احمد رضوان کی کتاب طلوعِ شام کا تنقیدی جائزہ ۔۔۔ جلیل حیدر لاشاری

 

احمد رضوان کی کتاب طلوعِ شام کا تنقیدی جائزہ

               جلیل حیدر لاشاری

شاعری کے اسرار بھی کائنات کے ان رازوں کی مانند ہیں جو منکشف ہو کر بھی مکمل طور عیاں نہیں ہوتے۔ شاعر ان سر بستہ رازوں کی حقیقت پا نے کے لیے اپنے اندر چھپی ذات کی لامحدود کائنات کا بہت طویل سفر کرتا ہے۔ اس سفر کے دوران  وہ مختلف کیفیات اور ادراک کی منزلوں سے گزرتا ہے۔ اپنے اندر کے انسان سے مل کے وہ ایک عجیب سی حیرت و انبساط کی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے۔ احمد رضوان نے بھی اپنے اندر اور باہر کی دنیا کا بہت طویل سفر کیا ہے۔ اُس کا وجدان اُس کی انگلی پکڑ کر اسے ایسے نادیدہ اور ناآفریدہ دنیاؤں کی سیر کراتا ہے جہاں کے تحیر آمیز مناظر سے وہ  نہ صرف خود بھی چونکتا ہے بلکہ پڑھنے والے کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ اس تحیر آمیزسفر کی روداد اُس نے اپنے پہلے شعری مجموعہ ’’طلوعِ شام‘‘ میں اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں انتہائی خوبصورتی سے بیان کی ہے۔ احمد رضوان نے اپنی شاعری میں زندگی کے تمام رنگوں کو یکجا کر کے بڑی فنکارانہ مہارت سے ایک ایسی خوبصورت اور حیران کر دینے والی تصویر بنائی ہے جو دیکھنے والے کو کافی دیر تک حیرت وانبساط کی کیفیت سے دوچار رکھتی ہے۔

احمد رضوان کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت اسکا منفرد اور چونکا دینے والا انداز بیان اور موضوعات کا تنوع ہے۔ بھاری بھرکم لفظوں او ترکیبات کے گورکھ دھندوں سے آزاد انتہائی سادہ اور آسان لفظوں میں اپنا مافی الضمیر انتہائی کامیابی سے بیان کر دینا انتہائی مشکل فن ہے اور حیرت اور مسرت کی بات ہے اس فن پر احمد رضوان کو مکمل عبور حاصل ہے۔ احمد رضوان اپنے اندر کی دینا کے خدوخال اور کیفیات سے قاری کو اس طرح روشناس کراتا ہے کہ قاری کو یوں لگتا ہے کہ وہ اپنے آپ سے مل رہا ہے۔

ّّؔ      یہ کون بولتا ہے مرے دل کے اندروں

آواز کس کی گونجتی ہے اس مکان میں

  دیکھتا ہوں کہ کوئی دیکھ رہا ہے مجھ کو

  لاکھ اس وہم کو سوچوں سے جھٹک دیکھا ہے۔

دیکھتا ہوں تو مرے پاس کوئی اور نہیں

 بولتا ہوں تو مرے ساتھ کوئی بولتا ہے

نامور شاعر اسلم انصاری نے اپنی کتاب ’’خواب اور آگہی‘‘ کے ۔۔’’ پیش آہنگ‘‘ میں لکھا ہے ’’انفرادی  اور اجتماعی لا شعور کی دنیاؤں میں تخلیقی محرکات بعض اوقات صدیوں کی گہرائیوں سے ابھر کر آتے ہیں اور بعض اوقات ایک ترکیبِ تازہ میں انسانیت کی صدیوں کی سرگزشت سمٹ آتی ہے‘‘۔ احمد رضوان کا وجدان بھی صدیوں کا سفر ایک پل میں طے کر کے اسے لمحۂ موجود کے اجتماعی شعور میں اس طرح پیوست کر دیتا ہے کہ وہ نہ صرف آج بلکہ کل کا بھی معتبر حوالہ ٹھہرتا ہے۔

یہ جو چڑیا بھیگ رہی ہے بارش میں

    دھرتی سے آکاش کا رشتہ جانتی ہے!!

میں اُس کے پاس گیا اور ہم کلام ہوا

جو درمیان تھا وہ فاصلہ اُٹھا لایا!!

کسی نے آسماں گم کر دیا ہے

      پرندوں کو پرِ پرواز دے کر

 ازل سے لا  مکانیت کے عذاب سہتا ہوا فرد اپنے آپ سے پوچھتا ہے ، وہ کون ہے ، اس کا گھر کہاں ہے ؟ وہ کہاں سے آیا ہے ؟ اسے کہاں جانا ہے؟ اس کو درپیش سفر اسے کہاں لے جائے گا؟ہر حساس انسان کی طرح ا حمد رضوان بھی ان سوالات کا سامنا کرتا ہے۔ ان سوالوں کا جواب اپنے اندر کے انسان سے گفتگو کر کے اور چیزوں کو منفرد زاویے سے دیکھ کر ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور جب  اسے کئی سوالوں کے جو اب نہیں ملتے تو وہ اپنے خالقِ حقیقی سے محوِ کلام ہو جاتا ہے۔

لہو کو زندگی کا ساز دے کر

      کہاں ہو تم مجھے آواز دے کر؟

کیا یہیں خاک ہو رہوں گا میں ؟

   کیا بس شش جہات کچھ بھی نہیں ؟

ازل کی آنکھ میں جو تو نے رکھ دیا تھا کبھی

اُس ایک خواب کا منظر عام کر مجھ میں

احمد رضوان اپنے اردگرد پھیلی باہر کی دنیا سے بھی بے خبر نہیں ہے۔ اس نے زندگی کو انتہائی قریب سے دیکھا ہے اس لیے ان کی شاعری میں گہرا  تاریخی ، سیاسی ، سماجی شعور جھلکتا ہے۔ زندگی نے اسے جتنے سکھ دیے ان پر وہ بہت خوش ہے  لیکن زندگی کے عطا کردہ دکھوں پر وہ اتنا خفا نہیں ہے کہ اس کا لہجہ تلخ ہو جائے بلکہ وہ زیر لب بڑے دھیمے انداز میں اپنا دُکھ بیان کرتا ہے اور کہیں بھی اپنی آواز کو بلند آہنگ نہیں ہونے دیتا بلکہ بڑی وضعداری سے دکھوں سے نبھا کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

اب تو خوش آ گیا تھا ہجر ہمیں

 آپ نے بے سبب زحمت کی

اپنے ہی دل میں لیے بیٹھے رہو آتشِ غم

شہر کا شہر جلایا تو  نہیں جا سکتا!!!

میں ایک شام جو روشن دیا اُٹھا لایا

    تمام شہر کہیں سے ہوا اُٹھا لایا

 جانتے ہیں کہ اپنے بھی کب اپنے ہیں

پھر بھی سارے شہر کو اپنا جانتے ہیں

جہاں پہ تو ہے مجھے پوچھتا نہیں کوئی

یہاں بھی تیری پذیرائی ہے جہاں میں ہوں

 وہ ملکی اور بین الاقوامی حالات اور اس کے عام آدمی پر ہونے والے اثرات سے پوری طرح واقف ہے اور اس کا برملا اظہار  اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں کرتا ہے لیکن یہاں بھی اس کے ہاتھ سے صبر کا دامن نہیں چھوٹتا۔

میں خود ہی آگ لگاتا ہوں اپنے چاروں طرف

   پھر اپنے واسطے جائے پناہ ڈھونڈتا ہوں

 یہ لوگ میری طرف شعلگی سے دیکھتے ہیں

   میں اپنی سوچ بھی ان سے اگر جدا رکھوں

ستارے بانٹنے والے کسی شب لوٹ آئیں گے

       چلو کچھ  روز یونہی تیرگی کے ساتھ چلتے ہیں

راستہ طے نہیں کیا ہم نے

ہم نے بے فائدہ مسافت کی

 میرے چراغ بجھے جا رہے ہیں اور یہاں

    کوئی ہواؤں کو زنجیر کرنے والا نہیں

احمد رضوان نے  نامساعدحالات سے مایوس ہونا نہیں سیکھا بلکہ وہ ہر وقت اور ہر جگہ عزم و حوصلہ کے چراغ جلائے رکھتا  ہے اسے یقین ہے کہ یہ تاریک رات ہمیشہ رہنے والی نہیں ، اسے ایک دن ڈھلنا ہے اسی لیے وہ ہمیشہ پُر امید رہتا ہے۔

اب اس سے آگے بنائیں گے راستہ کوئی

    یہاں تک تو ہمیں راستہ اٹھا لایا

 کلام کرتا رہوں شام کے تحیر سے

     اور اپنی بات میں کوئی دیا جلا رکھوں

 جہاں چراغ کو چھو کر ہو ا گزرتی ہے

وہیں قریب سے ہو کے ہوا گزرتی ہ

یہ جو میں دوری ء منزل کی خبر دیتا ہوں

 قافلے والو تمہیں تیز قدم کرتا ہوں

احمد رضوان کے اشعار میں ایک نیا پن چھلکتا ہے۔ وہ نئے موضوعات کو  اپنے مخصوص انداز میں دیکھ کر ایسے شعری قالب میں ڈھالتا ہے کہ شعر شعر نہیں ایک شہ پارہ بن جاتا ہے۔

 کوئی تو آئے کبھی خالی مکانوں کی طرف

            کتنی یادوں کی یہاں بھیڑ لگی رہتی ہے

اداس چھت کی طرف جا رہی تھی ویرانی

          یہ کیا کہ جاتے ہوئے سیڑھیوں میں بیٹھ گئی!

مجھے خود اپنی اذیت نے مار دینا تھا

میں ایک روز اگر خود کشی نہیں کرتا!!

الفاظ کے چناؤ، جذبے کی سچائی، بیان کی بے ساختگی نے احمد رضوان کی شاعری کو وہ تاثیر اور لذت عطا کی ہے جو پڑھنے والے کے دل و دماغ پر نقش ہو جاتی۔ محبت ، اظہارِ محبت، ، نارسائی ، دل شکستگی اور جدائی کی سب کیفیات اور ذائقے احمد رضوان نے بہت سچائی اور اچھوتے انداز میں بیان کیا ہے۔

 صورتِ یار کی تلاوت کی

  زندگی بھر یہی عبادت کی

تو نے ایسا بنا دیا کہ یہاں

  ہم نے ہر شخص سے محبت کی

وہ مہتاب ابھی بن سنور کے نکلا ہے

نہ جانے آج سمندر پہ کیا گزرتی ہے

 یوں لگ رہا تھا میں کوئی صحرا کا پیڑ ہوں

 اُس شام تُو اگر میری حالت کو دیکھتا!!

پہلے کرتا ہوں تری یاد زمانے سے الگ

پھر اُسے اپنے خیالات میں ضم کرتا ہوں

احمد رضوان کی شاعری میں ہمیں دوسروں کے لیے قربانی اور اپنی ذات کی نفی کا عنصر بھی جا بجا ملتا ہے۔ وہ دوسروں کی خوشی کے لیے خود کو دُکھی کر لیتا ہے اور گرد و پیش کو خبر بھی نہیں ہونے دیتا!

گھر میں روتا ہوں بیٹھ کر لیکن

            دوستوں کو ہنسانے جاتا ہوں

مرے سپرد کسی اور کی کہانی ہے

 میں اپنا واقعہ تحریر کرنے والا نہیں

 میں خود منظر سے ہٹتا جا رہا ہوں

           زمانے کو نیا انداز دے کر

 بتا رہا ہوں فقط میرے دل پہ کیا گزری

       تمہیں میں سارا فسانہ نہیں سنانے لگا!

 جہاں فکری حوالے سے احمد رضوان کی شاعری ایک منفرد مقام رکھتی ہے  وہاں فنی حوالے سے بھی اسکی شاعری   کسی عمدہ اور معیاری شاعری سے کم نہیں ہے۔ زیادہ تر غزلیں مرکب بحروں میں ہیں۔ اشعار میں  موجود  روانی، آہنگ اور موسیقیت سے پڑھنے والا جھوم اُٹھتا ہے۔

 کیا بات کروں جو عکس تھا میری آنکھوں میں

 وہ چھوڑ گیا اک شام کہیں ، کیا بات کروں

ساز بجنے لگے پھر مرے چارسُو

    پورا کمرہ میرے ساتھ گانے لگا

رقص میں آ گئیں حیرتیں چار سو

    تیرا جانا مجھے یاد آنے لگا

 ایک شعر کے ایک مصرعے میں ایک لفظ  ’’رکھوں ‘‘ دو مختلف اوزان میں برتا گیا ہے جسے عام طور پر معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن پورے شعری مجموعے میں اس طرح کا  صرف ایک شعر ہے۔  ضرورتِ شعری اور خیال کو نبھانے کے لیے اسے صرف نظر کیا جا سکتا ہے۔

  یہ خاکدان ہمیشہ تو رہ نہیں سکتا

نئی زمین رَکھوں ، آسماں نیا  رکھّوں

شعری مجموعے میں غزلوں کی ترتیب کا خاص خیال اور اہتمام کیا گیا ہے۔ خاص طور پر پہلی اور آخری غزلوں میں اشعار کی ترتیب  بھی حیرت انگیز ہے۔ پہلی غزل کا پہلا شعر

 ’’ لہو کو زندگی کا ساز دے کر

            کہاں ہو تم! مجھے آواز دے کر‘‘

اور آخری غزل کا آخری شعر

’’داستاں ختم تو نہیں ہوتی!

            چلتی رہتی ہے اختتام کے بعد‘‘

اور ہمیں امید ہے احمد رضوان کا شعری سفر بھی اسی طرح چلتا رہے گا اور اردو ادب کے قارئین کو عمدہ اور منفرد شاعری پڑھنے کو ملتی رہے گی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے