یہ ماجرا کیا ہے! ۔۔۔ محمد علیم اسماعیل

       وہ پورا منظر بڑا ڈراؤنا تھا۔ سورج زمین پر قہر برسا رہا تھا۔ آگ شعلے اگل رہی تھی۔ اور یہ دیکھ کر سبھی کے چہروں پر خوف کی چادر تن گئی تھی۔ ہم ایک عمارت کی چوتھی منزل پر واقع کوچنگ سنٹر میں تھے اور پڑھائی میں محو تھے کہ ہمیں اپنے اطراف ہلکا ہلکا سا دھواں اٹھتا محسوس ہوا۔

       ہمارے ٹیچر نے شک ظاہر کیا۔ ’’شاید باہر کوئی آگ جلا رہا ہو گا۔‘‘

       پھر دھیرے دھیرے دھواں بڑھتا چلا گیا۔ اب کی بار جو دھواں اٹھا تو آگ کی لپٹیں بھی ساتھ لے آیا۔ سانس لینا مشکل ہو گیا تھا، دم گھٹتا جا رہا تھا۔ لمحے بھر میں ہم نے دیکھا کہ یکایک آگ ہمارے بہت قریب پہنچ چکی ہے اور پل پل شعلے اگل رہی ہے۔ پھر کیا تھا، چاروں جانب سے چیخ و پکار کی دلخراش آوازیں اٹھنے لگیں۔ کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔

       وہ بہت بھیانک آگ تھی!! پتا نہیں کب، کیسے، کہیں سے ایک چنگاری پیدا ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے شعلوں میں تبدیل ہو گئی۔ ہم چہار جانب دہکتی ہوئی آگ کے گھیرے میں تھے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس آگ کے حصار سے کیسے باہر نکلیں؟ تمام راستے بند ہو گئے تھے۔ بس ایک ہی راستہ بچا تھا اور وہ تھا بلڈنگ کی چوتھی منزل سے نیچے چھلانگ لگانا۔ چھلانگ لگاؤ یا جل کر خاک ہو جاؤ۔ چھلانگ لگانے میں زندگی کا معمولی امکان ضرور تھا لیکن تب بھی ایک طرف کنواں تو دوسری طرف کھائی۔

       مجھے اونچائی سے بڑا ڈر لگتا تھا۔ میں 10 فٹ کی اونچائی سے بھی نیچے دیکھتا تو میری آنکھیں گھومنے لگتی تھیں۔ اب آگ کی تپش میں نے اپنے بہت ہی قریب محسوس کی۔ اپنے آپ کو سمیٹ کر میں خود کو گویا چرانے کی کوشش کرنے لگا، مگر اس سے پہلے کہ میں سنبھل پاتا، آگ نے تقریباً مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ میرے حلق سے ایک دل سوز چیخ نکلی مگر آگ کی لپٹوں سے تڑپتے بچوں کی درد ناک چیخ و پکار میں مل کر گم ہو گئی۔ میں نے دیکھا بہت سارے بچوں نے کھڑکی سے چھلانگ لگانے کا فیصلہ کر لیا تھا اور چند نیچے کود بھی چکے تھے۔ میں بھی ان میں ہو لیا اور حواسِ باختہ نیچے چھلانگ لگا دی۔

       مجھے وہ منظر یاد آ گیا جب ایک بہت اونچی جگہ پر آگ لگی ہوئی تھی اور وہاں موجود کیڑے مکوڑے اپنی جان بچانے کے لیے ایک گہری و پتھریلی کھائی میں چھلانگ لگا رہے تھے۔ میری حالت کچھ ایسی ہی ہو گئی تھی، سامنے چوتھی منزل کیا؟ اگر گہری پتھریلی کھائی بھی ہوتی تو تب بھی میں کود ہی جاتا۔ اب سوچتا ہوں تو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ نہ جانے اتنی ہمت مجھ میں کہاں سے آ گئی تھی؟

       ماں بابا نے مجھے گھر سے اس امید پر رخصت کیا تھا کہ میں تعلیم حاصل کر کے زندگی جینے کے ہنر سیکھ سکوں۔ اسکول کی چھٹیاں چل رہی تھیں۔ ہم سب گھومنے کے لیے باہر جانے والے تھے۔

       میں نے ماں سے کہا۔ ’’میں آج کی کوچنگ کلاس کر لیتا ہوں پھر چلیں گے۔‘‘

       ماں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے جلدی آ جانا۔‘‘

       جب میں گھر سے نکلا تھا تو ماں بابا نے میرے سر پر ہاتھ پھیر کر بالوں کو بے ترتیب کر دیا تھا اور کہا تھا۔ ’’ہمارا لال پڑھ لکھ کر بہت بڑا آفیسر بنے گا، اور ملک کا نام روشن کرے گا۔‘‘

       ہے بھگوان! وہ اب بھی دروازہ کھلا رکھے ہوئے ہوں گے۔ اور سوچ رہے ہوں گے کہ معمول کے مطابق میں دوڑا دوڑا گھر آؤں گا۔ ابھی کچھ مہینوں پہلے ہی کی تو بات ہے، میں بھاگتے بھاگتے گھر کے چبوترے سے نیچے گر گیا تھا اور میرے گھٹنے میں زبردست چوٹ آ گئی تھی۔ یہ سب دیکھ ماں رو رو کر نڈھال ہو گئی تھیں اور بابا نے تو ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کھڑی کر دی تھی۔

       میں جب اوپر سے نیچے گر رہا تھا تو میری چیخیں نکل گئیں، بڑا ڈر لگ رہا تھا۔ پھیپھڑوں میں ہوا بھر گئی تھی۔ میں دھپ سے زمین پر آ گرا۔ جسم بے حس ہو گیا تھا۔ آنکھوں کے سامنے گھپ اندھیرا چھا گیا تھا۔ پھر تھوڑی دیر بعد اچانک پورے جسم میں درد کی ایک سنامی اٹھی اور ایسا لگا جیسے جسم کی ساری ہڈیاں چکنا چور ہو گئی ہوں۔ اس سے پہلے کہ لوگ مجھے اٹھاتے اور اسپتال لے جاتے، میری روح خود بخود اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔

       کسی نے بتایا کہ آگ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی تھی۔ اس ہال میں تقریباً تیس طلبہ تھے۔ جو امتحان کی تیاری کے لیے جمع ہوئے تھے۔ لیکن ہے بھگوان! یہ کیسے امتحان میں تو نے ڈال دیا کہ ہم اکیس بچے اپنی زندگی ہی ہار بیٹھے ہیں۔

       حالانکہ ہمارا شہر سورت، جسے کپڑوں کا شہر کہتے ہیں کہ جہاں بہت بڑے پیمانے پر کپڑا تیار ہوتا ہے اور پورے ملک میں برآمد کیا جاتا ہے۔ لیکن نیچے کھڑے سبھی لوگ ہاتھوں میں موبائل لیے ویڈیوز بنا رہے تھے۔ اگر وہ اپنے ہاتھوں میں کچھ گز کپڑا پکڑ لیتے تو کیڑے مکوڑوں کی طرح چوتھی منزل سے کود رہے بچوں کو تھام لیتے۔ لوگ مددگار بن سکتے تھے لیکن تماشائی بن گئے، آخر یہ ماجرا کیا ہے!!!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے