غزلیں ۔۔۔ محمد صابر

قتل ہو کر آ گیا لشکر کسی بازار میں

ایک جھنڈا گاڑ دو جا کر ابھی دربار میں

 

ایک نعرہ مار دو اور دھوم سے مانو شکست

کوئی سسکی لے رہا ہے اب تری تلوار میں

 

بھاڑ میں ڈالوں تمہاری آخری شرمندگی

سر کو اپنے پھوڑ ڈالو سامنے دیوار میں

 

اب مُؤرِّخ جو بھی لکھے گا کہانی وقت کی

ایک دھبہ تو رہے گا وقت کے کردار میں

 

ایک پا گل پھر رہا ہے دیس میں سانسیں لئے

زندگی نا پھونک ڈالے وہ کسی بیمار میں

 

صاف لکھا ہے ہتھیلی پر برابر کا سوال

جو کسی کے ہاتھ میں ہے وہ ترے درکار میں

 

میں حقیقت کھول دوں گر جان کو بخشو مری

امن باقی رہ گیا ہے اب تری سرکار میں

٭٭٭

 

 

مرا قصہ چلے گا عشق کی ارزانی تک

میں ترے ساتھ رہوں گا تری حیرانی تک

 

ہاں ترے بعد تو کچھ بھی نہیں بچتا مجھ میں

مرے تو ہاتھ میں رہتی نہیں ویرانی تک

 

میں کئی سال میسر ہوں ابھی لوگوں میں

تو بھی آ نوچ لے مجھ کو مری نادانی تک

 

میں کسی خاک پہ نازل ہوا تو کیا ہو گا

مرے نمکین بدن سے پھٹے گا پانی تک

 

تو یہاں ہم میں رہے گا کہیں کٹ جائے گا

میں تجھے چھوڑ کے آؤں تری سلطانی تک

 

یہاں کچھ لوگ بڑے تیز نظر بستے ہیں

کسی کا ہاتھ نہ آئے تری عریانی تک

 

جو بھی بنتا ہے محبت میں بقایا دے دو

یا مرے پاس رہو میری پریشانی تک

 

ابھی تصویر سرہانے ہی پڑی رہنے دے

ابھی تو عکس کو رکھ ہاتھ کی آسانی تک

 

کسی کی آنکھ کو دھوکہ تھا شناسائی کا

وہیں اٹھا تھا مرا ہاتھ بھی پیشانی تک

 

کسی بھی طور نہ ہو پائے گزارا میرا

تجھے بھی یاد رہوں ہجر کی طولانی تک

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے