤں کے حصار میں رہی جو وہ بہت ترتیب سے مانگ رہی تھیں۔ رکن یمانی سے حجر اسود تک عربی میں مسنون دعا اور حجر اسود سے رکن یمانی تک اردو میں جس میں عزیز و اقارب، اہل محلہ، مرحومین، اساتذہ کرام، اولاد اور تمام متعلقین کے لیے دعا، جس بندے کو جس شے کی طلب ہے، اس کی جانب سے دعا رب کریم کے حضور پیش کر دی ہے۔
آج جب ہم حرم پاک پہنچے تو خلافِ توقع بھیڑ بالکل نہ تھی مطاف میں اترے اور بہت سہولت سے خانہ کعبہ کو چھوتے ہوئے پندرہ منٹ میں طواف مکمل کر لیا۔ غلاف کعبہ تھام کے عالی، شکیل، سہیل، صائمہ، سمیرا، عطیہ، صبیحہ باجی اور سبھی بہن بھائیوں کے بلاوے کی، دینی دنیاوی کامیابیوں کی، صحت و تندرستی کی، عذابِ قبر سے محفوظ رہنے کی اور مغفرت کی دعا کی، دو نوافل کے بعد دوسرا طواف شروع کیا۔ اس طواف کے دوران میں صفائی والی جماعت آ گئی۔ یہ بھی ایک خوبصورت منظر ہوا کرتا ہے۔ کس محبت سے کس سرخوشی سے یہ سب مصروفِ عمل ہیں۔ اب ہجوم میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ نسا کے لیے مختص حصے میں صلوۃ التسبیح ادا کی۔
کہا جاتا ہے کہ اپنی مغفرت کی دعا کو مقدم رکھنا چاہیے۔ اللہ نے اپنے بندوں کو بن مانگے ہی حیثیت و اوقات سے بڑھ کر اتنا عطا کیا ہے کہ ہر لمحہ شکر گزاری میں بیتے تو بھی حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ دعائے مغفرت کی توفیق بھی اسی کی عطا ہے۔
الھم اغفر لی و للمومنین وا لمومنات و المسلمین وا لمسلمات۔۔ ۔۔ ۔ یا اللہ تو ہی دلوں کا حال جانتا ہے، تو ہی ہماری تمام دعاؤں کو سنتا ہے۔ یا اللہ انھیں شرف قبولیت بخش، اے میرے رب مجھے معاف کر دے، بخش دے اور میری توبہ قبول فرما مجھ پر عنایت فرما، بے شک تو بہت ہی عنایت فرمانے والا اور بہت ہی بخشنے والا ہے۔
نماز کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ خطبہ کا ابتدائی حصہ تو بہت کوشش کے بعد کچھ کچھ سمجھ میں آتا ہے دوسرا حصہ جس میں امام صاحب دعا کرتے ہیں وہ کچھ بہتر طور پر سمجھ لیتے ہیں۔ ان کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی دعائیں اپنے لیے اپنے پیاروں کے لیے اپنے ملک کی سلامتی کے لیے نا اہل حکمرانوں کی ہدایت کے لیے، ناگہانی سے محفوظ رہنے کے لیے دعا کرتی جاتی ہوں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ جس نے جمعہ کی نماز حرم پاک میں ادا کرنے کی توفیق بخشی، جمعہ اللہ کا پسندیدہ دن، کہ جس میں قبولیت دعا کی گھڑی کی نوید بھی دی گئی ہے۔
’’اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اپنے اوپر کسی عمارت کے ڈھے جانے سے اور کسی بلندی سے گر پڑنے سے، ڈوب جانے سے، آگ میں جل جانے سے اور انتہائی بڑھاپے سے اور تیری پناہ کا طلب گار ہوں کہ وہ وقت جو میری موت کا مقرر کیا گیا ہے، شیطان مجھے وسوسوں میں مبتلا کر دے اور تیری پناہ مانگتا ہوں اس امر سے کہ میں میدان جہاد میں پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہوا مروں اور پناہ چاہتا ہوں میں کسی زہریلے جانور کے ڈسنے سے ہلاک کیا جاؤں۔‘‘
عشا کے فوراً بعد ہوٹل جانے کا پروگرام تھا کہ صبح مدینہ کی جانب سفر کرنا ہے۔ ویلر میں وہ تمام سامان جو مکہ چھوڑ کر جانا تھا، وہ بھرا اور دو تین چھوٹے بیگ مدینہ کے لیے پہلے ہی تیار کر رکھے تھے ہوٹل پہنچ کر، ایک مرتبہ پھر انھیں حتمی شکل دی اور صبح بلکہ رات تین ساڑھے تین بجے ثروت باجی اور میں تہجد کے لیے حرم پاک جانے کے لیے تیار تھے۔ یہ منہ اندھیرے جانے والے ہم تنہا مسافر ہی نہ تھے سیکڑوں افراد تیز تیز قدموں سے حرم پاک جاتے تھے۔
رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
’’اندھیروں میں نماز کے لیے مسجد کی طرف چل کر جانے والوں کو قیامت کے دن پورے نور کی خوش خبری سنا دو۔‘‘ (ابنِ ماجہ) جاتے ہی تہجد کے نوافل ادا کیے اور پھر طواف کے لیے مطاف پہنچے۔ بہت آرام سے ایک طواف مکمل کیا، طواف کے معاملے میں میں بہت حریص ہوں۔ دو نوافل واجب الطواف کے بعد ثروت باجی سے اگلے طواف کی فرمائش کر دی جو انھوں نے بخوشی قبول کی۔ ابھی چھٹا شوط ہی مکمل ہوا تھا کہ شرطوں نے اعلان کرنا شروع کر دیا کہ اب نسا ممنوع، نسا باہر۔۔ ۔ ہم نے برآمدے میں نمازِ فجر ادا کی اور چند منٹ توقف کے بعد طواف کا آخری چکر مکمل کیا اور گھر جانے کے ارادے سے حرم سے باہر آئے۔ مدینے جا نا تھا، سفر میں کھانے پینے کے لیے کچھ لینا ضروری تھا، ناشتہ بھی لیا اور جب ہوٹل پہنچے تو شاہد اور جاوید کو غصے میں بھرے ہوئے پایا۔
’’نماز ختم ہوئے ڈیڑھ گھنٹہ ہو گیا ہے ہم نماز پڑھ کر فوراً آ گئے تھے تم لوگ اتنی دیر کہاں رہے ایک بس انتظار کے بعد نکل گئی ہے۔ ہم لوگوں نے سامان بھی بس میں نہ رکھا کہ تم لوگ پتا نہیں کہاں رہ گئے ہو کب آؤ گے فون تو اٹھا لیا کرو۔‘‘
میں تو ابھی تک سم سے محروم تھی اور ثروت باجی نے شاید فون خاموشی پر رکھا ہوا تھا، اس لیے ہمیں علم ہی نہ ہو سکا‘‘
’’اوپر جا کر دیکھ آؤ کچھ رہ تو نہیں گیا۔‘‘
شاہد ان چھوٹے بیگز اور شاپرز سے شدید پریشان اور الجھن میں تھے کہ بجائے ایک بڑا بیگ رکھنے کے تم نے یہ کیا ذرا ذرا سی پوٹلیاں بنا رکھی ہیں۔ اب اتنا وقت نہیں ہے کہ میں جو بڑا بیگ یہاں رکھو اچکا ہوں وہ واپس لاؤں اور اس کا سامان نکال کر یہ سات آٹھ نگ اس میں انڈیلوں۔ میں تیزی سے اوپر پہنچی تو باتھ روم میں دو تین سوٹ لٹکے ہوئے یہ لوگ وہیں چھوڑ آئے تھے۔ اسی طرح بہت سا دیگر سامان بھی ملا۔ بلکہ میں نے اوپر کے دو تین چکر لگائے ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی چیز سامنے آ جاتی تھی جو ہم بھول کر جا رہے تھے۔ اب اگلی بس کا انتظار تھا۔ بھوک بھی لگ رہی تھی، چلتے پھرتے تیزی سے ناشتہ بھی کر لیا کہ مجھے ایوامین کھانی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سفر میں بجائے درود شریف پڑھنے کے وہی نیند کی کیفیت طاری ہو کر مجھے ندامت کے گہرے احساس میں شرابور کرتی گئی۔ پھر دیگر تسبیحات بھی ضروری تھیں۔ بس یہی خیال رہا کہ اس مرتبہ جتنا درود شریف پڑھا کرتی ہوں اس قدر پڑھ نہیں پائی۔ دوپہر کے کھانے اور نمازِ ظہر کے لیے بس ٹھہرائی گئی۔ نماز سے فارغ ہو کر کھانا کھایا گیا۔ اب سبھی بہت جلدی مدینہ پہنچنا چاہتے ہیں کہ نمازِ عصر وہاں ادا کر لیں اور جب مدینہ کی ہواؤں نے خوش آمدید کہا تو با جماعت نماز کا وقت نکل چکا تھا۔ اس مرتبہ بس ابو خالد ہوٹل کی بجائے ہمیں کسی اور ہوٹل کی طرف لے جا رہی تھی اور میں روضہ رسولﷺ، ریاض الجنۃ کے دور ہو جانے کے خیال سے مسلسل بول رہی تھی کہ مجھے اس ہوٹل میں نہیں ٹھہرنا۔ بار بار تسلی دی جا رہی تھی کہ یہ بہت اچھا ہوٹل ہے، آپ چل کر دیکھیں تو سہی۔ سڑک کی مرمت کے باعث ہمیں کچھ دور اتار دیا گیا۔ اب وہ سارا سامان اٹھا کر ہمیں ہوٹل پہنچنا تھا۔ ہوٹل واقعی بہت اچھا تھا اور اس سے اچھی بات یہ کہ مسجدِ نبوی اور گنبد خضریٰ بالکل سامنے تھا۔ مونا ہوٹل کی دو عدد لفٹیں اتنے زیادہ زائرین کا بوجھ اٹھانے سے قاصر تھیں، اس لیے وہاں دیر لگی۔ کمرے میں پہنچ کر کسی کو بھی کمر سیدھی کرنے کا خیال نہ آیا سبھی جلد از جلد سلام کے لیے حاضر ہو نا چاہتے تھے۔ سامنے گنبدِ خضریٰ مسکراتا، اپنی اور بلاتا تھا اور میں جو کچھ منٹ پہلے بہت بحث مباحثہ کر چکی تھی کہ مجھے یہاں نہیں رکنا، اب بہت خوش تھی۔ پیاری سی مسجدِ غمامہ، مسجدِ علی بھی راہ میں خوش آمدید کہتی تھیں۔ مسجدِ علی کے باہر ایرانی خواتین و حضرات کا مختصر ہجوم تھا جو اپنے مبلغ و مقرر کی تقریر سننے میں محو تھا۔ ہم چاروں تیز تیز قدم اٹھاتے رواں تھے۔ مسجد سے ذرا پہلے، خیموں تلے ایک بازار، اتوار بازار نما، موجود تھا، اسے دیکھ کر خیال آیا کہ پچھلی تینوں مرتبہ جو راستے میں، سکارف، مسواک، پستے، عبائے، دوپٹے، شال، جرابیں، کھلونے اور دیگر اشیا بیچنے والے کشادہ راستوں کو محدود کر کے زائرین معتمرین کے لیے چلنا دشوار کر دیتے تھے، اب اس بازار کی وجہ سے اس مسئلہ کو حل کر لیا گیا ہے۔ شاہد نے یاد دلایا کہ پچھلی مرتبہ یہاں سے تم نے کچھ تحائف خریدے تھے لیکن تب یہ بازار اتنا منظم نہ تھا۔ اب ہم گیٹ نمبر سات پر پہنچ چکے تھے، یہ ہمارے لیے مانوس نہ تھا، بہر حال میں خوش تھی کہ ریاض الجنۃ یہاں سے قریب ہے، لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی۔ کیونکہ مرد حضرات کے لیے تو واقعی قریب تھا، عورتوں کو وہاں جانے کے لیے وہی بابِ عثمان، یعنی ۲۵ نمبر گیٹ۔ پچھلی دونوں مرتبہ ہماری آمد و رفت کا یہی دروازہ تھا اور وہیں سے ہم اشراق اور ظہر کے بعد روضہ رسولﷺ، سلام پیش کرنے چلے جایا کرتے تھے، اب ہمیں نماز کی ادائگی کے لیے باب عبد المجید، ۱۳ نمبر جو نسا کے لیے مخصوص تھا، وہاں جا نا تھا اور اگر ہم ریاض الجنۃ جانا چاہتے ہیں تو باب عمر اور بابِ فہد عبور کر کے بابِ عثمان گیٹ نمبر ۲۵ پہنچنا ہے۔ یہ معاملہ کچھ اتنا دل خوش کن نہ تھا۔ مجھے تو دن میں لازمی ایک یا دو مرتبہ ریاض الجنۃ کی عادت تھی لیکن اب کیا ہو گا۔ اللہ نے چاہا تو اب بھی کچھ سبب بن جائے گا۔ جس وقت ہم پہنچے نسا کے لیے روضۂ رسولﷺ جانے کا وقت نکل چکا تھا۔ بابِ عبد المجید میں نماز ادا کی اور وہیں سے درود و سلام کا نذرانہ بھیجتے رہے۔ اتوار کی صبح اللہ نے اس خواہش کی تکمیل کے اسباب پیدا کر دیے۔
کئی مراحل سے گزر کر ہمارے قدموں کو ریاض الجنۃ چومنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ لیکن اب اس عاشقان رسولﷺ کے ٹھاٹیں مارتے سمندر کی لہروں کا مقابلہ کرنا ہم ناتوانوں کے لیے آسان نہ تھا دو ایک مرتبہ تو محسوس ہوا کہ قدم اکھڑ گئے۔ بہت خیال آیا کہ شرطیاں ایسا کچھ انتظام کیوں نہیں کرتیں کہ آنے کا الگ اور جانے کا الگ راستہ مقرر کیا جائے یا ایک گروہ سے مکمل طور پر خالی کروا لیا جائے پھر دوسرے گروہ کو آنے کی اجازت دی جائے۔ بہت سخت انتظامی امور کی پابندی کے باوجود یہاں نظم و ضبط برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ بمشکل تمام یہاں سجدہ ریز ہونے کا موقع ملا، غالباً آٹھ نوافل ادا کر کے ثروت باجی سے کہا کہ اب باہر نکلتے ہیں شرطیاں بھی مسلسل جگہ چھوڑنے کے لیے اصرار کر رہی تھیں لیکن ثروت باجی کی فرمائش سن کر میں حیرت زدہ رہ گئی:
’’ابھی رک جاؤ صلوۃ التسبیح پڑھ کر جائیں گے۔۔ ۔۔‘‘
’’کیا کہہ رہی ہیں ثروت باجی؟؟؟‘‘
’’میں نے پچھلی مرتبہ پڑھی تھی، بہت آرام سے پڑھی گئی تھی۔‘‘
بڑی مشکل سے آمادہ کیا کہ ابھی ایسا کچھ موقع نہیں ہے، باہر نکل کر پڑھ لیں گے۔
ریاض الجنۃ سے نکلنا جسمانی طور پر ویسے ہی دشوار ہوتا ہے اور کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں۔ ہم اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود شرمساری اور ندامت کے احساس میں ڈوبے ہونے کے باوجود جنت کے متمنی رہتے ہیں۔ ریاض الجنۃ اپنے دامن میں اللہ کے سبھی نام لیواؤں کو سمیٹ لیتی ہے یہ دیکھے، پرکھے بغیر کون زہد و تقویٰ کے کس درجے پر ہے کون قعرِ معصیت میں اور کون قصر منزلت پر فائز ہے۔ رنگ، نسل، عمر، مقام اور در جے سے بے نیاز ہو کرسب کے لیے اپنی آغوش وا رکھتی ہے۔ یہاں دو نفل ادا کر کے ہم خود کو خوش نصیب تصور کرتے ہیں کہ ہمیں جنت کے اس گوشے میں چند لمحے قیام کا موقع نصیب ہوا جسے روز قیامت آسمان پر اٹھا لیا جائے گا۔ کیا ہم اگلے جہاں میں جنت کے حصول کے لیے اتنے ہی کوشاں ہیں، کیا اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل پیرا ہیں۔ اس کا جواب دینے کی بجائے ہم خدا سے شکوہ کناں ہیں:
ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیایہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی
تو اس دائمی زندگی میں قیام کے لیے انسان کتنا غور و فکر کرتا ہے، کتنا آگاہ ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ مجھ سے نیک گمان رکھو میں تمھارے گمان پورے کروں گا تو اپنے گناہوں کا حساب ایک طرف رکھتے ہیں اور اس کے کرم کا شمار ہمارا منصب ہی نہیں تو ہم جہنم کے شعلوں اور اس کی دہشت سے نگاہیں چراتے ہوئے مومنوں کے لیے اللہ کی نوید جنت کی بات کرتے ہیں۔ قرآنِ مجید اور احادیث میں بیان کیا گیا ہے کہ جنت کے مختلف درجے ہیں یا مختلف نام ہیں جو فردِ واحد کے نیک اعمال کے بدلے اسے نصیب ہو گی۔ بلند ترین درجہ علیین یا مقعدِ صدق، درجہ دیدارِ حق کے لیے مختص ہے۔
جنت العدن: زمرد سے سجی اس جنت میں نمازی، سخی اور عادل مقیم ہوں گے۔
جنت الماویٰ: نور سے بنی اس جنت میں شہید، لوگوں کی غلطیاں معاف کرنے والے، کثرت سے کار خیر کرنے والے قیام پذیر ہوں گے۔ جنت الفردوس: مقام محمود، غرفہ نور رضا سے مزین اس جنت میں آپﷺ تشریف فرما ہوں گے۔ آپﷺ کے ہمسایہ میں ان لوگوں کو رہنے کا شرف حاصل ہو گا: دو یا تین بیٹیوں کی پرورش اور بہترین تربیت کرنے والے والدین، بیوہ جو اپنے بچوں کی پرورش کے لیے عقدِ ثانی نہ کرے۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ جب بھی بندہ اپنے رب سے جنت کا سوال کرے تو جنت الفردوس مانگے۔
جنت النعیم: سبز زبرجد سے بنی اس جنت میں حکمی شہید وں کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ یعنی وہ جو حادثاتی موت کا شکار ہوئے ہوں یا، طویل بیماری ان کی موت کا سبب بنی ہو، موذن بھی بہت عزت و فخر کے ساتھ یہاں مقیم ہوں گے۔
دار القرار: متقی، نیکیوں میں سبقت لے جانے والے یہاں ابدی زندگی گزاریں گے۔
دارالسلام: یاقوتِ سرخ سے بنی اس جنت میں دنیا میں نعمتوں اور آسائشوں سے محروم و صابر افراد قیام کریں گے۔
دار الجلال، جنت دار المقام: یہاں بہت شکر کرنے والے، غنی اور نفسِ مطمئنہ کے مالک رہیں گے۔
دار المتقین، دار الآخرۃ، دار المقامۃ، دار الحیوان، دار الحسنیٰ، مقام امین، جنت الماویٰ اور دار الخلد وغیرہ جنت کے وہ نام و مقام کہ جہاں متقی و مومن ابدی قیام کریں گے۔
دنیاوی الجھنوں، سماجی رشتوں، روز گار کے مسائل میں گرفتار، نام نہاد مصروفیات کے چنگل میں پھنسے ہم کس جنت کے متعلق سوچتے ہیں، اگر ہم اپنی سوچ اپنے مسائل کا حل صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسولﷺ کی متعین کردہ راہ پر چلتے ہوئے تلاش کریں تو ہمارے گمان کو یقین میں بدلنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔
عشا کی نماز کے بعد ہوٹل پہنچے، بلکہ ہم پہلے پہنچے جاوید بھائی بعد میں آئے کہ کھانے پینے کا انتظام کرنا، پہلے ہی روز سے انھیں سونپ دیا گیا تھا اور وہ اس ذمہ داری کو بہت خوبی سے نبھا رہے تھے۔ ابھی کھانے کا آغاز ہی کیا تھا کہ دستک ہوئی، یہی دستک اسی وقت کل بھی ہوئی تھی۔ ’’زیارات کا کیا پروگرام ہے، اسلام آباد سے توقیر صاحب نے خاص ہدایت کی ہے کہ شاہد صاحب کو بہت اچھی طرح سے تمام زیارات کروانا۔‘‘
کل اس لیے انکار کیا تھا کہ آج ہی پہنچے ہیں، کل زیادہ وقت مسجدِ نبوی میں گزارنا چاہتے ہیں۔ آج جب انھوں نے زیارات کے لیے جانے کا پوچھا تو میں نے کہا کہ نہیں، کل مجھے روزہ رکھنا ہے، پرسوں چلیں گے۔ ثروت باجی کہنے لگیں روزہ رکھنا تو میں بھی چاہتی ہوں لیکن ہمت نہیں ہوتی۔۔ ۔ اور صبح سحری کے لیے وہ مجھ سے پہلے بیدار تھیں۔ نماز تہجد کے لیے حرم نبوی پہنچے، اس نیت سے کہ آج تمام دن وہیں قیام ہو گا۔ روزے کا تو بہانہ تھا، مدینہ آ کر کون دیارِ نبوی سے دور رہنا چاہتا ہے۔
دن بھر جتنی توفیق ہوئی تسبیح، درودِ پاکﷺ اور نمازوں کی ادائگی میں مصروف رہے، ثروت باجی ماشا اللہ اس روز بھی پانچ سپارے ختم کر کے اٹھیں۔ مجھے تو پاکستانیوں کے لیے قرآنِ پاک ملے گا تو میں پڑھ پاؤں گی، ثروت باجی کو ایسی کوئی دشواری نہیں۔ نماز عصر کے بعد وہی مناظر شروع ہوئے جو عموماً پیر اور جمعے کو دیکھنے میں آتے ہیں۔ تھرمس، بیگز، پیکٹ سبھی کچھ آنا شروع ہوا اور مختلف گروہوں میں بیٹھی خواتین ان کی تقسیم کے انتظامات میں لگ گئیں۔ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ دستر خوان بچھنے لگ گئے، انواع و اقسام کی کھجوریں، بند، دہی، لسی اور بہت کچھ لیکن ثروت باجی نے محسوس کیا کہ میزبان گروپ دیگر خواتین میں تقسیم کرنے سے زیادہ اپنے لیے بچانے کی طرف توجہ کر رہی ہیں۔ قصور ان کا بھی نہیں کہ اتنی خواتین آآ کر ان سے ’’تبرکات‘‘ وصول کر رہی تھیں اور بار بار کر رہی تھیں اگر وہ اپنے لیے بچا کر نہ رکھتیں تو ان کے اپنے لیے کچھ نہ بچتا۔ روزہ بہت آسان رہا۔ بھوک پیاس، تھکن کسی چیز کا احساس نہ ہوا۔ اذان کے ساتھ ہی روزہ دار اور بغیر روزے کے خواتین دستر خوان پر بیٹھ گئیں۔ ثروت باجی اس بات کو بہت محسوس کر رہی تھیں کہ جن لوگوں کا روزہ ہے ان تک پہنچنے سے پہلے ہی چیز کسی اور ہاتھ میں پہنچ جاتی ہے، میں جو چیز انھیں پکڑاتی وہ آگے کسی روزہ دار کو پکڑا دیتیں۔ بہرحال اللہ کا شکر ہے کہ اس نے طرح طرح کی نعمتیں عطا کیں۔
نماز کے بعد قہوے کا دور چلا، ادرک اور نہ جانے کن مسالا جات کا قہوہ تھا۔ ثروت باجی اور میں بھی خواہش کے باوجود نہ پی سکے۔ اتنے میں جا وید بھائی کی طرف سے فون آ گیا کہ باہر آ جائیں۔ معلوم ہوا کہ ان کی طرف بھی روزہ افطار کا بہت زبردست انتظام تھا وہ فکر مند تھے کہ ہم نے روزہ کھولا ہے یا بھوکے بیٹھے ہیں۔ بہر حال ان کی لائی ہوئی کھجوریں اور دیگر چیزیں بھی قبول کیں۔ عشا کے بعد گھر آئے۔ اب پھر وہی ہوا کہ کھانے کے لیے بیٹھے ہی ہیں کہ دستک۔۔ ۔ صبح زیارات کے لیے تیار رہیے۔ اسلام آباد سے توقیر صاحب کا فون آیا ہے۔
منگل کی صبح نمازِ فجر کے بعد گھر آ گئے کہ آج زیارات کے لیے جانا ہے۔۔ وہی تمام جگہیں جو پہلے ہی بار بار دیکھ چکے ہیں لیکن اگر کہا جائے کہ تو پھر نہ جاؤ تو ایسا ہو نہیں سکتا صرف یہ خواہش ہوتی ہے کہ کسی نئی جگہ کیوں نہیں لے کر جاتے۔ اس مرتبہ پکا ارادہ کر کے آئے تھے کہ وادی جن ضرور جائیں گے، لیکن معلوم ہوا کہ اس کے لیے الگ سے پروگرام بنانا ہو گا کہ وہ ستر کلو میٹر دور ہے۔ تو یہی طے ہوا کہ بلال کے آنے پر وہاں جائیں گے۔ حسبِ معمول بس کی پہلی نشستیں مختص تھیں۔ بس مدینہ کی سڑکوں پر رواں تھی اور ہمارے گائیڈ کی زبان کی روانی بھی قابلِ سماعت تھی کہ وہ اپنے موضوع کا مطالعہ کر کے چلا تھا۔ پہلے اس کے والد رہنما کے فرائض انجام دیتے تھے اب کچھ ماہ سے وہ یہی کام کر رہا تھا اور اس میں کافی ماہر ہو چکا تھا۔ راستے میں سب سے پہلے امام بخاری مسجد، ترک عہد حکومت کی تعمیر، جو ایک مینار والی مسجد بھی کہلائی جاتی ہے۔ امام بخاری ہمیشہ با وضو رہتے، بلکہ کوئی بھی حدیث لکھنے سے پہلے غسل کر کے دو رکعت ادا فرماتے، استخارہ کرتے اور پھر ’’الجامع الصحیح‘‘ میں درج کرتے۔ ان سے ۷۶۶۶ احادیث منسوب ہیں، بعض روایات میں چھ ہزار احادیث بیان کی جاتی ہیں۔ فارسی الاصل محمد بن اسمعیل بخاری شہر بخارا میں ۱۹۴ھ میں پیدا ہوئے۔ یتیمی کی حالت میں پر ورش پائی۔ ۲۱۰ھ میں احادیث کی طلب میں سفر اختیار کیا۔ حجاز کے علاوہ مختلف بلاد اسلامیہ میں قیام کیا۔ حافظہ اس قدر قوی تھا کہ کوئی کتاب ایک مرتبہ دیکھ لیتے تو حفظ ہو جاتی۔۔ ۔ پچھلے دونوں عمروں کے موقع پر ہمارا قیام دار ابو خالد میں تھا، ہر مرتبہ آتے جاتے اس مسجد کی زیارت ہو جا یا کرتی تھی۔ مسجد اجابہ، بھی بس میں بیٹھے بیٹھے ہی دکھا دی گئی۔ یہ مسجد چونکہ اوس قبیلہ کے بنو معاویہ بن مالک بن عوف کی بستی میں واقع تھی اس بنا پر اسے مسجد بنو معاویہ بھی کہا جاتا ہے۔ سجدے والی مسجد، صدقے والی مسجد قبولیت دعا والی مسجد کے ناموں سے بھی منسوب ہے۔ ہمارے گائیڈ اس کے تعارف میں بتا رہے تھے۔ اس مسجد میں آپﷺ نے اپنی امت کے لیے طویل سجدے کی حالت میں تین دعائیں مانگی تھیں، جن میں سے دو قبول ہوئیں اور تیسری دعا کے لیے منع فرما دیا گیا۔ پہلی دعا جو قبول ہوئی وہ یہ تھی کہ اے میرے رب میری امت خطا کار سہی ان سے در گزر فرمانا، ان کی شکلیں تبدیل نہ فرمانا، جیسا کہ دیگر امتوں پر یہ عذاب نازل ہوا کہ ان کی نافرمانی کی سزا میں انھیں بندر، خنزیر میں بدل دیا گیا۔ (جبکہ مستند کتب میں تحریر ہے کہ پہلی دعا یہ تھی کہ میری امت کو بھوک، قحط اور افلاس سے دور رکھنا)۔ دوسری دعا بھی قبول ہوئی کہ میری امت کو غرقابی سے بچانا۔ تیسری دعا جو رد ہوئی اس کا خمیازہ آج تک مسلمان قوم بھگت رہی ہے یعنی آپس کا نفاق، قتل و غارت گری اور فرقہ بندی عروج پر ہے جس کے سبب دیگر اقوام و مذاہب میں اسلام کی بے توقیری دیکھ کر دل لہو لہو ہو جاتا ہے۔
جنت البقیع، خواتین کے لیے ممنوعہ علاقہ ہے۔ یہ شکر کیا کہ بس ذرا اونچی تھی اس بنا پر اس وسیع جنت کی زیارت کر لی۔ کیا روئے زمیں پر مدینہ پاک سے زیادہ کوئی اور معتبر مقام ہو سکتا ہے جہاں آپﷺ، آپ کے یارِ غار حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ جیسی شخصیت آرام فرما ہوں۔ جنت البقیع جہاں زائر حضرت عثمانؓ کی لحد مبارک پر سب سے پہلے حاضر ہونے، فاتحہ پڑھنے کا متمنی ہوتا ہے، پھر حضرت عباسؓ کی قبر پر حاضری دیتا ہے، جنت البقیع کا ایک ایک گوشہ، ان ہستیوں کا مسکن ہے کہ جن کے وجودِ مقدس سے اس دنیا کا وقار قائم ہوا۔ حضرت حسن، حضرت علی بن حسین، زین العابدین، دس ہزار صحابہ کرام، ایک سے بڑھ کر ایک اسلام کا بے مثال سپاہی، حضورﷺ کے صاحب زادے ابراہیم، اب سب بے نام و نشاں قبروں میں آسودۂ خاک ہیں لیکن اللہ نے اب سب کو قیامت تک کے لیے زندۂ جاوید کر دیا ہے، یہاں روز حاضری دینا مستحب ہے ورنہ زائر کو چاہیے کہ جمعہ کو جنت البقیع کی حاضری کو لازم کر لے۔ بس ڈرائیور نے رفتار بہت کم کر دی۔ لبوں پر ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ اور آنکھوں کا یہ حال کہ پلک جھپکنا بھی احساس ندامت سے شرابور کر دے کہ ہر زائر خصوصاً َ خواتین زیادہ سے زیادہ اس مقام کو دیکھنا اور یادداشت کے نہاں خانوں میں محفوظ رکھنا چاہتی ہیں، مردوں کو تو سہولت ہے کہ جب جی چاہا، جتنی دیر تک دل نے کہا، آپ جنت البقیع کے ہر قطعے پر فاتحہ پڑھ سکتے ہیں۔ ہم ان چند لمحوں کو ہی غنیمت جان رہے تھے۔ البتہ میں نے بہت کوشش کی کہ مجھے کہیں پر الشہدا، کا تختہ لکھا ہوا دکھائی دے جائے کہ جب سیلابی بارش سے غزوۂ احد کے شہدا کی قبریں کھل گئی تھیں اور صحابہ کرام کے کفن اسی طرح اجلے اور چہرے اسی طرح تر و تازہ اور شاداب تھے کہ جیسے ابھی داعیِ اجل کو لبیک کہا ہو، اور ان سب کی دوبارہ تدفین، جنت البقیع کے ایک گوشے میں کی گئی تھی، اس واقعے کی تفصیل ’’عجب اک سلسلہ ہے‘‘ کے صفحہ نمبر ۹۵۔ ۹۶ پر لکھ چکی ہوں۔ بہرحال چلتی بس سے وہ بورڈ اگر موجود ہے تو، میں دیکھنے سے محروم رہی، سرمد، شاہد، جاوید اور بلال بھی کسی ایسے بورڈ کی نشاندہی سے قاصر رہے۔
باغِ سلمان فارسی اس مرتبہ خاصا طویل محسوس ہوا۔ کھجوروں کے گہرے سبز درختوں کی گھنی قطاریں ترو تازگی اور شگفتگی کا احساس بخشتی تھیں، اس شگفتگی کا احساس کہ جب حضرت سلمان فارسی دوردراز کی منزلیں طے کرتے آپﷺ تک پہنچے تھے تو کس قدر مسرور تھے۔ اصفہان کی ایک بستی کا رہنے والا نو عمر مابہ مجوسی دین کا پیرو کار ’’آگ‘‘ کا ناظم کہ جس کی ذمہ داری یہ تھی کہ آگ کبھی بجھنے نہ پائے۔ زرتشت باپ کا لاڈلا کہ جو کبھی اسے اپنی نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دیتا تھا۔ ایک روز اپنی مصروفیت کی بنا پر باپ نے بیٹے کو کسی کام سے اس تاکید کے ساتھ جاگیر بھیجا کہ دیر نہ لگانا، بیٹے نے راہ میں ایک گرجے میں عبادت کرتے لوگوں کی آوازیں سنیں تو تجسس کے مارے اندر چلا گیا اور جب وہاں سے نکلا تو اس خیال کے ساتھ کہ یہ دین تو ہمارے دین سے بہتر ہے۔ گھر پہنچ کر والد کو دیر سے پہنچنے کی درست وجہ بتاتے ہوئے اس بات کا اظہار بھی کر دیا کہ وہ دین ہمارے دین سے بہتر ہے اور اس کا مرکز شام ہے۔ والد نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے بیٹے کو پابندِ سلاسل کر دیا لیکن تلاش حق کسی پابندی کو خاطر میں نہیں لاتی۔ موقع ملتے ہی فرار ہو کر وہ ایک قافلے کے ہمراہ شام پہنچے اور سب سے بڑے عالم گرجے کے لاٹ پادری سے ملے وہ انھیں دنیا پرست انسان محسوس ہوا۔ اس کی وفات کے قریب آپ نے اس سے کسی بہتر رہنما کے بارے میں پوچھا اور اس کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے مابہ (حضرت سلمان فارسی) موصل چلے آئے اور وہاں کے پادری سے دین کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے۔ جب اس کا وقت قریب آیا تو آپ کی درخواست پر اس نے کہا کہ یہاں تو میں کسی کو نہیں جانتا جو مکمل طور پر دینِ حق پر قائم ہو۔ البتہ نصیبن میں ایسا شخص موجود ہے، سلمان وہاں چلے آئے۔ سلمان نے انھیں پچھلے پادریوں سے بہتر پایا۔ اس کی وفات کا وقت قریب آیا تو اس کی ہدایت پر روم میں عموریہ شہر میں موجود ایک شخص کے متلاشی ہوئے جو ان کے دین پر تھا۔ کچھ عرصہ بعد جب ان کا وقت مرگ قریب آیا تو سلمان نے کہا کہ آپ مجھے کس کے سپرد کر کے جا رہے ہیں۔ تو انھوں نے کہا کہ مجھے کسی ایسے شخص کا علم نہیں جو مکمل عیسائیت پر قائم ہو، البتہ سر زمینِ عرب میں دینِ ابراہیم پر قائم نبی آخر الزماں کا دور قریب ہے، وہ ہجرت کر کے پہاڑوں اور پتھریلے میدانوں کے درمیان واقع نخلستان میں قیام پذیر ہو گا، اس کی مخصوص علامات میں سے یہ کہ وہ صدقہ نہیں کھائے گا اور اس کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت ہو گی۔ تم اگر وہاں تک پہنچ سکے، تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤ گے۔ کافی عرصہ بعد بنو کلب کا ایک تجارتی قافلہ وہاں سے گزرا۔ آپ نے عرب ساتھ لے چلنے کی فرمائش کی اور اس کے عوض اپنے تمام مویشی قافلے والوں کی نذر کیے۔ سفرابھی باقی تھا کہ ان کی نیت بدل گئی اور حضرت سلمان کو غلام ظاہر کر کے ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ اس یہودی کا چچا زاد مدینہ سے آیا تو اس نے انھیں خرید لیا اور مدینہ لے آیا۔ شہر دیکھتے ہی وہ سمجھ گئے کہ میں اپنی منزل پر پہنچ گیا ہوں۔ اسی اثنا میں حضرت محمد کی نبوت کا چرچا ہونے لگا جو مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر تھے۔ ان کا بس نہ چلتا تھا کہ غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر کس طرح مکہ روانہ ہو جائیں۔ یہاں تک کہ آپﷺ کی قبا تشریف آوری کی نوید نے پوری فضا کو مہکا دیا۔ حضرت سلمان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، موقع ملتے ہی حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میرے پاس کچھ کھانے کی چیزیں ہیں، مجھے معلوم ہوا کہ کچھ مسافر یہاں ٹھہرے ہیں۔ صدقے کے مال کا ان سے زیادہ حق دار کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ میں یہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ آپﷺ نے وہ اشیا لے کر حاضرین کے سامنے رکھ دیں لیکن خود کچھ نہ کھایا۔ کچھ دن بعد جب آپ مدینہ تشریفل اچکے تھے حضرت سلمان پھر حاضر ہوتے ہیں اور کہتے ہیں میں آپ کی خدمت میں کچھ ہدیہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت سلمان محسوس کرتے ہیں کہ اب آپﷺ نے خود بھی کھایا اور ساتھیوں کو بھی کھلایا۔ یوں دو باتیں سچ ثابت ہوئیں۔ پھر ایک روز انھیں مہر نبوت دیکھنے کا موقع بھی مل گیا۔ آپ مہر نبوت کو بوسہ دیتے جاتے اور روتے جاتے۔ حضورﷺ کے کہنے پر اپنی آپ بیتی بھی کہہ سنائی۔ آپﷺ نے سلمان سے وعدہ کیا کہ تمھاری آزادی کے سلسلے میں تمھاری بھر پور مدد کی جائے گی۔ یہودی آقا، جس نے اسلام سے محبت کے جرم کی پاداش میں حضرت سلمان پر سختی کی انتہا کر دی تھی، آزادی کے بدلے چالیس اوقیہ، تقریباً پونے سات سیر سونا اور تین سو کھجوروں کے پودے لگانے کی شرط رکھی کہ جب وہ پھل دینے لگیں گے تو تمھیں آزاد کر دیا جائے گا۔ حضرت سلمان یہ سن کر پریشان ہوئے لیکن آپ نے انھیں تسلی دی۔ تین سو بیج خود اپنے دست مبارک سے بوئے اور جلد ہی وہاں ایک نخلستان لہلہانے لگا اور درخت پھلوں سے لد گئے۔ چالیس اوقیہ کا بندوبست یوں ہوا کہ مالِ غنیمت میں ایک انڈے کے برابر سونے کاڈلا ملا، آپﷺ نے سلمان کو دیا کہ جا کر یہودی آقا کو دے کر آزادی حاصل کر لو، وہ پریشان ہوئے کہ ایک انڈے کے برابر حجم پونے سات سیر کا وزن کیسے پورا کرے گا لیکن جب آقا نے اسے توڑا وزن کیا گیا تو پورے پونے سات سیر تھا۔ یوں آپ آزاد ہوئے اور آپﷺ سے اہل بیت ہونے کی سند حاصل کی اور غزوۂ خندق کی منصوبہ بندی کے سبب دنیائے اسلام میں زندۂ جاوید ہوئے۔۔۔۔ مجھے یاد ہے ۲۰۰۱ء میں حج کے موقع پر جن پانچ مساجد میں نوافل پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی اس میں مسجد سلمان فارسی بھی شامل ہے۔ اب مسجد فاطمہ بھی دور سے دیکھی۔ غزوہ احزاب کے موقع پر قائم کی گئی سبعہ مساجد کی جگہ ان تمام مساجد کی نمائندگی کے لیے ایک بڑی مسجد تعمیر کر دی گئی ہے جسے دیکھ کر اپنائیت کا وہ احساس نہیں ہوا، جو ان چھوٹی چھوٹی دھول میں اٹی، بوسیدہ مصلوں والی کسی بھی آسائش و آرائش سے محروم مساجدِ فاطمہؓ، سلمان فارسیؓ ابو بکر صدیقؓ، عمر بن خطابؓ، کو دیکھ کر، ان میں نماز ادا کر کے ہوا تھا۔
مسجد بلال سے ہوتے ہوئے مسجدِ جمعہ پہنچے۔ مسجد جمعہ وہ مسجد کہ جہاں مدینہ پہنچ کر آپ نے سب سے پہلے قبا سے آتے ہوئے قبیلہ نبو سالم بن عوف میں نمازِ جمعہ ادا فرمائی تھی۔ یہاں اب شاندار مسجد تعمیر کر دی گئی ہے۔ بس میں بیٹھے بیٹھے ہی دکھا دی گئیں کہ یہ مساجد صرف نماز کے اوقات میں کھلتی ہیں۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے