محمد ریاض انجم بہ طور مقصود حسنی شناس ۔۔۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا

 

عالمی ادب کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ادب میں سوانح نگاری قدیم زمانے سے مروّج و مقبول رہی ہے۔ عالمی ادب کی سب سے پہلی سوانح عمری یونان سے تعلق رکھنے والے سوانح نگار پلو ٹارک نے لکھی۔ پلوٹارک نے دوسری صدی عیسوی میں لکھی گئی اپنی اس پہلی سوانح عمری (Parallel Lives) میں اہم رومن اور یونانی شخصیات کے بارے میں متعدد حقائق کو پیش کیا ہے۔ کسی بھی شخصیت کی کتابِ زیست کے اوراقِ ناخواندہ کی تفہیم کے سلسلے میں مطالعۂ احوال کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ شخصیت شناسی ایک کٹھن مر حلہ ہے جس کے لیے اہم ترین بنیادی مآخذ تک رسائی، شخصیت سے متعلق تمام ستاویزات کا حصول، شخصیت کی علمی، ادبی، سماجی اور معاشرتی فعالیتوں سے آگاہی، شخصیت کے احباب، رشتہ داروں اور معاصر ادیبوں سے روابط کے بارے میں ثقہ روایات، مستند حوالے اور اس کے مشاغل کی تفصیلات کی احتیاج ہے۔ کسی ممتاز ادیب کی زندگی اور علمی و ادبی کمالات کا تحقیقی جائزہ لیتے وقت سائنسی اندازِ فکر، قوتِ فیصلہ اور تحلیل نفسی کی اساس پر استوار تحقیقی و تنقیدی بصیرت کو زادِ راہ بنانا لازم ہے۔

قدیم زمانے میں شخصیت شناسی کے سلسلے میں اردو ادب میں تذکرہ نویسی کو سکۂ رائج الوقت کی حیثیت حاصل تھی۔ قدیم تذکرہ نگاروں نے اپنے عہد کی ممتاز ادبی شخصیات اور ان کی تخلیقی فعالیتوں کو تاریخِ ادب کے صفحات میں محفوظ کیا۔ اُردو زبان کی کلاسیکی شاعری سے دلچسپی رکھنے والے آئینۂ حیرت، گل رعنا، خم خانۂ جاوید، مجموعۂ نغز، طبقات الشعرا اور گلشنِ بے خار جیسے اہم تذکروں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ تذکرہ نویسی کے بعد خود نوشت کو اولین ماخذ کی بنا پر بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

اپنی محبوب شخصیات اور اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنے والے محقق محمد ریاض انجم نے زندگی بھر طوفان حوادث کے بگولوں کے ہم سفر رہنے والے ادیب پروفیسر سید مقصود حسنی کی عظیم شخصیت پر قلم اُٹھایا ہے۔ پروفیسر سید مقصود حسنی کی شخصیت کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں لیلائے اسلوب کی مسحور کن کشش قاری کو آنکھ بھر کر اپنی جانب دیکھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ مطالعۂ احوال میں شخصیت نگاری ایک ایسا فن ہے جو تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ سوانح نگار علمی و ادبی کہکشاں کی تابانیوں کا جائزہ لینے کی غرض سے افق ادب پر گہری نگاہ ڈالتا ہے۔ وسعت افلاک میں وہ دیکھتا ہے کہ کئی آفتاب و ماہتاب ایسے ہیں جن کی ضیا پاشیوں سے پوری دنیا بقعۂ نُور بن گئی ہے۔ ان فیض رساں تابندہ ستاروں نے روشنی کاجو سفر طے کیا ہے اس کا استحسانی مطالعہ سوانح نگار پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتا ہے۔ وہ اپنی خلا نوردی جاری رکھتا ہے تو اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ عظیم شخصیات کی علمی و ادبی کامرانیوں کی حدود سر حد ادراک سے بھی آگے تک پہنچ جاتی ہیں۔ عظیم شخصیات کے کردار کی عظمتوں سے آشنا ہونے کے لیے سوانح نگار دشت و جبل، کوہ و دمن، شہر اور بن، گل زار اور ریگ زار تک کی خاک چھانتا ہے، ریگِ ساحل پر نوشتہ وقت کی ہر تحریر پر وہ نگاہ ڈالتا ہے۔ یہ حقیقت اس سے مخفی نہیں کہ عظیم شخصیات نے زندگی کا سفر کیسے طے کیا۔ ان نابغۂ روزگار ہستیوں کی زندگی کا سفر تو افتاں و خیزاں کٹ جاتا ہے مگر آزمائش و ابتلا سے گزرنے اور صبر آزما حالات کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنے کے بعد ان کا پورا وجود کرچیوں میں بٹ جاتا ہے۔ اپنی خودی کے محافظ ان فرہاد منش قناعت پسند فقیروں نے اپنا تیشہ رہن رکھ کر درِ خسرو پر دستک دینے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ وہ اس لیے درِ کسریٰ پر صدا دینے کے سخت خلاف ہیں کہ وہ جانتے ہیں کے ان کھنڈرات میں اب ملخ و مُور، بوم و شپر اور زاغ و زغن کے سوا کچھ بھی نہیں۔ گزشتہ ایک عشرے میں قصور میں مقیم اس ذہین محقق نے سوانح نگاری کے حوالے سے پروفیسر سید مقصود حسنی کی حیات اور علمی خدمات پر قابل قدر کام کیا ہے۔ پروفیسر سید مقصود حسنی کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ایسے جادہ طرازِ صحرا تھے جنھوں نے صحرا میں اذان دے کر حرفِ صداقت کو اسلوب زندگی سے تعبیر کرتے ہوئے ایک شانِ استغنا کے ساتھ زندگی بسر کی۔ اس ادیب کے زینۂ ہستی سے اُتر جانے کے بعد اردو زبان و ادب کو پہنچنے والے نا قابل تلافی نقصان کے تصور سے کلیجہ منھ کو آتا ہے۔ اپنے موضوع تحقیق سے متعلق مستند مواد کی فراہمی بلا شبہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ کسی بھی عظیم شخصیت کی زندگی کی نئی جہات کی دریافت کوہ کنی اور جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ سر بہ فلک کوہساروں کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی برف پوش چوٹیوں تک رسائی کے آرزو مند اور بے آب و گیاہ ریگستان جہاں ہر طرف خارِ مغیلاں بکھرے ہیں وہاں صحرا نوردی کرتے وقت یہ عظیم شخصیات حرف شکایت لب پر لائے بغیر صرف یہی کہتی ہیں کہ اس دشت جنوں کو چاہیے کہ ہر خار کی نوک کو تیز تر کر دے شاید ان کے بعد بھی کسی آبلہ پا رہرو کا اس طرف سے گزر ہو۔ گزشتہ دس برس کے عرصے میں اس اہم موضوع پر محمد ریاض انجم کی چھے کتب شائع ہو چکی ہیں اور ان کتب میں جزئیات نگاری کا کمال یہ ہے کہ پروفیسر سید مقصود حسنی سے متعلق کوہ سے لے کر کاہ تک کوئی چیز بھی اس محنتی اور قابل محقق کی نگاہ سے اوجھل نہیں رہی۔ ان کتب میں فاضل محقق نے پروفیسر سید مقصود حسنی کی زندگی کے تمام اہم پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔ تخلیق ادب اور اس کے لاشعوری محرکات، سماجی و معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز، تہذیب و ثقافت کے مدارج، سیاست اور عمرانیات کے ارتعاشات، معاشی مسائل اور تمدن کی کیفیات کی لفظی مرقع نگاری سوانح نگار کے معیار تحقیق کی کسوٹی ہے۔ محقق کے لیے یہ امر نا گزیر ہے کہ وہ تدبر، فہم و فراست، محنت و دیانت اور خلوص و وفا کی مشعل فروزاں کر کے آئینۂ ایام میں اپنی محبوب شخصیت کی ہر ادا کو جیسی کہ اس نے دیکھی ہے اسی طرح زیب قرطاس کرتا چلا جائے۔ شخصیت نگاری میں مصنف کے لیے سما سے سمک تک کا مشاہدہ نا گزیر ہے۔ عظیم شخصیات کے سوانح لکھنے کے لیے زینہ بہ زینہ تحقیق و تجسس اور سینہ بہ سینہ چلنے والی روایات کو پرکھنے کا قرینہ اور بنیادی مآخذ کا دفینہ اگر دسترس میں ہو تو تحقیق کا سفینہ سرابوں کے خرابوں اور منجدھار کے جان لیوا عذابوں سے بچ کر ساحل عافیت تک پہنچ سکتا ہے۔ پروفیسر سید مقصود حسنی کے اسلوب پر محمد ریاض انجم کے پچاس کے قریب تنقیدی مقالات موجود ہیں جو انھوں نے وطن عزیز کے مختلف شہروں میں منعقد ہونے والی ادبی تقریبات میں پڑھے تھے۔ سوانح نگاری کا یہ منفرد انداز محمد ریاض انجم کے اسلوب کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے۔ ان وقیع کتب میں شامل تحریریں جہاں حقیقت پسندی اور غیر جانب داری کی صفات سے مزین ہیں وہاں تاریخ کے مسلسل رواں عمل کے بارے میں آگہی سے بھی لبریز ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جذبۂ انسانیت نوازی سے متمتع محمد ریاض انجم کی ان وقیع تصانیف کی اشاعت سے جہاں پروفیسر سید مقصود حسنی کی زندگی کے جملہ اسرار و رموز ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہونے سے بچ گئے ہیں وہاں پروفیسر سید مقصود حسنی کی حیات اور علمی و ادبی خدمات پر تحقیقی کام کرنے والوں کو افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ تک رسائی کے متعدد مواقع نصیب ہوں گے۔ پروفیسر سید مقصود حسنی کی شخصیت پر لکھی گئی ان تحقیقی کتب میں مولف محمد ریاض انجم کا ذاتی نقطۂ نظر کلیدی اہمیت کا حامل سمجھاجا سکتا ہے۔ محمد ریاض انجم نے مقدور بھر کوشش کی ہے کی ہے کہ ثقہ روایات، دستیاب معلومات، متعلقہ شخصیات، قابل اعتبار حکایات، شہادتیں، یادداشتیں، فرو گزاشتیں، تصانیف، تصاویر، تقاریر، مخطوطات، ملفوظات، مصاحبے، مذاکرے اور احباب سے سنی ہوئی باتوں کو پُوری دیانت اور صراحت سے ان کتب کی زینت بنایا جائے۔ محمد ریاض انجم کی ان تصانیف کے اعجاز سے پروفیسر سید مقصود حسنی کا دوام جریدۂ عالم پر ثبت ہو گیا ہے:

محمد ریاض انجم (مرتب): ۱۔ زبان غالبؔ کالسانی و ساختیاتی مطالعہ، مصنف، سیدمقصود حسنی، نشان پبلشرز، لاہور، بارِ اول، 2013

۲۔: خوش بُو کے امین، مکاتیب بنام سیدمقصود حسنی، نشان پبلشرز، لاہور، بار اول، 2014

۳۔ مقصود حسنی کا افسانوی ادب، ہجویری ایجوکیشنل پبلشرز، لاہور، بارِ اول 2018

۴۔: مسٹر اُردو، سید مقصود حسنی، بزمِ اقبال قصور، بار اول 2018

۵۔: مقصود حسنی کے مزاحیے، کتاب سرائے، اردو بازار، لاہور، بار اول، 2019

۶۔: Japani ka lisanyati Nizam رومن اردو بزم اقبال قصور، بار اول، 2019

منفرد اسلوب سے مزین پروفیسر سید مقصود حسنی کی تحریروں کا ہر لفظ پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابد آشنا اسلوب کے حامل اس نابغۂ روزگار تخلیق کار نے تخلیق فن کے لمحات میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُتر جانے کا قصد کیا تھا۔ ایک خود دار، با وقار، جری اور بے باک ادیب کی حیثیت سے پروفیسر سید مقصود حسنی نے عجز و انکسار کی مظہر ایک شان استغنا کے ساتھ زندگی بسر کی۔ انھوں نے کبھی در کسریٰ پر صدا نہ کی کیونکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ سیلِ حوادث کی زد میں آنے والے نظام کہنہ کی نشانی ان بوسیدہ کھنڈرات میں موجود جامد و ساکت بت اور حنوط شدہ لاشیں دکھی انسانوں کے مصائب و آ لام سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اب تو سما تا سمک ان فراعنہ کا کہیں نام و نشاں نہیں ملتا۔ پروفیسر سید مقصود حسنی کی منتشر تحریروں کو یک جا کرنے، ان کے مسودات اور مخطوطات کا عمیق مطالعہ، ان کی کمپوزنگ اور طباعت کے مراحل میں محمد ریاض انجم نیپروفیسر سید مقصود حسنی کے ساتھ بھر پور تعاون کیا۔ اس ادبی سوانح نگاری میں محمد ریاض انجم نے اپنے ممدوح کی زندگی کے معمولات، حالات، واقعات اور نشیب و فراز کی لفظی مرقع نگاری کرتے وقت جس فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے وہ قابل قدر ہے۔ مولف نے زمانی ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے آئینۂ ایام میں پروفیسر سید مقصود حسنی کی ہر ادا دکھانے کی سعی کی گئی ہے۔ مولف نے پروفیسر سید مقصود حسنی کی جن کتب کی ترتیب و اشاعت میں حصہ لیا ان کتب کا اجمالی جائزہ پیش ہے:

۱۔ زبان غالبؔ کا لسانی و ساختیاتی مطالعہ

یہ کتاب تین سو دو (302) صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کے آغاز میں پروفیسر سید مقصود حسنی کی دعا اور حرفِ مقصود شامل ہیں۔ دیباچہ ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے لکھا ہے جب کہ نقشِ تحقیق کے عنوان سے محمد ریاض انجم کے سترہ صفحات پر مشتمل تعارف میں اس کتاب کے اہم پہلوؤں کی وضاحت کی گئی ہے۔ عملی تنقید میں پروفیسر سید مقصود حسنی نے ساختیات، پس ساختیات، جدیدیت، ما بعد جدیدیت، رد تشکیل، رئیلزم، سر رئیلزم، پیرا سائیکالوجی اور اضافی حقیقت سے متعلق مباحث میں گہری دلچسپی لی۔ اس کتاب میں ان تصورات کی باز گشت فکر و خیال کے نئے دریچے وا کرتی ہے۔ ساختیات نے سال 1950میں ایک نئے رجحان کی حیثیت سے گلشنِ ادب میں نمو پائی۔ ساختیات نے نئی تنقید پر گرفت کی اور فرانسیسی فلسفی سارتر (Jean-Paul Sartre: 1905-1980) کے نظریہ وجودیت اور انسانی آزادی کے انتہا پسندانہ تصور کو لائق استرداد ٹھہراتے ہوئے افکارِ تازہ کی نئی مشعل فروزاں کی۔ پروفیسر سید مقصود حسنی نے ساختیاتی فکر سے گہرے اثرات قبول کیے۔ زبان غالبؔ کالسانی و ساختیاتی مطالعہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر حصے کے ذیلی عنوان موضوع کی مزید وضاحت کرتے ہیں۔ اس تصنیف کے آخر میں مطالعہ کی کتابیات اور ضمیمہ جات کو شامل کیا گیا ہے۔ ایک ضمیمہ میں کتاب کے مولف کے بارے میں مشاہیر ادب کی آرا کو جگہ دی گئی ہے۔ پروفیسر سید مقصود حسنی نے غالبؔ شناسی کے حوالے سے اس عظیم شاعر کی زبان کے لسانی اور ساختیاتی مطالعہ پر توجہ دی ہے۔ محقق کا خیال ہے کہ تخلیق اور لا شعوری محرکات کا جائزہ لیتے وقت اس امر پر توجہ مرکوز کی جائے کہ صریر خامہ کو نوائے سروش کی صورت کیسے نصیب ہوتی ہے؟ تخلیق فن کے لمحوں میں انسانی روّیے، افراد کا طرزِ عمل، رہن سہن، آدابِ معاشرت اور باہمی تعلقات تہذیبی، ثقافتی، سماجی اور معاشرتی ساختوں پر جس طرح اثر انداز ہوتے ہیں ان کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ پروفیسر سید مقصود حسنی نے اس امر کی جانب توجہ مبذول کرائی کہ نابغۂ روزگار ادیبوں کے منفرد اسلوب کا ساختیاتی مطالعہ کرتے وقت اس امر کی کوشش کی جائے کہ کوئی یکساں نوعیت کا واضح، ٹھوس اور قابل عمل انداز فکر اپنایا جائے جو نہ صرف اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر وسیلہ ثابت ہو بل کہ وہ بنی نوع انساں کی عمومی فلاح و بہبود میں بھی ممد و معاون ثابت ہو۔ اس قسم کا زاویۂ نگاہ تمام شعبہ ہائے حیات کو پیامِ نو بہار دے کر اپنائیت کے احساس سے متمتع کر سکتا ہے۔ ساختیات کے موضوع پر سید مقصود حسنی نے اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ جس طرح رولاں بارتھ (Roland Barthes: 1915-1980) اور ژاک دریدا ( Jacques Derrida: 1930-2004) نے ساختیاتی فکر کے ادبیات سے انسلاک کی کوشش کی ہے اسی طرح انھوں نے مرزا اسداللہ خان غالبؔ کی زبان کے لسانی اور ساختیاتی مطالعہ پر توجہ دی ہے۔ پروفیسر سید مقصود حسنی نے اپنے اسلوب میں فرانسیسی ماہر نفسیات ژاک لاکاں (Jacques Lacan: 1901-1981) کی طرح ادب اور فنون لطیفہ میں تخلیق کار کی نفسیات کا مطالعہ ساختیات کی اساس پر کرنے کی کوشش کی۔ اپنی کتاب ’زبان غالبؔ کالسانی و ساختیاتی مطالعہ‘ میں پروفیسر سید مقصود حسنی نے ماہر نفسیات فرائڈ (1856-1939 Sigmund Freud) اور ماہر لسانیات سوسئیر (ٖFerdinand de Saussure: 1857-1913) کے تنقیدی خیالات کے امتزاج سے جو الگ راہ نکالی ہے اس کے اعجاز سے نظریۂ علم کی ساخت کی تفہیم میں بہت مدد ملتی ہے۔ مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کی شاعری اور لسانیات کی اس تحقیقی کتاب کے مشمولات سے معلوم ہوتا ہے کہ فرانسیسی فلسفی مشل فوکاں (Michel Foucault: 1926-1984) کی طرح پروفیسر سید مقصود حسنی نے بھی تاریخ اور اس کے پیہم رواں دواں عمل پر گہری نظر رکھی۔ فرانس سے تعلق رکھنے والے ساختیاتی مارکسی فلسفی لوئس التھیوسر (Louis Althusser: 1918-1990) نے مارکسزم اور ساختیات کو مربوط کرنے کے لیے جو تصورات پیش کیے پروفیسر سید مقصود حسنی نے ان کے بارے میں اپنے تحفظات کے باوجود انھیں وقت کا اہم تقاضا قرار دیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس قسم کی مساعی سے اشیا کی ترتیب کو تاریخ اور سائنس کے تناظر میں دیکھنے پر اب زیادہ توجہ دی جا رہی ہے اور معاشرتی و سماجی نظام کے تجزیاتی مطالعہ کے نئے انداز سامنے آئے ہیں۔ ساختیات کے بارے میں پروفیسر سید مقصود حسنی کے خیالات کی باز گشت اب بھی سنائی دیتی ہے۔ وہ یہ بات زور دے کر کہتے تھے کہ یہ کس طرح ممکن ہے تخلیق فن کے لمحوں میں ایک زیرک تخلیق کار محض اشیا کے مشاہدے اور ماحول کے مطالعہ تک خود کو محدود کر دے۔ اس عالمِ آب و گِل کے نشیب و فراز سے متعلق اسرار و رموز کی تفہیم کے لیے یہ امر نا گزیر ہے کہ اشیا کے بارے میں دستیاب تمام معلومات کو سیاق و سباق، بنیادی مآخذ اور وسیع تر ساخت کے تناظر میں دیکھا جائے۔ صرف یہی وہ صورت ہے جب قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کا منظر دیکھا جا سکتا ہے۔

۲۔ خوش بُو کے امین، مکاتیب بنام سید مقصود حسنی

اس کتاب میں معاصر ادیبوں کے وہ مکاتیب شامل ہیں جو انھوں نے مختلف اوقات میں پروفیسر سید مقصود حسنی کے نام لکھے۔ کتاب کے آغاز میں پروفیسر سید مقصود حسنی کا لکھا ہوا پیش لفظ، کتاب کا دیباچہ ناصر زیدی نے لکھا ہے۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا کا تعارفی مضمون اور نقشِ اولیں کے عنوان سیمحمد ریاض انجم کا تجزیہ بھی شامل اشاعت ہے۔ اس کتاب میں ایک سو بتیس (132) ادیبوں کے گراں قدر مکاتیب شامل اشاعت ہیں۔ یہ سب وہ یگانۂ روزگار دانش ور ہیں جو افق علم و ادب پر مثل آفتاب ضو فشاں رہے۔ ان کی تحریر کا ایک ایک لفظ گنجینۂ معانی کا طلسم ہے۔ مشاہیر کے ان مکاتیب کے بارے میں یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ یہ لوحِ جہاں پر حرفِ مکرر ہر گز نہیں ہیں۔ ان مکاتیب میں قلب و روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر کر اذہان کی تطہیر و تنویر کو یقینی بنانے کی صلاحیت انھیں ابد آشنا بنا دیتی ہے۔ ان مکاتیب میں ہر مکتوب نگار نے اپنے ذہن و ذکاوت، ذوق سلیم، خلوص و درد مندی، جذبات و احساسات، تجربات و مشاہدات اور تجزیہ و تحلیل کو جس خوش اسلوبی سے قلم و قرطاس کا معتبر حوالہ بنا دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ پروفیسر سید مقصود حسنی نے اپنے مخلص احباب کے مکاتیب کو جذبۂ انسانیت نوازی پر محمول کیا اور جب بھی انھیں دُور دراز شہروں میں مقیم احباب کی جانب سے کوئی خط ملتا وہ اسے اللہ کی رحمت اور خالق کی عطا قرار دیتے تھے۔ بے تکلف دوستوں کے مکاتیب کو حق گوئی، بے باکی اور حریت فکر کی ایسی صورت سے تعبیر کرتے تھے جن میں بلا جواز احتیاط اور حزم و حجاب کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہزار خوف میں بھی مکتوب نگار کی زبان اس کے دل کی کیفیات کی ترجمانی کرتی ہے۔

۳۔ مقصود حسنی کا افسانوی ادب

اپنی ادبی فعالیتوں میں پروفیسر سید مقصود حسنی نے اردو فکشن کی تخلیق میں گہری دلچسپی لی۔ برطانوی ناول نگار جارج اورویل (George Orwell: 1903-1950) کے مشہور ناول ’جانوروں کا فارم‘ (Animal Farm) کے حوالے سے وہ بتاتے کہ اس ناول میں زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ فن افسانہ نگاری میں اس نے ساختیاتی مفکرین کے خیالات کا جائزہ لیتے وقت تجزیہ و تحقیق کا منفرد انداز اپنایا ہے۔ اپنی عملی تحقیق اور تنقید میں پروفیسر سید مقصود حسنی نے افسانے کے مثالی نمونے کو فکر و خیال کی ایسی نادر جہات سے آشنا کیا جن کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کا یہ جرأت مندانہ موقف عالمی ادب کے وسیع مطالعہ کا ثمر ہے۔

اپنے افسانوں اور افسانوں کی تنقید میں پروفیسر سید مقصود حسنی نے اس جانب متوجہ کیا کہ کہانی، افسانہ، داستان اور حکایت کو ایک منفرد انداز میں دیکھنا چاہیے۔ الفاظ و معانی اور پیرایۂ اظہار کے لحاظ سے ان کی معنیاتی ساخت فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کر تی چلی جاتی ہے۔ پروفیسر سید مقصود حسنی نے اس امر کی صراحت کی کہ ولادمیر پروپ نے افسانوں کے کرداروں کو سات مداروں میں سر گرم عمل دکھایا جب کہ الگرڈاس جولین گریماس کا خیال ہے کہ کردار تین جوڑوں کی صورت میں فکر و نظر کو مہمیز کرتے ہیں۔ اپنے اس ستد لال میں ادبی سائنس دان اور تجزیہ نگارالگرڈاس جولین گریماس نے بالعموم ماہر لسانیات سو سیئر ( 1857-1913: Ferdinand de Saussure) اور رومن جیکب سن (1896-1982: Roman Jakobson) کے بیان کیے ہوئے عناصر میں پائے جانے والے ارتباط و تضاد کے دوہرے تفاعل کو پیش نظر رکھا ہے۔ پروفیسر سید مقصود حسنی نے یہ بات زور دے کہ کہی کہ الگرڈاس جولین گریماس نے لسانی تفاعل کے جس خاص آہنگ پر اپنی توجہ مرکوز رکھی وہی اس کی پہچان بن گیا۔ اس کے اعجازسے تخلیق فن کے لمحوں میں معنیاتی نمونوں کی خاص انداز میں ترتیب و تنظیم اور صورت گری کی راہ ہموار ہو گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ اظہار و ابلاغ اور فکر و خیال کو نئی جہات سے متعارف کرانے میں بھی مدد ملی۔

ان کتب کے مطالعہ سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ پروفیسر سید مقصود حسنی نے تحقیق میں ہمیشہ سائنسی اندازِ فکر اپنایا ہے۔ انھوں نے اہم بنیادی مآخذ، متعلقہ دستاویزات، روایات، دائرۃ المعارف، سرکاری گزٹ، اخبارات، جرائد اور تاریخ کی کتب کو خضرِ راہ سمجھتے ہوئے جس اعتماد اور وقار سے اپنی تحقیقی کتب کو استناد کے ارفع مقام تک پہنچایا ہے وہ ہر اعتبار سے لائق صد رشک و تحسین ہے۔ مقصود حسنی شناسی کے سلسلے میں ان کی کتب اور مسودات کی تالیف و تدوین میں گہری دلچسپی لے کر محمد ریاض انجم نے ان کتب میں علاماتی اشاروں کے تعلق کو مخالف تصورات سے واضح کرنے میں اشاراتی مربع کو بھی یقیناً پیشِ نظر رکھا ہو گا۔ اس نقشے کے مطابق تحقیق میں سامنے آنے والے علاماتی اشاروں کے تعلق کو مخالف تصورات سے سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح متعلقہ علم موجودات کی توسیع کے متعدد نئے امکانات سامنے آتے ہیں۔ اس موضوع پر سب سے پہلے کلاسیکی عہد کے یونانی فلسفی ارسطو (-322384Aristotle BC) نے تضادات کے مربع کا تصور پیش کیا۔ اس کے بعد آنے والے ممتاز محققین، نقادوں اور ماہرین لسانیات نے اس تصور کو آگے بڑھایا۔ پروفیسر سید مقصود حسنی کی کتب میں تضادات سے مفاہیم کی وضاحت کی متعدد صورتیں قاری کے لیے منفرد تجربے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پروفیسر سید مقصود حسنی کی گل افشانیِ گفتار سے محفل کشت زعفران میں بدل جاتی اس کا سبب یہ ہے کہ وہ تضادات میں جو لفظ بھی استعمال کرتے وہ گنجینۂ معانی کا طلسم بن کر قاری کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ پروفیسر سید مقصود حسنی کے منفرد اسلوب میں اظہار و ابلاغ کو یقینی بنانے کی غرض سے تضادات کے ذریعے مطالب و مفاہیم کی توضیح کی چند مثالیں پیش ہیں:

ذات کی کوڑھ کر لی اور شہتیروں پر چڑھائی: میرے خالق تیری دہائی

نسل کی پِدی اور عقاب سے مقابلۂ پرواز: خود کشی کے ہیں یہ سب انداز

باپ نہ ماری پِدی اور بیٹا تیر انداز: مسخروں کی بڑ اُن کی اصلیت کی غماز

میری جان کے در پئے ہو جاؤ: آؤ بروٹس تیر آزماؤ

حرص و ہوس ہر بروٹس کی پہچان: لیتا ہے وہ سیزر کی جان

بھول گئے ہم کو ہے یقین: قلعۂ فراموشی کے سب مکین

تنقید و تحقیق کے شعبوں میں پروفیسر سید مقصود حسنی کی سخت گیری اور بے لچک روّیہ ان کا امتیازی وصف رہا۔ ان کی ہفت اختر شخصیت اور تخلیقی فعالیت کی گرہ کشائی کے لیے مکتبی نقاد کو تحلیل و تجزیہ کے جال بچھانے کی ضرورت نہیں۔ ان کے افسانے پڑھتے ہوئے ان کی شخصیت کی جھلک دیکھتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جائیں۔ کچھ دُور جا کر اس حقیقت کا انکشاف ہو گا کہ یہ تو ہماری اپنی ہی تصویریں ہیں جنھیں اس باکمال مصنف نے پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے۔ مکتبی نقادوں نے افسانے کی تنقید کوجس طرح تختۂ مشق بنایا ہے اسی وجہ سے وہ مکتبی نقادوں کے بارے میں رولاں بارتھ کے سخت گیر موقف پر مبنی خیالات کو مناسب خیال کرتے تھے۔ مکتبی تنقید کی بے توفیقی اور بے بضاعتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے تیز مزاجی اور باریک بینی کو شعار بنانے والے فرانسیسی نقاد رولاں بارتھ (Roland Barthes: 1915-1980) نے مکتبی نقادوں کے منفی انداز فکر پر گرفت کی ہے۔

افسانے اور مزاح نگاری میں ان کے مزاج کی نرمی، شگفتگی، دردمندی اور خلوص کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ محمد ریاض انجم نے اپنی ان تالیفات میں یہ واضح کیا ہے کہ پروفیسر سید مقصود حسنی نے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا کہ حریت ضمیر سے جینے والے تخلیق کار اپنی دنیا آپ پیدا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ترقی پسندوں یا جدیدیت کے علم برداروں میں سے کسی کا اثر قبول کرنے کے بجائے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا۔ پروفیسر سید مقصود حسنی کے اسلوب کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ان کی تخلیقات میں افسانے، منسانے، لوکانے، شغلانے، سچانے اور منظومے شامل ہیں۔ منسانے، لوکانے، سچانے اور شغلانے ایسی طرزِ خاص ہے جو پروفیسر سید مقصود حسنی کی اختراع ہے۔ یہ افسانے تخلیق کار کے مزاج اور شخصیت کی تفہیم میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی جامعیت اور ہمہ گیر اثر آفرینی کا راز ان کے اختصار میں پنہاں ہے۔ ان تخلیقات میں حقیقت نگاری اور علامت نگاری کے حصار سے نکل کر نیا زمانہ اور نئی صبح و شام پیدا کرنے کی جستجو قاری کے لیے انوکھا تجربہ ہے۔ ہر کہانی قاری کو حیرانی، پریشانی اور مرگِ ناگہانی کے اندیشوں سے نجات دلا کرسعیِ پیہم اور احتسابِ ذات کی جانب متوجہ کرتی ہے۔ یہ امر حیران کن ہے کہ ایک سخت گیر نقاد کے پیچھے خلوص و مروّت، عجز و انکسار اور ایثار و درد مندی کا پیکر مرہم بہ دست کھڑا دکھی انسانیت کے مصائب و آلام پر آنسو بہاتا دکھائی دیتا ہے۔ افسانوی ادب کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ارضِ وطن، اہلِ وطن اور انسانیت کے ساتھ پروفیسر سید مقصود حسنی نے جو عہدِ وفا استوار کیا اسی کو علاج گردشِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے زندگی بھر اس پر عمل پیرا رہے۔ یہ سب کہانیاں ایسی لفظی مرقع نگاری پر مشتمل ہیں جن میں تخلیق کار کی ذہنی کیفیت قاری کو اپنے ساتھ ساتھ چلنے پر آمادہ کرتی ہے۔ روح، قلب اور ذہن کیا تھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی کے اعجاز سے یہ کہانیاں ذوق سلیم سے متمتع قاری کو سرحدِ ادراک سے بھی آگے لے جاتی ہیں۔ ہر نقسم کے تعصبات کو لائق استرداد ٹھہراتے ہوئے مصنف نے ادب کے سنجیدہ قاری سے ایسے سوالات پوچھے ہیں جو اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ایک رجحان ساز ادیب کی حیثیت سے پروفیسر سید مقصود حسنی نے اپنے اسلوب کو جو دھنک رنگ منظر نامہ عطا کیا ہے اس کے رنگوں میں مذہبی، معاشرتی، سماجی، تاریخی، سیاسی، جنسی، نفسیاتی، ذاتی، اجتماعی،، علاقائی، قومی، عالمی، جدید اور قدیم رنگ شامل ہیں۔ اردوافسانے کی روایت، ارتقا اور معائر کو سمجھنے کے سلسلے میں اس اہم کتاب کو ایک عملی رہنما کی حیثیت سے دیکھا جائے گا۔ اس تالیف کا پیش لفظ محمد ریاض انجم نے لکھا ہے۔ ۔

۴۔: مسٹر اُردو، سید مقصود حسنی

اس کتاب میں پروفیسر سید مقصود حسنی کے حالات زندگی کو زمانی ترتیب کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ مولف نے پروفیسر سید مقصود حسنی کے خاندان، پیدائش، تعلیم، روزگار، شادی، اولاد، رشتہ داری، روزگار، مشاغل، تصنیف و تالیف، سیر و سیاحت، حلقۂ احباب اور سفر آخرت تک کا احوال اس کتاب میں شامل کیا ہے۔ پروفیسر سید مقصود حسنی کا شمار بیسویں اور اکیسویں صدی کے اردو زبان و ادب کے ان ممتاز دانش وروں میں ہوتا ہے جنھوں نے ستاروں پہ کمند ڈالی اور علمی و ادبی حلقوں میں اپنی تخلیقی کامرانیوں کے جھنڈے گاڑ دئیے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ عملی زندگی میں جس شخص نے اپنی کتاب زیست کے گزشتہ تمام اوراق ازبر کر لیے اسے اپنے روشن مستقبل کا یقین کر لینا چاہیے۔ دنیا کی کوئی طاقت ایسے بلند ہمت شخص کی ترقی اور کامرانی کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ اپنے ماضی کو پیشِ نظر رکھنے سے اپنے زمانۂ حال کے سحر و شام کا احتساب کرنے کا ایسا ولولہ بیدار ہوتا ہے جس کے معجز نما اثر سے ممولے میں عقاب سے لڑنے کا حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک وسیع المطالعہ، روشن خیال، سخت گیر نقاد کی حیثیت سے انھوں نے زندگی بھر کسی مصلحت کی پروا کیے بغیر حق گوئی و بے باکی کو شعار بنایا۔ چربہ ساز، سارق اور کفن دُزد سفہا کی خام تحریریں جب پروفیسر سید مقصود حسنی کے بلند معیار پر پوری نہ اُتریں تو وہ ان چیتھڑوں کی دھجیاں اُڑا دیتے۔ محمد ریاض انجم نے سوانح نگاری کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کتاب کی ترتیب میں جس محنت سے کام لیا ہے وہ لائق تحسین ہے۔ کتاب ’مسٹر اردو‘ تین سو چار (304) صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کا پیش لفظ محمد ریاض انجم نے لکھا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید نے کتاب کا دیباچہ لکھا ہے۔ کتاب ’مسٹر اُردو‘ کے پیش لفظ اور دیباچہ کے بعد وطن عزیز کے آٹھ ممتاز ادیبوں اور دانش وروں کے عالمانہ مضامین بھی اس کتاب کی زینت بنے ہیں۔ ادیان عالم، علم و ادب، تاریخ، نفسیات، علم بشریات، عمرانیات، فنون لطیفہ اور تحقیق و تنقید کے شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والی یہ وہ ممتاز شخصیات ہیں جن کے ساتھ پروفیسر سید مقصود حسنی کے دیرینہ مراسم تھے۔

۱۔ ڈاکٹر نجیب جمال، ۲۔ ڈاکٹر مظفر عباس، ۳۔ ڈاکٹر محمد امین، ۴۔ ڈاکٹر عبد العزیز ساحر، ۵۔ ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش، ۶۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا ۷۔ ڈاکٹر محمد عبد اللہ قاضی، ۸۔ ڈاکٹر اختر حسین سندھو

’مسٹر اُردو‘ ایسی سوانحی کتاب ہے جس کی تاریخی، ادبی اور حوالہ جاتی اہمیت مسلمہ ہے۔

۵۔: مقصود حسنی کے مزاحیے

مزاح زندگی کی نا ہمواریوں، بے اعتدالیوں، تضادات، سماجی عیوب، بے ہنگم ارتعاشات اور افراد کے ظاہر و باطن کے تضادات کے ہمدردانہ شعور پر مبنی ایک ذہنی کیفیت سے عبارت ہے۔ جس کے اظہار میں پروفیسر سید مقصود حسنی بے مثال فنی مہارت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ان کی شگفتہ تحریروں میں خلوص، دردمندی، مہربانی اور شفقت قاری کومسکرانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ پروفیسر سید مقصود حسنی کینیڈا سے تعلق رکھنے والے مزاح نگار اور تیس سے زیادہ کتب کے مصنف سٹیفن لی کاک (Stephen Leacock: 1869-1944) کے اسلوب کو بہت پسند کرتے تھے۔ اپنی گل افشانیِ گفتار سے پروفیسر سید مقصود حسنی قارئین کے دلوں کو مسخر کر لیتے تھے۔ ہجوم غم میں گھرے رقت انگیز حالات سے دوچار الم نصیب انسانوں کے لیے پروفیسر سید مقصود حسنی کی شگفتہ تحریریں جذبات حزیں کا مرہم بن کر نمودار ہوتی ہیں۔ انسانی روح اور قلب پر لگنے والے گھاؤ اس گہرے لگاؤ کے معجز نما اثرسے مندمل ہونے لگتے ہیں۔ افکارِ تازہ کی مہک سے معطر یہ تحریریں قاری کو جہانِ تازہ کی جانب پیش قدمی پر مائل کرتی ہیں۔ یاس و ہراس کے لرزہ خیز ماحول اور سمے کے سم کے ثمر اور مسموم ماحول سے دل برداشتہ انسانوں کو صبر کا دامن تھام کر نگاہ بلند رکھنے پر آمادہ کرنے میں یہ تحریریں بہت موثر ثابت ہوتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پروفیسر سید مقصود حسنی اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں پنہاں کر کے قاری کو صبر و استقامت سے کام لیتے ہوئے خندہ پیشانی سے حالات کا سامنا کرنے اور ایک شانِ استغنا کے ساتھ سرگرم عمل رہنے کا حوصلہ عطا کرنے کا مصمم ارادہ کرتے ہیں۔ بے لوث محبت اور بے باک صداقت کو پروفیسر سید مقصود حسنی کی شخصیت کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے۔ زندگی کے آخری ایام میں جب ان کے اعضا مضمحل ہو گئے اور عناصر میں اعتدال کے فقدان نے انھیں جانگسل تنہائیوں کی بھینٹ چڑھا دیا تو اس وقت بھی وہ محبت کو کارِ عبادت سمجھتے تھے۔

تنقید میں پروفیسر سید مقصود حسنی کے اسلوب کے جہاں بے شمار مداح تھے وہاں بعض حلقوں کی جانب سے اعتراضات بھی سامنے آئے۔ ان کی تنقید کو کلیم الدین احمد کے مانند یک طرفہ اور سخت انداز کی حامل سمجھا گیا۔ پروفیسر سید مقصود حسنی نے اس نوعیت کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے تنقید میں اپنا دبنگ لہجہ اور منفرد اسلوب زندگی بھر برقرار رکھا۔ ہزار خوف میں ان کی زبان نے ہمیشہ ان کے دل کا ساتھ دیا۔ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے اِس زیرک، فعال، مستعد اور جری تخلیق کار نے ہمیشہ لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھا۔ حریت فکر کے اس عظیم مجاہد نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حق گوئی اور بے باکی کو اپنا نصب العین بنایا۔ لفاظ حشرات ادب کی جعل سازی، سرقہ بازی اور کفن دُزدی کی اساس پر استوار ہونے والے عظمت کے چور محلوں کو انھوں نے تیشۂ حرف سے پاش پاش کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ تخلیق ادب کو صحیح راہ پر گامزن رکھنے کے لیے کڑی تنقید، محاکمہ اور تحلیل و تجزیہ کے سخت معائر پر عمل پیرا ہونا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اپنی زندگی کے متنوع تجربات اور مشاہدات کی بنا پر وہ یہ بات بر ملا کہتے کہ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ادبی نشستوں نے انجمن ستائشِ باہمی کی صورت اختیار کر لی ہے۔ معاصر ادبی تنقید میں انھوں نے وارث علوی کی انتہائی سخت اور تلخ حق گوئی اور بے باکی کو بھی ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔

پروفیسر سید مقصود حسنی اس امر پر تعجب کا اظہار کرتے کہ ایک صحت مند معاشرے میں زندگی بسر کرنے والا کوئی شخص مسکرائے بغیر اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ کیسے شمار کر سکتا ہے۔ حسِ مزاح کو وہ خالق کائنات کی ایسی بیش بہا عطا سے تعبیر کرتے تھے جس کے معجز نما اثر سے ہجومِ یاس میں گھرا انسان بھی اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں پنہاں کرنے پر قادر ہو جاتا ہے۔ جب کوئی انسان پریشاں حالی، درماندگی اور جذباتی ہیجان کا شکار ہو تو یہ مزاح ہی ہے جو اس کی تنہائی کا مداوا کر کے اُسے ایک گونہ بے خودی، سکون اور راحت کے احساس سے سرشار کرتا ہے۔ وہ حسِ مزاح سے محروم سنکی، زورد رنج اور سڑیل شخص کو وہ ابو الہول کا نام دیتے جس کی تلخ کلامی معاشرے کو پر ہول بنا دیتی ہے۔ عمرانی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے وہ شگفتہ مزاجی کو وہ قلب، روح اور ذہن و ذکاوت کی صحت کے لیے نا گزیر قرار دیتے جب کہ ہٹ دھرمی کا مظہر چڑ چڑاپن، یاس و ہراس، اپنے منھ میاں مٹھو بننا اور قنوطیت پسندی کو وہ جان لیوا صدمات اور ہلاکت خیزیوں کاسبب سمجھتے تھے۔ پروفیسر سید مقصود حسنی کی طنزیہ و مزاحیہ تحریروں میں رجحان ساز برطانوی مضمون نگار ولیم ہیزلٹ (1778-1830: William Hazlitt) اور آسٹریا سے تعلق رکھنے والے ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ (1856-1939: Sigmund Freud) کے اثرات نمایاں ہیں۔ محمد ریاض انجم نے اس تالیف میں پروفیسر سید مقصود حسنی کی چھپن (56) شگفتہ تحریروں کو یک جا کر دیا ہے۔ اس تالیف کا پیش لفظ محمد ریاض انجم نے لکھا ہے۔

۶۔: Japani ka lisanyati Nizam رومن اردو

اس کتاب کا دیباچہ پروفیسر سید مقصود حسنی فانی نے اور پیش لفظ محمد ریاض انجم نے لکھا ہے۔ پروفیسر سید مقصود حسنی کو عالمی ادبیات پر خلاقانہ دسترس حاصل تھی اس کا ثبوت یہ معرکہ آرا تصنیف ہے۔ ایک سو چوراسی صفحات پر مشتمل یہ کتاب انگریزی طرز تحریر میں رومن اردو میں لکھی گئی ہے۔ جاپانی زبان میں تخلیق ادب کے ابتدائی نقوش آٹھویں صدی عیسوی میں ملتے ہیں۔ پروفیسر سید مقصود حسنی فانی کی تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جاپانی بولی ’کو جیکی‘ (Kojiki) ہی وہ مروّج بولی رہی ہے جس میں جاپانی کلاسیکی ادب کے زیادہ نمونے ملتے ہیں۔ ابتدا میں کو جیکی میں چینی زبان کے ذخیرۂ الفاظ کا غلبہ رہا مگر صرف پچاس برس کے عرصے میں جب مان یوشو (Man،Youshu) بولی کو نمو ملی تولسانی ارتقا کے متعدد نئے در وا ہوتے چلے گئے۔ لسانی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک جاپانی زبان کی گرامر کا تعلق ہے یہ گزشتہ کئی صدیوں سے مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار ہے اورسیل زماں کے تھپیڑے اس پر اثر انداز نہیں ہو سکے۔ پروفیسر سید مقصود حسنی کو جاپانی زبان کا ادب اوراس زبان کا لسانیاتی نظام بہت پسند تھا۔ انھوں نے جاپانی زبان کے قدیم و جدید ادب کے تراجم پڑھے اور جاپانی زبان سیکھی۔ جاپانی ناول نگار مراسیکی شکیبو (Murasaki Shikibu: 978-1016) کے اسلوب کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس خاتون ناول نگار نے تانیثیت کے موضوع پر کھل کر لکھا۔ اس کے علاوہ سی شونا گون (Sei Shonagon: 966-1025) کی تخلیقی تحریریں بھی پروفیسر سید مقصود حسنی فانی کو بہت پسند تھیں۔ اس خاتون ادیبہ نے اپنے عہد کی خواتین کو اپنے حقوق کے لیے جد جہد پر مائل کیا۔ جرأتِ اظہار اس ادیبہ کے اسلوب کا نمایاں وصف ہے۔ عالمی ادبیات کا وسیع مطالعہ جاپانی کا لسانیاتی نظام سمجھنے میں پروفیسر سید مقصود حسنی فانی کے لیے خضر راہ ثابت ہوا۔

محمد ریاض انجم نے واضح کیا ہے کہ حریت ضمیر سے زندگی بسر کرنا پروفیسر سید مقصود حسنی کا زندگی بھر شیوہ رہا۔ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم کرنے و الے اس با کمال ادیب نے ملت اسلامیہ، ارض وطن، اہلِ وطن اور بنی نوع انسان سے والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کو جزو ایمان بنا رکھا تھا۔ عظمت انسانیت کے لیے اپنے قلم کو وقف کرنے والے ابد آشنا اسلوب کے حامل اس ادیب کی شخصیت اور فن پرداد تحقیق دے کر محمد ریاض انجم جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ تاریخ ادب کے اوراق میں آبِ زرسے لکھنے کے قابل ہے۔ پروفیسر سید مقصود حسنی کے معتقدین کی ایک طویل فہرست ہے مگر وہ زندگی بھرحسابِ دوستاں در دل کے مقولے پر عمل پیرا رہے۔ محقق نے اپنی تحقیقی کتب میں وہ مکاتیب تو پروفیسر سید مقصود حسنی حاصل کر لیے جو احباب نے مختلف اوقات میں پروفیسر سید مقصود حسنی کے نام لکھے تھے مگر ان مکاتیب کا کہیں سراغ نہیں ملتا جو پروفیسر سید مقصود حسنی نے اپنے معتمد دوستوں کو ارسال کیے تھے۔ تحقیق میں بنیادی مآخذ تک رسائی کا یہی کٹھن کام محقق کے لیے کڑی آزمائش ثابت ہوتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر یہ بات معلوم ہے کہپروفیسر سید مقصود حسنی کو جب بھی ڈاک کے ذریعے کوئی مکتوب موصول ہوتا وہ اسی وقت اس کا جواب ارسال کرتے اور کوشش کرتے کہ احباب کو لکھے گئے ہر اہم مکتوب کی ایک نقل کاربن کاپی کی صورت میں اپنی فائل میں محفوظ کر لی جائے۔ ممکن ہے وہ فائل اب محقق یا پروفیسر سید مقصود حسنی کے پس ماندگان کی دسترس میں نہ ہو مگر مکتوب الیہان سے اگر معتبر ربط کی کوئی صورت پیدا ہو جائے تو پروفیسر سید مقصود حسنی کی مکتوب نگاری کے بارے میں نئے موضوعات سامنے آ سکیں گے۔ اس سے قبل کہ پروفیسر سید مقصود حسنی کی مکتوب نگاری کے یہ عمدہ نمونے تاریخ کے طوماروں میں دب جائیں انھیں محفوظ کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اس طرح ایک نئی کتاب ’’مقصود حسنی بہ حیثیت مکتوب نگار‘‘ کے لیے مواد اکٹھا ہو جائے گا۔ قصورسے تعلق رکھنے والے یگانۂ روزگار ماہر لسانیات، دانش ور، ماہر تعلیم، نقاد اور محقق پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن میو کے ذاتی کتب خانے میں مشاہیر کے مکاتیب اور مخطوطات کا ایک نادر ذخیرہ محفوظ ہے۔ دنیا بھر میں ان کے معتقدین موجود ہیں جن کی علمی اعانت اس کام میں خضرِ راہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ایسے فیض رساں مینارۂ نُور کی رہنمائی اور تعاون سے یہ کام خوش اسلوبی سے پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔

پروفیسر سید مقصود حسنی نے زندگی بھر سائنسی انداز فکر اپنایا یہی وجہ ہے کہ وہ آئینِ نو کو پسند کرتے اور طرز کہن پر اڑنے والوں کو ہدفِ تنقید بناتے تھے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے موجودہ دور میں وہ برقی ڈاک (E.Mail)، مختصر پیغامات کی خدمات (SMS)، واٹس ایپ، ٹیلی فون، وڈیو کال کا استعمال کرتے تھے۔ دنیا بھر کے جو ممتاز ادیب ان سے علمی و ادبی موضوعات پر مشاورت کرتے تھے ان ادیبوں میں ممتاز جرمن مستشرق این میری شمل (Annemarie Schimmel: 1922-2003) بھی شامل ہیں۔ اس ادیبہ نے اسلامی تہذیب و ثقافت، تصوف، اقبالیات اور سندھالوجی پر جو تحقیقی کام کیا پروفیسر سید مقصود حسنی اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ شہرۂ آفاق برطانوی دانش ور پروفیسر رالف رسل (Ralph Russel: 1918-2008)، رشید حسن خان (1925-2006) کی تنقید، اردو زبان کے املائی مسائل اور لسانی ارتقا پر ان کی عالمانہ دسترس کے وہ مداح تھے، سوانح عمری کی سات کتب لکھنے والی امریکی شاعرہ اور نثر نگار مایا اینگلو (Maya Angelou: 1928-2014) کی سوانح نگاری، ژاک دریدا (1930-2004 Jacques Derrida:) کی تنقید، گبریل گارسیا مارکیز (Gabriel GarciaMarquez: 1927-2014) کی طلسمی حقیقت نگاری اور مشہور فلسطینی امریکی نقاد ایڈورڈ سعید (Edward Said: 1935-2003) کی پس نو آبادیاتی ادبیات پر بصیرت افروز خیالات سے وہ بہت متاثر تھے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں اردو زبان و ادب کی کئی ویب سائٹس ایسی ہیں جہاں پروفیسر سید مقصود حسنی کی تخلیقی تحریریں پوسٹ کی گئی ہیں۔ کچھ ویب سائٹس پر پوسٹ ہونے والی مشہور ادیبوں کی تخلیقی تحریروں پر ان کے تبصرے بھی موجود ہیں۔ ان تبصروں میں ان کی گل افشانی ٔ گفتار پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔ کچھ ویب سائٹس پر اپنے مداحوں کے ساتھ ان کی بالمشافہ گفتگو پڑھ کر فکر و خیال کے نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ وہ عظیم ہستی جو نظام کائنات چلا رہی ہے اس نے یقیناً اس کے لیے کچھ قواعد و ضوابط مرتب کر رکھے ہیں۔ نرگس اپنی بصری پر ہزاروں سال گریہ و زاری کرتی ہے جس کے نتیجے میں چمن میں کوئی دیدہ ور اور دانائے راز جنم لیتا ہے۔ کسی قوم میں کسی مصلح، نباض اور حکیم کی پیدائش قدرت کاملہ کی عطا سمجھی جاتی ہے۔ جب فطرت کی سخت تعزیروں کے نتیجے میں کسی جگہ یہ حال ہو کہ گلشن کی ہر شاخ پر بُوم و شپر اور زاغ و زغن کا بسیرا ہو تو انجام گلستاں کے بارے میں کسی خوش فہمی کی مطلق گنجائش نہیں۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو دل و جاں سے عزیز رکھنے والے اس تخلیق کار نے اللہ کریم کا شکر گزار بندہ بننے میں عافیت محسوس کی۔ اپنے خالق کی شکر گزاری سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوتا ہے اور اس سے دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے اور حریم کبریا سے آشنا کرنے میں مدد ملتی ہے۔ زندگی بھر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے اپنی دھن میں مگن علم و ادب کی روشنی پھیلا کر سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے والے ادیب کی حیثیت سے پروفیسر سید مقصود حسنی کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مقصود حسنی شناسی نہ صرف سپاس گزاری کی ایک مستحسن صورت ہے بل کہ یہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ مجھے یقین ہے یہ سلسلہ آگے بڑھے گا اور نئی نسل اپنے اس محسن کی سماجی، معاشرتی، علمی، ادبی اور قومی خدمات کے اعتراف میں تامل نہیں کرے گی۔

٭٭٭

مآخذ

1۔ الطاف حسین حالیؔ: حیات جاوید، ہجرہ انٹر نیشنل پبلشرز، لاہور، بار اول، 1984، صفحہ 11۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے