اجملؔ سلطان پوری کی سب رنگ شعری جہتیں ۔۔۔ ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی

اجملؔ سلطان پوری  (1353ھ –  1935ء /1441ھ – 2020ء) سرزمینِ بھارت کے وہ عظیم نعت گو شاعر اور اہل سنت و جماعت کے ایسے مایۂ ناز نقیب گذرے ہیں جو اکابر علما و مشائخ خصوصاً سیدی مفتی اعظم ہند، حضور محدث اعظم ہند، حضور مجاہد ملت، حضور حافظِ ملت، حضور پاسبانِ ملت علیہم الرحمہ وغیرہم کے منظورِ نظر تھے۔ اُن کا پورا نام مرزا محمد اجمل بیگ اور تخلص ’’اجملؔ‘‘ ہے، جب کہ دنیائے محبت میں انھیں ’’اجملؔ سلطان پوری‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کی ولادت موضع ہرکہہ پور تحصیل و ضلع سلطان پور، اتر پردیش میں جنوری  1935ء بمطابق ماہ شوال المکرم 1353ھ کو ہوئی۔ ابھی اجملؔ چار برس کے بھی نہ ہوئے تھے کہ ان کے والد گرامی مرزا عابد حسین بیگ کے سایۂ پدری سے محروم ہو گئے۔ والد صاحب کی وفات کے بعد والدۂ ماجدہ نے تعلیم و تربیت اور پرورش و پرداخت میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ اجملؔ کا گھرانہ مذہبی تھا ان‌ کے والد ین اور برادرِ اصغر مرزا عبدالقدوس بیگ رئیس اڑیسہ حضور مجاہد ملت مولانا حبیب الرحمن علیہ الرحمہ سے شرفِ بیعت رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اجملؔ کو مجاہد ملت سے بے پناہ عقیدت تھی اور مجاہد ملت اجملؔ پر بے پناہ شفیق و مہربان تھے۔ جب کہ اجملؔ سلطان پوری شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی قدس سرہٗ کے چہیتے مریدوں میں سے ایک تھے۔ مفتیِ اعظم ہند قدس سرہٗ اپنے اس مرید کو بے پناہ چاہتے تھے۔ اکثر و بیشتر اجلاس میں اجملؔ اپنے پیر و مرشد قدس سرہٗ کے ہمراہ شرکت کی سعادت حاصل کیا کرتے اور بسا اوقات اجملؔ کے شعروں پر مفتی اعظم ہند قدس سرہٗ نے مشفقانہ اصلاح بھی فرمائی، چناں چہ اجملؔ نے خود اپنا ایک واقعہ یوں لکھا ہے:

’’میرے نعتیہ کلام کا ایک شعر ہے:

ہے روضۂ اقدس کی زمیں عرش سے افضل

اُن کے قدمِ ناز کا اعجاز تو دیکھو

بریلی شریف کے عظیم الشان سالانہ اجلاس میں جو اپنی روایتی شان و شوکت کے ساتھ بموقع دستار بندیِ علما و حفاظ باہتمام ساجد علی خاں زیرِ سرپرستی حضور شہزادۂ اعلیٰ حضرت سرکار مفتی اعظم ہند حضرت مولانا محمد مصطفی رضا خاں دامت برکاتہم القدسیہ منعقد ہوا کرتا ہے، میں یہ شعر پڑھ رہا تھا، بزم جھوم رہی تھی، سرکار مفتی اعظم ہند نے فرمایا شعر یوں پڑھو:

ہے لحدِ مقدس کی زمیں عرش سے افضل

اُن کے قدمِ ناز کا اعجاز تو دیکھو

میں نے اپنے پیر و مرشد کی اِس اصلاح کو دل کی گہرائیوں میں اتار لیا اور میری روح جھوم اٹھی۔‘‘

(اجملؔ کا انٹرویو:   ماہ نامہ استقامت، کان پور، شمارہ نومبر  1977ء، ص 19/20)

اجملؔ سلطان پوری میدانِ شعر و سخن کے ایسے روشن چراغ تھے جنھوں نے برسوں بزمِ محبت میں اجالوں کا سفیر بن کر روشنی بکھیری۔ ایوانِ تہذیب و تمدن جن کی فکر و نظر سے جگمگاتی رہی۔ وہ ملتِ اسلامیۂ ہند کے لیے محتاجِ تعارف نہیں۔ ملک کی فضاے بسیط ان کے پُر کیف اور وجد آور نعتیہ نغموں، انقلابی گیتوں، اصلاحی نظموں اور مناقب و سلام سے مسلسل گونجتی رہی ہے۔ ان کے کلام کے متعدد مختصر مجموعے شائع ہو کر اہلِ شعر و ادب اور خاص طور پر اسلامیانِ اہل سنت سے تحسین و ستایش کا خراج حاصل کر چکے ہیں۔ جن میں ’’جھرمٹ، جلوۂ حرم، خورشیدِ عرب، مہمانِ عرش، دیارِ حرم، پرچمِ نور، روحِ تبسم، کلامِ اجملؔ، جذباتِ اجملؔ‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ نثر میں ایک کتاب ’’خون کے دھبے‘‘ شہزادۂ حضور محدث اعظم ہند مولانا سید محمد ہاشمی میاں اشرفی الجیلانی صاحب نے اپنی پسندیدگی کی بنا پر ممبئی سے شائع کیا تھا۔ اجملؔ کے بیشتر کلام شہرت و مقبولیت کے اوجِ ثریا کو چھوتے رہے اور آج بھی زباں زدِ خاص و عام ہیں جن میں چند ایک یہ ہیں:

مدینہ تجھے سلام، مدینہ تجھے سلام

کاش ایک بار دیکھ لوں حضور کا مزار

صدقہ لینے نور کا اُن کے گھر سحر گئی

زیرِ سایۂ گنبد نور کا بسیرا ہے

کہتے ہیں بکثرت یارسول اللہ

نعرۂ رسالت یارسول اللہ

یادِ مدینہ جب آ جائے، وہ بھی اِتنی رات گئے

بزمِ میلادِ نبی یوں ہی سجائے رکھیے

جاگ جا اے مسلماں سویرا ہوا

کہاں ہے میرا ہندوستان میں اُس کو ڈھونڈ رہا ہوں

میں ترا شاہِ جہاں تو مری ممتاز محل

اجملؔ سلطان پوری قادر الکلام شاعر اور نہایت خوش الحان اور مترنم لب و لہجے کے حامل انسان تھے۔ کسی مشاعرہ یا مذہبی جلسے میں اُن کی شرکت اُس اجتماع کی کامیابی کی ضمانت کی حیثیت رکھتی تھی۔ جب وہ کسی مجمع میں اپنا کلام پیش کرتے اور اپنے مخصوص انداز میں ’’نعرۂ تکبیر‘‘ اور ’’نعرۂ رسالت‘‘ بلند کرتے تو اہلِ محفل جھوم جھوم جاتے تھے، فضاؤں پر محویت کا عالم طاری ہو جاتا تھا، ماحول خود کو نور و نکہت سے معمور پاتا اور بلا مبالغہ ایسا محسوس ہونے لگتا کہ جیسے:

بلبل چہک رہا ہے ریاضِ رسولﷺ میں

ملک بھر میں ہونے والے مشاعروں، کوی سمیلنوں، جلسوں اور کانفرنسوں میں ایک زمانے تک اجملؔ نے راج کیا اور ایسی تقریبات میں انھیں ان کی شہرت کی بنیاد پر نہیں بلکہ منتظمین اپنے افادی پہلو کے پیشِ نظر اپنی کامیابی کے لیے اجملؔ کو مدعو کیا کرتے تھے۔ یہ عزت و شہرت تا عمر اجملؔ کے ساتھ رہی، اجملؔ کے نزدیک یہ سربلندی نعتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا صدقہ ہے، جس کا اعتراف انھوں نے کچھ اس طرح کیا ہے:

ہم اِس سے پہلے کسی کام کے نہ تھے اجملؔ

ہمیں تو نعتِ رسالت نے کامیاب کیا

اجملؔ نے ابھی عنفوانِ شباب میں قدم بھی نہ رکھا تھا کہ زلفِ شاعری کے اسیر ہو گئے۔ ان کے مرحوم والد کے دوست اور اپنے وقت کے مشہور قصیدہ گو شاعر شیخ طفیل احمد صاحب طفیلؔ سلونوی جو کہ ریاست کورواڑ کے محکمۂ مالگذاری میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ اکثر اجملؔ کی نشست و برخاست ان کے ساتھ ہوا کرتی تھی، اجملؔ نے شعر گوئی کی ابتدا انھیں کے پاس سے کی۔ ایک مرتبہ طفیلؔ سلونوی نے فیض آباد کے اہل تشیع کے کسی مشاعرے کے لیے ایک قصیدہ لکھا اسی دوران اجملؔ ان کے یہاں پہنچ گئے، انھوں نے اجملؔ سے کہا کہ قصیدہ مع مقطع مکمل تو ہو گیا ہے لیکن مطلع جاندار نہیں ہے لہٰذا اس مرتبہ میں فیض آباد کے مشاعرے میں شرکت نہیں کروں گا اور اجملؔ کو قصیدہ سنایا۔ آگے کا واقعہ خود اجملؔ کی زبانی سنیے، لکھتے ہیں:

’’میں نے عرض کیا کہ شیخ صاحب ایک مطلع پیش کر رہا ہوں۔ اگر یہ قصیدے کے معیار کے مطابق ہو تو فیض آباد ضرور جائیے اور مجھے بھی لیتے جائیے۔ شیخ صاحب نے حیرت و استعجاب سے فرمایا، مطلع؟؟ میں نے کہا، ہاں! کہا فرمائیے، مجھے تھوڑی سی ہچکچاہٹ ضرور ہوئی کیوں کہ اس سے پہلے میں نے کبھی کوئی شعر نہیں کہا تھا۔ البتہ شعر سمجھ لیتا تھا۔ میں نے مطلع عرض کیا:

خالی وجودِ عشق سے کون و مکاں نہیں

اے شمعِ حُسن تیرے پتنگے کہاں نہیں

قصیدہ مولائے کائنات کرم اللہ وجہہ الکریم کے سلسلے میں تھا۔ مطلع سن کر شیخ صاحب پر کیفیت کا غلبہ ہوا۔ اشکبارانہ جھومتے رہے اور مطلع کی تکرار فرماتے رہے۔ پھر فرمانے لگے چلو اجملؔ فیض آباد ضرور جائیں گے اور جتنی کھیر کھا سکو گے کھائیں گے لیکن جب تم شعر کہنا نہیں جانتے تو تم نے مطلع کیسے کہا؟ سچ سچ بتاؤ تم نے کسی کتاب میں چھپا ہوا یہ مطلع تو نہیں دیکھا یا کسی کو کبھی پڑھتے تو نہیں سنا؟ میں نے عرض کیا، شیخ صاحب آپ یقین فرمائیں مطلع میں نے کہا ہے لیکن اب میں کیسے اور کن الفاظ میں بتاؤں کہ کس طرح کہا ہے بس ذہن میں بات آ گئی اور مطلع ہو گیا۔‘‘

(اجملؔ کا انٹرویو: ماہ نامہ استقامت، کان پور، شمارہ نومبر 1977ء، ص17/ 18)

اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اجملؔ کا یہ شعر اُن کی زندگی کا اولین شعر تھا جو کہ مولائے کائنات علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان میں لکھے گئے ایک قصیدے کا مطلع بنا۔ طفیلؔ سلونوی اور اجملؔ سلطان پوری جب مشاعرہ گاہ پہنچے اور طفیلؔ صاحب نے مطلع پڑھا تو مجمع پر گریہ طاری ہو گیا واہ واہ کا شور بلند ہوا اور مطلع بار بار پڑھوایا گیا جب طفیلؔ صاحب نے بتایا کہ مکمل قصیدہ میرا ہے اور اجملؔ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مطلع اِن صاحب زادے کا ہے تو پھر کیا تھا سامعین کی طرف سے اجملؔ کو چاندی کے بیس روپے بطور انعام ملے۔ واپسی پر شیخ صاحب نے اجملؔ کو حکم دیا کہ اب باضابطہ مشقِ سخن جاری کر دیجیے چناں چہ سفر سے واپسی پر اجملؔ نے ایک غزل لکھی جو کہ اُن کی زندگی کی پہلی غزل ہے:

میں ہوں تنہا اُدھر زمانہ ہے

یہ مرا مختصر فسانہ ہے

بجلیوں کی نگاہ ہے جس پر

بس وہی میرا آشیانہ ہے

آسماں کب کسی پہ ٹوٹ پڑے

بے ستوں جب یہ شامیانہ ہے

یاخدا خیر ہو مرے دل کی

دشمنِ جاں سے دوستانہ ہے

چار تنکوں کا آشیاں اجملؔ

کب اجڑ جائے کیا ٹھکانا ہے

شیخ طفیلؔ سلونوی نے غزل دیکھ کر ارشاد فرمایا:

’’میاں اجملؔ یہ غزل محتاجِ اصلاح نہیں ہے اور میں زبردستی اصلاح کا قائل نہیں، ان شآء اللہ تم ایک دن پورے ملک میں آفتاب بن کر چمکو گے۔‘‘

(اجملؔ کا انٹرویو: ماہ نامہ استقامت، کان پور، شمارہ نومبر 1977ء، ص18)

طفیلؔ سلونوی کی بات سچ ثابت ہوئی اور دنیا نے دیکھا کہ اجملؔ ملک بھر میں اہل محبت کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ طفیلؔ صاحب نے اجملؔ کو ریاضتِ سخن اور تلمذِ شعری کے لیے اپنے بھانجے جانشینِ داغؔ جناب نوحؔ ناروی کے پاس الٰہ آباد جانے کے لیے کہا۔ اجملؔ جب تلاش معاش کے سلسلے میں الٰہ آباد پہنچے تو نوحؔ صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، جیسے ہی طفیلؔ صاحب کا حوالہ پیش کیا تو نوحؔ ناروی نے بڑھ کر اجملؔ کو گلے لگا لیا۔ اجملؔ جب تک الٰہ آباد میں رہے تب تک مسلسل نوحؔ ناروی صاحب کے یہاں حاضری دیتے رہے اور اصلاحِ سخن بھی لیتے رہے۔ نوحؔ صاحب سے پہلی ہی ملاقات کا ایک واقعہ اجملؔ نے خود لکھا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اور اجملؔ کی شعر فہمی، معنی آفرینی، نکتہ سنجی اور سخن وری پر دلالت بھی کرتا ہے  :

’’میں نے ایک غزل نوحؔ صاحب کی خدمت میں پیش کی۔ صرف مطلع میں نوحؔ صاحب نے اصلاح دی، میرا مطلع:

کب خیریت چمن میں مرے آشیاں کی ہے

مرضی نہ باغباں کی نہ برقِ تپاں کی ہے

نوحؔ صاحب کی اصلاح:

کب خیر شاخِ گل پہ مرے آشیاں کی ہے

مرضی نہ باغباں کی نہ برقِ تپاں کی ہے

میں نے عرض کیا حضور اگر باغباں کا لفظ بھی ہٹا دیں تو کرم ہو گا۔ انھوں نے پوچھا کیوں؟ میں نے پھر عرض کیا حضور، باغبان تو چمن میں ہوا کرتا ہے اور شاخِ گل تو چمن کے باہر بھی۔ اور چمن کے باہر کسی شاخِ گل پر آشیاں بنانے والا باغباں کی مرضی کیوں چاہے؟ برقِ تپاں کی مرضی شاخِ گل کی مناسبت سے تو سمجھ میں آتی ہے لیکن باغباں کی مرضی سمجھ میں نہیں آتی، ہاں چمن میں رہنے والا باغباں اور برقِ تپاں دونوں کی مرضی چاہے گا۔

نوحؔ صاحب نے فرمایا، واقعی تم شاعر ہو، میں نے امتحاناً یہ اصلاح دی تھی، میں اس غلط فہمی میں تھا کہ ماموں طفیلؔ صاحب کا کلام ہو گا۔ اور انھوں نے آپ کے تخلص کے ساتھ مقطع کہہ دیا ہو گا۔ لیکن اعتراض بتا رہا ہے کہ تم واقعی شاعر ہو۔ اچھا ایک مصرعہ میں دیتا ہوں۔ تم اس مصرعہ میں گرہ لگاؤ۔ میں نے کہا عطا ہو، فرمایا:

سمجھا کہ تھک گیا ہوں مگر مانتا نہیں

کچھ توقف کے بعد میں نے عرض کیا حضور گرہ ملاحظہ فرمائیں:

دل اپنا ہو کے غیر سے رکھتا ہے ساز باز

سمجھا کہ تھک گیا ہوں مگر مانتا نہیں

نوحؔ صاحب نے ایک روپیا انعام دیا اور بڑی داد دی اور بہت دعائیں دیں اور فرمایا، الٰہ آباد میں جب تک رہو میرے پاس ضرور آیا کرو اور یہ غزل پوری کر کے مجھے دکھاؤ۔ میں نے غزل پوری کر لی اور ایک دن موقع پا کر گیا۔ پوری غزل سنا دی جس کا ایک شعر بھی قابلِ ذکر ہے:

کل جائیے گا، آج ٹھہر جائیے حضور

گھر یہ بھی آپ کا ہے کسی غیر کا نہیں

نوحؔ صاحب نے ’حضور‘ کی جگہ لفظ ’ضرور‘ کر دیا۔ میں نے عرض کیا، حضور میں تو محبوب کو ’حضور‘ ہی کہہ سکتا ہوں۔ میں محبوب پر زور ڈال کر حُکمیہ انداز میں کیسے کہہ سکتا ہوں کہ ’کل جائیے گا، آج ٹھہر جائیے ضرور‘ – نوحؔ صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا تم مجھ سے بھی زیادہ بوڑھے معلوم ہوتے ہو تم کو بچّہ سمجھنے والا خود بچّہ ہے، تم وہی لفظ ’حضور‘ ہی رہنے دو۔‘‘

(اجملؔ کا انٹرویو: ماہ نامہ استقامت، کان پوری، شمارہ نومبر 1977ء، ص 19)

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ اجملؔ ابھی کم سِن تھے کہ ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ لہٰذا ان کی تعلیم و تربیت والدۂ ماجدہ کے زیرِ سایہ ہوئی۔ اجملؔ کی والدہ نیک، پارسا اور پرہیزگار خاتون تھیں۔ ان کے دل میں نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سچی محبت و الفت تھی۔ اکابر علمائے اہل سنت کی مجلس وعظ میں ان کا آنا جانا رہا کرتا تھا۔ چناں چہ انھوں نے اجملؔ کو نعت خوانی کی طرف مائل کیا چوں کہ اجملؔ کے اندر ایک شاعر پروان چڑھ رہا تھا چناں چہ نعت خوانی کا یہ سفر نعت گوئی کی طرف بڑھا اور ایسا بڑھا کہ آج اکنافِ عالم میں ان کی نعت گوئی کی دھومیں مچی ہوئی ہیں۔ یہ ان کی والدہ کی نظروں کا فیضان ہے جو کہ مکتب کی کرامت میں نہیں ملتا، والدہ نے اجملؔ کو اپنے وقت کے سب سے بڑے پیر ہم شبیہ غوثِ اعظم مفتی اعظم ہند قدس سرہٗ کی غلامی میں بھی دے دیا۔ ماں کی دعاؤں اور پیر و مرشد کے فیضان سے اجملؔ دنیائے شعر و سخن میں بہت جلد ’’شاعرِ اسلام‘‘ – ’’نقیبِ اہل سنت‘‘ – ’’عاشقِ رسول‘‘ – ’’مداحِ خیر الانام‘‘ جیسے القاب سے یاد کیے جانے لگے۔

بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے شیدائی، صحابۂ کرام، اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم اور اولیائے عظام علیہم الرحمۃ کے فدائی قوم و ملت کے لیے پُرسوز اور درد مند دھڑکتا ہوا دل رکھنے والے اجملؔ سلطان پوری محض شاعر نہ تھے بلکہ مجاہد بھی تھے۔ انھوں نے اپنے مسلک و عقیدے کے حفاظت و صیانت اور اس پر ثابت قدم رہنے کے لیے اپنی جان کی بازی تک لگادی۔ یہ رب العزت جل جلالہٗ کا کرم اور رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کی عنایت ہے کہ جان کے بھوکوں اور خون کے پیاسوں کے نرغے میں بھی انھوں نے اعلاء کلمۃ الحق کا فریضہ انجام دیا۔ معاشی تنگ دستی اورنامساعد حالات کے باوجود تاحیات اس کا حق ادا کرتے ہوئے 3؍ جمادی الاخریٰ 1441ھ بمطابق 29؍ جنوری 2020ء بروز بدھ کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے، انا للہ و انا الیہ راجعون!

داغؔ دہلوی جیسے عظیم شاعر تک اجملؔ کا سلسلۂ تلمذ بڑا قریبی ہے یہی وجہ ہے کہ انھیں بھی ’’دبستانِ داغؔ‘‘ کے دیگر شعرا کی طرح الفاظ کو شعری جامہ پہنانے میں بڑا ملکہ حاصل ہے، ان معنوں میں ہم اپنے اس شاعر کو منفرد المثال بھی کہہ سکتے ہیں۔ ذیل کی خوب صورت نعت پاک اجملؔ کے اچھوتے اسلوب کا دل کش اشاریہ ہے، ردیف کی تازہ کاری اور انوکھی لفظیات کی طرفگی دل و دماغ اور حواسِ خمسہ کو متاثر کرتی ہوئی اس نعت کو سمعی، بصری، مذوقی اور لمسی پیکر کا نگار خانہ بنا رہی ہے۔ شعری محاسن سے لبریز کلام نشانِ خاطر فرمائیں:

یادِ مدینہ جب آ جائے، وہ بھی اتنی رات گئے

دل کیا کیا تڑپے تڑپائے، وہ بھی اتنی رات گئے

نعت نبی کے جھونکے آئے، وہ بھی اتنی رات گئے

سانسوں کے سرگم لہرائے، وہ بھی اتنی رات گئے

تخیل کو عملی جامہ پہنانا، واقعات و قصص کو شعری فکر میں سمیٹ دینا، قرآنی مفاہیم کو اپنے کلام میں جگمگانا، احادیث و سیر سے شاعری کو دو آتشہ کرنا اور عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کو دل و دماغ میں اتار دینا اس عاشق رسول کا بہترین کارنامہ ہے۔ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ ماضی کی کوئی بھی دینی محفل اور میلاد کی مجلس اجملؔ کے کلام کے بغیر مکمل نہیں مانی جاتی تھی۔ میلاد خواں حضرات اور نعت خواں اجملؔ کے کلام کو ذوق و شوق سے پڑھا کرتے تھے اور سامعین پر کیف طاری رہا کرتا تھا۔ اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ اب بھی اجملؔ کے کلام کی بازگشت اسی طرح تر و تازہ ہے۔ چوں کہ اجملؔ خود بھی بڑے مترنم لب ولہجے کے حامل تھے۔ آج بھی اُن کے لہجے کی شیرینی کانوں میں رس گھول رہی ہے۔ اجملؔ نے اپنے خوب صورت کلام سے ذہن و دل میں محبتوں کی چاندنی برسائی ہے:

زیرِ سایۂ گنبد نور کا بسیرا ہے

اور سنہری جالی سے رونما سویرا ہے

طائروں کے جھرمٹ میں وہ کَلَس کا نظّارا

شمع کو پتنگوں نے ہر طرف سے گھیرا ہے

روح کیوں گوش بر آواز ہوئی جاتی ہے

مجھ کو سرکارِ دو عالم نے پکارا تو نہیں

تاکہ تاریخِ ولادت کو نہ بھولیں نسلیں

بزمِ میلادِ نبی یوں ہی سجائے رکھیے

میرے رب کو جو مری قیس مزاجی تھی پسند

اس لیے خلد اتاری گئی خضرا کے قریب

بہ پیشِ کثرتِ باطل، خطیبِ وحدت نے

بنامِ حق سرِ فاراں، حسیں خطاب کیا

مرے رسول کے طلعت نواز تلوؤں نے

زمیں کے ذرّوں کو ہمدوشِ آفتاب کیا

واللیل تری زلفِ معنبر کی ہے توصیف

والفجر ترا روئے حسیں اے شہ دیں ہے

اجملؔ کا یہ شعر دیکھیں، کس قدر خوبی کے ساتھ معراجِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کا بیان کرتے ہوئے عرب کی عظمت و رفعت اور سربلندی کا سبب معراج کو بتاتے ہیں، جس سے شعر معنی آفرینی کا ایک اعلیٰ مرقع بن‌ گیا:

رات معراجِ خیر البشر ہو گئی

سرزمینِ عرب عرش پر ہو گئی

اجملؔ کی نعت گوئی کا خاص وصف یہ ہے کہ وہ نعت کے تقدس اور غزل کی رنگینیِ بیان دونوں کو اس خوش اسلوبی سے برتتے ہیں کہ افراط و تفریط کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ ان کے یہاں یہ محتاط وارفتگی اور اہل سنت و جماعت کی شہرۂ آفاق خوش عقیدگی کا یہ انداز در اصل حسان الہند امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی کے کلام بلاغت نظام کا فیضان ہے، اجملؔ نے اپنے دادا مرشد امام احمد رضا کے نعتیہ مجموعے ’’حدائق بخشش‘‘ کو ہمیشہ حرزِ جاں بنائے رکھا۔ ذیل کاشعر دیکھیں اور نعت کے تقدس اور غزل کی رنگینیِ بیان سے لطف اندوز ہوں:

رات کے گیسو بکھر چکے ہیں سناٹے کا عالم ہے

آؤ پڑھیں ’واللیل‘ کی سورت زلفِ نبی کی بات کریں

نفرتوں کے ماحول میں محبتوں کا چراغ کس قدر البیلے انداز میں روشن کرنا چاہتے ہیں، اجملؔ کا شعر پڑھ کر بے ساختہ سبحان اللہ کی داد نکل جاتی:

جن کو اُجالوں سے نفرت ہے، اُن کے چراغِ دل کو جلائیں

شمعِ محبت روشن کر دیں، نورِ نبی کی بات کریں

اجملؔ کا شہرۂ آفاق کلام ’’کاش ایک بار دیکھ لوں حضور کا مزار‘‘ اپنی مثال آپ اور شہرت و مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا ہوا ہے۔ شعری محاسن اور فنی خوبیوں سے مملو اس نعت کے چند بند خاطر نشیں فرمائیں:

کاش ایک بار دیکھ لوں حضور کا مزار

میں دل و نگاہ میں بہشت کو اتار لوں

روضے کا نظارا کر لوں، ذرے کو ستارا کر لوں

نعتِ پاک پڑھ کے اپنی عاقبت سنوار لوں

کاش ایک بار دیکھ لوں حضور کا مزار

یا الٰہ العالمیں ہو مری دعا قبول

میں بھی جا کے دیکھ لوں کبھی مدینۃ الرسول

منہ پہ ملنے کو ملے دیارِ مصطفی کی دھول

مہکے جس دیار میں حسن حسین جیسے پھول

میں بھی دو گھڑی اُسی دیار میں گزار لوں

اُن کے در پہ پہرہ دیتے ہیں فرشتے صبح و شام

روز و شب کی دھُوپ چھاؤں اُن کے زیرِ انتظام

چاند سُورج اور ستارے اُن کے حُکم کے غُلام

اُن کی دسترس میں ساری کائنات کا نظام

عکس کائنات قلب و رُوح میں اُتار لُوں

اجملؔ نے نعتوں کے ساتھ ساتھ غزلیں بھی کہیں، گیت بھی لکھے، دوہے بھی رقم کیے، انقلابی نظمیں بھی ارقام فرمائیں، ان کی نظمیں اور گیت بڑے خاصے کی چیز ہیں۔ اجملؔ کی مشہورِ زمانہ نظم ’’جاگ جا اے مسلماں سویرا ہوا‘‘ خوابِ غفلت میں سوئی ہوئی ملت اسلامیہ کو بیداری کا پیغام دے رہی ہے۔ ایک ایک مصرعے سے شاعرِ محترم کا انقلابِ امت، اصلاحِ ملت اور بیداریِ قوم کے لیے سوز دروں عیاں ہوتا ہے۔ گو کہ خلوص و للّٰہیت کے عنصر سے لبریز یہ اصلاحی نظم اجملؔ نے  1953ء میں اس وقت لکھی جب کہ بھارت کی آزادی کے بعد قومِ مسلم اپنی غفلت و بے عملی کی بنا پر پیہم فسادات کا شکار ہو گئی اور بے حسی و بے بسی کی تحریر اس کی پیشانی پر صاف پڑھی جانے لگی، لیکن آج 67؍ سال بعد بھی یہ نظم اسی طرح تر و تازہ اور 2020ء کے مسلمانوں کی غفلت و بے حسی کی حقیقی آئینہ دار لگتی ہے:

جاگ جا اے مسلماں سویرا ہوا

دور سارے جہاں سے اندھیرا ہوا

صبح ہونے لگی رات ڈھلنے لگی

بادِ مسحور عالم میں چلنے لگی

قومِ خوابیدہ کروٹ بدلنے لگی

لے کے انگڑائیاں آنکھ ملنے لگی

دی مؤذن نے مسجد میں جا کر اذاں

کچھ نمازی ہوئے سوے مسجد رواں

جاگ جا اے مسلماں سویرا ہوا

دور سارے جہاں سے اندھیرا ہوا

دہر سے مٹ گیا ظلمتوں کا نشاں

مسکرائی سحر لے کے انگڑائیاں

ساکنانِ فلک ہو گئے سب نہاں

جاگ اٹھا خوابِ غفلت سے سارا جہاں

تیرے بستر کے ماتھے پہ آئی شکن

کہہ رہی ہے یہ سورج کی پہلی کرن

جاگ جا اے مسلماں سویرا ہوا

دور سارے جہاں سے اندھیرا ہوا

مردِ میدان بن اپنے جوہر دکھا

کر بلند اپنے بازو کو مت خوف کھا

گولیوں سے نہ ڈر کھول سینہ ذرا

کام ہمت سے لے آگ میں کود جا

تیری ہمت ہی تلوار بن جائے گی

نارِ نمرود گلزار بن جائے گی

جاگ جا اے مسلماں سویرا ہوا

دور سارے جہاں سے اندھیرا ہوا

اے مری قوم کے نام ور شاعرو

عالمو، حافظو، مفتیو، قاریو

اے ادیبو، فسانہ نگارو سنو

تم جو چاہو حوادث کے رخ موڑ دو

یہ اٹھیں، وہ اٹھیں، ہم اٹھیں، تم اٹھو

اٹھ کے اجملؔ یہ پیغام دو قوم کو

جاگ جا اے مسلماں سویرا ہوا

دور سارے جہاں سے اندھیرا ہوا

جب یہ نظم دینی جلسوں اور کانفرنسوں میں پڑھی جاتی تو لوگ اسے سُن کر جوش میں قابو سے باہر ہو جاتے، ’’نعرۂ تکبیر‘‘ اور ’’نعرۂ رسالت‘‘ کے شور سے فضا مرتعش ہو جاتی۔ اجملؔ نے نعرۂ تکبیر اور نعرۂ رسالت میں بھی شاعرانہ وزن محسوس کیا اور انھیں بھی نظم کر دیا۔ ہند و پاک میں اجملؔ سے پہلے کسی شاعر نے ’’نعرۂ تکبیر‘‘ اور ’’نعرۂ رسالت‘‘ کو نظم کا جامہ نہیں پہنایا تھا۔ اجملؔ کے یہ دونوں کلام بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں، دونوں نظموں سے دو دو بند:

مومن کی تقریر اللہ اکبر، مومن کی تحریر اللہ اکبر

مومن کی شمشیر اللہ اکبر، کلمے کی تفسیر اللہ اکبر

نعرۂ تکبیر اللہ اکبر

گونجا یہ نعرہ دشت و جبل میں، گونجا یہ نعرہ جنگ و جدل میں

گونجا یہ نعرہ قصر و محل میں، گونجا یہ نعرہ میدانِ عمل میں

نعرۂ کبیر اللہ اکبر

۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔

کلمۂ فصاحت یا رسول اللہ

جملۂ بلاغت یا رسول اللہ

خطبۂ خطابت یا رسول اللہ

کتبۂ کتابت یا رسول اللہ

نعرۂ رسالت یا رسول اللہ

باغ بھی شجر بھی، پھول بھی ثمر بھی

کوہ بحر وبر بھی، ارض خشک و تر بھی

حور بھی ملک بھی، جن اور بشر بھی

نعرہ زن فلک بھی شمس اور قمر بھی

نعرۂ رسالت یا رسول اللہ

علاوہ ازیں اجملؔ کا ایک کربیہ رنگ و آہنگ سے لبریز بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں پیش کیا گیا استغاثہ بھی اجملؔ جیسے شاعر کو ماضی، حال اور مستقبل کا شاعر کہنے کا حق ان کے نام محفوظ کرواتا دکھائی دیتا ہے۔ اجملؔ نے یہ استغاثہ تو سرورِ کونین صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں برسوں قبل پیش کیا تھا لیکن امت مسلمہ کا حالیہ عالمی منظر نامہ اس نظم کو دورِ حاضر کی نظم قرار دیتا ہے:

نظر بَر حالِ اُمّت مذہبِ اسلام کے ہادی

کہ اب دیکھی نہیں جاتی مسلمانوں کی بربادی

ترے ہوتے ہوئے یہ ہر طرف رسوائی و ذلّت

تری موجودگی میں یہ تباہی اور بربادی

ترے مذہب سے یہ برتاؤ ناری فتنہ سازوں کا

تری ملت کے ساتھ اس درجہ سفاکی و جلادی

مٹائے جا رہے ہیں نام لیوا تیرے دنیا سے

اجاڑی جا رہی ہے تیرے دیوانوں کی آبادی

دہائی ہے دہائی ہے دہائی یارسول اللہ

تری درگاہ میں فریاد کرتے ہیں یہ فریادی

اجملؔ ’’حقیقی بھارت مہان‘‘ کو ماننے والے قومی ورثے کے سچے محافظ شاعر تھے۔ ان کا تصورِ ہندوستانیت بڑا مستحکم اور توانا تھا، ان کی حب الوطنی قابلِ رشک ہے۔ جسے ان کے مختلف قومی گیتوں بالخصوص ایک مقبولِ زمانہ نظم ’’کہاں ہے میرا ہندوستان میں اُس کو ڈھونڈ رہا ہوں‘‘ کے ایک ایک مصرعے میں دیکھا جا سکتا ہے:

مرے بچپن کا ہندوستان

نہ بنگلہ دیش نہ پاکستان

مری آشا مرا ارمان

وہ پورا پورا ہندوستان

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں

وہ اردو غزلیں ہندی گیت

کہیں وہ پیار کہیں وہ پریت

پہاڑی جھرنوں کے سنگیت

دیہاتی لہرا پربی تان

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں

جہاں کی پاک پَوِتر زمین

جہاں کی مٹی خلد نشین

جہاں مَہراج معین الدین

غریب نوازِ ہند سلطان

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں

اجملؔ کا ایک شاہ کار گیت ’’انمول نشانی دے دوں‘‘ منفرد المثال اور زبان و بیان کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ انوکھی لفظیات، نرالے استعارات، اچھوتی تشبیہات سے مرصع ایجاز و تراکیب کے حُسن و جمال‌ کی لہریں ایک ایک مصرعے سے عیاں ہوتی ہے۔ شعروں کی زیریں رَو میں پنہاں جمالیات کی دل کشی، تصویریت کا حُسن اور منظر کشی کی تازگی و طرفگی چشم و دماغ کو متاثر کرتی ہے، جی چاہتا ہے کہ مکمل گیت ہی پیش کر دیا جائے:

میں ترا شاہِ جہاں، تو میری ممتاز محل

آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں

ہاے یہ ناز، یہ انداز، یہ غمزہ، یہ غرور

اس نے پامال کیے کتنے شہنشاہوں کے تاج

نیم باز آنکھوں میں یہ کیف یہ مستی یہ سرور

پیش کرتے ہیں جسے اہلِ نظر دل کا خراج

یہ تبسم، یہ تکلم، یہ سلیقہ، یہ شعور

شوخ، سنجیدہ، حیا دار، حسیں سادہ مزاج

آ ترے واسطے تعمیر کروں تاج محل

آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں

میں ترا شاہِ جہاں، تو میری ممتاز محل

موگرا، موتیا، رابیل، چمبیلی، چمپا

سوسن و یاسمن و نسترن و سرو سمن

رات رانی، گل مچکن، گل نسریں، شہلا

پھول لب، پھول دہن، پھول ذقن، پھول بدن

میری سورج مکھی گل چاندنی جوہی بیلا

ہار سنگھار و گلِ کچنار و گلنار چمن

میری نرگس مری گل شبّو مری پھول کنول

آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں

میں ترا شاہِ جہاں تو میری ممتاز محل

شمع، خورشید، قمر، برق، شرر، سیارے،

ہیں تیرے ہی رخِ انوار کی ان سب میں چمک

لعل، یاقوت، شفق، پھول، حنا، انگارے

ہیں تیرے ہی لب و رخسار کی ان سب میں جھلک

وہی اڑتے ہوئے چھینٹے ہیں یہ جگنو سارے

تیرے ساغر سے ازل ہی میں جو گئے تھے چھلک

بادۂ حسن مرے جامِ شفق رنگ میں ڈھل

آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں

میں ترا شاہِ جہاں تو میری ممتاز محل

میں ترا قیس تو لیلیِٰ شبستانِ جمال

میں ترا وامقِ جاں سوز، تو عذرائے زماں

خدو خال و رخ و گیسو کی کہاں کوئی مثال

میں شہنشاہ جہانگیر ہوں تو نور جہاں

میری شیریں سخنی میں تیرا فرہادِ خیال

شاعرِ ہند ہوں میں اور تو مری اردو زباں

اے میرے گیت کی جاں، اے میری محبوب غزل

آ تجھے پیار کی انمول نشانی دے دوں

میں ترا شاہِ جہاں تو میری ممتاز محل

کہ تو ہے اقبالؔ کی نظموں کا حسیں درسِ حیات

میرؔ، غالبؔ، ظفرؔ و ذوقؔ کا اندازِ کلام

جوشؔ کی نظمِ مسلسل گری کے قطعات

داغؔ کی سادہ زباں، نوحؔ کا طوفانِ خرام

تیرے اوصاف کے پہلو ہیں جگرؔ کے حالات

تو میری جانِ رباعی ہے، میں تیرا خیامؔ

میں تیرا حافظِؔ شیراز، تو صہبائے غزل

آ تجھے پیار کی انمول کی نشانی دے دوں

میں ترا شاہِ جہاں تو میری ممتاز محل

رخ پہ لہرائی ہوئی زلفوں کی ساون کی بہار

جیسے گلزار پہ گھنگور گھٹا چھائی ہو

ان لجائی ہوئی آنکھوں میں جوانی کا خمار

رات بھر جیسے نہ مہجور کو نیند آئی ہو

یہ مہکتی ہوئی سانسیں یہ گلابی رخسار

چاند میں سرخ پری جیسے اتر آئی ہو

میں کہ اک شاعرِ برباد میرا نام اجملؔ

آ تجھے پیار کی اک انمول نشانی دے دوں

میں ترا شاہِ جہاں تو میری ممتاز محل

اجملؔ نے اپنے اس گیت کو رنگ، نور، خوشبو، دن‌، رات، زبان، بیان، علم، ادب، محبت، خلوص، چمن، پھول، معدن اور بہت ساری دیگر چیزوں کا دل کش اور دل‌ نشین استعارہ بنا دیا ہے۔ یہ گیت صرف گیت نہیں بلکہ ایک مکمل تہذیب و تمدن کا خوب صورت اشاریہ بن گیا ہے۔ لفظ لفظ سے ہویدا جمال مکمل طور پر حواسِ خمسہ کو اپنی گرفت میں لیتا ہے، قاری یا سامع دیر تک جس کے حصار سے نکل‌ نہیں پاتا۔

اجملؔ نے اردو کے ساتھ ساتھ ہندی بھاشا اور پوربی میں بھی اپنی جولانیِ طبع کے جوہر دکھائے اور بے طرح کامیاب رہے۔ اجملؔ سلطان پوری تاعمر اردو شعر و ادب کی خدمت کرتے رہے۔ انھوں نے اپنے شعروں کے ذریعے زبان و ادب کی ترقی کے ساتھ ساتھ سماج اور معاشرے کی اصلاح کا کام کیا۔ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے عشق و محبت کو عام کیا۔ چوں کہ وہ اکابر علما و مشائخ کے منظورِ نظر تھے، بڑے بڑے صلحا اور صوفیہ ان کے مداح تھے لہٰذا ان کی شاعرانہ عظمتوں اور شخصی رفعتوں پر مجھ ایسا کم علم کیا کچھ لکھ سکتا ہے۔ اجملؔ کی وفات حسرت آیات کی خبر سن کر شہزادۂ شیخ الکبیر خانقاہ عالیہ چشتیہ سلطانیہ دیویٰ شریف کے سجادہ نشین پیر طریقت حضرت مولانا محمد فاروق چشتی صاحب قبلہ دام ظلہٗ نے مجھے اپنے زمانۂ طالب علمی کا ایک واقعہ سنایا کہ اجملؔ سلطان پوری ایک دن جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں سو رہے تھے، جلالۃ العلم حضور حافظ ملت شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ نے کسی طالب علم سے پوچھا اجملؔ کہاں ہیں؟ جواب دیا، سو رہے ہیں، کیا ان کو جگا دیں؟ حضرت نے فرمایا: نہیں سونے دو نہ جانے وہ اس وقت کہاں ہوں؟

اللہ اکبر اپنے وقت کے عظیم محدث و معلم اور اللہ کے ولی حضور حافظ ملت قدس سرہٗ کے اس جملے نے اجملؔ کا وقار میرے دل میں بڑھا دیا اور بے ساختہ اجملؔ کا یہ شعر ذہن کے دریچے سے جھانکنے لگا کہ:

خوابِ مدینہ دیکھ رہا ہو ممکن ہے بیدار نصیب

سوئے ہوئے کو کون جگائے، وہ بھی اتنی رات گئے

اللہ کریم جل شانہٗ کے ایک نیک اور برگزیدہ بندے کی یہ گواہی اجملؔ کے لیے میری نظر میں دنیوی و اخروی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ مولا تبارک و تعالیٰ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صدقہ و طفیل عاشقِ رسول، شاعرِ اسلام حضرت اجملؔ سلطان پوری کی مغفرت فرماتے ہوئے ان کے درجات کو بلند تر فرمائے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے